1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پی ڈی ایم کا رُخ بدل گیا؟ ۔۔۔۔ عابد حسین

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏8 جنوری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    پی ڈی ایم کا رُخ بدل گیا؟ ۔۔۔۔ عابد حسین

    گوکہ پی ڈی ایم کی تحریک کا رخ اور حکمت عملی پیپلز پارٹی کے مشورے پر تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ سندھ اور کراچی کے اہم ایشوز آنے والے وقت میں اپوزیشن تحریک میں جان ڈال سکتے ہیں۔ چیئرمین پاک سر زمین پارٹی مصطفیٰ کمال نے مردم شماری کو حتمی تسلیم کرنے پر10 جنوری کو احتجاجی ریلی نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، ریلی پہلا مرحلہ ہے اگر اس سے حکمرانوں کو ہوش نہ آیا تو ہمیں مرنا قبول ہے پیچھے ہٹنا قبول نہیں۔
    پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت کی تسلی کیلئے بظاہر پیپلز پارٹی کی مجلس عاملہ نے اتحادکے فیصلوں کی توثیق کردی ہے لیکن اس سے قبل لاڑکانہ جلسہ پہلے ہی پی ڈی ایم کی تحریک کا رخ بدل چکا ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری نے تحریک کے نتائج کو بھانپتے ہوئے استعفے کی سیاست کو ’’بائی بائی ‘‘کرکے مولانا فضل الرحمن سمیت پی ڈی ایم کی پوری قیادت کو حیران کردیا ہے۔ گڑھی خدا بخش میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کے روایتی بڑے اجتماع سے اپنے ویڈیو لنک خطاب میں آصف علی زرداری نے یہ ثابت کردیا کہ واقعی’’ ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ ہے۔

    لاڑکانہ جلسے کے بعد بلاول ہاؤس کراچی میں پیپلز پارٹی کی مجلس عاملہ کے تقریبا ً 7 گھنٹے جاری رہنے والے طویل اجلاس کے بعد پارٹی کی جانب سے استعفے کی سیاست فی الحال ترک کرنے کا مشورہ سامنے آیا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ’’ استعفے ہمارا ایٹم بم ہیں جنہیں بہت احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جائے گا۔وزیر اعظم کے استعفے تک کوئی بات نہیں ہوگی۔ وزیر اعظم کو ہر صورت جانا ہوگا مگر وہ کیسے جائیں گے اسے ابھی میڈیا سے شیئر نہیں کرسکتے۔وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کیلئے ہر سیاسی ہتھیار استعمال کریں گے جس میں سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینا بھی شامل ہے۔اگرپی ڈی ایم ملکر الیکشن لڑے تو سینیٹ میں اکثریت حاصل کرسکتی ہے۔ ‘‘ پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کے 31جنوری تک وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے فیصلے کی بھی تائید کی ہے۔

    پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت نے اپنی سیاسی تحریک کے دوران پہلے اداروں کواور ان سے منسلک سربراہوں کومختلف نام دے کر نشانہ بنایا لیکن پھر پیپلز پارٹی کی جانب سے اشاروں کنایوں سے منع کرنے پر اداروں کا پیچھا کسی حد تک چھوڑ دیا گیااوراسمبلیوں سے استعفوں ، لانگ مارچ وغیرہ کی دھمکی دی گئی۔استعفوں کی سیاست سے جان نکلنے کے بعد ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ لانگ مارچ کا رخ کس طرف ہوگا؟ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے مطابق اگر 31 جنوری تک وزیر اعظم نے استعفیٰ نہ دیا تو لانگ مارچ ہوگا اور ہمارا رخ اسلام آباد کی جانب ہوگا۔ گڑھی خدا بخش میں ہونے والے جلسے میں پیپلز پارٹی کی سیاست کے اصل محور اور مرکز سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے ویڈیو لنک خطاب میں جس ’’حکمت عملی‘‘ کا عندیہ دیا ،پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت نے بعض تحفظات کے ساتھ اسے قبول کرلیا ہے۔

    دوسری جانب ضلع کورنگی میں فشرمین چورنگی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ’’ کراچی کے عوام کا حق مارا جارہا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایم کیو ایم کیوں وفاق کیساتھ کھڑی ہے۔ ایم کیو ایم اپنی مجبوریوں کے بجائے عوام کی مجبوریوں کا سوچے۔ مردم شماری کے معاملے پر پیپلز پارٹی کا شروع سے اعتراض موجود ہے کیونکہ مردم شماری غلط ہوگی تو عوام کی نمائندگی ٹھیک نہیں ہوگی ، انہیں ان کے حصے کا حق نہیں ملے گا۔ مردم شماری میں عوام کی نمائندگی درست نہیں کی گئی تو مزید کم شیئر ملے گا۔ کراچی میں سرمایہ کاری ہوگی تو اس کا اثر پورے پاکستان پر ہوگا، کراچی ترقی کرے گا تو پورا پاکستان ترقی کرے گا، وفاق نے فنڈز نہیں دئیے اور نہ بلدیاتی حکومت نے ہمارا ساتھ دیا، اس کے باوجود ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جو ہو سکے کریں۔‘‘

    مردم شماری کے ایشو پر ایک بار پھر تمام سیاسی جماعتیں ایک آواز ہوگئی ہیں۔جماعت اسلامی کراچی کے تحت منظم تحریک پہلے ہی چل رہی ہے جبکہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان نے مستقبل میں سیاسی رابطے جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے مردم شماری میں درستگی کیلئے پارلیمانی جماعتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ کردیاہے۔گذشتہ دنوں پیپلزپارٹی کے رہنماتاج حیدر کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے وفد نے ایم کیو ایم پاکستان کے دفتر کا دورہ کیااور کہا کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن پردونوں جماعتوں کامؤقف مشترک ہے۔ اختلافات اپنی جگہ مگر مسائل پر گفتگو جاری رہنی چاہیے۔مردم شماری کے نتائج کو نہیں مانتے ۔اس معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھایا جائے گا۔ایم کیوایم ہمارے ساتھ آئے سینے سے لگے توبہت خوشی ہوگی۔ایم کیو ایم پاکستان کے فیصل سبزواری نے کہا کہ’’ شکرگزارہیں کہ پیپلز پارٹی مستقل مزاجی سے مردم شماری کے مسئلے کو اٹھارہی ہے۔مشترکہ حکمت عملی کی جہاں ضرورت ہو وہاں ہم ساتھ ہیں۔‘‘ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ مردم شماری کے ایشو پر مطالبہ نہ مانا گیا تو وہ حکومت سے باہر آجائیں گے سے پی ٹی آئی کے حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے انہیں فوری یقین دہانی کرائی کہ وہ اس مسئلے میں ان کے ساتھ ہیں لیکن بعد کے دنوں میں پی ٹی آئی میں مردم شماری کے ایشو پر ’’یوٹرن‘‘نظر آتا دکھائی دے رہا ہے ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ مردم شماری کو کس حد تک ’’آڈٹ‘‘کیا جاسکتا ہے۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں