1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پی ڈی ایم اور ن لیگ کی مفادات کی سیاست۔۔۔ .۔ عبدالکریم

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏26 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    پی ڈی ایم اور ن لیگ کی مفادات کی سیاست۔۔۔ .۔ عبدالکریم
    پی ڈی ایم مفادات کی سیاست کی نذر ہو گئی ہے، پی ڈی ایم میں موجود ہر سیاسی جماعت اپنا مفاد دیکھ رہی ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے اپنے اپنے سیاسی نظریات ہیں، جس پارٹی کو جو اچھا لگ رہا ہے وہ اس کے مطابق اپنی سیاست کر رہی ہے۔ بہت سارے لوگوں کے مطابق ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔

    زرداری صاحب نے پی ڈی ایم کو سینیٹ الیکشن اور اپنے اوپرنیب میں چلنے والے کیسسز میں استعمال کیا ہے، لوگوں کا خیال ہے کہ زرداری صاحب نے پی ڈی ایم کو سیاسی نقصان پہنچایا ہے۔ پی ڈی ایم کی اصل طاقت پیپلز پارٹی سے ہے۔ اگر پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے خود کوباہر کرتی ہے تو اس کا نقصان صرف ن لیگ کو ہے۔ اس لیے ن لیگ نہ چاہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم میں رکھنا چاہتی ہے کیونکہ ن لیگ کے بعد صرف پیپلز پارٹی ہی واحد جماعت ہے جو سینیٹ اور پارلیمنٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے، پیپلز پارٹی جمہوریت پسند جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ اور سینیٹ کی بالادستی چاہتی ہے، پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ حکومت کے ساتھ جنگ صرف پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے نہ کہ حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے گھر بھیج کر ہونی چاہیے۔

    پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ ان کی بھی ایک صوبے میں حکومت ہے، اگر غیرجمہوری طریقےسےحکومت جاتی ہےتو اس کا نقصان حکومت کے بعد پیپلز پارٹی کو ہو گا۔ پیپلز پارٹی نہیں چاہتی کہ اپنا نقصان کر کے پی ڈی ایم کو فائدہ دے کیونکہ زردای صاحب جانتے ہیں کہ نواز شریف صاحب ملک سے باہر کیسے گئے ہیں؟ وہ نواز شریف کو پی ڈی ایم کااستعمال نہیں کرنے دیں گے۔ اس لیے تو زرداری صاحب نے کہا ہے کہ نواز شریف صاحب آپ پاکستان واپس آئیں اور مل کرجیل جاتے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا آپ باہر بیٹھے رہیں ہم آپ کے لیے جیل بھی کاٹیں اور حکومت کا بھی تختہ الٹیں۔ آپ آکر کر پکی پکائی کھیر کھائیں۔ آپ آئیں پی ڈی ایم کو لیڈ کریں، پھر جاکے ہم استعفٰے بھی دیں گے اور آپ کے ساتھ حکومت کے خلاف لانگ مارچ بھی کریں گے ۔پیپلز پارٹی جمیعت علمائے اسلام کے بعد سب سے پرانی پارلیمانی جماعت ہے جس کا آغاز بھٹو صاحب نے کیا اور پھر بھٹو صاحب کی پھانسی کی سزا کے بعد بے نظیر بھٹو صاحبہ نے پیپلز پارٹی کو سنبھالا۔ بھٹو صاحب نے جس دورمیں پیپلز پارٹی کو بنایا وہ جمہوریت کے لیے مشکل ترین دور تھا لیکن بھٹو صاحب کی شخصیت بہت بڑی تھی۔ بھٹو صاحب نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ دے کر پیپلز پارٹی کو عام آدمی کی زبان دی۔ اس طرح پیپلز پارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔ جب بے نظیر بھٹو صاحبہ نے پیپلز پارٹی کو سنبھالا اس وقت پیپلز پارٹی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بن چکی تھی۔ عام لوگوں کو پیپلز پارٹی کے منشور کا پتہ تھا۔

    جب نواز شریف صاحب مسلم لیگ ن بنا رہے تھے اس وقت جمہوریت کا برا وقت چل رہا تھا، اس وقت ڈکٹیٹر اپنی مرضی کی جمہوریت کو تخلیق کر رہا تھا۔ ایک طرف اصل جمہوریت تھی جس کو بے نظیر بھٹولیڈ کر رہی تھیں اور دوسری طرف مصنوعی جمہوریت تھی جس کو نواز شریف لیڈ کر رہے تھے۔ نوازشریف نے ابتدا میں وہ سختیاں نہیں دیکھیں جو بے نظیر بھٹو نے ایک عورت ہو کر دیکھیں لیکن بے نظیر بھٹو ثابت قدم رہیں۔

    پھر دنیا نے دیکھا ایک خاتوں پہلی دفعہ اس ملک کی وزیراعظم بنیں، پھر یہ ہوا کہ مصنوعی جمہوریت والوں نے اصل جمہوریت پر کیا کیا کیچڑ نہیں اچھالے۔ نواز شریف نے محترمہ کی ذات کو بہت نشانہ بنایا ، کردار کشی کی، محترمہ کو پاکستان کے لیے ‘سکیورٹی خطرہ’ قرار دیا گیا۔ پھر محترمہ کی حکومت کو باربار گرایا گیا، جب بے نظیر کو اندازہ ہوا کہ اس ملک میں کیسے حکومت کی جاتی ہے تو پھر بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھی ویسی سیاست شروع کر دی جیسی نواز شریف صاحب کر رہے تھے۔

    سنہ 1888سے لیکر 1999 تک 11سال جمہوریت میں آپ کو انتقام کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا، جمہوریت نے ملک کو کرپشن کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ جب نواز شریف کی حکومت کو ختم کر کے مشرف صاحب اقتدار میں آئے تو پھر1999سے لیکر 2007تک جمہوریت کے ساتھ مذاق ہوتا رہا۔ پھر مشرف صاحب نے مصنوعی جمہوریت کو دوبارہ بحال کر دیا۔ سیاسی مفادات والوں نے مشرف صاحب سے خوب فائدے اٹھائے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت کیا، جمہوریت ایک نئے دور میں داخل ہوئی جس کامقصد یہ تھا کہ ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچیں گے۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے جمہوری اصلاحات کریں گے۔ ذاتی اختلافات کو بھلا کر دونوں رہنماؤں نے چارٹر آف ڈیموکریسی پردستخط کیے ہیں۔

    پھر یہ ہوا کہ بے نظیر بھٹو شہید ہو گئیں اور مشرف صاحب کے حکومت کے خاتمے کے بعد الیکشن ہوئے، 2008 سے 2013 تک پیپلزپارٹی برسراقتدار رہی لیکن یہ پانچ سال پیپلز پارٹی کی سیاست کے بد ترین سال تھے۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی پر زرداری صاحب نے قبضہ کر لیا۔ بھٹو صاحب کی بنائی ہوئی پیپلز پارٹی جو کہ اصل جمہوریت کی علامت سمجھی جاتی ہے اور جو وفاق کی پارٹی سمجھی جاتی تھی، جس کو چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر بے نظیر، کے نعروں سے پکارا جاتا تھا۔ بھٹو کی پیپلز پارٹی ماضی کا حصہ ہوگئی۔ زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کو اپنے طور پر چلانا شروع کردیا جس میں مفاہمت کا عنصر سب سے زیادہ تھا، زرداری صاحب نے 5 سال تو جیسے تیسے پورے کیے لیکن پیپلز پارٹی کا بیڑہ غرق کردیا۔ وفاق کی جماعت کو ایک صوبے تک لے گئےاب پیپلز پارٹی صرف سندھ کی جماعت ہے۔
    سنہ 2013 سے 2018 تک ن لیگ کی حکومت رہی۔ ان پانچ سالوں نے جمہوریت کو ایک اور آپشن دیا وہ تھا عمران خان، تحریک انصاف نے 2008 کے الیکشن میں بائیکاٹ کیا تھا اور 2013 کے الیکشن میں تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھری۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کو لانے والے نواز شریف اور زرداری ہیں، عوام ان سے تنگ آکر عمران خان کے آپشن پر گئی۔ 2013 کے الیکشن میں تحریک انصاف نے ایک صوبے میں حکومت بنائی، اس کے ساتھ ساتھ عمران خان نے بھر پور اپوزیشن کا کردار ادا کیا جب عمران خان نے حکومت کے خلاف دھرنا دیا تو اس وقت یہ ساری پارٹیاں جو اس وقت پی ڈی ایم کا حصہ ہیں، یہ ساری پارٹیاں نواز شریف کے ساتھ تھیں۔ نواز شریف کی حکومت کوبچانے کے لیے کھڑی ہوگئیں، اس وقت یہ ساری سیاسی پارٹیاں عمران خان کو کہتی تھیں تم کون ہوتے ہو ایک منتخب جمہوری حکومت کو گھر بھیجنے والے، اس وقت عمران خان کا 124دن کا دھرنا بھی حکومت وقت کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تھا۔ عمران خان کی جماعت نے استعفٰے بھی دیئے تھے لیکن پھر بھی عمران خان کو پارلیمنٹ جانا پڑا اور آنے والے الیکشن کا انتطار بھی کرنا پڑا۔

    پھرجب 2018 کا الیکشن ہوا سب نے دیکھا کہ تحریک انصاف سب سے زیادہ سیٹیں لینے والی پارٹی تھی تو اس وقت عمران کی 2صوبوں میں حکومت ہے اور ایک صوبے میں تحریک انصاف نے اتحاد کے ساتھ حکومت بنائی ہے۔ سندھ میں تحریک انصاف کا اپوزیشن لیڈر ہے یعنی سندھ میں تحریک انصاف اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور حال ہی میں گلگت بلتستان میں بھی تحریک انصاف ہی کی حکومت ہے اور سینیٹ کے الیکشن میں بھی تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی بن چکی ہے۔

    یہ بات پتہ نہیں اپوزیشن کب سمجھے گی کہ تحریک انصاف اب ایک سیاسی حقیقت بن چکی ہے۔ جس طرح ن لیگ پنجاب میں ایک سیاسی حقیقت ہے اور پیپلز پارٹی سندھ کی سیاسی حقیقت ہے اس طرح تحریک انصاف وفاق کی سیاسی پارٹی بن چکی ہے جیسے ماضی میں پیپلز پارٹی تھی۔

    زراداری صاحب بھی سمجھ چکے ہیں کہ عمران خان کو ہٹانے سےمسائل کم نہیں ہونگے بلکہ بڑھیں گے۔ عمران خان کو جمہوری نظام سے ہٹانا یا نکالنا جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ن لیگ تو بغض عمران خان میں جمہوری نظام کی بھی دشمن بن چکی ہے، تو زرداری صاحب نے پی ڈی ایم کی میٹنگ میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن کو واضح کر دیا ہے اور پی ڈی ایم کا سیاسی مستقبل بھی اب عوام کے سامنے ہے۔ پی ڈی ایم صرف سیاسی نعرہ تھا اور ووٹ کو عزت دو بھی سیاسی نعرہ تھا جس کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔

    کوئی بھی تحریک لیڈر کے بغیر کامیاب نہیں ہوتی۔ یہی حال پی ڈی ایم کا ہوا، نواز شریف باہر بیٹھ کر پی ڈی ایم کو چلانا چاہتے تھے۔ اپنے سیاسی فائدوں کے لیے نواز شریف کسی بھی حد تک جاسکتے تھے اور لوگوں نے دیکھا وہ گئے بھی، ابھی تک نواز شریف مجھے کیوں نکالا کی سیاست سے باہر نہیں نکلے۔ پی ڈی ایم کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ نواز شریف اور ان کا بیانیہ ہیں، جس کو زرداری صاحب نے بے نقاب کیا۔ زرداری صاحب نے کہا میاں صاحب اب آپ ہمیں اپنے سیاسی مقاصد میں استعمال نہ کریں، یہ دوٹوک اعلان ایک جمہوریت پسند ہی کر سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں پیپلز پارٹی کی ساری سیاست جمہوریت کے لیے ہی ہے۔

    پی ڈی ایم بھی اب یہ بات سمجھ چکی ہے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی حقیقت ہے۔ عمران خان کو پی ڈی ایم کی ناکامی کے بعد سب سے زیادہ خطرہ ان کی خراب کارکردگی سے ہے۔ اب عمران خان کو اپنی حکومت کی کارکردگی کو بہترکرنا چاہیے۔ اداروں میں اصلاحات لانی چاہییں کیونکہ اداروں کی بہتری میں ہی ملک کی ترقی کا راز ہے۔ لوگ کہتے ہیں مریم نواز کی ساری سیاست والد تک محدود ہے، وہ قومی لیڈر کبھی نہیں بن سکتی، وہ ایک بیٹی تو بن سکتی ہے لیڈر نہیں۔ مریم نواز کی آپ کوئی بھی تقریر اٹھا کر دیکھ لیں اس کی تقریر نواز شریف سے شروع ہوتی ہے اور نواز شریف پر ختم ہوتی ہے۔ اس کی تقریر میں نہ آپ کو عوام نظر آئے گی نہ ہی عوامی مسائل۔ مریم نوازنے پوری ن لیگ کی سیاست کو ہی ختم کر دیا ہے۔ ن لیگ نواز شریف کی ذات سے شروع ہوئی تھی، اس کی ذات پر ہی ختم ہوئی ہے۔

    ہاں اگر نواز شریف واپس آتے ہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ اس جماعت میں کوئی جان پڑ جائے لیکن ابھی یہ جماعت ذات کی جماعت سے عوام کی جماعت نہیں رہی۔ عوام یہ مطالبہ کر رہے ہیں نواز شریف صاحب آپ واپس آئیں، ن لیگ کو بچائیں ورنہ مریم نواز نے اس جماعت کو بند گلی میں بند کر دیا ہے۔

    پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی مفادات کی سیاست دیکھیں کہ جو عمران خان کو سیلیکٹیڈ کہتے تھے، آج ایک دوسرے کو کہہ رہے ہیں۔ وقت بھی کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے اور سیاست میں جمہوریت کو کیسے رسوا کیا جاتا ہے۔ آپ ان دونوں پارٹیوں کی سیاست کو دیکھ لیں، آپ کو مفادات کی سیاست میں جمہوریت ذلیل ہوتی نظر آئے گی۔ جس طرح جمہوریت کا تماشا ان دو بڑی سیاسی جماعتوں نے لگایا ہے، پاکستان کی تاریخ میں آپ کو ایسی مثال کم ہی دیکھنے کو ملے گی۔ جس طرح ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رکھی جاتیں، بالکل اسی طرح کسی سیاسی اکٹھ میں یہ دو مختلف نظریات والی پارٹیاں بھی نہیں رہ سکتیں۔ پی ڈی ایم بنی ہی سیاسی مفادات کے لیے تھی، جس تحریک کا نظریہ سیاسی مفاد ہو اس تحریک کاانجام پی ڈی ایم جیسا ہی ہوتا ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں