1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پیکر علم وعمل اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خان (رح)

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏27 اپریل 2007۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    پیکر علم وعمل
    اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ


    تیرہویں صدی ہجری کے آخر میں افق سند پر ایک ایسی شخصیت اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ نظر آتی ہے جس کی ہمہ گیر اسلامی خدمات اسے تمام معاصرین میں امتیازی حیثیت عطا کرتی ہے۔ شخص واحد جو عظمت الوہیت، ناموس رسالت، مقام صحابہ و اہلبیت اور حرمت ولایت کا پہرہ دیتا ہوا نظر آیا۔ عرب و عجم کے ارباب علم جسے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی 10 شوال المکرم 1272ھ بمطابق 14 جون 1856ء کو بریلی (یو۔ پی بھارت) میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد مولانا شاہ نقی علی خان اور جد امجد مولانا رضا علی خاں اپنے دور کے اکابر علماء و اہلسنت اور اولیاء اللہ میں سے ہیں۔

    فطری طور پر آپ علم وعمل کی طرف مائل تھے۔ حیرت انگیز ذہانت کے سبب آپ بہت جلد علم کی اعلیٰ منازل طے کرنے لگے چنانچہ آپ نے چار سال کی ننھی عمر میں پورا کلام پاک ناظرہ پڑھ لیا۔ 6 سال کی عمر میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر مجمع عام میں سیرت پاک پر طویل تقریر کی۔ آٹھ سال کی عمر میں ہدایہ کی عربی زبان میں شرح کی چودہ برس کی عمر میں آپ پورے عالم بن گئے اور بحیثیت مفتی فتوے جاری کر دیئے، کلام پاک یاد کرنے پر آئے تو رمضان شریف میں روزانہ ایک پارہ حفظ کرکے تراویح میں سنا دیا۔ اس طرح پورا کلام پاک ایک ماہ میں حفظ کرلیا، خدادا حافظے ہی کے سبب چودہ برس تک کی کتب پر آپ کی گہری نظر تھی۔ وہ جامع علوم و فنون شخصیت کے مالک تھے۔ علماء عرب و عجم آپ کو چودھویں صدی کا مجدد قرار دیتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق آپ کی کتابوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زائد ہے بعض علوم تو آپ نے خود ایجاد کئے جن کے نام تک سے لوگ ناواقف ہیں مندرجہ ذیل علوم میں مہارت آپ کے علمی مرتبے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

    ترجمہ قرآن کنزالایمان

    1911ء میں آپ نے شاندار ترجمہ قرآن کنزالایمان کے نام سے کیا جو تراجم قرآن کے ذخیرے میں ایک خوشگوار اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔

    تفسیر قران

    تفسیر میں امام اہلسنت کی یہ شان ہے کہ صرف سورہ الضحٰی کی علمی تفسیر کی چند آیات کی تفسیر چھ سو صفحات سے تجاوز کرگئیں۔

    علم فقہ

    فتویٰ نویسی میں آپ کا کوئی جواب نہ تھا دنیا بھر سے ایک دن میں پانچ پانچ سو نویس آتے جس زبان میں فتویٰ آتا جواب بھی اسی زبان میں دیتے۔ انگریزی فتوؤں کا جواب انگریزی اور منظوم کا جواب منظوم ہی دیتے۔ فتاویٰ عالمگیری کے بعد فقہ اسلامی کی دوسری عظیم کتاب فتاویٰ رضویہ ہے جسے علامہ اقبال یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ان کے فتاویٰ ان کی ذہانت و فطانت فقاہت اور علوم دینیہ میں تبحر علمی کے شاہد عادل ہیں ان کے فتاویٰ سے ظاہر ہے کہ وہ کس قدر اعلیٰ اجتہادی صلاحیتوں سے بہرہ ور تھے۔

    علم رجال

    اپنی بے پناہ قوت حافظہ کے سبب آپ کو علم رجال میں وہ دسترس حاصل تھی کہ ایک ایک راوی کے حالات نوک زبان پر تھے اسی سبب سے آپ ایک ہزار سے زائد کتب لکھ سکے جنکا عمر بھر میں پڑھ لینا ہی مشکل ہے۔

    تاریخ گوئی

    فن تاریخ گوئی میں آپ امام تھے جتنی دیر میں کوئی مفہوم لفظوں میں ادا کرتا آپ اتنی دیر میں بلا تکلف تاریخی مادے فرما دیا کرتے تھے۔

    خوش نویسی

    خطاطی میں بھی آپ اپنا جواب نہ رکھتے تھے مختلف قسم کے رسم الخط بڑی روانی سے لکھے چلے جاتے تھے۔ آج بھی آپ کے نورانی مخطوطات اس فن میں آپ کی مہارت کاملہ کا آئینہ دار ہیں۔

    علم مناظرہ

    علم مناظرہ میں آپ کی ہر چہار طرف وہ دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ ساری زندگی کوئی مخالف آپ کے مدمقابل آنے کی جرات نہ کرسکا آپ نے جو تحریری مواد چھوڑا اس مواد کے رد میں آج تک ایک لفظ نہ لکھا جاسکا۔

    شعرو شاعری

    آپ ایک فطری شاعر تھے انتہا یہ کہ فصیح الملک داغ دہلوی نے بھی آپ کو خراج تحسین پیش کیا ہے کہتے ہیں علمی تحقیقات اور شاعرانہ نازک خیالی بیک وقت شخص واحد میں جمع نہیں ہوسکتی مگر حضرت رضا بریلوی ایک ہی وقت میں بہترین نازک خیال شاعر بھی تھے اور ساتھ ہی جید عالم وفاضل و محقق کامل بھی تھے اگر آپ ایک بھی شعر اور نا لکھتے تو بھی سلام رضا کے سبب ہمیشہ زندہ رہتے ’’حدائق بخشش‘‘ آپ کی نعتیہ شاعری کا شاہکار ہے۔

    علم توقیت

    آپ نے علم توقیت میں اس قدر مہارت بہم پہنچائی تھی کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی ملا لیا کرتے تھے۔

    حساب، جیومیٹری اور الجبرا

    ریاضی، جیومیٹری اور الجبرا میں ایسی حیرت انگیز مہارت رکھتے تھے کہ دنیا کے چوٹی کے ماہر حسابیات ڈاکٹر ضیاء الدین وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے آپ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے وہ خود اعتراف کرتے ہیں۔ صحیح معنوں میں یہ ہستی نوبل پرائز کی مستحق ہے۔

    اردو میں سائنس

    پاکستان میں عرصہ دراز تک یہی بحث چلتی رہی کہ آیا اردو زبان جدید سائنسی علوم کے بیان پر قادر ہے یا نہیں مگر پچھتر سال پہلے آپ نے حرکت زمین کے سلسلے میں ایک ایسا محققانہ مقالہ فوزمبین بامحاورہ اور رواں اردو میں لکھا کہ آج پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔

    فونو گرافی اور فوٹو گرافی

    آپ نے اپنی کتاب البیان شافیا یفونو غرافیا 1908ء میں فوٹو گرافی اور فونو گرافی کے فرق کو واضح کیا ہے فوٹو گرافی پر بحث کرتے ہوئے دو تحقیقی مقدمے لکھے ہیں اس کے علاوہ بھی آپ نے بیسیوں سائنسی مسائل پر تحقیق کی۔ آپ نے پوری شدت و قوت کے ساتھ بدعات کا رد کیا اور احیاء سنت کا فریضہ ادا کیا۔ علماء عرب و عجم آپ کو مدبر اعظم امام اہلسنت اور مجدد اسلام کا لقب دیتے ہیں۔ آپ ہندو اور انگریز دونوں سے نفرت کرتے تھے بقول مشہور صحافی شوکت صدیقی وہ انگریزوں اور انکی حکومت کے اس قدر کٹر دشمن تھے کہ لفافہ پر ہمیشہ الٹا ٹکٹ لگاتے تھے اور برملا کہتے تھے کہ میں نے چارج پنجم کا سر نیچا کر دیا احمد رضا خان بریلوی نے اس دور پرفتن میں بھی وحدت ملی کا چراغ بہر حال روشن رکھا۔ آپ برق رفتاری سے لکھتے تھے۔ 1856ء سے 1921ء تک آپ نے پچاس سے زائد علوم و فنون پر ایک ہزار سے زائد کتابیں لکھیں اگر آپ کی پینسٹھ سالہ زندگی کے حساب سے جوڑیں تو ہر پانچ گھنٹے میں آپ ایک کتاب ہمیں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گویا جو کام ایک کمپیوٹرائزڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا تھا وہ آپ نے تن تنہا انجام دیا۔

    غرضیکہ آپ کی لامحدود وسعتوں کو دیکھ کر ماہرین فن کو اعتراف کرنا پڑا کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی کی شخصیت ایسی پہلو دار اور جامع العلوم ہے کہ آپ کے کسی ایک پہلو پر بحث کرنے کے لئے اس فن کا ماہر ہی اس سے عہدہ برآ ہوسکتا ہے۔ (ڈاکٹر وحید قریشی، بڑودہ یونیورسٹی بھارت)

    ڈاکٹر محمد مسعود احمد لکھتے ہیں کہ راقم کو امام رضا پر تحقیق کرتے 24 سال گزر چکے ہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ساحل سمندر تک بھی رسائی حاصل نہ ہوسکی۔ شناسائی تو دور کی بات ہے۔

    محبت و عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا طرہ امتیاز ہے فرماتے ہیں میرے دل کے دو ٹکڑے کریں تو ایک پر لا الہ الا اللہ اور دوسرے پر محمد رسول اللہ لکھا ہوگا۔ آپ نے اپنے وصال کی پیشین گوئی قرآن پاک کی اس آیت سے کی۔

    وَيُطَافُ عَلَيْهِم بِآنِيَةٍ مِّن فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ.

    خدام چاندی کے کٹورے اور گلاس لئے ان کو گھیرے ہیں۔

    چنانچہ 25 صفر 1340ھ بمطابق 1921ء کو بروز جمعہ بوقت 2 بجکر 38 منٹ اذان جمعہ کے وقت ادھر حی علی الفلاح کی آواز بلند ہوئی ادھر آپ کی روح پاک مالک حقیقی سے واصل ہوگئی۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُونَO

    خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طنیت را​



    تحریر : عفت وحید​
     
  2. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    ماشاءاللہ ۔ اعلیحضرت شاہ احمد رضا خان بریلوی :ra: پر بہت خوبصورت تحریر ہے۔

    اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔ آمین۔
     
  3. طارق راحیل
    آف لائن

    طارق راحیل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2007
    پیغامات:
    414
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں