1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پیغام

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از محمدداؤدالرحمن علی, ‏8 مئی 2012۔

  1. محمدداؤدالرحمن علی
    آف لائن

    محمدداؤدالرحمن علی سپیکر

    شمولیت:
    ‏29 فروری 2012
    پیغامات:
    16,600
    موصول پسندیدگیاں:
    1,534
    ملک کا جھنڈا:
    کاشی کی گیند اس زور سے اس کے ماتھے پر لگی کہ اس کے منہ سے چیخ نکل گئ ـوہ اپنا ماتھا پکڑ کر زمین پر بیٹھتی چلی گئ ـسر میں شدید درد ہورھا تھا -او ماتھے پر ایک گومڑسابن گیاـ
    "اف!اللہ کرے کاشی مر جائےـوہ درد سے چلا اٹھی ـ
    آمین!"کاشی نے بال اٹھائ اور بھاگ کر باہر چلا گیاـوہ جتنا شرارتی تھاـاتناہی پڑھائ اور زبان میں تیز تھاـوہ ندا سے بھت چھوٹا تھااور چھوٹے ہونے کے فائدے بھی خوب اٹھاتاتھاـندا کہتی" کاشی میں نے تمہیں پچیس روپے دیئے تھے،پندرہ کی فوٹوسٹیٹ اور پانچ کی پنسل باقی پانچ روپے؟"وہ تو میں نے کھالیے ۔۔۔۔۔ اتنے پروقار طریقے سے جواب ملتاکہ ندا کوغصے کے باوجود ہنسی آجاتی ـ
    کبھی کہتا:" سنو باجی!مجھے برگر کھانا ھے،پیسے نکالوـ"
    "وہ کس خوشی میں؟"
    بحث نہیں برگر کے لیے پیسے دو،ورنہ مجھے جانتی ہو کہ پھر تمہیں کولڑڈرنک اور پیسٹری کے بھی پسے دینے پڑجائیں گے!"
    اچھاجاؤ یہاں سےشکل گم کرو،کسی اور پر جاکر رعب ڈالناـ
    "اچھا!"وہ ایک منٹ میں اس کا سیٹ کیا ہوا کمرہ برباد کر دے تا اور خود باہر سے لاک لگاکر بھاگ جاتاـ"دروازہ کھولو کاشی!"
    پیسے دو پہلے۔۔۔۔۔"
    میں کہتی ہوں دروازہ کھولوـ"
    نہیں پھلے پیسے،دروازے کے نیچے سے کھسکا دیں اور خود دروازے سے دور ہٹ جائیں ـ"
    "اچھا لو یہ پچیس روپے برگرکے اور بیس روپے بوتل کے مگر میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں ـ"
    یہ کہ کر وہ دروازے کے نیچے سے پیسے کھسکاتی اور مستعد ہوکر کھڑی ہوجاتی ـ دروازے کے کھلتے ہی جھٹپتی مگر وہ جھکائ دیکر یہ جا وہ جاـ تنگ کرنے میں اس کا کوئ ثانی نہیں تھاـلیکن وہ اس کا خیال بھی بھت رکھتا تھاـاسکول سے واپسی پر کبھی ٹافیاں،چیونگم۔بسکٹ کوئ نہ کوئ چیز خاص اسکے لیے ضرور لاتاـوہ دونوں اسکول اور کالج ک تمام باتیں ایک دوسرے کو بتاتےـاس دن وہ کالج سے واپس آئ تو گھر میں اس کے ابو کی چچی آئیں ہوئ تھیں ـ مہندی لگے بال،عمر ستر پچھتر کے لگ بھگ ـ چہرہ بتا رھا تھا کہ انہوں نے زمانے کے بھت سے نشیب وفراز دیکھے ہیں ـآنکھوں میں تیز چمک ذہانت کا پتادیتی تھی ـ چہرے کا نور اللہ سے تعلق ظاہر کر رہا تھاـ
    "میری چندا!:انہوں نے اسے محبت سے چمٹا لیاـ ندا کو ان سے مل کر بالکل محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ پہلی ملاقات ھے ـان سے مل کر اپنی دادی بھت یاد آئیں،جن کی گود میں وہ سر رکھ کے سکون سے سویا کرتی تھی ـوہ بھت جلد ان سے گھل مل گئ ـوہ میرے لیے دینی کتابوں کا سیٹ لائ تھیں اور کاشی کے لیے گیند بلا۔۔۔۔۔انہیں ہمارے شوق کا بھی علم تھاـمیں نے ان کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگیں :
    "تمہاری دادی میری خالہ زاد بہن تھیں اور میرے نو بچے تھے اب سات رہ گئے ہیں ـ"
    بچوں کے ذکر پر ان کی آنکھیں بھر آئیں ،اور آنکھوں میں ایک بے نام سا دکھ تھاـ
    ابو کی چچی کو میں دادی جان کہ نے لگی تھی

    (جاری ھے)
     
  2. محمدداؤدالرحمن علی
    آف لائن

    محمدداؤدالرحمن علی سپیکر

    شمولیت:
    ‏29 فروری 2012
    پیغامات:
    16,600
    موصول پسندیدگیاں:
    1,534
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغام

    (حصہ دوم)
    ایک دن ان کی موجودگی میں ، میں نے کاشی سے پوچھا:
    کاشی!یہ پاگلوں والا کھیل ہے اور یہ یاکر اور باؤنسر کیا ہوتا ھے؟"کاشی نے بڑے پیار سے کہا:
    : آیئے میرے ساتہ کھیلیں ، میں بتاؤں یار کر کیا ہوتا ھے؟:کاشی باؤلنگ کرانے لگاـاور دوسری گیند پر اس نے بھت زور سے گیند میرے ٹخنے پر ماری ـمیں زور دار چیخ کے ساتہ لڑ کھڑا کر گری ـ"
    یہ یار کر تھا باجی!"
    کاشی پاس آکر تمیز سے بولا تھاـ ادہر میں ٹخنے کو پکڑے درد سے چیخ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ ادہر میرے منہ سے نکلا:" اللہ کرے تو مرجائے کاشی!:
    "ایک تو آپ کے سوال کا جواب دیااور آپ مرنے کی دعا کررہی ہوـ"
    دادی جان تیزی سے میرے پاس آگئیں اور پہر سہارا دے کر مجھے کمرے میں لے گئیں ـ ٹکور اور دوائیوں کے ساتہ ساتہ ان کا لیکچر بھی جاری تھاـ"دیکھو بیٹی کسی کے مرنے کی دعا نہیں کرتے ـپلٹ کر خود پے بہی آجاتی ھےـ"
    ہاں ہاں وہ بھی یہی چاہتا ھے مجھے غصہ آنے لگاـ ٹخنہ سوج گیا تھا ـ
    "کاشی!ادھر آؤ اور اپنا بیٹ بلا بھی یہں لے آؤـ"دادی نے کاشی کو بلایاـ
    "کیوں اب کسی اور چیز کا مطلب سمجھانا ھے باجی کو؟"وہ دونوں چیزیں لے آیاـ دادی نے بیٹ مجھے دیا اور کاشی کی ٹانگ میرے سامنے کردی ـ"لوبیٹی!اب اتنے زور سے اس کے ٹخنے پر مارو،جتنا اس نے مارا تھاـ
    کاشی پریشان ہوا مگر دادی نے اتنی مضبوطی سے پکڑا تھا کہ وہ بے بس ہو گیاـاس کا رنگ زرد ہو رھا تھاـ" دادا۔۔۔۔۔دی ۔۔۔۔۔" وہ ہکلاگیاـ ہاں بیٹے تم نے جان بوجھ کر مارا تھا،دیکھو تو کس قدر تکلیف میں ھے تمہاری بہن ، تم بھی اس تکلیف سے گزروـ" ان کا شفیق لہجہ برف کی طرح سرد تھا

    (جاری ھے)
     
  3. محمدداؤدالرحمن علی
    آف لائن

    محمدداؤدالرحمن علی سپیکر

    شمولیت:
    ‏29 فروری 2012
    پیغامات:
    16,600
    موصول پسندیدگیاں:
    1,534
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغام

    (آخری حصہ)
    میں نے ہاتھ سے بیٹ بلند کیا اور میری نظریں کاشی پر جم گئیں ـاس کے چہرے پر شرمندگی اور خوف واضع طور پر دیکھاجاسکتا تھا ـ میری آنکھ میں آنسو بھر آئے ـ میں نے بیٹ دوسری طرف پھینک دیا ، پتہ نہیں کیوں میرا ہاتہ لرز گیا
    دادی بولیں:" بیٹ مارنے پر تمہیں اتنی تکلیف ہو رہی ھے اور اگر تمہاری بدعاسے یہ مرجائے تو تمہیں کتنی تکلیف ہو گی؟:
    "نہیں دادی یہ تو میرا چھوٹا بھائ ھے ، غصے سے منہ سے نکل گیاتھا،نہیں اللہ نہیں، میرے بھائ کو ڈھیر ساری زنگی دے ـ میں نے روتے ہوئے کاشی کو پیار کیاـ " بیٹا کبھی کبھی منہ سے نکلے الفاظ کی بھت بڑی قیمت ادا کرنا بڑ تی ھےـ دادی کے چہرے پر بے بناہ اداسی اور بے بسی تھی ـ بس آئندہ نہ کہنا ـ"
    اس کے دودن بعد کادن مجھے ساری زنگی نہیں بھولے گاـجب ہم سب چھوٹی عید پر دادا جان کے ہاں مدعو تھےـخوب ہنگامہ تھا،کان پڑی آواز بھی سنائ نہیں دے رہی تھی ـ اتنے میں امی کا فون آیا کہ کاشی کی اچانی خراب ہو گئ ھے ـپتہ نہیں اس کو کیا ہواکہ آتے ہی کمرے میں گھس گیا ـچہرہ ہلدی کی طرح زرد ہو رھا تھاـ باتہ روم میں جاکر قے پر قے کرنے لگاـتھوڑی دیر بعد باتہ روم سے نکلا اور کٹے ہوئے درخت کی طرح ماں کے بازؤں میں آگراـکم سن کاشی کا کھلے ہوئے گلاب کی طرح چہرہ لٹھے کی طرح سفید ہو رھاتھا ـاس نے دوستوں کے ساتہ مل کر گول گبے کھائے تھے کہ واپسی پر ہی طبیعت متلانے لگی تھی ـپھروہ بڑی مشکل سے گھر پہنچاتھاـڈاکٹر کو دکھایا تو انہوں نے ہیضہ بتایاـ کوئ دوا لا رھا ھے،کوئ پھل لا رھا ھے،کوئ گاڑی نکال رھا ھے،کوئ شہرکے اچھے ڈاکٹر کا پتہ کر رھا ھے، کوئ گھر سنبھال رھا ھے،کوئ امی ابو کو تسلی دے رھا ھےـ
    معلوم ہوا بے ہوش کاشی اچھے ہسپتال کے آئ سی یو میں داخل ھےـفورًسانس کی نالی منہ سے نکالی گئ ـ ڈرپ لگی ،انجکشن لگےـدواءیاں دی گئیں ـ غرض جو ممکن تھا وہ ہوا پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا لاڈلا بھائ اگلے سفر پر روانہ ہو چکا تھا ـ ہر تدبیر بے کار رہ گئ اور اسے کوئ چیز واپس نہ لا سکی ـ نہ دعا نہ دواـ اس دن کوئ آنکہ ایسی نہ تھی جونم نہ ہو۔کوئ دل ایسا نہ تھا جو غم زدہ نہ ہوـامی کی حالت تو دیکھی نہیں جارہی تھی ـ پکی فصل جب قریب ہو اور کھیتی کسان کے سامنے جل جائے تو بے چارے کسان کا اندازہ لگانا مشکل ہو تا ھےـمیرے منہ کے وہ الفاظ اچانک نکلے تھے مگر وہ کسی مقبولیت کی گھڑی تھی ،جب جنازہ گھر سے اٹھا تو ایک قیامت اٹھی تھی ،مگر کاتب تقدیر نے جو لکھ دیا وہ ہو کر رھا ـ ٹھیک ھے میری نیت نہیں تھی مگر وہ قبولیت کی گھڑی تھی ـ
    بس اس تحریر سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سب کو غلط بات کہنے سے روکیں ،قبولیت کے لمحے دن میں کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں ـ اولاد کی جدائ کا غم سہنا کوئ آسان نہیں ـ لیکن ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کر نا چا ہیئے

    (ختم شد)
     
  4. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغام

    داؤد الرحمن بھائی
    بہت اچھی اور سبق آموز کہانی ہے ۔ اگر یہ آپ کی اپنی تحریر ہے تو آخر میں لکھ دیا کریں۔ متفرقات سے اردو ادب میں منتقل کر رہا ہوں۔
    انسان کچھ بولنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے تو بہت سی مصیبتون سے بچ سکتا ہے۔
     
  5. محمدداؤدالرحمن علی
    آف لائن

    محمدداؤدالرحمن علی سپیکر

    شمولیت:
    ‏29 فروری 2012
    پیغامات:
    16,600
    موصول پسندیدگیاں:
    1,534
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغام

    بلال چاچو
    میں مطالعہ کرتاہوں رسائل کا اور کتابوں کا مجھے جو کھانی اچھی لگتی ھے یا سبق آموز ہو تو میں نوٹ کر لے تاہوں

    اس لئے میں جھوٹ نہیں بول سکتا کہ خالصتًا میری کھانی ھے ہاں کھانی میں میں کچھ نا کچھ ترمیم زرور کرتاہوں

    یعنی کھانی اپنے الفاظ میں بیان کر تا ہوں

    انشاءاللہ اب اگر کھانی لکھی تو میں آپ کی باتوں کا زور خیال رکھوں گا اللہ ہم سب کا حامی وناصر
     

اس صفحے کو مشتہر کریں