1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پیر روشن ضمیر

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از rohaani_babaa, ‏20 مئی 2013۔

  1. rohaani_babaa
    آف لائن

    rohaani_babaa ممبر

    شمولیت:
    ‏23 ستمبر 2010
    پیغامات:
    197
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    پیر روشن ضمیر
    ایک ولی اللہ سے کسی شخص نے کچھ زرو دینار قرض حسنہ لیئے ایک مدت کے بعد اس شخص نے لکھا کہ صاحب مجھے فراغت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی امین ملتا ہے اگر وقت نکال کر تشریف لے آئیں اور اپنی رقم واپس لے جائیں تو احسان مند کو سکون قلبی حاصل ہوگا ۔ پس ولی اللہ نے دنیا کے رنگ دکھانے یا پھر عملی تربیت کے لیئے اپنے فرزند ارجمند کو بھیجا جو کہ عنفوان شباب میں تھا اور اسباق تصوف و روحانیت زبانی پڑھ چکا تھا ۔ آپ نے اپنے جگر گوشہ کو تین نصیحتیں فرما ئیں :-
    1۔ پہلا مقام جہاں پر تمہارا قیام ہوگا ادھر ایک برگد کا درخت ہے اس درخت کے نیچے نہ سونا۔
    2۔ دوسرا مقام ایک بڑا شہر ہوگا اس کے اندر قیام نہ کرنا بلکہ شہر سے کھا پی کر فصیل شہر سے باہر ویرانے میں قیام کرنا۔
    3۔ تیسرا مقام مقروض کا گھر ہوگا یاد رکھنا کہ اس کے گھر قیام نہ کرنا۔
    لیکن ساتھ ہی فرمادیا کہ اگر کوئی واقف راہ و تجربہ کار مل جائے جس پر اقبال کا یہ شعر منطبق ہوتا ہو ۔۔۔نگہ بلند ،سخن دلنواز ،جان پرسوز ۔۔۔۔یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیئے تو اس کو اپنا امیر بنا لینا اور اگر وہ میری نصیحتوں کے برخلاف کہے تو بلا شک و شبہ اس کی ہدایات پر عمل کرنا اور میری ہدایات کو پسِ پشت ڈال دینا ۔
    سالک نے کچھ راہ ہی طے کی تھی کہ ایک بوڑھا مسافر ملا جب بنظر بصیرت دیکھا تو اس کیجہاں نوردسرمگیں آنکھیں بزبان حال کہہ رہی تھیں ما زاغ البصر و ما طغیٰ۔النجم (بہکی نہیں نگاہ اور نہ ہی کجی اختیار کی) جب دونوں کی آنکھیں ملیں تو سالک کو عمر رسیدہ بزرگ کی آنکھ کی پتلی پر اس شعر کا عکس نظر آیا
    تو آنکھ عکس کی ہے اور وہ نور آنکھ کا
    دیدہ کو دیدہ سے دیدہ نے دیکھا
    عمررسیدہ مسکرایا اور سلام کرکے پوچھا برخوردار کہاں کا ارادہ ہے ،لڑکے نے سب حال کہہ سنایا جوابا بڑے میاں نے کہا کہ میرا بھی اسی شہر کا قصد ہے ۔خوب ہوا کہ ہمارا تمہارا ساتھ ہوگیا ۔
    جب پہلے مقام پر پڑاؤ ہوا تو بڑے میاں نے کہا کہ اس درخت کے نیچے رات بسر کریں گے تاکہ شبنم سے بچ سکیں۔
    لڑکا: جناب عالی مجھے والد صاحب نے نصیحت کی تھی کہ درخت کے نیچے نہیں لیٹنا ۔
    بڑے میاں: کچھ اور بھی کہا تھا یا کہ نہیں ۔
    لڑکا: جی جی کہا تھا کہ اگر اس راہ کا کوئی واقف ملے تو اُن کا کہا مان لینا۔
    بڑے میاں: ہم اس راہ کی باریکیوں سے خوب واقف ہیں
    لڑکا: جو حکم حضور کا ۔۔۔بسرو چشم
    غرض دونوں نے درخت کے نیچے قیام کیا آدھی رات کے وقت ایک کالاناگ درخت پر سے اترا ۔ادھر بڑے میاں بالکل ہوشیار تھے جیسے ہی ناگ نے سَر زمین پر رکھا بڑے میاں نے فورا تلوار سے سر کو قلم کردیا اور ڈھال تلے ڈھک دیا ۔ جب صبح ہوئی اور دونوں کوچ کرنے لگے تو لڑکے دل میں خیال گزرا کہ یہ درخت تو بڑے سکون وآرام کو مقام ہے۔پس پیر روشن ضمیر نے معلوم کیا کہ لڑکا باپ سے بدظن ہوا جاتا ہے ۔رات کا ماجرا سنایا اور ڈھال کے نیچے سے مرا ہوا سانپ نکال کر دکھایا ۔اُس وقت لڑکے کی تسلی و تشفی ہوگئی ۔ پھر بڑے میاں نے ارشاد فرمایا کہ ناگ کے سَر کو اٹھا کر اپنے پاس سنبھال لو " داشتہ آید بکار گرچہ بود سر مار " لڑکے نے فورا تعمیل کی اور دونوںچل نکلے ۔
    دوسرے دن ایک بڑے شہر پہنچے جو کہ ملک کا دارلخلافہ بھی تھا بڑے میاں نے کہا کہ اس شہر میں رات کو قیام کریں گے ۔لڑکے نے اثبات میں سر کو ہلایا اور کہا کہ آپ کے فرمان کی تعمیل ہوگی۔
    اس شہر کا دستور تھا کہ جب کوئی جوان مسافر شب بسری کے لیئے سرائے میں آکر ٹھرتا تو بادشاہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کرادیتا تھا صبح کو وہ مسافر مردہ نکلتا تھا ۔قصہ مختصر کے نوجوان کی شادی بادشاہ کی بیٹی سے کردی گئی ۔پیر روشن ضمیر نے لڑکے کو کہا کہ تمہارے پاس جو سانپ کا زہر ہے اس کی دھونی اپنی بیوی کو دینا اور طریقہ کار سمجھا دیا جب لڑکا دلہن کے پاس گیا تو اس نے اُس نے ایسا ہی کیا ۔عورت کے رحم میں ایک مرض تھا جو اس کے پاس جاتا زندہ نہ رہتا تھا اس دھونی کی تاثیر سے وہ مرض جاتا رہا اور صبح کو لڑکا صحیح سلامت محل سے نکل آیا اور دونوں اگلے پڑاؤ کی طرف روانہ ہوگئے۔
    جب مقروض کے گھر پہنچے تو بڑے میاں نے قرضہ کی رقم حوالے کرنے کے بعد کہا کہ اب مغرب ہونے کو ہے رات کو کسی سرائے میں قیام کروگے تو رقم کے سرقہ ہونے کا خدشہ لاحق ہے اگر مناسب سمجھیں تو ادھر ہی قیام کرلیں بڑے میاں نے فورا حامی بھر لی چنانچہ شب کو وہیں بسرام کیا ۔ادھر میزبان کی نیت خراب ہوگئی اور ارادہ کیا کہ رات کو ان کو قتل کردونگا تو روپیہ بچ جائے گا ۔ مقروض نے پوچھا کہ صاحبو اندر لیٹو گے یا کہ باہر تو بڑے میاں فورا بولے اندر گھٹن و گھپ ہے باہر رات گزاریں گے تو صاحب ِ خانہ نے باہر چارپائیاں بچھادیں دونوں محو استراحت ہوئے ۔جب آدھی رات ہوئی تو بڑے میاں نے لڑکے کو گہری نیند سے جگایا اور کہا کہ باہر شبنم پڑ رہی ہے بیمار پڑ جاؤگے اندر چلتے ہیں اور اندر کمرے میں آکر صاحبِ خانہ کے دونوں لڑکوں کو نیند سے اٹھوا کر ان کو کہا کہ تم باہر ہماری جگہ جا کر استراحت کرو ۔ جب رات کا تیسرا پہر آیا تو مقروض اٹھا اور باہر چارپائیوں پر سونے والوں کو قتل کردیا ۔
    علی الصبح لڑکے کی آنکھ شور و غل سے کھلی دیکھا تو گھر میں آہ و بکا اور گریہ کی آوازیں تھیں معلوم ہوا کہ رات کو لٹیروں نے صاحبِ خانہ کے بیٹوں کو قتل کردیا ہے ۔
    بڑے میاں اور چھوٹے میاں واپس اپنی منزل کو روانہ ہوئے جب اس مقام پر پہنچے جہاں دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی تھی تو بڑے میاں نے کہا لو میاں اب ہماری جدائی کا وقت ہوا چاہتا ہے لڑکے نے عرض کی اجی نام تو بتلاتے جائیں فرمایا کہ آپ کے والد محترم کاشف حال ہیں ۔ غرض جب والد صاحب کے حضور پہنچے تو سارے سفر کی روداد گوش گزار کی اور آخر میں استفسار کیا کہ یہ بڑے میاں کون تھے تو والد محترم نے جواب دیا کہ یہ خضر علیہ السلام تھے۔
    یہ حکایت بیان کرنے کا مقصد کچھ کرداروں پر تمثیلی روشنی ڈالنا ہے۔
    پیر روشن ضمیر(ولی اللہ): اصل الاصول ہے یعنی کل شئی یرجع الیٰ اصلہٖ
    مسافر: سالک راہ سلوک
    راستے کی قیام گاہیں: منازل سلوک ہیں
    بڑے میاں : پیر کامل پیر روشن ضمیر
    سانپ: نفس و شیطان
    شہزادی: دنیا
    خانہ مقروض: جہاں دنیا
    مقروض: انسان(وحملہ الانسان انہ کان ظلوما جھولا)
    پسران مقروض: اہل دنیا
    روپیہ : محبت و عشق الٰہی
    خوش تر آن باشد کہ سر دلبراں
    گفتہ آید درحدیث دیگراں
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    درخت
    درخت جو کہ آرام کی جگہ تھی جس سے سستی و تساہل پیدا ہوتا تھا اس لیئے اس کے نیچے استراحت سے منع کیا ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ فوم پر سونے سے انسان آرام دہ اور کافی گہری نیند سوتا ہے اور الارم سے جاگتا ہے جب کہ فرش پر سونے سے کم سوتا ہے اور صبح آذان کی آواز کے ساتھ ہی بیدار ہوجاتا ہے ۔
    سانپ
    جب نرم گرم گدیلوں پر گہری نیند چھا جاتی ہے تو انسان پر ایک سستی کا نشہ سا چھا جاتا ہےیعنی وہ سانپ کی شکل میں اس کو ڈس لینے کے بعد اس کے جسم سے لپٹ جاتا ہے اور الارم بجنے یا کسی کے اٹھانے پر بھی بہت مشکل سے جاگتا ہے اس حد تک جاگتے جاگتے سورج نکل آتا ہے۔
    شہزادی
    نکتہ: یعنی جب عورت کے پاس گیا تو عمل حیوانی سے پہلے جو شرعی طریقہ کار ہے اس کے مطابق دورکعت نفل اور کلمات پڑھ کر بیوی سے مشغول ہوا۔ اور اگر اسی طرح مشغول ہوجاتا جیسے کہ کہتے ہیں فسٹ امپریشن از دا لاسٹ امپریشن تو روحانی طور پر مکمل طور پر ہلاک ہوجاتا ۔
    لطیفہ: جب کوئی بندہ معرفت کے حصول کے لیئے گھر سے ارادہ کرکے نکلتا ہے تو شیطان 70مختلف ہتھکنڈوں اور کیل کانٹوں سے لیس ہوکر اس کی راہ روکنے کے لیئے کھڑا ہوجاتا ہے ۔معرفت کی راہ میں عورت صرف برتنے کی چیز ہوتی ہے یعنی شادی کرو بچے پیدا کرو عورت کا شرعی حق پورا کرو لیکن عورت کی ذات کے طلسم میں پوشیدہ جو تلذذ و عجائبات ہیں اس میں کھو نہ جاؤ کہ حق کا راستہ بھول جاؤ۔
     
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ!
    اس مختصرسے واقعے کو بار بار پڑھنے، سمجھنے اور عملی زندگی میں اس سے راہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
    میرے ذاتی خیال میں اس کہانی میں بیش بہا قیمتی موتی پوشیدہ ہیں۔ عمومی پوسٹ سے ہٹ کراسے پرنٹ کرکے بار بار پڑھیں اور اپنا ذاتی محاسبہ کیجئے تاکہ اندازہ ہوسکےکہاں کہاں اصلاح کی ضرورت ہے۔
    اللہ تعالی آپ کو بہترین اجر عطاءفرمائیں۔۔۔۔۔۔آمین

    عبدالقیوم خان غوری۔
     
    ملک بلال اور rohaani_babaa .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ!
    اس مختصرسے واقعے کو بار بار پڑھنے، سمجھنے اور عملی زندگی میں اس سے راہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
    میرے ذاتی خیال میں اس کہانی میں بیش بہا قیمتی موتی پوشیدہ ہیں۔ عمومی پوسٹ سے ہٹ کراسے پرنٹ کرکے بار بار پڑھیں اور اپنا ذاتی محاسبہ کیجئے تاکہ اندازہ ہوسکےکہاں کہاں اصلاح کی ضرورت ہے۔
    اللہ تعالی آپ کو بہترین اجر عطاءفرمائیں۔۔۔۔۔۔آمین

    عبدالقیوم خان غوری۔
     
  4. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
     
  5. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    کوزے میں سمندر سما دیا گیا ہے۔ ایک مختصر سی حکایت میں اتنی ڈھیر ساری نصیحت آموز باتیں ۔
    جزاک اللہ!
    خوش رہیں باباجی !
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جزاکم اللہ خیر
    حکمت و حکایات سے بھر پور تحریر ، اپنے اندر بہت اصلاحی پہلو لیے ہو ئے ہیں ، آپ کی اکثر تحریریں اسی خاص پہلو پر ہوتی ہیں اور ہم ہر بار کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں ، سیکھنے کے اس عمل میں بعض اوقات ( سمجھنے کے ارادے سے کچھ چیزوں کی وضاحت پیش نظر ہوتی ہے ) جیسا کہ اپ نے اس تحریر کے آخیر میں بھی فرمایا کہ !
    معرفت کی راہ میں عورت صرف برتنے کی چیز ہوتی ہے یعنی شادی کرو بچے پیدا کرو عورت کا شرعی حق پورا کرو لیکن عورت کی ذات کے طلسم میں پوشیدہ جو تلذذ و عجائبات ہیں اس میں کھو نہ جاؤ کہ حق کا راستہ بھول جاؤ ۔
    آپ نے عورت کو برتنے کی ایک چیز کہا ، میرا سوال ہے کہ ! برتنے کی چیز تو ہم اپنے پڑوسیوں اور ہمسائیوں کو بھی دے دیتے ہیں ۔
    جبکہ ایک حدیث شریف میں آقائے دوجہاں ( میرے میں ، ماں باپ اور میری آل اولاد آپ پر قربان ) نے فرمایا ! ( اللہ کمی بیشی معاف فرمائے )
    مجھے تمہاری دُنیا تین چیزیں پسند ہیں ، نماز ، خوشبو اور عورت ۔
    اُمید ہے اپ وضاحت فرما دینگے ۔
     
    ملک بلال اور rohaani_babaa .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. rohaani_babaa
    آف لائن

    rohaani_babaa ممبر

    شمولیت:
    ‏23 ستمبر 2010
    پیغامات:
    197
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    آصف احمد بھٹی صاحب سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہے پھر بھی آپ کی سمجھ شریف میں کچھ نہیں آرہا ہے اور آپ عورت ذات کے معاملے میں آکر الجھ گئے تو بندہ کیا کرسکتا ہے بہرحال آپ کا یہ الجھاؤ مسائل فقہ سے ناواقفیت کی وجہ ہے ۔۔۔۔۔ یاد رکھیں آپ برتنے کی چیزیں صرف اور صرف اسوقت ہی کسی کو دے سکتے ہیں جس کی شرع میں اجازت ہے جیسے آپ اپنے برتن وغیرہ ہمسایہ یا کسی دوست کو دے سکتے ہیں اسی طرح واشنگ مشین، استری جوسر وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔اسی طرح آپ اپنے گھر میں رکھی ہوئی امانت جو کہ از قسم جنس یا برتن ہو وہ بھی ہمسایہ کو نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ یہ شرعا منع ہے اور جہاں تک زوجہ کی بات ہے تو بیوی کسی کو ایک رات کے لیئے یا تھوڑی سی دیر کے لیئے بھی حوالے نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ شرعا کسی دوسرے مرد کے ساتھ اس کا تعلق ناجائز اور قابل درہ یا سنگسار ہے ۔۔۔۔ جب صحابہ مدینہ شریف ہجرت کرکے تشریف لائے تو جن جن صحابہ کی ازواج کی تعداد دو تھی تو انہوں نے اپنی بیویوں کو طلاق دی اور اپنے بھائی کے ساتھ جس کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بھائی بنایا تھا اس کے ساتھ اس کو ایسے ہی نہیں حوالے کی بلکہ عدت گزروا کر اس کا شرعی نکاح پڑھوا کر حوالے کی۔
     
    ملک بلال اور غوری .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    محترم ! آپ کی بات درست ہے کہ میں مسائل فقہ سے بہت حد تک ناواقف ہوں ، مگر میں پاس رکھی ہوئی کسی کی امانت اور اپنی ذاتی ملکیت کی چیز میں فرق جانتا ہوں ، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ شرعا بیوی تو کیا کسی بھی عورت کو کسی دوسرے کو " برتنے " کے لیے دے دینا حرام ہے ۔ اسی لیے ہی تو میں نے سوال کیا تھا کہ آپ نے عورت کو برتنے کی شے کیوں لکھا ہے ؟ مگر آپ نے بجائے اپنی بات کی وضاحت کے میرے مسائل فقہ سے نا وقفیت کا اعلان کر دیا ۔ شکریہ کم از کم اس سے مجھے یہ تو علم ہو گیا کہ آپ مسائل فقہ سے کما حقہ واقفیت رکھتے ہیں ۔ جزاکم اللہ خیر ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں