1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پگلی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از راجہ صاحب, ‏13 ستمبر 2006۔

  1. راجہ صاحب
    آف لائن

    راجہ صاحب ممبر

    شمولیت:
    ‏8 ستمبر 2006
    پیغامات:
    390
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    ملک کا جھنڈا:
    فرسٹ کلاس کے کوپے میں اب تک ڈاکٹر خالد تنہا ہي سفر کر رہا تھا اور شروع سے آخر تک پڑھا ہوا اخبار ايک مرتبہ پھر شروع سے آخر تک پڑھنے ميں مصروف تھا کہ ٹرين ايک چھوٹے سے اسٹيشن پر ٹھر گئي مگر ڈاکٹر خالد نے يہ بھي نہ ديکھا کہ يہ کون سا اسٹيشن ہے اور ديکھتا بھي کيوں اس کو سوائے لاہور کے اسٹيشن کے اور کسي اسٹيشن کا انتظار ہي کب تھا۔ ٹرين چند منٹ ٹھنرنے کے بعد چلنے کيلئے رينگي ہي تھي کہ ايک خاتون اپني چھوٹي سي اٹيچي ليے دروازہ کھول کر وارد ہو گئي۔معلوم نہيں خالد نے ان کو ديکھا بھي يا نہیں بہر حال وہ خاتون خالد کو ديکھنے کے باوجود اس ليے نہ ديکھ سکيں کہ اس کے چہرے کے سامنے اخبار پھيلا ہوا تھا جس کو خاتون کے آجانے کے باوجود اس نے نہ ہٹايا۔ ٹرين اب اپني رفتار پکڑ چکي تھي مگر يہ دونوں خاموش مسافر ايک دوسرے قطعا بے نياز اس طرح بيٹھے تھے گويا يہ طے کر کے بيٹھے ہوں کہ ايک دوسرے سے ہر گز نياز حاصل نہ کريں گے۔ آجر اس کيفيت سے گھبرا کر نو وارد خاتون نے اس پار جو صاحب بھي تھے ان کو ديکھنے کے لئے اپنے کئي زاويے بدلے مگر ہر طرف اخبار ہي اخبار نظر آيا آجر وہ صبر کر کے بيٹھ رہي مگر آخر کب تک ، نتيجہ يہ کہ اس نے خود ہي بڑ بڑانا شروع کيا۔

    بد تميز کہيں کا۔ گنوار۔ احمق

    خالد نے گھبرا کر اخبار ايک طرف کر کے پوچھا۔

    کچھ مجھ سے فرمايا؟

    خاتون نے بڑے خشمگيں انداز سے کہا۔

    جي نہیں ميں اس کو کہ رہي ہوں ريل کے بابو کو کہنے لگا کہ زنانے درجہ ميں بيٹھ جائيے۔ کوئي پوچھے تم کون ميں زنانے میں بيٹھو ں يا مردانے میں تمہاري اجارہ داري ہے اور جانے اس ملک ميں يہ زنانہ اور مردانہ لغويت کب تک ہوتي رہے گي؟ خالد نے کہا۔ ہے تو واقعي سخت لغويت ۔ خاتون نے خوش ہو کر کہا۔

    ہے نا آپ کے خيال میں بھي لغويت ميں تو سمجھي تھي کہ اب اس گنوار بابو کے بعد آپ سے بھي مجھے سر کھپانا پڑے گا اور آپ بھي کہیں گے کہ عورتوں کو زنانہ درجہ ہي ميں بيٹھنا چاھئيے۔خالد نے کہا جي نہیں ميں نے آپ کو خوش کرنے کے لئے نہيں کہا ہے بلکہ ميں اس کو عورت کي سخت توہين سمجھتا ہوں کہ اس کے لئے عليحدہ درجہ مقرر کر ديا حرم سرا کي قسم کا۔ خاتون نے آنکھوں میں چمک پيدا کر کے تالي بجا دي مارے خوشي کے۔

    توہين واقعي ۔ ميں يہي لفظ ڈھونڈ رہي تھي آپ نے ميرے دل کي بات کہہ دي۔ اس سے بڑھ کر عورت کي توہين اور کیا ہو سکتي ھے۔ خالد نے کہا۔ يہي باتين ہيں جن کي وجہ سے عورتوں ميں خود نگري ، خود شناسي اور خود اعتمادي پيدا نہیں ہوئي۔ خاتون نے بڑے اشتياق سے اپنا اٹيچي کھولتے ہوئے کہا۔

    کيا ۔ کيا ۔ ذرا ٹھريے ميں آپ کا يہ فقرہ لکھ لوں کون کون سي خود نہیں پيدا ہوتي ۔

    خود نگري۔ خالد نے کہا۔ خود نگري۔ خود شناسي اور خود اعتمادي پيدا نہيں ہوتي ۔

    خاتون نے يہ فقرہ لکھتے ہوئے مسرت سے کپکپاتي ہوئي آواز ميں کہا۔

    کس قدر تسکين حاصل ہوئي ہے ميري روح کو آپ سے يہ چند باتيں سن کر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ جيسے يہ آپ نہيں کہہ رہے ہيں بلکہ ميري روح مجھ سے آج پہلي مرتبہ مخاطب ہوئي ہے۔ ڈاکٹر صاحب آپ کے خيال میں يہ حالات کبھي بدليں گے۔ خالد نے سنبھل کر بيٹھتے ہوئے کہا۔ مگر آپ کو يہ کيسے معلوم ہوا ميں ڈاکٹر ہوں؟ خاتون نے اس کي جيب کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ظاہر ہے کہ آلہ کسي بيرسٹر کي جيب ميں تو ہو نہیں سکتا بلکہ ميں تو يہ بھي بتا سکتي ہون کہ آپ انگلينڈ سے آرہے ہيں۔خالد نے اپنے سامان کي طرف ديکھ کر کہا ۔جي ہان يہ چغلي تو ميرے لگيج کے ليبل کھا رہے ہيں۔ خاتون نے کہا جس وقت آپ اخبار پڑھنے ميں مصروف تھے ميں آپ کے سامان کے يہ ليبل پڑھ رہي تھي۔ ہاں تو بتايا نہيں آپ نے کہ کيا اس ملک ميں کبھي عورت کو اس کا صحيح مرتبہ مل سکے گا۔ خالد نے کہا ۔محترمہ اس دور میں کوئي چيز ملتي نہيں بلکہ حاصل کي جاتي ہے اور اگر میں يہ کہوں تو زيادہ صحيح ہوگا کہ ہر چيز حاصل بھي نہیں کي جاتي بلکہ چھيني جاتي ہے۔

    خاتون نے خوشي سے گويا اچھلتے ہوئے کہا۔ کمال ہے سچ مچ۔ کس قدر آپ ميرے ہم خيال ہیں ميرا بھي بالکل يہي عقيدہ ہے کہ يہ مرد عورت کو اس کے حقوق کبھي نہ دے گا۔ جب تک کہ عورت خود اس سے چھين نہ لے۔ مجھے اپنا ايسا ہم خيال آج تک کوئي نہیں ملا جو حرف بحرف اس طرح ميري تائيد ميں ہو۔

    خالد نے کہا۔ مگر اب وہ دن دور نہیں ۔ ضرورت تھي صرف احساس کي اور وہ پيد اہو چکا ہے۔ عورتوں نے اس زاويہ سے خود اپنے اوپر نظر ڈالنا شروع کر دي ہے اس کا انداز فکر اب اس حد تک بدل گيا ہے کہ آپ کو ريلوے کے بابو نے صرف اتنا کہہ کر مشتقل کر ديا کہ آپ زنانہ درجہ ميں بيٹھیں آپ کا اس کو اپني نسائيت کي ہتک سمجھنا ہي اس کا ثبوت ہے کہ عورت میں ایک کي خودي بيداري ہو چکي ہے۔ خاتون نے خوشي سے جھومتے ہوئے کہا۔ آپ کہئيے جائيے ڈاکٹر صاحب آپ ميری زبان سے بول رہے ہيں۔ شکر ہے خداکا کہ آج مجھ کو ايک ايسا شخص مل ہي گيا جو اس حد تک مير اہم خيال ہو۔ خالد نے ہنس کر کہا۔ نہیں خير يہ باتيں تو ہر مہذب اور معقول آدمي کو کرنا چاہئيں۔ خاتون نے کہا۔ مگر معقوليت اور تہذيب ابھي اتني عام نہیں ہوئي ہے کہ صورت سے نظر آنے والے ہر مہذب اور معقول آدمي ميں واقعي موجود ہو ۔ مجھے تو اس معاملے ميں ايک سے ايک پڑھے لکھے جاہل اور ايک سے ايک مہذب نظر آنے والے جانور سے واسطہ پڑا ہے جن سے بات کر کے سر پھوڑلينے کو جي چاہتا ہے۔ يقين جانئيے کہ اگر آپ بھي ايسي ہي باتيں کرتے تو میں خطرے کي زنجير کھينچ ليتي۔ خالد نے کہا۔ واقعي بڑي کوفت ہوتي ہے کسي نا جنس کے ساتھ وقت گزارنے ميں۔ خاتون پھر پھڑک کر کہا۔ ہائے کيسے کيسے خوبصورت اور چپک جانے والے لفظ آپ استعمال کرتے ہيں نا جنس ايک ايسا لفظ آپ نے کہہ ديا ہے کہ جس قسم کے لوگوں کي ذجم خوردہ ميں ہوں ان کي ساري بوريت اور بيہودگي اس ايک لفظ ميں سما کر رہ گئي ہے۔ خالد نے گفتگو کا رخ بدل کر کہا۔ آپ تشريف کہاں لے جا رہي ہيں؟ خاتون نے کہا۔ اب کہاں تشريف لے جا رہي ہون، لے جا چکي تشريف جہاں لے جانا تھي۔ سر ميں ايک سودا تھا اور پاؤں ميں سينچر بندھا ہوا تھا کہ خدايا اس دنيا میں مجھ کو کوئي ايک ہي ہم خيال مل جائے اپنا۔ شکر ہے کہ وہ آپ مل گئے۔

    خالد بڑے مہذب انداز سے کہا شکريہ آپ کا۔ پھر بھي جا کہا رہي ہیں آپ؟

    خاتون نے کہا۔ کہہ تو ديا کہ اب کہا ں جائوں گي اب تو مجھےآپ سے پوچھنا چاہئے کہ آپ کہا لے جا رہے ہيں مجھے؟ خالد نےايک دم سٹپٹا کر کہا۔ جي ؟ يعني ميں سمجھا نہيں آپ کي بات۔ خاتون نے کہا۔ سمجھ تو خير گئے ہيں آپ البتہ يہ بات آپ کے لئے کچھ نئي ضرور ہے جس نے آپ کر گھبرا ديا کہ ايک لڑکي خود آپ سے اس قسم کي بات نہايت بے باکي سے کہہ دے۔ مگر مجھے اس بے باکي کا حق ميري اور آپ کي اسي ہم خيالي نے ابھي ديا ہے جس کا خود آپ کو بھي اقرار ہوگا مجھے سالہا سال کي جستجو کے بعد بھي اپنا ايسا ہم خيال کبھي کوئي نہ مل سکا اور ميرا خيال ہے بلکہ ميں پورے دثوق سے کہہ سکتي ہوں کہ آپ کو کبھي ميرے علاوہ اپنا ہم خيال کوئي شايد ہي مل سکے۔

    خالد نے کہا۔ يہ تو درست ہے مگر فرض کر ليجئے کہ ميرے حقوق کسي اور کے نام محفوظ ہوں۔ خاتون نے کہا ۔ اگر محفوظ ہيں تو غلط ہیں دوسرے بقول آپ کے حق يا ان کي جمع حقوق ملتے نہيں حاصل کيے جاتے بلکہ چھينے جاتے ہیں لہذا ميں نہايت جرات کے ساتھ چھين لوں گي۔

    اب تو خالد نے واقعي گھبراتے ہوئے کہا۔ مگر ميں اس پوزيشن ميں ہر گز نہیں ہوں کہ آپ کو اپنے ساتھ لے جاؤں ۔ آپ کو نہیں معلوم کہ میں کئي سال بعد ولايت سے آرہا ہوں ۔ ميري ماں نجانے کتنے ارمان ليے اس وقت لاہور کے اسٹيشن پر ٹہل رہي ہونگي۔ اس کي مضطرب نگاہيں گھڑي پر ہوں گي يا حد نظر تک اس ريل کي پٹڑي پر جس پر يہ ٹرين وہاں پہنچنے والي ہوگي۔ ميرے استقبال کے لئے ميري منگيتر زبيدہ بھي آئي ہوگي اپنے دل میں ميرے ليے نہ جانے کيا کيا قيامتيں چھپائے ہوئے۔ ميرے تمام عزيز اور احباب ہون گے ميرے گلے ميں ہار ڈالنے کےلئے۔

    خاتون نے نہايت بے پروائي سےکہا۔

    ہان ہاں تو ٹھيک ہے ميں کب کہتي ہوں کہ آپ کا استقبال اس سے گم گرمجوشي سے کيا جائے۔ رہ گئي اپ کي منگيتر زبيدہ اگر وہ مجھ سے زيادہ آپ کي ہم خيال نکلي تو ميں آپ دونوں کے درميان ہرگز حائل نہ ہوں گي اور اگر يہ بات نہین ہے تو آپ خود غور کيجئے کہ شادي تو ايک ہي ہوگي مگر زندگياں دو تباہ ہوں گي۔خالد نے رائے ونڈ کا اسٹيشن ديکھتے ہوئے کہا۔ بس اب لاہور ٹھہرے گي ٹرين اور اب بہت کم وقت ہے آپ کے لئے آپ اپنا پروگرام طے کريں ، ٹکٹ اپ کا کہاں کا ہے۔ خاتون نے کہا۔ ٹکٹ لاہور ہي کا ہے اتفاق سے۔ خالد نے بڑے اضطراب سے پوچھا اور قيام کہا ں ہوگا۔ لاہور ميں؟ خاتون نے مسکرا کر کہا۔ آپ کے دولت خانہ پر۔ آپ آخر اس قدر پريشان کيوں ہیں، ميں اپنے آپ کو آپ کے سر منڈھ نہیں رہي ہوں بلکہ آپ کي ايک دوست کي حيثيت سے آپ کي گھريلو فضاؤں کا مطالعہ کرنے آپ کے گھر مہمان کي حيثيت سے جا رہي ہوں۔

    خالد نے غنيمت جان کر کہا۔ بے شک تشريف لے چليے۔ خانہ بے تکلف ہے۔ مگر چوں کہ مجھے اس مہمان کا اپنے عزيزوں سے تعارف بھي کرانا ہوگا ۔ لہذا آپ کا نام معلوم ہو جانا بے حد ضروري ہے۔ خاتون نے قہہقہہ لگا کر کہا۔ واقعي يہ کمال ہے کہ ہم دونون ايک دوسرے سے اتنے قريب آگئے ہيں کہ ايک دوسرے کو ايک دوسرے کا نام تک پوچھنے کي ضرورت محسوس نہیں ہوئي آپ کا نام تو يہ رہا اپ کے سوٹ کيس پر ڈاکٹر ايس ايم خالد اور ميرا نام ہے گل رخ ۔ياد رہے گا آپ کو يہ نام۔

    خالد نے کہا۔ جي ہاں قطعي۔ مگر ايک گزارش کر دوں کہ ميرے گھر کے افراد اور ميرے عزيز ابھي اتنے روشن خيال اور وسيع النظر نہیں ہوئے ہيں کہ وہ اس قسم کي باتين اور ان باتوں کي صحيح اسپرٹ سمجھ سکيں۔ جيسي ہم دونوں کے درميان ہوتي رہي ہيں اس کے علاوہ ميں درخواست کروں گا کہ آپ اپنے کسي طرز عمل سے کسي کو بد گماني کا موقع نہ ديں تو اچھا ہے۔ گل رخ نے کہا۔ آپ اب مجھے بہت ہي بچکانہ باتين سمجھا نے کي کوشش کر رہے ہيں۔ ميں بھي آخر اس سر ميں تھوڑا سا بھيجا رکھتي ہوں۔

    ٹرين لاہور چھائوني سے گزر کر لاہور کے جنکشن کے يارڈ ميں داخل ہو رہي تھي اور خالد اپنا سامان اکھٹا کر رہا تھا۔لاہور اسٹيشن پر ٹرين کے ٹھہرتے ہي اس کوپے کے دروازے پر خالد کے تمام عزيز اور دوست دوڑ دوڑ کر جمع ہو گئے تھے، ،دراوازہ کھول کر خالد پہلے ہي سے اس لئے کھڑا ہو گيا تھا کہ اس کا استقبال کرنے والے ٹرين کے ہر ڈبہ ميں اس کو جھانکتے نہ پھريں اور جب اس مجمع کو چيرتي ہوئي آنکھوں ميں مسرت کے آنسو ليے پھولي ہوئي سانسوں کے ساتھ خالد کي والدہ آگے بڑھيں تو خالد کود کر پليٹ فارم پر آگيا اور دوڑ کر ماں سے لپٹ گيا جو خود اس کو کليجے سے لگانے کے لئے بے قرار تھيں۔ وہ بيٹے سے مل کر ايسي از خود رفتہ ہوئيں کہ بيٹے کے گلے ميں ڈالنے کے لئے جو ہار لائي تھيں وہ ہاتھ کا ہاتھ ہي ميں رہ گيا۔ آجر جب ايک صاحب نے قريب آکر کہا۔ خالہ جاں آخر ہم لوگوں کا بھي کچھ حق ہے يا نہیں، تو وہ بيٹے سے عليحدہ ہوئیں اور اب ان کو وہ ہار بھي ياد آيا جو انہوں نے خالد کے گلے ميں ڈال کر اس کي بلائيں ليں اب تو ہر طرف سے ہار پڑنے لگے اور تھوڑي ہي دير میں خالد کا چہرہ ان ہاروں کے درميان ايسا نظر آنے لگا جيسے گلدستے ميں کوئي بڑا سا پھول بيچوں بيچ ہو۔ وہ ايک ايک سے مل رہا تھا اور جس سے ملتا تھا وہي ايک ہار اس کے گلے ميں ڈال ديتا تھا ۔

    ابھي اس کو سب گھیرے ہوئے تھے کہ کسي نے کسي طرح اس کے قيب پہنچ کر کہا۔ اگر آپ ان سب سے مل چکے ہوں تو اپنے سامان سے بھي مل ليجئے جو اس ٹرين کے ساتھ ہي روانہ ہوانے والا ہے۔خالد نے چونک کر ايک صاحب سے کہا۔ نعيم بھائي واقعي سامان تو اتروائيے۔ چھوٹے بڑے ملا کر سب سات عدد ہيں۔ گل رخ نے کہا جي نہيں آٹھ ميرا اٹيچي نہ بھوليے۔

    جالد نے اس سے کہا۔ مہر باني فرما کر آپ خود نعيم بھائي کو اپنا سامان دکھا کر اتروا ديجئے۔گل رخ تو اس طرف روانہ ہوئي ادھر جالد کي والدہ نے بڑي تشويش سے کہا۔ بيٹا يہ لڑکي کون ہے۔ مجھے تو يہ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ اتنے دن ولايت ميں رہنے کے بعد اللہ نہ کرے کوئي ولايتي بلا نہ چمٹا لائو اپنے ساتھ مگر يہ تو کوئي ديسي معلوم ہوتي ہے پر يہ ہے کون۔

    خالد نے مسکراتے ہوئے کہا۔ يہ جو کچھ بھي ہو مگر اطمينان رکھيے ۔ بلا نہیں ہے۔ ميري شريک سفر ہيں اور چند دن ہمارے گھر مہمان رہ کر چلي جائیں گي۔ وہ آتي ہيں تو ابھي آپ کو ملواتا ہوں ان سے بڑي دلچسپ خاتون ہيں۔ ہر چند کہ خالد نے ماں سے جو بات کہي تھي وہ تقريبا سب ہي نے سن لي تھي مگر سب کي عجيب نظريں گل رخ پر پڑ ہي تھيں اور اسب سے زيادہ عجيب نظريں زيبدي کي پڑ رہي تھيں جو اب تک جالد کے قريب بھي نہ آئي تھي بلکہ اس مجمع سے پيچھے ايک کھمبے کي ٹيک لگائے اس ہار کا ايک ايک پھول توڑ تور کر غير ارادي طور پر گراتي جا تي تھي جو وہ خالد کے گلے میں ڈالنے کو يا تو خود لائي تھي يا کسي نے اس کوبھي دے ديا تھا کہ ايک ہار تم بھي خالد کے گلے میں ڈال دينا۔

    گل رخ نے نعيم صاحب کو تمام سامان کا چارج دے کر ايک ہينڈ بيگ لا کر خالد کے ہاتھ میں دے ديا کہ۔ اس کو اپنے ہاتھ میں رکھيے اس گڑ بڑ ميں ادھر ادھر نہ ہو جائے۔ خالد نے کہا۔ شکريہ ۔ اچھا ادھر آئيے ميں آپ کو اپني والدہ سے ملائوں۔ گل رخ نے تيزي سے خالد کي والدہ کے قريب آتے ہوئے کہا۔ جي نہيں مجھے خود آتا ہے ملنا۔ اماں جان تسليم ، ميرا نام ہے گل رخ اور ميري حيثيت اس وقت يہ ہے کہ مان نہ مان ميں تيرا مہمان۔ خالد کي والدہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھيرتے ہوئے کہا۔ نہيں نہيں بڑے شوق سے تم مہمان بنو بيٹي اس ميں مان نہ مان کا کيا سوال ہے۔

    خالد نے جيسے کچھ ياد کرتے ہوئے کہا۔ او وہ کہاں ہے زبيدہ آئيں نہیں کيا؟ خالد کي والدہ نے ادھر ادھر ديکھ کر کہا۔ ہان ہاں آتي کيون نہ وہ۔ مگر کيسے سب کو پھاندتي پھلانگتي آتي يہاں۔ اے میں نے کہا زبيدہ بيٹي آئونا ادھر۔

    زبيدہ کے ہاتھ میں اب ہار کے بجائے صرف اکھرے سوت کا ايک حصہ تھا۔ پھول وہ سب نوچ چکي تھي چنانں چہ جب اس کو طلب کيا گيا تو وہ اس دھاگے کو بھي پھينکتي ہوئي کچھ لجائي ، کچھ شرمائي سي آگے بڑھي اور خالد کي والدہ کے پاس ان ہي کي آڑ لے کر کھڑي ہوگئي تو خالد نے کہا۔ يہ تو واقعي اتنے ہي دنون ميں ايک قسم کي جاتون متحرم بن چکي ہیں جن کو نہايت ادب سے سلام کرنے کو جي چاہتا ہے۔

    خالد کي والدہ نے ہنس کر کہا۔ اس ليے وہ غريب دور کھڑي ہوئي تھي۔ گل رخ نے زبيدہ کي طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ آپ کا غائبانہ تعارف تو ڈاکٹر صاحب کرا چکے ہيں اپنا تعارف میں جود کراتي ہون ميرا نام ہے گل رخ اور میں آپ کے گھر مہمان بن کر ٹھنرنے کو آئي ہوں آئيے ہاتھ ملائيے مجھ سے۔ اور يہ کہہ کر اس کا ہاتھ خود ہي پکڑ کر اس طرح ملايا کہ وہ کچھ اور بھي جھينپ گئي اور جالد کي والدہ کي بغل ميں اپنا منہ چھپا ليا تو گل رخ نے خالد سے کہا۔ نہیں صاحب دنيا ميں ہر بے ضرورت چيز کي ضرورت ہوتي ہے زنانہ درجہ بھي بے کار نہیں ہوتا خدا سلامت رکھے ان بہو بيٹيوں کو ان کے لئے يہ انتظام بے حد ضروري ہے۔

    اور تو کوئي يہ بات سمجھ نہ سکا سب منہ اٹھا کر رہ گئے مگر خالد نے جلدي سے بات کو گول کرنے کے لئے کہا۔ بھئي اب آپ لوگ مجھے گھر بھي لے چليں گے يا نہیں۔چنانچہ سب کو بھولا بسرا گھر ياد آگيا اور يہ بھي ياد آگيا کہ اسٹيشن پر تو چند ہي لوگ آئے ہيں باقي خلقت تو گھر ہي پر منتظر ہے۔ خالد کي والدہ نے کہا ۔ سچ تو ہے گھر پر سب الگ انتظار کر رہے ہوں گے اور وہ غريب بھي اتنا لمبا سفر کر کے تھکا ہارا آيا ہے۔

    يہ سب خالد کو اپنے گھيرے ميں ليے اسٹيشن سے باہر آئے اور پھولوں سے سجي ہوئي ايک کار میں خالد کو بیٹھا کر اور اس کے ساتھ اس کي والدہ ، زبيدہ ، گل رخ کو بٹھا کر نعيم صاحب بھي ڈرائيور کے برابر بيٹھ گئے باقي لوگ مختلف کاروں ميں جا بيٹھے اور يہ قافلہ فراٹے بھرتا بہت جلد خالد کے گھر تک پہنچ گيا جس کو نہايت سليقے سے سجايا گيا تھا حد يہ ہے کہ سبز پتيوں سے ايک پھاٹک بھي بنايا گيا تھا۔ جس پر خوش آمديد کے حروف جگمگا رہے تھے۔ خالد نے يہ منظر ديکھ کر نعيم کو مخاطب کيا۔ نعيم بھائي اپنے ہي گھر ميں اپنے ہي ليے يہ تکلف ديکھ کر مجھے وہ شعر ياد آگيا۔

    دشت غربت سے وطن ميں آئے بھي تو کيا ہوا اجنبي کي طرح پہروں اپنا گھر ديکھا کيے

    خالد کي والدہ نے کہا۔ ان لوگوں کي يہي ضد تھي ۔ ايک ہفتہ سے يہ سب کچھ کرتے پھر رہے تھے کہ سڑک پر سرخي کوٹي جارہي ہے گھر میں قلعي ہو رہي ہے پتيوں کا پھاٹک بن رہا ہے۔ جھنڈيا ں بنائي جا رہي ہيں ۔ مہمانوں کو بٹھانے کے لئے شاميانے لگ رہے ہيں اور کرسياں اور صوفے جانے کہاں کہاں سے لائے جا رہے ہيں۔ کل رات بھر ميں تو شاميانہ لگا ہے۔ خالد نے کہا۔ بھلا يہ سب کيوں ہوا ہے۔ اب اس شاميانے ميں کيا ہوگا؟ نعيم نے کہا۔ جو کچھ ہوگا ديکھ لينا اور يہ بھي ديکھ لينا کہ جتنے لوگ تم سے ملنے آئے ہیں ان کو سوائے شاميانے کے نيچے بٹھانے کے اور کہاں بٹھا يا جا سکتا تھا۔

    خالد کي والدہ نے کہا۔ ہاں اللہ رکھے سارا ہي خاندان تو امنڈ آيا ہے۔ اس عرصہ ميں گاڑي اس شاميانہ کے پاس پہنچ چکي تھي جس میں واقعي ايک ميلہ سا لگا ہوا تھا۔ کار کے پہنچتے ہي سب نے ادھر ادھر سے دوڑ کر کار کو گھير ليا اور خالد کو کار سے اترنا دوبھر ہو گيا۔ کوئي بھائي جان کہہ کر چمٹا جا رہا ہے ۔ کوئي ماموں جان کہہ کر کوٹ کا دامن کھينچنے ليتا ہے اور تو اور ايک صاحبہ تو يہ انتظار بھي نہ کر سکیں کہ وہ آخر گھر کے اندر بھي جائے گا پر دہ دار خواتين سے ملنے وہ برقعہ پہن کر آموجود ہوئيں اور اب جو بڑھي ہيں خالد کي طرف تو وہ ٹھٹک کر رہ گيا۔ خالد نے والدہ نے کہا۔ اے شميم آپا ہيں تمہاري۔

    شميم آپا نے برقعہ کے اند رہي سے کہا۔

    ولايتي وحشت کو کيا کرے بے چارہ۔ چل ادھر سوکھا ڈالا ہميں انتظار ميں۔ اور يہ کہہ کر سچ مچ بہت ہي محبت سے اس کو گلے لگا کر نا جانے مٹھي ميں کيا لے کر اس پر نچھاور کر ديا۔ خالد نے کہا۔ شميم آپا يہ تو بڑي خود غرضي ہے کہ آپ کي کہ آپ نے مجھ کو ديکھ ليا ہے مگر ميں آپ کو نہيں ديکھ رہا ہوں اندر چليے ميں بھي تو آپ کو ديکھوں۔ اور يہ کہہ کر اس نے يہي طے کيا کہ پہلے اندر ہو آئے تا کہ پردہ دار خواتين ايک ايک کر کے برقعہ پہنے باہر نہ آجائيں مگر اند رجا کر تو جيسے وہ بھڑوں کے چھتے ميں پھنس گيا۔ طرح طرح کي خالہ زاد، مانو زاد، چچا زاد اور پھوپھي زاد بہنو ں نے اس کو گھير ليا۔ وہ شور و غل تھا کہ کان پڑي آواز سنائي نہ ديتي تھي۔

    کوئي محترمہ کہہ رہي تھيں ۔ اے ہے مونچھيں منڈا کر کيا طباق سا منہ ليے آگيا۔ کوئي بوليں ۔ولايت تک ہو آيا مگر جسم پر بوٹي نہ چڑھي ۔ کسي نے کہا۔ رنگ البتہ نکھر گيا ہے۔ اور اسي مجمع کو چيرتي پھاڑتي ايک خميدہ کمر بڑي بي آگئیں بڑي بي نے آکر چٹا چٹ بلائيں ليتے ہوئے کہا۔ اے ميں نے کہا ميرے کانوں کا آلہ بھي لايا۔ اب تو بالکل ديوار ہو گئي ہوں۔خالد نے کہا ۔ ناني جان لايا ہوں آپ کے کانوں کا آلہ۔۔ناني جان نے کچھ اور ہي سن کر کہا ۔چل دور چلا ہے مرے ہوئے نانا کا نام لے کر مجھ سے مذاق کرنے۔ اور وہاں پر ايک قہقہہ پڑا۔ تو خالد نے اور قريب آکر بلند آواز سے کہا۔ ناني جان ميں مذاق نہيں کر رہا ہوں آلے کو کہہ رہا ہوں کہ لايا ہوں آپ کے کانوں کا آلہ ۔ناني جان نے کہا۔ اے تو کيا ہوا نہیں لايا تو نہ سہي تو خود ہي خير سے آگيا يہي بہت ہے۔ خالد نے اپني والدہ سے کہا۔ يہ تو اب واقعي بالکل ديوار ہو گئي ہيں۔

    اور اس کو ناني جان سے کسي زيادہ باتين نہ کرنے دين کچھ شرير لڑکياں اس کو اپني طرف گھيسٹ کر لے گئيں۔ وہاں مشکل اس کي ماں نے اس کو نجات دلائي ورنہ وہ سخت مصيبت ميں مبتلا ہوگيا تھا اس ليے کہ ان لڑکيوں نے گل رخ کے متعلق سوالات کي بوچھاڑ شروع کر دي تھي۔ اسي طرح تھوڑي دير وہ خاندان بھر کي چھوٹي بڑي منجھلي سنجھلي ہر قسم کي خواتين سے ملتا رہا اور بمشکل اس کو باہر جانے کي اجازت ملي جہاں نعيم صاحب نے مہمانوں کي کولڈ ڈرنگ اور آئس کريم وغيرہ سے تواضح کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ جالد کے پہنچتے کے بعد وقتي طور پر يہ سلسلہ درہم برہم ہوا مگر جب خود خالد کے ہاتھ ميں بھي آئس کريم کا کپ آگيا تو سب اس کو گھيرے کر بيٹھ گئے اور پراني ياديں تازہ کرنے لگے۔ خالد کے احباب نے عزيزيوں کا حق قب تک تو ان کو ديا تھا اور جود ذرا دور دور رہے تھے مگر اب دوستوں کا اس پر يلغار ہوا اور اس کے جملہ حقوق دوستوں نے حاصل کر کے ہنسي مذاق کے ساتھ ساتھ يورپ کے تذکرے چھيڑ ديئے۔ مگر دوستوں سے چند منٹ کي اجازت لے کر وہ نعيم صاحب کے پاس آگيا تا کہ ان سے دريافت کر سکے کہ اس گڑ بڑ ميں گل رخ کو تو کسي نے فراموش نہیں کر ديا اور اس کے لئے کوئي کمرہ بھي ٹھيک کر ديا ہے تاکہ وہ اطمينان سے اٹھ بيٹھ سکے؟۔

    منٹگمري کے پوليس اسٹيشن پر ايک معمر مگر باوقار بزرگ ايک نوجوان کے ساتھ کھڑے رپورٹ لکھوا رہے تھے۔ صاحب يہ تيسرا موقع ہے کہ وہ ايک دم سے لا پتہ ہوگئي ہے اور مصيبت يہ ہے کہ بظاہر اس کو کوئي نہ پاگل کہہ سکتا ہے نہ اس کے دماغ ميں خلل کا عمل ہو سکتا ہے وہ نہايت سلجبھي ہوئي باتين کرتي ہے۔ نہايت سليقہ سے رہتي ہے۔ کسي سے کسي بحث پر الجھ جائے تو بجائے پاگل سمجھنے کے وہ اس کو نہايت ذہين اور طباع سمجھنے پر مجبوعر ہو۔ کسي وقت بھي کوئي پاگل پن کي بات نہيں کرتي۔

    سب انسپکٹر کنے غور سے سب کچھ سننے کے بعد کہا۔ اس کے باوجود آپ اس بے چاري کو پاگل کہنے پر کيوں مصر ہيں؟ ان بزرگ نے کہا ۔ جناب والا ميں مصر نہیں ہوں بلکہ وہ ہے ہي مخبوط الحواس۔ يہ تو ميں ہي سمجھ سکتا ہوں کہ اس کے پاگل پن کي نوعيت کيا ہے۔ اب میں آپ کو پوري تفصيل ہي بتائے ديتا ہوں۔ قصہ دراصل يہ ہے کہ گل رخ کو ان برخوردار يعني يہ جو آپ کے سامنے موجود ہيں ارجمند صاحب ان سے والہانہ دلچسپي تھي اور غالبا ان کو بھي اس سے اس حد تک دلچسپي تھي کہ ان دونوں نے عہد کر رکھا تھا کہ اگر يہ دونوں شادي کريں گے تو ايک دوسرے سے ہي سے کريں گے ورنہ اس جھگڑے ہي ميں نہ پڑيں گے۔ حضرت ميں ٹھرا ايک خانداني وضع کاپابند پرناے زمانے کا آدمي مجھ کو جب يہ خبر ہوئي تو ميرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ ميرے خاندان ميں اس قسم کي غير شريفانہ حرکت کيسے ممکن ہوگي؟

    سب انسپکٹر نے بڑي سنجيدگي سے کہا۔ قبلہ معاف کيجئے گا اس ميں غير شريفانہ حرکت کيا تھي؟ بزرگ محترم نے کہا۔ آپ نہیں سمجھتے ۔ يوں تو خدا نا خاستہ کوئي غير شريفانہ حرکت نہ تھي مگرميرے خاندان کے لئے چوں کہ يہ خود سري ايک نئي سي چيز تھي لہذا میں اس کي تاب نہ لا سکا اور ميں نے صاحبزادي کي والدہ سے کہہ ديا کہ ميں بيٹي کو گولي مار سکتا ہوں۔ زندہ دفن کر سکتا ہوں۔ گلا گھونٹ کر خود پھانسي کے تختے پر لتک سکتا ہوں۔ مگر يہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ارجمند ايسے اوباش سے شادي کرنا چاہتي ہے لہذا ميں بھي سر تسليم خم کر دوں۔

    سب انسپکٹر نے ارجمند کي طرف ديکھتے ہوئے کہا۔ صورت سے تو اوباش نظر آتے نہیں۔ بزرگ محترم نے جلدي سے کہا۔ نہ نہ نہ يہ مطلب نہيں ہے ميرا کہ يہ خداناخواستہ اوباش ہيں يا اوباش تھے ۔ ميرے نزديگ تو ان کا ميري بيٹي سے مل کر سادي طے کرنا ہي ان کے اوباش ہونے کي دليل تھا۔ ويسے يہ بفظلہ نہايت ہونہار ، سعادت مند اور خوش اطوار نوجوان ہيں۔سب انسپکٹر نے کہا۔ اچھا تو يہ گويا آپ کو بعد میں معلوم ہوا کہ يہ اس قسم کے سعيد اور صالح نوجوان ہيں۔ بزرگ محترم نے سم
     
  2. عدنان علی
    آف لائن

    عدنان علی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 ستمبر 2006
    پیغامات:
    52
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اوف میں تو اس کو پڑھتے پڑھتے تھکھ گیا
     
  3. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    آخر اس افسانے کا حاصل کیا ہے یا کوئی اگلی قسط بھی آئے گی
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    راجہ صاحب
    آگے کیا ہوا؟ کیا گل رخ فوت ہو گئی؟ یا قلمکار کے قلم کی سیاھی مک گئی؟ یا افسانہ نگار کو ملک الموت نے آلیا۔ یا چھاپہ خانہ بند ہوگیا؟
    یار بتاؤ آخر آگے ہوا کیا‌؟؟
    خواہ مخواہ ٹائم ضائع کروا دیا۔ اللہ پچھے گا تہانوں
     
  5. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    لگتا ہے راجہ صاحب لمبی چھٹی پر گئے ہوئے ہیں
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    لیکن ہمیں تو کسی کنارے لگا جاتے نا۔۔۔ خواہ مخواہ کی پریشانی دے گئے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں