1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پُل کی کہانی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏21 نومبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    پُل کی کہانی
    upload_2019-11-21_3-21-52.jpeg
    محمد اقبال

    آج سے برسوں پہلے جب آدمی غاروں اور درختوں کے کھوکھلے تنوں میں رہتے تھے تو ان کے لیے آس پاس کی بستیوں میں رہنے والے لوگوں سے ملنا جلنا بہت مشکل تھا، کیونکہ ان کے پاس نہ ریلیں تھیں، نہ موٹر گاڑیاں، اور تو اور بڑے بڑے ندی نالوں اور دریاؤں کو پار کرنے کے لیے پُل بھی نہیں تھے۔ کھانے پینے کی چیزوں کی تلاش میں جہاں کہیں انہیں جانا ہوتا، مویشیوں کو ہانکتے ہوئے پیدل ہی چل پڑتے اور اگر راستے میں ندی نالا آ گیا تو بس یہ وہیں کے ہو رہتے۔ اسی لیے پہلے پہل دنیا میں جہاں کہیں بھی آبادی ہوئی، وہ بڑے بڑے دریاؤں اور ندی نالوں کے کناروں پر ہی ہوئی۔ پرانے لوگ چاند، سورج اور پانی سے ڈرتے تھے اور دیوتا سمجھ کر ان کی پوجا کیا کرتے تھے۔ مگر ان میں بھی چند ایسے من چلے موجود تھے جو کبھی کبھی دریا میں کود کر پار اتر جاتے۔ ہر ایک میں یہ جرأت کہاں؟ اور جو کہیں ایسا کر بھی لیتے تو مال اسباب اور بیوی بچوں کو دوسرے کنارے کیوں کر لے جاتے؟ اس لیے ان بے چاروں کو اپنے ہی علاقے کے دوسرے حصوں میں بسنے والوں سے ملنے اور ان کی بستیوں میںجانے آنے کا موقع نہ ملتا تھا۔ اسی زمانے کی بات ہے کہ کچھ لوگ کسی ندی کے کنارے ڈیرے ڈالے پڑے تھے۔ ندی کا پاٹ اچھا خاصا چوڑا تھا۔ دونوں کناروں پر اونچے اونچے درخت تھے، جن کے پھلوں پر ان لوگوں کا گزارا تھا۔ اس علاقے میں بندر بہت تھے جو ہر وقت اودھم مچائے رکھتے تھے۔ ندی کے جس کنارے یہ لوگ ٹھہرے ہوئے تھے وہاں پھل ختم ہو چکے تھے، اس لیے وہ گھاس پات پر گزارہ کرتے تھے۔ ایک دن عجیب تماشا ہوا۔ ایک بوڑھا بندر درخت کی ایک موٹی سی شاخ سے لٹک گیا۔ دوسرے بندر نے اس کی دم پکڑ لی اور یوں ایک لمبی ڈور سی بنا کر، وہ ندی کے دوسرے کنارے تک پہنچ گئے۔ جو بندر سب سے آگے تھا اس نے اچھل کر دوسرے کنارے کے ایک درخت کی شاخ پکڑ لی۔ اس کنارے پر جو بندر تھا اس نے اپنی شاخ چھوڑ دی۔ اس طرح یہ سب بندر آسانی سے ندی کے پار جا پہنچے اور مزے سے پکے ہوئے پھل کھا کر پہلے کی طرح لوٹ آئے۔ وہ ہر روز یونہی کرتے۔ یہ لوگ بڑے غور سے بندروں کی حرکتیں دیکھتے تھے۔ ان کے لیے یہ تو مشکل تھا کہ ایک دوسرے کی ٹانگ پکڑ کر ندی میں لٹک کر جاتے مگر پھل حاصل کرنے کے لیے وہ اس پار جانا بھی چاہتے تھے۔ پانی کا بہاؤ تیز تھا اور ندی کا پاٹ بہت چوڑا۔ تیر کر اس پار جانا آسان نہ تھا اور پھر بوجھ اٹھا کر تیر بھی کیونکر سکتے تھے؟ آخر بہت کچھ سوچنے کے بعد انہوں نے ایک ترکیب ڈھونڈ نکالی اور درختوں کے مضبوط تنوں کو آپس میں جوڑ کر ندی پر ایک پل سا باندھ دیا۔ پہلے پہلے پل اسی طرح بنے اور دریاؤں اور ندیوں کے آرپار رہنے والے لوگوں میں میل ملاپ شروع ہو گیا۔ چھوٹے چھوٹے ندی نالے تو درختوں کے دو ایک تنے ملا کر پار کر لیے جاتے لیکن بڑے بڑے دریاؤں کو کیسے پار کیا جاتا؟ وقت گزرتا گیا۔ آدمی طرح طرح کے خیال باندھتے رہے۔ آخر یہ ترکیب نکالی گئی کہ بہت سی کشتیوں کو ملا کر آپس میں باندھ لیا جاتا اور ان پر گھاس پھونس ڈال کر بڑی بڑی بیل گاڑیوں اور فوجیوں کے گزرنے کے لیے پل بنا لیا جاتا۔ آج بھی جنگ کے زمانے میں سپاہیوں کو ندی نالے عبور کرنا پڑیں تو وہ کئی ایک کشتیوں یا لکڑی کے بہت سے تختوں کو آپس میں ملا کر پانی پر چھوڑ دیتے ہیں اور فوجیں بڑی آسانی سے پار چلی جاتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بڑی بڑی گاڑیاں اور موٹریں بھی گزر جاتی ہیں۔ مدت تک دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے ہی پل باندھے جاتے رہے۔ جب ایک ملک والوں نے ایسا پل بنایا تو دوسرے ملک والوں نے ان کی دیکھا دیکھی اچھے اور مضبوط پل بنانے کی کوشش کی اور پھر دنیا میں پتھر اور اینٹ کے بڑے بڑے پل کھڑے کیے جانے لگے جو جدید پلوں کے پیش رو ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں