1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پنگ پونگ سفارتکاری کی پرواز

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از محبوب خان, ‏22 جون 2011۔

  1. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    امریکہ اور چین کے درمیان سفارتی روابط قائم کرنے میں پاکستان نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ نو جولائی کو ان روابط کے چالیس سال مکمل ہو جائیں گے۔

    پاکستان کی قومی ائر لائن پی آئی اے کے ذریعے چالیس سال قبل اس وقت کے امریکی قومی سکیورٹی کے مشیر ہینری کسنجر خفیہ ملاقات کے لیے چین گئے۔ جس جہاز پر ہینری کسنجر نے چین کا خفیہ دورہ کیا اس کے کپتان تھے کیپٹن مرزا تیمور بیگ۔ اس نو جولائی 1971 کے سفر کو اس پرواز کے چیف پرسر عبدالحئی نے پی آئی اے کی ویب سائٹ پر دہرایا ہے۔

    عبدالحئی لکھتے ہیں ’اس وقت پی آئی اے اکثر انتہائی اہم شخصیات یعنی وی وی آئی پی کے سفر کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی۔ ان انتہائی اہم شخصیات کے سفر کے لیے سکیورٹی اقدامات کیے جاتے تھے جن میں مسلح محافظوں کی موجودگی میں جہاز کی چیکنگ اور جہاز کے عملے کی پہلے ہی سے سکیورٹی کلیئرنس شامل تھی۔‘

    وہ لکھتے ہیں ’میں جولائی 1971 میں لاہور چھٹیوں پر تھے جب مجھے فوراً راولپنڈی ڈیوٹی پر پہنچنے کے لیے کہا گیا۔ کیپٹن مرزا تیمور بیگ کی قیادت میں جہاز کے عملے کو انٹر کانٹیننٹل ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ عملے کو وی آئی پی پرواز کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ ہمیں خاص ہدایات دی گئی تھیں کہ کسی سے بھی کسی قسم کا رابطہ نہیں کرنا اور کسی بھی وقت ہمیں پرواز کے لیے روانہ ہونا ہو گا۔‘

    ’ہمیں رات تین بجے کہا گیا کہ پرواز کے لیے تیار ہو جائیں۔ ہمارا جہاز اسلام آباد ہوائی اڈے پر پاک فضائیہ کے ہینگر میں سخت سکیورٹی میں کھڑا تھا۔ روانگی سے آدھا گھنٹہ قبل ایک چینی نیویگیٹر کی آمد ہوئی اور ہم صرف ایک مسافر کے ساتھ پیکنگ جو اب بیجنگ کہلاتا ہے کے لیے روانہ ہوئے۔‘

    ’پیکنگ میں مختصر قیام کے دوران ایک چینی اعلیٰ عہدیدار اور چینی ترجمان جہاز پر سوار ہوئے اور یوں ہم ان دونوں کو لے کر پاکستان واپس پہنچے۔‘

    پی آئی اے کی ویب سائٹ پر لکھتے ہوئے عبدالحئی کے مطابق ’اسلام آباد واپسی پر ہمارا جہاز دوبارہ فضائیہ کے ہینگر میں کھڑا کردیا گیا اور ہمیں دوبارہ ہوٹل پہنچا دیا گیا۔ ہمیں دوبارہ کسی سے بھی کسی قسم کے رابطے سے منع کیا گیا۔ اسلام آباد ہوائی اڈے پر کوئی خاص ہلچل نہیں تھی۔ تاہم میں نے دیکھا کہ ٹارمک پر یو ایس ون (US ONE) جہاز کھڑا تھا۔‘

    نو جولائی کی رات کو ہمیں دو بجے کی روانگی کا حکم دیا گیا۔ ہمیں دوبارہ فضائیہ ہی کے ہینگر میں جہاز کو پرواز کے لیے تیار کرنا تھا۔ سب سے پہلے جن دو افراد کو ہم پیکنگ سے لائے تھے وہ پہنچے۔‘

    ’تقریباً رات دو بجے ووکس ویگن بیٹل گاڑی فرست کلاس لاؤنج کے سامنے رکی۔ یہ گاڑی پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سلطان محمد خان چلا رہے تھے۔ اندھیرے کے باعث یہ دیکھنا مشکل تھا کہ ان کے ساتھ کون ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ آگے بڑھے تو ہم ششدر رہ گئے کہ سیکریٹری خارجہ کے ہمراہ ڈاکٹر ہینری کسنجر تھے۔‘

    ’چیف پرسر ہونے کے ناطے میں نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کرایا۔ ڈاکٹر کسنجر نے اپنے ہمراہ امریکی اہلکاروں کا تعارف کرایا۔ ان کے ہمراہ ونسٹن لارڈ، جان ہولڈرج اور رچرڈ میسر تھے۔ ان مسافروں کے جہاز میں بیٹھتے ہی سیکریٹری خارجہ جہاز سے اتر گئے اور ہم پیکنگ کی جانب روانہ ہو گئے۔‘

    ’جہاز کے اڑان بھرتے ہی ڈاکٹر کسنجر چینی عہدیدار کے ساتھ میٹنگ میں مصروف ہو گئے۔ صبح ہوتے ہی گرما گرم امریکن ناشتہ دیا گیا۔‘

    ’سفر کے دوران ڈاکٹر کسنجر بڑے پرسکون تھے لیکن ایک موقعے پر وہ تھوڑے پریشان ہوئے۔ ان سے جب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ خفیہ سفر تھا اس لیے ان کے سٹاف نے ان کے سارے کپڑے نتھیا گلی بھجوا دیے ہیں اور اب ان کے پاس دوسرا جوڑا نہیں ہے۔ ‘

    ’دوپہر ڈھائی بجے ہم پیکنگ کے ہوائی اڈے پر اترے۔ ڈاکٹر کسنجر اور ان کی ٹیم کو کالے شیشے والی گاڑی میں لے جایا گیا۔ میٹنگ کے بعد یہی جہاز ڈاکٹر کسنجر کو گیارہ جولائی کو دوپہر بارہ بجے اسلام آباد واپس لے آیا۔ واپسی کے سفر میں ڈاکٹر کسنجر اور ان کی ٹیم رپورٹیں لکھنے میں بہت مصروف رہے۔‘

    ’تاہم ایک موقعے پر ہینری کسنجر نے مجھ سے کہا کہ نتھیاگلی کے بارے میں کچھ معلومات دو کیونکہ جب میں واپس جاؤں گا تو میڈیا مجھ سے نتھیا گلی کے بارے میں پوچھے گی۔‘

    اسلام آباد آمد پر پاکستان کے سیکیٹری خارجہ ڈاکٹر کسنجر کو لینے آئے ہوئے تھے۔ لیکن اس بار ان کو ہوائی اڈے پر گاڑیوں کا کارروان آیا ہوا تھا۔ جب ڈاکٹر کسنجر روانہ ہو گئے تو سیکریٹری خارجہ نے جہاز کے عملے کو اکٹھا کیا اور کہا کہ ہم چند لوگ ہی ہیں جن کو یہ معلوم ہے کہ اس جہاز پر کون کہاں گیا۔ اور یہ بات اس وقت تک کسی سے نہیں کرنی جب تک کہ ڈاکٹر ہینری کسنجر خود اعلان نہیں کرتے۔‘

    بشکریہ بی بی سی اردو
     

اس صفحے کو مشتہر کریں