1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پشاور میں 2 بم دھماکے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏12 جون 2011۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان کے شہر پشاور کی ایک مارکیٹ میں یکے بعد دیگرے ہونے والے دو بم دھماکوں میں کم از کم بتیس افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
    پشاور میں ہمارے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق یہ دھماکے خیبر سپر مارکیٹ میں ہوئے جو پشاور صدر اور قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ کے دفاتر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی فوج کی ایک رہائشی کالونی بھی قریب ہی واقع ہے۔
    نامہ نگار نے پشاور کے ایس ایس پی آپریشنز اعجاز خان کے حوالے سے بتایا ہے کہ پہلا دھماکہ پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق نصف شب سے ذرا بعد ہوا۔ پولیس افسر کے مطابق یہ ایک کم شدت کا دھماکہ تھا لیکن اس کے چند منٹ بعد جب پولیس اہلکار، ریسکیو کا عملہ اور صحافی وہاں پہنچ چکے تھے تو ایک زیادہ شدت کا دھماکہ ہوا جس سے کم از کم بتیس افراد ہلاک اور سے سے زائد زخمی ہوئے۔
    زخمی ہونے والوں میں سے اٹھارہ کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
    زخمی ہونے والوں میں ایک سینئر پولیس افسر سمیت آٹھ پولیس اہلکار شامل ہے
    پولیس اہلکار کے مطابق پہلا دھماکہ بظاہر ایک سلنڈر سے کیا گیا تھا جبکہ دوسرا دھماکہ ایک خود کش حملہ تھا جس میں خود کش بمبار ایک موٹرسائیکل پر سوار ہو کر وہاں پہنچا تھا۔
    اطلاعات کے مطابق زخمی ہونے والوں میں ایک سینئر پولیس افسر سمیت آٹھ پولیس اہلکار اور تین صحافی بھی شامل ہے۔
    بائیس سالہ طالب علم جمال خان دھماکے کے وقت خیبر سپر مارکیٹ سے متصل فلیٹ میں موجود تھے اورجب وہ دھماکے کی آواز سن کے سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے تو عمارت کے ملبے کی زد میں آ کر زخمی ہو گئے۔
    انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ دھماکے کی آواز اتنی شدید تھی کہ وہ اسے زندگی بھر نہیں بھلا سکیں گے۔ ’جب دھماکہ ہوا تو کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔ پھر گرد اور دھویں کا ایک بادل سا چاروں طرف چھا گیا اور پھر میں نے دیکھا کہ لوگ مدد کے لیے پکار رہے ہیں اور انسانی اعضا ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔‘
    صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکے وقت وہ قریب ہی واقع اپنے دفتر میں موجود تھے۔ ان کے مطابق اس علاقے میں بہت سی دکانیں اور ہوٹل ہیں جس کی وجہ سے فیملیز اور طالبعلم بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔
    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ایک امریکی فوجی کارروائی میں القاعدہ کے رہنماء اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے پاکستان میں شدت پسندوں حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعرات کو پشاور کے مضافاتی علاقے متنی میں ہونے والے بم دھماکے میں چار افراد ہلاک جبکہ تین زخمی ہوگئے ہیں۔
    ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سن دو ہزار سات سے اب تک ہونے والے شدت پسند حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

    بی بی سی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں