1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پروفیسر اقبال عظیم

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏2 نومبر 2018۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
    خواب ہو جاؤ گے، افسانوں میں ڈھل جاؤ گے

    اب تو چہروں کے خد و خال بھی پہلے سے نہیں
    کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤ گے

    اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا
    سرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جاؤ گے

    دے رہے ہیں تمہیں جو لوگ رفاقت کا فریب
    ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے

    اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
    سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے

    خواب گاہوں سے نکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو
    دھوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پگھل جاؤ گے

    تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو
    بھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤ گے

    ہم سفر ڈھونڈو نہ رہبر کا سہارا چاہو
    ٹھوکریں کھاؤ گے تو خود ہی سنبھل جاؤ گے

    تم ہو اک زندۂ جاوید روایت کے چراغ
    تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے

    صبح صادق مجھے مطلوب ہے کس سے مانگوں
    تم تو بھولے ہو، چراغوں سے بہل جاؤ گے

    (اقبال عظیم)​
     
    ًمحمد سعید سعدی نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    آخری وقت میں کیا رونقِ دنیا دیکھوں
    اب تو بس ایک ہی دُھن ہے کہ مدینہ دیکھوں

    از اُفق تا بہ اُفق ایک ہی جلوہ دیکھوں
    جس طرف آنکھ اٹھے روضئہ والا دیکھوں

    عاقبت میری سنور جائے جو طیبہ دیکھوں
    دستِ امروز میں آئینہ فردا دیکھوں

    میں کہاں ہوں ، یہ سمجھ لوں تو اٹھاؤں نظریں
    دل سنبھل جائے تو میں جانبِ خضرا دیکھوں

    میں نے جن آنکھوں سے دیکھا ہے کبھی شہرِ نبی
    اور ان آنکھوں سے اب کیا کوئی جلوہ دیکھوں

    بعد رحلت بھی جو سرکار کو محبوب رہا
    اب ان آنکھوں سے میں خوش بخت وہ حجرہ دیکھوں

    فقر و فاقہ ہی رہا جس کے مکینوں کا نصیب
    چشمِ عبرت سے میں وہ مسکنِ زہرا دیکھوں

    جالیاں دیکھوں کے دیوار و در و بامِ حرم
    اپنی معذور نگاہوں سے میں کیا کیا دیکھوں

    میرے مولا مری آنکھیں مجھے واپس کر دے ؎۱
    تاکہ اس بار میں جی بھر کے مدینہ دیکھوں

    جن گلی کوچوں سے گزرے ہیں کبھی میرے حضور
    ان میں تا حدِ نظر نقشِ کفِ پا دیکھوں

    تاکہ آنکھوں کا بھی احسان اٹھانا نہ پڑے
    قلب خود آئینہ بن جائے میں اتنا دیکھوں

    کاش اقبالؔ یوں ہی عمر بسر ہو میری
    صبح کعبے میں ہو اور شام کو طیبہ دیکھوں

    ( ؎۱ : واضح رہے کہ پروفیسر سیّد اقباؔل عظیم صاحب بصارت سے محروم ہوچکے تھے)

     
    ًمحمد سعید سعدی نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    مجھ کو حیرت ہے کہ میں کیسے حرم تک پہنچا
    مجھ سا ناچیز درِ شاہِ امم تک پہنچا

    ماہ و انجم بھی ہیں جس نقشِ قدم سے روشن
    اے خوشا آج میں اس نقشِ قدم تک پہنچا

    کتنے خوش بخت ہیں ہم لوگ کہ وہ ماہِ تمام
    اس اندھیرے میں ہمیں ڈھونڈ کے ہم تک پہنچا
    (قربان یارسول اللہ ﷺ آپ کی اس کمالِ کرم نوازی پر)

    اس کو کیا کہتے ہیں اربابِ خرد سے پوچھو
    کیسے اک امی لقب لوح و قلم تک پہنچا

    راز اس اشکِ ندامت کا کوئی کیا جانے
    آنکھ سے چل کے جو دامانِ کرمتک پہنچا

    نعت کہنے کو قلم جب بھی اٹھایا اقبال
    قطرہء خونِ جگر نوکِ قلم تک پہنچا
    (اقبال عظیم)​
     
    ًمحمد سعید سعدی نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    زہر دے دے نہ کوئی گھول کے پیمانے میں
    اب تو جی ڈرتا ہے خود اپنے ہی میخانے میں

    جامِ جم سے نگہِ توبہ شکن تک، ساقی
    پوری روداد ہے ٹوٹے ہوئے پیمانے میں

    سارا ماضی میری آنکھوں میں سمٹ آیا ہے
    میں نے کچھ شہر بسا رکھے ہیں ویرانے میں

    بے سبب کیسے بدل سکتا ہے رندوں کا مزاج
    کچھ غلط لوگ چلے آئے ہیں میخانے میں

    اب پرستار نیا طرزِ پرستش سیکھیں
    کچھ نئے بت بھی ابھر آئے ہیں بت خانے میں

    مجھ پہ تنقید بھی ہوتی ہے تو القاب کے ساتھ
    کم سے کم اتنا سلیقہ تو ہے بیگانے میں

    میں نے یہ سوچ کے ان سے کبھی شکوہ نہ کیا
    بات کچھ اور الجھ جاتی ہے سلجھانے میں

    پیاس کانٹوں کی بجھاتا ہے لہو سے اپنے
    کتنی بالغ نظری ہے ترے دیوانے میں

    اس کو کیا کہتے ہیں اقبالؔ کسی سے پوچھو
    دل نہ اب شہر میں لگتا ہے نہ ویرانے میں
    اقبال عظیم​
     
    ًمحمد سعید سعدی نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    اِس بھری محفل میں اپنا مُدّعا کیسے کہیں
    اتنی نازک بات اُن سے برملا کیسے کہیں

    اُن کی بےگانہ روی کا رنج ہے ہم کو مگر
    اُن کو ، خود اپنی زباں سے بے وفا کیسے کہیں

    وہ خفا ہیں ہم سے شاید بر بِنائے احتیاط
    اُن کی مجبوری کو بے سمجھے ، جفا کیسے کہیں

    اہلِ دل تو لے اُڑیں گے اِس ذرا سی بات کو !
    اُن کے اندازِ حیا پر مرحبا کیسے کہیں

    خود ہماری ذات سے کیا فیض پہنچا ہے اُنھیں
    دوستوں کی بے رُخی کو نار وا کیسے کہیں

    جس قدر وہ باخبر ہے ہم سے کوئی بھی نہیں
    اپنے دشمن کو بَھلا ، نا آشنا کیسے کہیں

    اُن کو جب خود ہی نہ ہو اقبال اپنوں کا خیال
    بے حیا بن کر! کہو ہم ، مدّعا کیسے کہیں

    اقبال عظیم ​
     
    ًمحمد سعید سعدی نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
    مری آنکھ کیسے چھلک گئی، مجھے رنج ہے یہ برا ہوا

    مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
    ابھی روشنی ابھی تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا

    مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
    نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خط ہوا

    مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سے پوچھیے
    مری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا

    جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
    یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا

    ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں
    نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا

    مرے ایک گوشۂ فکر میں، میری زندگی سے عزیز تر
    مرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا

    مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
    کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا، کہیں آنسوؤں سے مٹاہوا

    مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال مری طرح
    کئی منزلوں کا تھکا ہوا، کہیں راستے میں لٹا ہوا

    ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سرِ راہ عمر گزر گئی
    کوئی جستجو کا صلہ ملا، نہ سفر کا حق ہی ادا ہوا

    اقبال عظیم​
     
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:

    اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے
    صبحِ فردا کی کِرن بھی نہ جہاں تک پہنچے

    میں نے آنکھوں میں چھپا رکھے ہیں کچھ اور چراغ
    روشنی صبح کی شاید نہ یہاں تک پہنچے

    بے کہے بات سمجھ لو تو مناسب ہوگا
    اس سے پہلے کہ یہی بات زبان تک پہنچے

    تم نے ہم جیسے مسافر بھی نہ دیکھے ہوں گے
    جو بہاروں سے چلے اور خزاں تک پہنچے

    آج پندارِ تمنّا کا فسُوں ٹُوٹ گیا
    چند کم ظرف گِلے نوکِ زبان تک پہنچے

    اقبال عظیم
     
  8. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    گِلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں
    مگر اِرادۂ اظہار زیرِ لب بھی نہیں

    میں چاہتا ہوں کہ اپنی زباں سے کچھ نہ کہوں
    میں صاف گو ہوں، مگر اتنا بے ادب بھی نہیں

    جفا کی طرح، مجھے ترکِ دوستی بھی قبول
    ملال جب بھی نہ تھا مجھ کو، اور اب بھی نہیں

    گزر گیا وہ طلبگاریوں کا دَور بخیر
    خدا کا شُکر، کہ اب فرصتِ طلب بھی نہیں

    مزاجِ وقت سے تنگ آچکا ہے میرا ضمیر
    مِرے اصول بدل جائیں تو عجب بھی نہیں

    گئے دنوں کا فسانہ ہے اب ہمارا وجود
    وہ مفلسی بھی نہیں ہے، وہ روزوشب بھی نہیں

    جواب دوں گا میں، کچھ مجھ سے پوچھ کردیکھو
    ابھی میں ہوش میں ہوں ایسا جاں بہ لب بھی نہیں

    حسب نسب کی جو پوچھو تو شجرہ پیش کروں
    کتاب کوئی نہیں ہے، مِرا لقب بھی نہیں

    اقبال عظیم​
     
  9. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    یہ مِری اَنا کی شِکست ہے، نہ دوا کرو نہ دُعا کرو
    جو کرو تو بس یہ کرم کرو، مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو

    وہ جو ایک ترکشِ وقت ہے، ابھی اُس میں تِیر بہت سے ہیں
    کوئی تیر تم کو نہ آ لگے مِرے زخمِ دل پہ نہ یُوں ہنسو

    نہ میں کوہ کن ہوں، نہ قیس ہوں، مجھے اپنی جان عزیز ہے
    مجھے ترکِ عِشق قبوُل ہے، جو تمھیں یقینِ وفا نہ ہو

    جو تُمھارے دِل میں شکوُک ہیں تو یہ عہْد نامے فضُول ہیں
    جو مِرے خطوُط ہیں پھاڑ دو، یہ تُمھارے خط ہیں سمیٹ لو

    جو کسی کو کوئی ستائے گا تو گلہ بھی ہونٹوں تک آئے گا
    یہ تو اِک اصول کی بات ہے، جو خفا ہے مجھ سے کوئی تو ہو

    مجھے اب صداؤں سے کام ہے، مجھے خال و خد کی خبر نہیں
    تو پھر اِس فریب سے فائدہ ؟ یہ نقاب اب تو اُتار دو

    مجھے اپنے فُقر پہ ناز ہے، مجھے اِس کرَم کی طلب نہیں
    میں گدا نہیں ہُوں فقِیر ہُوں، یہ کرَم گداؤں میں بانٹ دو

    یہ فقط تُمھارے سوال کا، مِرا مُختصر سا جَواب ہے
    یہ گِلہ نہیں ہے، خلوُص ہے، مِری گفتگو کا اثر نہ لو

    یہ ادھوُرے چاند کی چاندنی بھی اندھیری رات میں کم نہیں !
    کہیں یہ بھی ساتھ نہ چھوڑ دے، ابھی روشنی ہے چلے چلو

    اقبال عظیم​
     
  10. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    یہ نگاہِ شرم جُھکی جُھکی، یہ جبینِ ناز دُھواں دُھواں
    مِرے بس کی اب نہیں داستاں، مِرا کانپتا ہے رُواں رُواں

    یہ تخیّلات کی زندگی، یہ تصوّرات کی بندگی
    فقط اِک فریبِ خیال پر، مِری زندگی ہے رواں دواں

    مِرے دل پہ نقش ہیں آج تک، وہ با احتیاط نوازشیں
    وہ غرور و ضبط عیاں عیاں، وہ خلوصِ ربط نہاں نہاں

    نہ سفر بشرطِ مآل ہے، نہ طلب بقیدِ سوال ہے
    فقط ایک سیریِ ذوق کو، میں بھٹک رہا ہوں کہاں کہاں

    مِری خلوتوں کی یہ جنّتیں کئی بار سج کے اُجڑ گئیں
    مجھے بارہا یہ گمان ہوا، کہ تم آرہے ہو کشاں کشاں

    اقبال عظیم​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں