1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پرنم آلہٰ آبادی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏5 اکتوبر 2013۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    کمرہ کیا تھا،ایک چارپائی اُس پر بوسیدہ سا بستر،قریب ایک میز،جس پر ایک جگ گلاس،ایش ٹرے اور چند کتابیں،ساتھ دو کرسیاںپڑی تھیں۔ایک دیوار پر نامور قوّال عزیز میا ں کاایک بڑا پوسٹر لگا ہوا تھا۔ساتھ ہی کپڑے لٹکانے کے لئے کھو نٹی تھی جس پر چند کپڑے لٹکے ہوئے تھے۔کمر ے کے فرش پر پُرانی دری بچھی ہوئی تھی جس میں سے،کہیں کہیں فرش کی اینٹیں جھانک رہی تھیں،چارپائی کے نیچے ایک ہارمونیم بھی موجود تھا۔میں اور میرا دوست بیٹھتے ہی کمرے کاجائزہ لے رہے تھے کہ وہ بھا نپ گئے اور بول پڑے:

    ’’میاں ہمارے ہاں بہت تاخیر سے آئے ہو، کاش!تم نے ہمارے اچھے دن اور رہن سہن کے ٹھا ٹھ دیکھے ہوتے،،خیر کیا لوگے؟بلا تکلّف کہو،ہماری ظاہری حالت پرنہ جانا۔۔۔۔کھانا بھی منگوایا جا سکتا ہے۔یہاں قریب ہی اعلیٰ پائے کے شیرمال بھی دستیاب ہیں،اس علاقے کی نہاری بھی مشہور ہے‘‘ ہم نے بیک زباں جواب دیا’’ نہیں ایسی کوئی طلب نہیں،ہم ابھی ناشتہ کر کے آئے ہیں‘‘ ’’۔چلو چائے تو چلے گی‘‘۔انھوں نے ہمارا انکار سن کر کہا اور زور سے آواز لگا دی:’’زبیر بیٹے! چائے بولنا خان کو‘‘ غالباََ وہ گلی میں کھیلتے ہوئے بچے سے مخاطب تھے۔کچھ ہی دیر میں ایک پٹھان لڑکا،چھوٹی سی چینک میں،مع تین ننھی پیالیوں کے،چائے لے کر آگیا۔انھوں نے اسے کچھ پیسے دیتے ہوئے کہا:’’کچھ دیر میں برتن واپس لے جانا اور ہاں پہلے ہمیں سگریٹ دے جانا۔‘‘ میرے دوست نے چائے اٹھاتے ہوئے استفسار کیا:’’ سر! یہ ہارمونیم‘‘ ۔۔۔پھر خود ہی فقرہ ادھورا چھوڑ کر اُن کے منہ کی طرف دیکھنے لگا۔انھوں نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور بولے: ’’ابے نیئں یار! یہ تو محلّے کے ایک سنگر کا ہے،اصل میں چور ،چوری سے جاتا ہے،ہیرا پھیری سے نہیں جاتا، ہم بھی اگر چہ فن کی دنیا سے خود ہی پیچھے ہٹ گئے ہیںمگر اب بھی بعض گانے والے آجاتے ہیں،وہ والی صورتِ حال تو نہیںجب نامور فنکار ہماری دہلیز کے چکّر کاٹتے تھے،دراصل جب ’’بھر دو جھولی مری یا محمدﷺ‘‘ ہٹ ہوئی تھی تو ہر قوّال اور ہر فنکار نے ہم سے کلام کا تقاضا شروع کر دیا تھا‘‘ بات ابھی جاری تھی کہ پٹھان لڑکا سگریٹ لے آیا،انھوں نے اسے فارغ کیا اور سگریٹ سلگا لیا پھر ایک لمبا سا کش لگا یا اور بولے:’’آہ! کیا دن یاد دلا دئیے یار آپ لوگوں نے،ہم گلوکاروں کے شہزادے ہوا کرتے تھے،رات دن ریکارڈنگ کا سلسلہ جاری رہتا تھا، اُس دور میں کون سا ایسا فنکار تھا جس نے ہمارا کلام نہیں گایا،غلام فرید مقبول صابری،نصرت فتح علی خاں،عزیز میاں،منّی بیگم خاص طور پر ہمارے کلام کے دیوانے تھے۔مگر اب تو۔‘‘۔۔۔ انھوں نے خود ہی فقرہ ادھورا چھوڑا اور ایش ٹرے میں سگریٹ بجھانے لگے۔’’اب تو یہاں کوئی نہیں آتا،ہاں کبھی منّی بیگم آ نکلتی ہے،وضع دار خاتون ہے اب تک تعلّق نبھانے کی کوشش میں ہے،ہم نے کئی بار اُسے منع کیا ہے کہ یہاں مت آیا کرو،یہ جگہ تمھارے آنے کی نہیںمگر وہ کہتی ہے :’’یہی تو وقت اور جگہ ہے میرے آنے کی،کیا ہوا آپ نے ہماری دنیا چھوڑ دی،ہمیں تو آپ کو نہیں چھوڑنا چاہئیے ناں۔۔‘‘ لیکن سر آپ نے شہرت کی بلندی پر ،فن کا بھریا میلہ کیوں چھوڑا؟ ‘‘ مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے سوال کر دیا۔ انھوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور آہستہ سے کہا؛’’ بس بھیّا کیا کہیںاچانک اِس چکا چوند سے جی بھر گیا تھا،شاید قدرت کو یہی منظور تھا۔یوں سمجھ لیں کہ ایک امتحان تھا ،الحمدُللہ ! سرکار کے کرم سے ہم سر خرو ہوئے،ابھی تو ایک اور امتحان سر پر ہے۔خیر ہماری باتیں تو کچھ لمبی ہو گئیں،آپ اپنی بھی سنائیں۔کیا حال ہے مُلتان والوں کا،ہمارے صوفی صاحب کیسے ہیں؟ کیا ارادے ہیں؟‘‘ میں نے بتایا کہ یہاں وزیری پانی پتی کی وساطت سے رئیس امروہی صاحب سے مل کر آرہا ہوں، انہوں نے مجھے روزنامہ حریت کے ایڈیٹر کے نام ایک خط دیا ہے امید ہے وہاں میرا کام ہو جائے گا اور میں بہت جلد اخبار جائن کر لوں گا انشاء اللہ۔’’ آپ کاکا م ضرور ہو گا ورنہ ہمارے بھی کچھ احباب اخبارات میں موجود ہیں ۔‘‘ انہوں نے دھواں فضا میں چھوڑتے ہوئے کہا :’’رابطہ رہنا چاہیے ‘‘،اسی اثناء میں ایک نوجوان آگیا جسے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں چمک سی آگئی تھی ، اسے دیکھتے ہی بولے : ’’ ارے آ بشیرے ! کہاں تھا تو صبح سے ۔اچھا اب نکال ذرا اپنا ہارمونیم ،یہ ہمارے دوست ہیں انہیں کچھ سنا دے‘‘ بشیر نے اپنی پیٹی (ہارمونیم ) چارپائی کے نیچے سے نکالی اور دری پر بیٹھ کر ان کی ایک مشہور غزل الاپنا شروع کر دی ـ: ؎ شام آخری ہے اور سلام آخری ہے غالباً کچھ اسی قسم کی ردیف تھی، یہ غزل منی بیگم سمیت کئی گلو کا ر گا چکے تھے، بشیر بھی اسی دُھن میں گا رہا تھا ، اس غزل کے بعد وہ کچھ اور سنانا چاہتا تھا مگر استاد نے منع کر دیا ۔۔۔۔اور کہا : ’’ بس یہی کافی ہے مہمان ہیں، بات چیت ہو رہی ہے ۔۔۔‘‘ بشیر نے پیٹی بند کی اور چار پائی کے نیچے رکھ دی، انہوں نے سگریٹ سلگا کے بشیرے کے حوالے کر تے ہوئے کہا: ’’، لو پیو ۔۔۔۔‘‘ بشیرے نے سگریٹ تھام کر کہا ـ: ’’ استاد اگر اجازت ہو تو ہم گھر نکل لیں ۔۔۔۔۔‘‘ جواب ملا:’’ ٹھیک ہے تو شام کو ملیں گے‘‘ ۔ بشیرے کی بات سے قبل ہی انہوں نے ہاتھ آگے بڑھا دیا ۔۔۔اب بشیرا جا چکا تھا ،سگریٹ دوبارہ سلگا لیا گیا تھا اور پھر وہی شاعروں کی کہانیاں ، شاعری ، مصرعوں کی دروبست کے حوالے سے استاد شعرا ء کی اصلاحوں کے تذکرے ۔۔۔۔ مجھے یا د نہیں ہم کب واپس لو ٹے تھے ۔۔۔۔یہ تھی کراچی لالو کھیت میں ان سے میری پہلی ملاقات ۔۔۔۔ان دنوں وہ شعراء کی محفلوں میں نہیں جاتے تھے ،ان کے پاس صرف یا دیں تھیں ۔وہ استاد قمر جلالوی ، استاد حید ر دہلوی ، مشاعروں کے احوال ، اشعار اور ان کی اصلاحوں،مصرعہ سازی اور شعر فہمی پر گھنٹو ں بے تکان گفتگو کیا کرتے تھے ، کراچی میں جتنے دن بھی رہا ان سے ملاقات ہوتی رہی پھر اچانک مجھے ملتان لوٹنا پڑا ۔۔۔۔۔۔۔ ان سے دوسری ملاقات ہری پور(سرائے صالح)میں حضرت امام بادشاہ کے سالانہ عرس کے موقع پر ہوئی،ہجوم میں ایک قدرے شناسا چہرہ ہاتھ میں بالٹی اٹھائے دربار کے مٹکے بھرنے میں مصروف نظرآیا،بعد میں وہی شخص جھاڑو دیتا دکھائی دیا۔اُس کا لباس ملیشیا کا ، شیو بڑھی ہوئی،بال کاندھوں تک تھے۔ غور کرنے پر معلوم ہوا یہ تو اپنے پرنم صاحب ہیں۔انھیں اس حُلیے اور حال میں یہاں دیکھ کر قدرے حیرت بھی ہوئی۔کہاں کراچی کا ایک نازک ملوک سا شاعر اور کہاں دربار کا ملنگ بننا۔کچھ دیر تو آنکھوں کو یقین ہی نہ آیا مگر وہ بہ نفسِ نفیس میرے سامنے تھے،مجھے ان کی بات یاد آگئی: ’’ابھی تو ایک اور امتحان سر پر ہے‘‘ کچھ دیر میں جب وہ ان کاموں سے فارغ ہو کر سب سے الگ ایک چٹائی پر بیٹھ گئے تو میں قریب چلا گیا، میں نے سلام کیا، انھوں نے بیٹھنے کا اشارہ کیااور بولے:’’ اچھا ! تو آپ بھی آئے ہوئے ہیں،کیسے ہیں؟‘‘ میں تو ٹھیک ہوںآپ سنائیں! جواب میں مسکرائے آہستہ سے بولے’’ وہ کیا شعر ہے کسی کا : میرا احوال پوچھنے والے میری صورت نظر نہیںآتی بھئی دیکھ لیں، آپ کے سامنے ہیں،، ۔۔۔نہیں میرا مطلب تھا کیاآجکل آپ یہاں ہوتے ہیں ؟میں قدرے شرمندہ سا ہوگیاجیسے میں نے کوئی غلط سوال کر دیا تھا۔۔۔۔۔ ۔انھوں نے جواب دینے کی بجائے جیب سے سگریٹ نکالا اور اسے سُلگا کر لمبا سا کش لگایااور اپنے مخصوص لہجے میں بولے: ’’اختر میاں! حقیقی فنکارانہ زندگی تو اب شروع ہوئی ہے۔ شہرت، نام و نمود تو سب سراب ہیں،سائیں جی کا کرم کہ اس چکا چوند سے باہر نکال لیا وگرنہ کب کے بکھر گئے ہوتے،اصل میںمیلہ دیکھنے کے لئے میلے میں سے باہر نکلنا پڑتا ہے،میلے میں گم ہو کر میلہ نہیں دیکھا جا سکتا ،بس یوں سمجھو ہم میلہ دیکھ رہے ہیں۔
     
    احتشام محمود صدیقی نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    ‘‘ میں حضرت پیر امام بادشاہ کے میلے سے وا پس آ چکا تھا مگر میرا ذہن ان کے جملے میں اٹکا ہوا تھا،’’میلے میں گم ہو کر میلہ نہیں دیکھا جا سکتا‘‘ پھر کتنے ہی برس گزر گئے اور میں میلے میںگم سم رہا،وقت کا پتہ ہی نہ چلا،ہوائیں سوکھے پتّے کی طرح کہاں کہاںلئے پھرتی رہیں،اب کہ میں لاہور میںتھاکہ ان سے اردو بازار میں سرِ راہے ملاقات ہو گئی،چند قدموں کے فاصلے پر وہ اپنی مخصوص چال میں چلے آرہے تھے۔خوبصورت شلوار کرتہ ،نیچے مُلتانی کھسّہ،ہاتھ میں سگریٹ کی ڈبیہ اور رومال،مجھے دیکھتے ہی نعرہ لگایا: ’’ ارے!! اخترشمار! صاحب کہاں ہیںآپ،اور مجھ سے بغل گیر ہو گئے، بھئی ہم گزشتہ کتنے مہینوں سے یہاں موجود ہیں۔پھر اسی طرح میرا ہاتھ تھام کر دھیرے دھیرے چلنے لگے، راستے میں وہ اپنے بارے میں بتاتے رہے کہ نصرت فتح علی خان انھیں کیسے لاہور لے آیا ،نسبت روڈ پر کمرہ لے کر دیااور یہ کہ وہ بس اُسی کے لئے لکھتے رہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔ یونہی دھیرے دھیرے چلتے ہم انار کلی آگئے، جہاںایک تنگ وتاریک سی گلی سے ہوتے ہوئے بل کھاتی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے، اب تیسری منزل پر ہم ان کے ہال نما کمرے میں تھے ،جس کے درمیان میں دو چارپائیاں اور ایک کونے میں میزکرسیاں پڑی تھیں۔انھوں نے مجھے بیٹھنے کو کہا اور خود فون پر کسی سے مخاطب تھے: ’’سیٹھ صاحب!کسی بچے کو اوپر بھیجئے گا، چائے منگوانی ہے،جی جی ایک دوست آئے ہیں،خدا حافظ‘‘ ۔اب میرے سامنے والی چارپائی پر آ بیٹھے،جوتا اتار کر سیدھے ہو کر مجھے بھی آرام سے بیٹھنے کا حکم دے ڈالا،کچھ دیر میں ایک لڑکا چائے کی ٹرے اٹھائے آ گیا،چائے کے ساتھ بسکٹ بھی تھے۔چائے کپوں میں ڈال کر بولے :’’ اب سنائیں! کیسے ہیں؟کئی بار آپ سے ملنے کا خیال آیا،آپ ہی کے کالج کے نوجوان نے آپ کے بارے میں بتایا تھا کہ آپ آج کل جی سی یو میں،یعنی ہمارے قریب ہوا کرتے ہیں،، لیجیے چائے نوش کیجئے ٹھنڈی ہو جائے گی‘‘ میں نے چائے کا کپ اٹھایا اور کہا : ’’مجھے آپ کے بارے میں علم نہیں تھا کہ آپ یہاں ہوتے ہیں ورنہ آپ سے کب کی ملاقات ہو چکی ہوتی،تو نسبت روڈ سے یہاں کیسے ؟ ‘‘ میں نے پوچھا تو بولے: ’’بس کیا بتائیں،لمبی کہانی ہے پھر کبھی سنائیں گے،اصل میں نصرت کی ناگہانی موت سے میںیہاں بھرے شہر میں تنہا ہو گیا تھا،دلّی مسلم ہوٹل انار کلی میںغلام حسین مہاراج کتھک کے ہاں اٹھنا بیٹھنا تھا،وہیں ہماری ملاقات سیٹھ مقصود شیخ سے ہوئی جو ہمیں یہاں لے آئے،بس اُسی روز سے ہم اسی ڈیرے پر ہیں،اصل میں اختر صاحب !سرکار کی طرف سے ڈیوٹی لگی ہوئی ہے وہ جہاں بٹھا دیں،‘‘۔۔۔نجانے کتنی دیر تک وہ باتیں کرتے رہے،وقت کا کچھ پتہ ہی نہ چلا،شام ہوگئی، اور میں واپس آ گیا۔۔پھر اکثر اُن سے ملاقات رہنے لگی،لاہو ر میں ایک پبلی کیشن ہائوس کے روحِ رواں صفدر حسین اُن سے بیحد پیار کرتے تھے،انھوں نے پرنم الہ بادی کا شعری مجموعہ ’’ پھول دیکھے نہ گئے ‘‘ بھی شائع کیا،اکثر صفدر حسین کے دفتر آ جایا کرتے،یہاں قتیل شفائی احمد راہی،شہزاد احمد،اظہر جاوید،ناہید شاہد،عمر زمان،تنویر ظہور،اور دیگر کئی احباب سے اُن کی ملاقات رہتی تھی۔ہر عیدپر وہ میرے غریب خانے پر ضرور تشریف لاتے اور بچوں کو عیدی دیتے۔میں روکتا رہ جاتا مگر وہ نہ مانتے۔ لاہور میں رہتے ہوئے اُن سے مہینے میں دو چار بار ضرور ملاقات ہو جاتی۔ ہری پور سے ،(اُن کے پیر خانے سے ) ’’صاحب جی سرکار‘‘ داتا صاحب کے عرس کے موقع پر تشریف لاتے تو پُرنم صاحب اپنے ڈیرے پر بریانی کی سپیشل دیگ پکواتے،صاحب جی کے سینکڑوں مرید جمع ہوتے اورلنگر تقسیم کیا جاتا۔۔۔جب میری جامعہ عین شمس قاہرہ،مصر میںتقرری ہوئی تو بیحد خوش ہوئے تھے،آخری ملاقات میں کافی دیر میں اُن کے ڈیرے پر موجود رہا اور وہ دیر تک باتیں کرتے رہے تھے،باتیں کرتے ہوئے اُن کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔اپنی بیٹی سے ملاقات پر بہت خوش تھے جو چند ماہ قبل کراچی سے ملنے آئی تھی۔بیگم سے علیحدگی کے وقت ان کی بیٹی اور بیٹا بہت کم سِن تھے،بیس پچیس برس بعد بیٹی نے انھیں ڈھونڈ نکالا اور وہ ملنے کراچی سے لاہور پہنچ گئی تھی۔انھوں نے بتایا کہ اپنی ساری جائیداد انھوں نے اپنے بچوں کے نام کر دی ہے، اور یہ کہ اب ان کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے،اس سے زیادہ انھوں نے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا حالاں کئی بار پہلے بھی اس موضوع پر میں نے کریدنا چاہامگر وہ ہمیشہ خوبصورتی سے ٹال جاتے،اس روز بھی میں نے کچھ پوچھنا چاہا تو بولے:بعض حقائق پر گرد پڑی اچھی لگتی ہے اور پھر بولے چلو نیچے چل کے بریانی کھاتے ہیں،میںنے انکار کیا تو بولے :’’اچھا بریانی نہیں، بالائی والی چائے تو پی لیں گے،‘‘ یوں ہم نیچے ایک ہوٹل پر آ گئے مجھے علم نہ تھا یہی اُن سے الوداعی ملاقات ہے۔اگلے روز میں قاہرہ آگیا۔۔تقریباََ دو برس بعد لاہور کا چکر لگا ، یارِ عزیز باقی احمد پوری سے گلے ملتے جب میرے منہ سے یہ شعر نکلا: ؎ بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے یا ر کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے تو باقی صاحب نے،اس طعنے کو نظر انداز کرکے برجستہ کہا: ’’ یار وہ آپ کے پُرنم الہٰ آبادی صاحب انتقال کر گئے ہیں‘‘کچھ دیر تک تو جیسے میں سکتے میں آ گیا تھا، باقی احمد پوری کی آواز کہیں دور سے سنائی دی: ’’ بڑا ہی افسوس ہوا یار ،تمھاری تو ان سے پرانی یاداللہ تھی‘‘ حواس بحال ہونے میں کچھ دیر لگی۔میں تو آج شام کو انھیں ملنے کا ارادہ رکھتا تھا۔یاد نہیں کب باقی احمد پوری اٹھ کر چلے گئے کہ ذہنی طور پر میں کہیں اور ہی تھا۔بعد میں سیٹھ شیخ محمود نے مجھے بتایا کہ چند روز قبل اچانک اُن کی طبیعت خراب ہوئی اور ایک روز بعد ہی وہ ا نتقال کر گئے اناللہِ و انّا الیہِ راجِعون۔ ہری پور سے صاحب جی سرکار آ گئے تھے ۔ تدفین ان کی موجودگی میں ہوئی۔۔شیخ محمود کہنے لگے: ’’آپ کو علم ہے ناں انھوں نے انڈیا کی فلم ’’کچے دھاگے ‘‘کے گانے بھی لکھے تھے جس میں نصرت فتح علی کی وہ قوالی بھی تھی؛ ؎ دولھے کا سہرا سہانا لگتا ہے اور وہ غزل۔۔۔ بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے اور عزیز میاں ،غلام فرید مقبول صابری کی کئی مشہور قوالیاں بھی انھوں نے ہی لکھی تھیں‘‘۔۔۔شیخ صاحب اپنے تئیں نہ جانے اور کیا کیا میری معلومات میں اضافے کی کوشش کرتے رہے مگر میرے ذہن میں نجانے کیوں کلاسیکی ہندی شاعر بھرتری ہری کی سطریں گونج رہی تھیں: ’’کیا ہوا تمھارے بدن پر ایک پھٹی پرانی گدڑی ہے یا ریشم کے صاف ستھرے کپڑے، کیا ہوا اگر تمھارے گھر میںصرف ایک بیوی ہے یااردگرد خوبصورت عورتوں اور ہاتھی گھوڑوںاور دیگر لوازمات کا ہجوم، کیا ہوا تمھارے دستر خوان پر طرح طرح کے قیمتی کھانے چنے گئے یا شام کوایک بار روکھی سوکھی روٹی میسّر آئی، جو بلندی شہرت آپ نے حاصل کی یا جو تکا لیف دنیا میں آپ نے برداشت کیں،ان سے کیا حاصل اگرعلمِ حقیقت کے نور سے آپ کا سینہ منّور نہ ہوا اور حقیقت کے رخِ روشن کو آپ دنیا میں نہ دیکھ سکے۔‘‘
     
    احتشام محمود صدیقی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں