1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پختونخوا، پردے میں رہ کر آن لائن کاروبار کرنے والی خواتین

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏9 جنوری 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    Artwork: Sheikh Faisal Rasheed

    جب آپ کو پردے کے پیچھے رہنا ہو تو آپ اپنا کاروبار چلانے کے لیے کوئی اسٹور یا دکان نہیں کھول سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں خواتین نے آن لائن کاروبار کا رخ کرلیا ہے۔

    عابدہ جیلانی خیبر پختونخوا میں گھریلو مصنوعات کی نمائشوں کی سرخیل ہیں۔ وہ گھر میں رہ کر اپنا ایک کاروبار چلا رہی ہیں اور اس کا نام ’درشل‘ رکھا ہے۔ درشل پشتو زبان کا لفظ ہے جس کو اردو میں ’دہلیز‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ آپ کو اپنی من پسند چیزیں آپ کی دہلیز پر میسر ہوں گی۔ جسے عرف عام میں ’ہوم ڈلیوری‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    عابدہ جیلانی نے آج سے 15 سال قبل انٹرنیٹ کی مدد سے اپنا کاروبار شروع کیا اور ان خواتین کو ایک نئی راہ فراہم کی جو میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔

    اپنے شوہر کے انتقال کے بعد عابدہ جیلانی نے گھر بیٹھ کر اس مصیبت پر کڑھنے کے بجائے اپنے خاندان کا سہارا بننے کے لیے کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

    انہوں نے سلائی سیکھی اور 5 ہزار روپے سے کاروبار کا آغاز کیا۔ آج وہ پورے صوبے میں گھریلو مصنوعات کی نمائش کرتی ہیں۔

    عابدہ جیلانی کا کہنا ہے ایک عورت تتلی کے پروں کی طرح نرم اور فولاد کی طرح سخت ہوتی ہے۔ جب وہ ایک بار کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو سب کو اس کی صلاحییتوں پر یقین کرنا پڑتا ہے۔

    خیبر پختونخوا کے بعض علاقے سرمایہ کاری کے لیے موزوں ہیں جہاں خواتین کے عروسی ملبوسات، کڑھائی، بلاک پرنٹنگ، لحاف و دیگر اشیا کی مانگ زیادہ ہے۔ بعض خواتین نے اس آن لائن کاروبار کو مزید پھیلاتے ہوئے گھروں کی اندرونی سجاوٹ، دلکش فریمز، بالوں کے تیل، بیگز، جیولری اور میک اپ کے سامان کا کام بھی شروع کیا ہے اور اس کے لیے آن لائن پیجز بنائے ہیں۔

    یہ خواتین اپنے گھروں میں صرف خواتین کے لئے نمائش کا اہتمام بھی کرتی ہیں۔

    خیبر پختونخوا کے ادارہ اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی منیجر نبیلہ فرمان کا کہنا ہے کہ یہ سب خواتین کے مقامی و غیر ملکی کمپنیوں، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں تک رسائی کا نتیجہ ہے۔ اب حالات تبدیل ہورہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پختون خواتین کو پسماندہ سمجھا جاتا تھا اب وہ اپنے گھر میں بنائی ہوئی اشیا کو لیکر قومی مارکیٹ میں مقابلہ کر رہی ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں سے لوگوں کو متاثر کرنا چاہتی ہیں اور اس میں بالکل کامیاب دکھائی دے رہی ہیں۔



    ایک بچے کی بیوہ ماں رضیہ بانو نے ایک سلائی مشین کے ساتھ کام شروع کیا اور آج وہ اپنی بوتیک کی مالکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اتنی آسانی سے نہیں ہوا لیکن میں نے کبھی مشکلات سے ڈر کر ہمت نہیں ہاری۔

    ملائیکہ اورکزئی دبئی میں واقع ایک کمپنی کی نمائندہ ہے جو آئی لیشز فروخت کرتی ہیں۔ ملائیکہ نے کہا کہ خواتین کو اب دکانوں کے چکر لگانے کی زحمت نہیں کرنا پڑے گی۔ اب وہ اپنی مرضی کی چیزیں منتخب کرکے ویب سائٹ پر آرڈر دیکر سامان اپنے گھر میں وصول کرسکتی ہیں۔

    اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ جاوید اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایسی خواتین کی مالی معاونت اور تربیت دینے کے لیے اقدامات شروع کیے ہیں تاکہ وہ اپنا کاروبار بہتر انداز میں چلا سکیں۔

    کارانداز پاکستان نامی ادارہ بھی مختلف طریقوں سے ان خواتین کی مدد کرتا ہے جس میں ریسرچ، نئے رجحانات، ڈجیٹل پلیٹ فارم کی دستیابی اور مالی معاونت شامل ہے۔

    اسٹیٹ بینک نے خواتین کو کاروبار کے لیے 15 لاکھ تک کی امداد دینے کے لیے ’کریڈ گارنٹی‘ اسکیم شروع کر رکھی ہے۔

    علاوہ ازیں نشنل انکیوبیشن سنٹر پشاور بھی ان خواتین کو اپنا کاروبار بہتر انداز میں چلانے کے لیے ذاتی ڈجیٹل پلیٹ فارم قائم کرنے میں معاونت کرتا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں