1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی ساز وں کے عزائم

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از محبوب خان, ‏8 جولائی 2011۔

  1. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    روزنامہ جنگ

    پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی ساز وں کے عزائم...قاضی حسین احمد

    1980 میں زلمے خلیل زاد سے واشنگٹن میں میری ملاقات ہوئی ان دنوں وہ امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے ان کے افغان نژاد ہونے کے ناطے افغانستان کے مسئلے پر ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی ۔ ان دنوں امریکہ سویت یونین کو افغانستان میں شکست دینے کے لئے افغانستان کی اسلامی تحریک کے مجاہدین کی تعریف میں رطب اللسان تھا اور مغربی پریس مجاہدین کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا لیکن اندر ہی اندر ان کو یہ بھی تشویش تھی کہ مجاہدین کی یہ قوت کہیں خود مغربی طاقتوں کی بالادستی کے لئے خطرہ نہ بن جائے۔ زلمے خلیل زادنے ان دنوں میرے سامنے اس کی تصدیق کی کہ امریکی دانشوروں اور پالیسی سازوں میں کچھ لوگ ” فنڈامنٹلزم “ یااسلامی بنیاد پرستی کومغربی تہذیب و ثقافت کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور ان میں سے کچھ دوسرے لوگ اسے کمونزم کے بعد دوسرا بڑا خطرہ سمجھتے ہیں لیکن سب کے سامنے فنڈامنٹلزم یا بنیا د پرستی خطرہ ہے اور امریکیوں میں ان کا حقیقی دوست کوئی بھی نہیں ہے۔
    زلمے خلیل زاد کے اس تبصرے کی تصدیق ان دنوں ایک پاکستانی پروفیسر نے کی جنہیں امریکی دانشوروں کے ایک بڑے اجتماع میں شرکت کا موقع ملا تھا اور سینکڑوں دانشوروں اور پالیسی سازوں کے اجتماع میں شاید یہ واحد مسلمان تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک با اثر اور ممتاز امریکی دانشور تقریر کرتے ہوئے فرما رہا تھا کہ فنڈامنٹلسٹوں یا اسلامی بنیاد پرستوں کی مثال سانپوں کی ہے ۔ ان میں مختلف رنگوں اور شکل و صورت کے سانپ پائے جاتے ہیں ۔ کچھ کم زہر یلے اور کچھ زیادہ زہریلے لیکن یہ سب ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ۔ لہذا ان میں دوست تلاش کرنا لا حاصل ہے ان کا قلع قمع کرنا ہی ان کا علاج ہے ۔انہی دنوں ایک فرانسیسی جرنلسٹ پشاور میں میرے گھر پر میرا انٹرویو لے رہا تھا اور مجھے محسوس ہواکہ وہ مستقبل میں اسلامی بنیاد پرستی کے فروغ سے پریشان ہے تو میں نے اسے کہا کہ فی الحال دور دور تک کہیں اس کا امکان نہیں ہے کہ اسلامی بنیاد پرست مغرب کیلئے خطرہ بن جائیں آپ کو فوری خطرہ کمونزم کے پھیلاؤ سے ہے اگر افغانستان پر سویت یونین کا قبضہ ہو جائے تو خلیج اور سویت یونین کے درمیان صرف بلوچستان کا صحرا ہے جہاں سویت یونین کے پیش رفت کو کوئی روکنے والا نہیں ہے اور سویت یونین اگرا یک دفعہ خلیج کے کنارے تک پہنچ جائے تو تیل کے سر چشمے جو مغربی ممالک اور جاپان کی شہ رگ ہے اس کی گرفت میں آجائیگی جہاں سے اس کا ہٹانا ناممکن ہوگا لہذا آپ کو اس فوری خطرے کی فکر ہونی چاہئے اسلامی بنیاد پرستی کا خطرہ اگر کوئی ہوگا بھی تو اس میں کم از کم پچاس سال لگیں گے اس پر فرانسیسی صحافی مجھے کہنے لگا کہ اگر آپ کو پچاس سال بعد اسلامی بالا دستی کا امکان نظر آرہاہے تو ہمیں بھی پچا س سال بعد آنے والے خطرے کی پیش بندی کرنے کا حق حاصل ہے۔
    انہی دنوں امریکہ کے سابق صدر نکسن نے امریکی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ سویت یونین کی حکومت کے ساتھ باہمی مشترکات پر گفتگو کی جائے اور باہمی مشترکا ت میں اہم ترین وہ خطرہ ہے جو سویت یونین اور مغربی ممالک دونوں کو اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی بنیاد پرستی یا اسلامی فنڈامنٹلزم سے درپیش ہے۔
    1990 کی بات ہے کہ ایک مغربی صحافی نے فنڈامنٹلزم یا اسلامی بنیاد پرستی کے حوالے سے مجھ سے استفسار کیا کہ اس کے بارے میں آپ کا کیا رویہ ہے میں نے اس سے جواباً پوچھا کہ اسلامی بنیادپرستی سے ان کی مراد کیا ہے اس نے کہا کہ جو لوگ قرآن کریم کے متن کے مطابق ہو بہو عمل کرنا چاہتے ہیں ہمارے خیال میں وہ بنیاد پرست ہیں اس پر میں نے کہا کہ آپ کو کوئی بھی مسلمان جو چاہے نام کا مسلمان ہی کیوں نہ ہو ایسا نہیں ملے گا جو کہے کہ میں قرآن کریم کی نص(Text) کے مطابق عمل کرنے کو لازمی نہیں سمجھتا میں نے اسے چیلنج کیا کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں اسے جو سب سے بڑھ کر سیکولر اور لادین پارٹی نظر آتی ہے اسی کے کسی لیڈر کو کہیں کہ وہ عوام کے سامنے یہ کہنے کی جرأت کرے کہ وہ قرآن کریم کے نص (Text) کے مطابق عمل کرنا کسی مسلمان کے لئے ضروری نہیں سمجھتا۔
    مغربی دنیا نے اب بنیاد پرستی یا فنڈامنٹلزم کی اصطلاح چھوڑ کر انتہا پسندی (Extremism) عسکریت پسندی (Militancy) اور شدت پسندی (Violence) کی اصطلاحات اپنا لی ہیں اور اسلام کے خلاف جنگ کو (War against Terror) کا نام دیدیا ہے۔
    زلمے خلیل زاد نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک حالیہ مضمون میں امریکی صدر بارک اوباما کو کچھ مشورے دیئے ہیں یہ مضمون دی نیوز (The news) کے منگل 5 جولائی 2011 ء کی اشاعت میں صفحہ 9 پر نقل کیا گیا ہے۔پاکستانی پالیسی سازوں ، افواج پاکستان اور وزارت خارجہ کے افغان امور کے ماہرین کے لئے ضروری ہے کہ اس مضمون کے مندرجات کا بغور جائزہ لے کر امریکی حکومت کے ارادوں کو بھانپ لیں ۔ اس مضمون میں امریکہ کے مستقبل کے ارادوں اور پاکستان کے لئے چھپے ہوئے خطرات کی جھلک نظر آتی ہے۔
    پاکستان کی فوج پر الزام ہے کہ افغانستان کے اسلامی عسکریت پسندوں Islamic Militants خاص طور پر حقانی نیٹ ورک اورحزب اسلامی سے اس کے قریبی روابط قائم ہیں اور ان روابط کو ختم کئے بغیر ڈرون حملے اور Target Killing بھی کارگر ثابت نہیں ہو سکتے۔
    زلمے خلیل زاد نے افغان حکام کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ طالبان ، حقانی نیٹ ورک اور حزب اسلامی کی مدد کرنے والے پاکستانی اہلکاروں کی تعداد میں گزشتہ سال اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کے مقاصد بیان کرتے ہوئے افغان نژاد امریکی ڈپلومیٹ نے کہا ہے کہ ایک مضبوط افغان حکومت کو جو ہندوستان کے قریب ہو، پاکستان خطرہ سمجھتا ہے کہ وہ سرحدی جھگڑوں میں پاکستان پر دباؤ ڈالے گی اور کنڑسے آنے والے دریائے کابل پر ڈیم بنا کر پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کا رخ موڑ دیگی اور پاکستان میں علیحدگی پسند وں کی پشتیبانی کرے گی۔
    پاکستانی حکام سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں انتہا پسندوں کی مدد کر کے وہ امریکہ کو افغانستان میں الجھا سکتی ہے اور اس طرح اسے پاکستان کی زیادہ سے زیادہ سول اور ملڑی مدد پر مجبو ر کر سکتی ہے۔ایک مضبوط بھارت نواز افغان حکومت کی بجائے پاکستانی فوج کی کوشش ہے کہ افغانستان میں ایک پاکستان نواز حکومت قائم کرے جو افغان ڈپلومیٹ کے مطابق وسط ایشیاء تک پہنچنے اور وسط ایشیاء کے علاقے پر تسلط قائم کرنے کی طرف اس کا پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔اس کیلئے وہ ایک بھونڈ ی دلیل لاتا ہے کہ ہرات پر مجاہدین کا قبضہ ہونے کے بعد ISI کے سابق افسرکرنل سلطان امیر تارڑ جو کرنل امام کے نام سے مشہور تھے نے اپنے ہیڈ کوارٹر کو یہ پیغام دیا ”آج ہرات اور کل تاشقند“ "Today Herat tomorrow Tashkent" ۔
    پاکستان کے تمام امریکی نواز اقدامات کے باوجود امریکہ پاکستان پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور پاکستان پر الزام لگا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان اور عسکریت پسندوں کی مدد کر کے افغانستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی تیاریاں کر رہاہے اور امریکی افواج کے انخلاء کے ساتھ اس کی یہ کوششیں مزید تیز ہونگی لہذا امریکی حکومت کو متبادل طریقے اختیا رکر کے پاکستان کی حکومت اور فوج کو بے دست و پا کرنے کیلئے حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے۔اس کیلئے امریکہ پاکستان کو IMF کی جکڑ بندیوں میں جکڑ کر اقتصادی طورپر مفلوج کرنا چاہتا ہے۔پاکستان کی بجائے وسط ایشیاء کے راستوں سے امریکی افواج کو رسد پہنچانے کی کوششوں کو مزید تیز کرے گا۔
    ان منفی اقدامات کے ساتھ ساتھ افغان ڈپلومیٹ نے بظاہر کچھ مثبت اقدامات بھی تجویز کئے ہیں جن میں پاکستان ،افغانستان اور بھارت میں قریبی مفاہمت اور آپس کے جھگڑے ختم کروانے کے لئے امریکی اثرو رسوخ کا استعمال بھی شامل ہے۔لیکن حقیقت میں یہ بظاہر مثبت اقدامات ان منفی اقدامات سے زیادہ خطرناک ہیں جو امریکہ پاکستان کے بازومروڑنے کے لئے کرر ہاہے۔ ان اقدامات میں پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو کمزور کرنا پاکستان کے اسلامی نظریےٴ کی بجائے اس پر سیکولر نظریہٴ مسلط کرنا اور بھارت پاکستان اور افغانستان کی مفاہمت کے نام پر پاکستان کو کشمیر سے دستبردار کرنا اور اس کی ایٹمی طاقت کو اپنی گرفت میں لینا شامل ہے۔
    ایک تجویز یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ان عناصر کو تقویت پہنچائی جائے جو پاکستان کے بنیادی نظریےٴ اور فوج کو کمزور کر کے پاکستان کو ایک سیکولر اور لادینی ریاست بنانا چاہتے ہیں اس تجویز پر کام امریکہ نے پہلے ہی شروع کر دیاہے اور علیحدگی پسندوں اور سیکولر لادین قوتوں کے ساتھ امریکی تعاون کے مظاہر پوری قوم کے سامنے ہیں۔
    پاکستان کو قابو کرنے کے لئے ہندوستان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا اور پاکستان میں اسلامی قوتوں کے مقابلے میں لادینی قوتوں کو تقویت دینا اور پاکستانی فوج کو کمزور کرنا اس کے لمبے عرصے کی منصوبہ بندی میں شامل ہے حال ہی میں امریکی سفارت خانے میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں پاکستان میں ہم جنس پرستی کی سرپرستی کرنے اور مغربی ممالک کے ہم جنس پرستوں سے ان کے قریبی تعلقات قائم کرنے کی یقین دہانی کی گئی تھی ۔بنیادی حقوق کے نام سے اسلامی قوانین کے مقابلے میں اس قسم کی شرمناک تقریبات کا انعقاد اسلام دشمن قوتوں کے بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہّ ہے جس کیلئے وہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کوبھی استعمال کر رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی پاکستان کے اندر تخریبی قوتوں کی پشتیبانی بھی پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم پر دباؤ ڈالنے کے امریکی حربے ہیں جن کے مقابلے میں متبادل حکمت عملی بنانا پاکستانی قوم ، فوج اور حکومت کا فرض ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں