1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کا منشور

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از محسن ندیم, ‏10 مارچ 2013۔

  1. محسن ندیم
    آف لائن

    محسن ندیم ممبر

    شمولیت:
    ‏24 نومبر 2011
    پیغامات:
    196
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
  2. محسن ندیم
    آف لائن

    محسن ندیم ممبر

    شمولیت:
    ‏24 نومبر 2011
    پیغامات:
    196
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
  3. محسن ندیم
    آف لائن

    محسن ندیم ممبر

    شمولیت:
    ‏24 نومبر 2011
    پیغامات:
    196
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
  4. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    یہ صرف الیکشن کے لئے ہے ورنہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت گزشتہ پانچ سال سے ہے ۔پانچ سالوں میں کیا ہوا ہے سب کے سامنے ہے
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    نواز شریف کو اصولا منشور نہیں بلکہ پنجاب کے 5 سالوں کا حساب دینا چاہیے۔
    پنجاب کو ماڈل صوبہ قرار دینے والے بتائیں کیا پنجاب میں بجلی وافر مقدار میں دستیاب ہے؟ کیا یہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ؟
    کیا سیالکوٹ و فیصل آباد میں صنعتی تباہی کی ذمہ دار مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت نہیں؟
    کیا جھنگ، چنیوٹ و ڈی جی خان میں دہشت گردوں کی سرپرستی پنجاب حکومت نہیں کررہی ؟

    اپنے کسی چمچے سے لکھوائے ہوئے منشور کو میڈیا کے سامنے پڑھ دینا لیڈرشپ کی نہیں "طوطے" کی علامت ہوتی ہے۔
    مزہ تو جب ہے جب اگلی پریس کانفرنس میں ان تمام نکات پر صحافی برادری کے سوالوں کا زبانی جواب فراہم کریں۔ نواز شریف صاحب کی گھگی بندھ جائے گی۔

    فرمانِ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا "۔۔۔۔ نواز شریف اینڈ فیملی کمپنی اور زرداری بھٹو اینڈ فیملی کمپنی کو بار بار ووٹ دینے والے ذرا اس حدیث پاک پر بھی غور کریں۔
    شکریہ
     
    احتشام محمود صدیقی اور محسن ندیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    لیکن مسئلہ تو وہاں پر آتا ہے جب کسی کے سامنے صرف چند ہی راستے ہوں۔ ایک راستہ بڑی برائی کے ساتھ لے جاتا ہے۔ اور دوسرا راستہ چھوٹی برائی کے ساتھ جاتا ہے۔ اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ جس پر چل کر منزل تک پہنچا جا سکے۔ ایسی وقت میں کس راستے پر سفر کرنا بہتر ہوگا۔ یا سفر کرنے کا ارادہ ہی ترک کر دینا چاہیے
     
  7. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    اب پنجاب کو لوٹ رہے ہیں ۔اگر اقتدار مل گیا تو زرداری کی طرح پورے پاکستان کو لوٹیں گے
     
  8. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اگر بطور مسلمان اس کا جواب سمجھنا ہے تو پھر تو اسلام چھوٹی یا بڑی برائی میں سے کسی بھی طرف جانے سے منع کرتا ہے۔ یہ چھوٹی بڑی برائی کا فلسفہ دراصل انہی سیاستدانوں کا پیداکردہ ہے تاکہ قوم کو یہ باور ہوجائے کہ ان دو کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں۔
    ورنہ اسی قوم کے سامنے 1990 ، 2002 میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک کی صورت میں تعلیم یافتہ اور باکردار افراد سامنے لائے گئے تھے جنہیں اسی قوم نے ووٹ کے اہل ہی نہ سمجھا۔ یا جہاں جہاں سمجھا گیا وہاں پر دھاندلی کا ایسا جھرلو پھیرا گیا کہ عالمی مبصرین بھی انگشت بدنداں رہ گئے کہ ویران پولنگ سٹیشنوں کے ڈبوں سے 20، 20 ہزار ووٹ کیسے نکل آئے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔
    لیکن ہمیں دراصل جمہوریت کا وہی چہرہ ، وہی معنی بتایا اور سمجھایا گیا جو ان چور اچکے لٹیرے سیاستدانوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ وگرنہ بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک میں ووٹ پرچی پر امیدواروں کی لسٹ کے نیچے ایک آپشن یہ بھی درج ہوتی ہے۔
    اگر آپ مندرجہ بالا امیدواروں میں سے کسی کو اپنے ووٹ کا اہل نہیں سمجھتے تو یہاں نشان لگائیں۔

    جس سے ان نظام سے بیزاری کی شرح خود بخود سامنے آجاتی ہے۔ چھوٹی بڑی برائی کے فلسفے میں تو یہ قوم ہمیشہ سے پھنسی رہی ہے ۔ پھنسی رہے گی ۔ کیونکہ آجکل انصاف کی علمبردار ایک جماعت نے بھی آئین کے آرٹیکل 62، 63 کے کامل نفاذ کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔ یہ فرما کر کہ امیدوار کا ایماندار ہونا، اچھا مسلمان ہونا یہ سب غیر ضروری ہے صرف ٹیکس کے گوشوارے جمع کروا دے تو یہی بہت ہے۔ اسکے علاوہ اگر اس میں ایک اچھے مسلمان کی خوبیاں نہ بھی ہوں تو یہ آئینی تقاضا نہیں ہے۔ گویا یہاں بھی بڑی برائیوں کے مقابلے میں ایک چھوٹی ترین برائی کو ہی قبول کرنے کا درس دیا جارہا ہے۔

    ایک رستہ یہ بھی ہے کہ ظلم کے سارے نظام سے ہی بغاوت کرڈالی جائے۔ وہ نظام جس نے گذشتہ 60 سالوں سے سوائے مایوسی، غربت، خود کشیوں، دہشت گردی، بدامنی، اور ملکی سلامتی کے خطرات کے سوا اس ملک کو کچھ نہیں دیا۔
    اگر عوام کی اکثریت اس ظالمانہ، کرپٹ نظام سے کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینک کر ایسا نظام انتخاب اور نظام سیاست سامنے لے آئے جس کے ذریعے نیک، دیانتدار، اہل ، تعلیم یافتہ اور معاشرے کے شریف و باکردار لوگ پارلیمنٹ تک پہنچ جائیں تو پھر ہمیں بدتر میں سے بد کا نہیں بلکہ بہتر کے مقابلے میں بہترین کا انتخاب کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
     
  10. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    لیکن اس نہج تک پہنچنے کے لئے تو قوم کی تیار کیا جاتا ہے۔ کبھی بھی کسی قوم نے خود بخود اٹھ کر ایوانوں پر قبضہ نہیں کیا اور انقلاب نہیں لایا۔
    آپ نے طاہر القادری کی مثال دی۔ آپ خود ہی دیکھ لیں کہ اس چھوٹے سے فورم پر اس کے معتقدین اور معترضین کی تعداد کتنی ہے۔
    تو پورے ملک کی اعتراضات کرنے والے کتنے ہوں گے۔
    بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات کے لئے یا حکومت کے حصول کے لئے ایک دوسرے کا دروازہ کھٹکا سکتی ہیں اور حکومتیں بنا سکتی ہیں ۔ تو پھر ہمارے طاہر القادری، مولانا فضل الرحمان، منور حسین اور دیگر مذہبی جماعتیں جن کا منشور صرف ایک اللہ کی حکمرانی ہے اور قرآن ہی کو دستور بنانا مقصد ہے۔ کیوں نہیں اکٹھی ہو سکتیں۔
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محترم نصراللہ بھائی ! آپ نے فرمایا کہ انقلاب کے لیے قوم تیار کی جاتی ہے۔ درست فرمایا لیکن اس تیاری کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔
    ڈاکٹر طاہرالقادری نے 30-32 سالہ جدوجہد کے نتیجے میں تیاری کا بہت بڑا کام کرلیا ہے۔اب اگلے مرحلے کی طرف گامزن ہیں۔
    اگر غیرجانبداری سے جائزہ لیا جائے تو 23 دسمبر 2012 کا مینار پاکستان کا جلسہ پاکستان کی تاریخ کا شاید سب سے بڑا یا بڑے ترین جلسوں میں سے ایک تھا جس میں بقول ڈاکٹر دانش اور مبشر لقمان وغیرہ ملینز کی تعداد میں لوگ شریک تھے۔
    لانگ مارچ اسلام آباد پر تو ڈاکٹر طاہرالقادری کے ناقدین سمیت عمران خان، اعتزاز احسن، ایاز میر، انصار عباسی و کامران خان وغیرہ تسلیم کرچکے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا لانگ مارچ تھا اور دورانیہ کے اعتبار سے بھی سب سے بڑآ لانگ مارچ تھا۔
    اسکے علاوہ ہمیں یہ ازلی حقیقت بھی کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ حق کا معیار معتقدین یا معترضین کی تعداد سے کبھی متعین نہیں ہوتا ۔ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ اہل حق ہر دور میں ظاہری تعداد کے اعتبار سے کم ہی رہے ہیں۔ اور پھر 65 سالہ غیرمنصفانہ و ملک دشمن نظام کے خلاف یہ ابتدائی کاوشیں ہیں۔ ہر کام کی ابتدا تھوڑے سے ہوتی ہے۔
    ہم اکیلے ہی چلے تھے جانبِ منزل مگر
    لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔

    اس لیے یہ کہنا کہ اس فورم پر ناقدین کم یا زیادہ ہی معیار ہے تو ایسی بات نہیں ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اگر انقلابات زمانہ کا مطالعہ کریں تو اس میں بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انقلاب کوئی شب بھر یا ہفتہ و مہینوں کا کھیل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے معروضی حالات کے مطابق طویل عرصہ درکار ہوسکتا ہے۔ ماوزے تنگ کی انقلابی جدوجہد 4 عشروں پر محیط ہے جبکہ مرحلہ انقلاب میں داخل ہونے کے بعد کم و بیش 1 سال تک احتجاجی تحریک (لانگ مارچ) ہوتا رہا ۔۔۔
    انقلاب ایران کی مثال لی جائے تو امام خمینی سے بھی پہلے کم و بیش 30 سال امام خمینی کے والد نے انقلاب کے لیے تیاری شروع کرلی تھی ۔ انکے بعد امام خمینی نے 40 سال جدوجہد کی ۔ یعنی کم و بیش 70 سال کی جدوجہد کے بعد انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا جس میں امام خمینی کی جلاوطنی سمیت ظلم و ستم کی بےشمار مثالیں موجود ہیں۔
    جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس نظام کے خلاف قوم کو بیدار کرنے کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز چند ماہ قبل شروع کیا ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    آپ کی تحریر کے آخری جملے کے حوالے سے میں معذرت کے ساتھ شدید اختلاف رکھتا ہوں۔ معاف کیجئے گا نصراللہ بھائی ۔
    محض داڑھی رکھنے یا مخصوص حلیہ بنانے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ فلاں جماعت یا صاحب کا منشور کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن یا جماعت اسلامی کو اگر کوئی خالصتا "اللہ کی حکمرانی نافذ کرنے والی جماعتیں " سمجھتا ہے تو یہ اسکی اپنی سادگی ہے وگرنہ ان جماعتوں کے سابقہ کردار سے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یہ جماعتیں کئی عشروں سے کسی نہ کسی طور پر اقتدار کے مزے لوٹتے رہی ہیں لیکن انہوں نے اپنے سے بڑی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرکے محض اپنے مفادات تو منوائے ہیں ۔ شریعت اسلامیہ کی سچی حکمرانی کے لیے ایک مطالبہ بھی نہیں منوایا۔
    اور ابھی کچھ دن پہلے مولانا منور حسن صاحب نے بیان دیا کہ آئندہ الیکشن میں کسی سے اتحاد نہیں ہوگا بلکہ ہر صوبے اور علاقے میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی ۔۔ کیا مطلب ؟؟؟ مطلب یہ ہے کہ اب کوئی نظریہ، کوئی منشور، کوئی مقصد باقی نہیں ۔ واحد مقصد زیادہ سے زیادہ اسمبلی سیٹیں حاصل کرنا ہے چاہے قوم پرستوں کے ساتھ رہ کر ہو، چاہے سیکولر و بےدین جماعتوں کے ساتھ، چاہے سوشلسٹوں کے ساتھ اور چاہے علیحدگی پسندوں یا دہشت گرد مافیا کے ساتھ مل کر حاصل ہوں۔
    مولانا فضل الرحمن کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ جنہوں نے اپنے والد مفتی محمود کا نام خوب مٹی میں ملایا ہے۔ جہاں سے چند ٹکوں کی بھیک مل جائے وہاں ڈرون حملوں پر بھی خاموشی، وہاں شریعت بھی غائب اور اصولوں پر بھی تین حروف ۔۔۔
    ڈاکٹر طاہرالقادری تو چونکہ اس نظام انتخاب کے باغی ہیں جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی طرف سے مختلف پیش کشوں کے باوجود انہوں نے چوردروازوں سے اقتدار حاصل کرنے کے راستوں کو مسترد کردیا ہے۔ اور اسی وجہ سے آج تک وہ ایک پریشر گروپ کے طور پر بھی سامنے نہیں آئے بلکہ 2002 کے الیکشن میں صرف ایک اپنی سیٹ حاصل کرسکے اور وہ بھی کچھ عرصہ بعد جب جمہوری و آئینی اصول کی خلاف ورزی کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے اسمبلی کی سیٹ پر لات مار کر پاکستانی کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ استعفی دے کر ثابت کیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اصولوں کی پاسداری میں بڑی سے بڑی قربانی دے سکتا ہے۔
    آخری بات یہ ہے کہ "اللہ کی حکمرانی " کیا ہے ؟ کیا صرف ہاتھ کاٹنے یا کوڑے مارنے کا عمل اللہ کی حکمرانی ہے؟ نہیں ۔ ہرگز نہیں۔
    بلکہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق سماجی انصاف، معاشی بہبود، پرامن معاشرہ اور فلاحی ریاست ہی "اسلامی ریاست" ہے۔ یہی اللہ کی حکمرانی ہے۔
    پاکستان کا موجودہ آئین "اسلام کے خلاف" ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ آئین کے دیباچے میں ابتدائی سطور میں واضح درج ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اللہ کی حکمرانی ہوگی جو کے پاکستان کے عوام کے ذریعے ہوگی ۔
    اسی طرح شاید چند ایک کلاز کو چھوڑ کر باقی سارے کا سارا آئین اسلامی ہے۔ مقصد صرف اسکا کما حقہ نفاذ ہے۔ اور اسکا نفاذ کرنے کے لیے نیک نیت، ایماندار ، اہل اور محب وطن افراد کا پارلیمنٹ پہنچنا ناگزیر ہے۔ جبکہ موجودہ کرپٹ نظام انتخابات صرف کرپٹ، ٹیکس چور، غنڈہ گرد، دہشت گرد اور قرضے ہڑپ کرنے والے کروڑپتی کو تو اسمبلی تک پہنچنے دیتا ہے لیکن کسی اہل، شریف ، دیانتدار کے لیے یہ نظام سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔
    ڈاکٹر طاہرالقادری اسی لیے آئین پاکستان کی شق 62، 63، اور 218 کے عملی نفاذ کا مطالبہ کررہے ہیں کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے انتخابات کروا کے ملک کو باصلاحیت، شریف، دیانتدار ، تعلیم یافتہ اور باکردار پارلیمنٹ فراہم کی جاسکتی ہے۔
    وگرنہ جو کچھ پچھلے 5 سالوں میں ہم نے جھیلا ہے۔ اگلے 5 سالوں میں اس سے بھی بدتر جھیلنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
    اور ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کرپٹ ، بدعنوان اور نااہل بلکہ ننگِ وطن سیاستدانوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے اور ان میں سے کسی کے اندر اتنی اہلیت نہیں کہ ملک کو موجودہ مسائل کے گرداب سے نکال سکے۔
    اسکے لیے ہمیں اہل، صالح ، اعلی تعلیم یافتہ اور باکردار قیادت کے ساتھ ساتھ منصفانہ نظام بھی درکار ہے۔
     
    نصراللہ نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں