1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستانی جمہوریت ۔ ایک مذاق۔ انتخابی نظام بدلنا ہوگا

Discussion in 'حالاتِ حاضرہ' started by نعیم, May 5, 2012.

  1. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستانی جمہوریت : ایک مذاق
    سحر ہونے تک ۔۔ از ۔۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان​

    مغربی ممالک کی تقلیدمیں ہم نے جمہوری نظام اختیار کرلیا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں، ہمارے عوام میں تعلیم کا فقدان یا کمی اور ہماری قوم اور ملک میں خاندانی، صوبائی روایات نے اس نظام کو بالکل ناکام بنا دیا ہے۔ شاید علامہ اقبال نے اپنی دُوراندیشی سے اس چیز کو محسوس کرلیا تھا اور کہا تھا:
    گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شَو
    کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید​
    یعنی ”قدیمی غلام جمہوری نظام سے دور رہ کیونکہ دو سو گدھوں کی عقل انسانی عقل کے برابر نہیں ہوسکتی“۔ ایک اور جگہ ووٹر کی نااہلی بیان کی ہے۔ ”بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے“ تولنے سے مطلب ان کی عقل و فہم و تعلیم کو مدّ ِنظررکھنا اور اہمیت دینے سے ہے
    بدقسمتی سے وہ نظام مغربی ممالک میں کثرت تعلیم اور سمجھ بوجھ کی وجہ سے کامیاب ہوا وہ تمام غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بالکل ناکام رہا۔ ہندوستان اور پاکستان میں تو یہ ایک مذاق بن گیا ہے۔
    مغربی ممالک میں یا دوسرے چند ممالک میں جہاں جمہوری نظام کامیاب رہا ہے وہاں شرح خواندگی یعنی پڑھے لکھے عوام کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان ممالک میں عموماً تین چار سیاسی پارٹیوں سے زیادہ پارٹیاں نہیں ہوتی ہیں اور الیکشن کے بعد نفاق ختم ہوجاتا ہے۔ جہاں ملکی مفاد ہو وہ سب مل جاتے ہیں خواہ یہ قانونی ہو یا غیر قانونی سب ایک ہیں۔ اندرونی معاملات پر اختلاف ہوں تو یہ کشتی پارلیمنٹ میں لڑی جاتی ہے۔ آپکے سامنے بش کے الیکشن کی مثال موجود ہے۔ سن دو ہزار میں جو الیکشن ہوئے تھے اس میں یہ ہار گیا تھا اور آخری ریاست میں دوبارہ گنتی اس کی یقیناً شکست کا باعث بن جاتی لیکن سپریم کورٹ نے جس کے کئی جج اس کے باپ نے دس سال پیشتر متعین کئے تھے اس کے حق میں فیصلہ دے کر دوبارہ گنتی رکوادی اور اس طرح اَل گور جیتا ہوا الیکشن ہارگیا۔ یہ تبدیلی توڑ پھوڑ یا ہڑتالوں سے نہیں آئی بلکہ قانون کے ذریعہ آئی۔ اگرچہ لوگ اس سے ناراض تھے لیکن کسی نے قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔
    ہمارے ملک میں جمہوریت نام کا پرندہ عنقا ہے ۔ یہ پرندہ بے چارہ غلام محمد کے ہاتھوں 1953 میں قتل ہوا اور دفن ہوگیا۔ اس وقت سے صرف نام نہاد جمہوریت رہی ہے جو بھی حکمران بنا اس نے یک شخصی حکومت قائم کی، درباریوں کا جمگھٹا لگایا اور من مانی کی۔ مخالف لوگوں کو جیلوں میں ڈالا، قتل کرایا اور تمام سرکاری ادارے اسی کام میں لگا دیے۔ بدقسمتی سے متاثرین کو عدلیہ سے بھی کوئی ریلیف نہیں ملا۔ کہانی غلام محمد سے شروع ہوئی اور اسکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو، ضیاء الحق، بینظیر، نواز شریف، مشرف اور اب زرداری اور گیلانی تک جاری ہے۔ صرف دکھاوے کے لئے تھوڑا سا میک اپ بدل جاتا ہے اور حکمران عوام کی ضروریات اور خواہشات کی پروا کئے بغیر من مانی کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ ربر اسٹیمپ ہے اور مخالف پارٹیاں ذاتی مفاد اور خودغرضی کاشکار ہیں اور ”دوستانہ مخالفت“ کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں۔ عوام کی خواہشات کو تو چھوڑیے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا کھلے عام مذاق اور تمسخر اُڑایا جارہا ہے ۔ ان پر عمل نہیں ہورہا اور عدلیہ بھی خاموش تماشائی ہے اور سخت اقدام نہیں اُٹھاتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام مصیبتوں اور ظلم کا شکار ہیں۔
    ہمارے ملک میں جمہوری نظام کے قیام اور موجودگی کے بارے میں بھنگڑے تو ڈالے جاتے ہیں لیکن کسی بھی پارٹی میں جمہوریت کا وجود نہیں۔ تمام ماتحت لوگ پارٹی کے سربراہ کی مرضی کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتے اور نہ ہی بول سکتے ہیں اور اپنے سربراہوں کے ہر جائز، ناجائز کام کی حمایت میں میدان میں کود جاتے ہیں اور ترجمان بن جاتے ہیں۔ آپ ہر پارٹی میں دیکھ لیجئے، جس نے اختلاف کی جرأت کی وہ راندہ درگاہ اور گمنام ہوگیا۔ یہی قانون پی پی، نواز لیگ، ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی سب ہی پارٹیوں میں نافذ ہے۔
    آپ جمہوری نظام اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کی مثالیں دیکھ لیجئے کہ حکومت ان کی کیا قدر کرتی ہے۔ اسی نام نہاد جمہوری حکومت کی جمہوری پارلیمنٹ نے متفقہ قرار داد منظور کی کہ ڈرون حملے بند کئے جائیں کہ یہ خود مختاری کے خلاف ہیں، بے گناہ افراد مارے جارہے ہیں اور ہماری فضائی سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ایک اٹھارہ کروڑ کی آبادی والا ملک جو ایٹمی اور میزائل قوت بھی ہے وہ ایک بنانا ری پبلک بن گیا ہے۔ لاکھوں افراد پر مشتمل فوج جو ہر سال اربوں روپیہ اپنے اوپر خرچ کراتی ہے اور اپنے حلف کے تقدس کا لحاظ نہیں رکھتی اور ہمیں تو صرف انہیں اپنے ہی افراد کو قتل کرتے دکھایا جاتا ہے اور اس کے صلہ میں تمغے اور ترقیاں ملتی رہتی ہیں اور باہر کے دورے لگتے رہتے ہیں۔ عام انسان دیکھے تو کس جانب دیکھے ۔ حکومت ہر طرح کے ظلم اور بدانتظامی کی مرتکب ہے اور عدلیہ اور افواج پاکستان خاموش تماشائی ہیں۔ لوگ انقلاب کی بات کررہے ہیں۔ ہمارے مختلف صوبوں، مختلف کردار کے عوام کی وجہ سے یہ مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر کسی مسیحا نے یہ کام کردیا تو سب ”چرخ کہن“ نیست و نابود ہوجائے گا اور ایران والا واقعہ دہرایا جائے گا۔
    ہمارے بے چارے سیدھے سادھے عوام کی اکثریت کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے وہ تماشہ بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے ملک کی حکمران پارٹی اور اپوزیشن پارٹیوں نے عوام کو بیوقوف بنانے کے نِت نئے طریقہ جات ایجاد کر لئے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں دھواں دھار تقریریں کرتی ہیں۔ اپنے ڈیمانڈ (شرائط) زور شور سے پیش کرتی ہیں اور پھرچپ چاپ حکومت سے مل کر وہی حلوہ پوری۔ حکومت جب کوئی کام پارلیمنٹ سے کرانا چاہتی ہے تو ملی بھگت کے تحت اپوزیشن پارٹیاں نام نہاد احتجاجی واک آؤٹ کرکے حکومت کو کھلی آزادی دے دیتی ہیں۔ جس طرح روس اور چین نے سیکیورٹی کونسل میں ووٹ میں شرکت نہ کرکے امریکہ اور اس کے حواریوں کو جواز مہیا کیا کہ وہ لیبیا پر جارحانہ حملے کریں، تباہی پھیلائیں اور قتل عام کریں۔ جمہوریت کو بچانے کا ڈھونگ رچانے والی ن۔لیگ جمہوریت کے قتل کا وسیلہ بن کر کرپٹ اور نااہل حکومت کو موقع دیتی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔ یہی وتیرہ ایم کیو ایم نے اختیارکر رکھا ہے۔ اگرچہ پی پی پی حکمراں جماعت ہونے کی وجہ سے خرابیوں کی جڑ ہے مگر ن۔لیگ، ایم کیو ایم اور اے این پی بھی فرشتے نہیں ہیں۔ ان پر بھی ان خرابیوں کی بڑی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے۔
    مڈٹرم الیکشن کی بات ہوتی ہے تو سب ہی حلوہ پوری کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ مڈٹرم الیکشن سے نہ ہی ملک کی بنیادیں ہلتی ہیں اور نہ ہی کمزور ہوتا ہے۔ ابھی ہمارے سامنے آسٹریلیا، جاپان، کینیڈا کی مثالیں ہیں۔ یورپ کے کئی ممالک میں باقاعدگی سے مڈٹرم الیکشن ہوتے رہتے ہیں اور اس عمل سے جمہوریت بے حد مضبوط ہے نا کہ کمزور۔
    ہمارے ملک کے نااہل اصحاب اقتدار یہ فضول گوئی کرتے ہیں کہ ٹیکنوکریٹ عوام کے حالات نہیں جانتے اور ان کے مسائل کو حل نہیں کرسکتے۔ انہیں یہ جاننا چاہئے بلکہ سمجھناچاہیئے (اگر سمجھنے کی ان میں صلاحیت ہوتو) کہ ہم لوگوں کو تمام تربیت مشکل سے مشکل پرابلم کو ہر زاویہ سے دیکھنے، ا س کو جلد آسان طریقہ سے اور کفایت شعاری سے حل کرنے کی دی جاتی ہے۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں اسکی ترقی و خوشحالی کی بنیاد ٹیکنوکریٹ ہی رکھتے ہیں۔ سیاست دان ان کی محنت و مشقت کا پھل کھا کر عیاشی کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے دورے کرتے ہیں، مہنگی گاڑیوں اور بنگلوں میں رہتے ہیں۔ میں نے ملک کو اپنے رفقائے کار کی مدد سے ایٹم بم اور ان کو دشمن کے علاقہ میں ہدف تک پہنچانے کیلئے میزائل مہیا کئے، کیا میرے پرانے رفقائے کار عیاشی کررہے ہیں یا نااہل، راشی حکمران اس ملک کولوٹ رہے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تمام ترقی ، خوشحالی معاشی، ٹیکنوکریٹس کی مرہون منت ہے مگر جہاں حکمرانوں میں تعلیم ، عقل و فہم اور دور بینی کا فقدان ہو وہاں یہ اہم بات کہاں سمجھ میں آسکتی ہے۔ آپ ذرا دوسرے ترقی یافتہ ممالک (اب اس میں ہندوستان بھی شامل ہے) کے حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کی تعلیم و قابلیت کا ہمارے جعلی ڈگری والے، رشوت خور، نااہل اصحاب اقتدار سے مقابلہ کیجئے تو ملک کی موجودہ بدحالی، بدانتظامی اور دوسری تمام لعنتوں کی موجودگی کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے۔
    حقیقت یہ ہے کہ ہم جیسے پسماندہ اسلامی ممالک میں یہ جمہوریت جو ہم اپنائے ہوئے ہیں ایک ڈھکوسلا ہے۔ ہمارے لئے براہ راست صدر کا انتخاب پہتر ہوگا۔ ہمارے تہذیب وتمدن اور خصلت اسکی عادی ہے۔ ایک ایسا لیڈر جو ملک کے عوام کی اکثریت سے آئے (نہ کہ پارلیمنٹ کے چور دروازہ سے) وہ ملک کے قابل ترین افراد کو اہم ذمہ داریاں سونپے اور عوامی نمائندے اسکی سربراہی اور مشورہ سے قانون سازی کریں تو ہمارے ملک کی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔ اسطرح یہ صدر کسی پارٹی سے بلیک میل نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی حکومت گرا سکتا ہے۔
    موجودہ نظام ملک کو بد سے بدتر اور کمزور سے کمزور کرتا چلا جائیگا اور اسکا شیرازہ بکھیر دیگا۔ چور اور ڈاکو باربار آتے رہینگے اور اس کمزور لاغر اور مریل جانور کا گوشت کھاتے رہینگے اور مار کر دم لیں گے۔

    بشکریہ ۔ جنگ ادارتی صفحہ
     
  2. ملک بلال
    Offline

    ملک بلال منتظم اعلیٰ Staff Member

    Joined:
    May 12, 2010
    Messages:
    22,418
    Likes Received:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستانی جمہوریت ۔ ایک مذاق۔ انتخابی نظام بدلنا ہوگا

    ان چہرہ بدلنے والوں کو انصاف ، حقوق، وفا سے کیا
    یہ قوم کے خادم، دانشور، فنکار وزیر مداری ہیں
     
  3. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستانی جمہوریت ۔ ایک مذاق۔ انتخابی نظام بدلنا ہوگا

    لیکن ہماری سوچ کا کیا حل کہ ہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی شک و شبہ سے بالاتر حب الوطنی، اخلاص، صلاحیت و قابلیت کے باوجود انکے رہنمایانہ اصولوں کو ماننے پر کبھی تیار نہیں ہوں گے بلکہ اپنی اپنی نام نہاد قیادت کے سحر سے ہی ہر تبدیلی کی امیدیں وابستہ کیے رکھیں گے۔ اور بار بار 100 پیاز اور 100 جوتے کی روایت کو برقرار رکھیں گے
     
  4. راشد احمد
    Offline

    راشد احمد ممبر

    Joined:
    Jan 5, 2009
    Messages:
    2,457
    Likes Received:
    15
    جواب: پاکستانی جمہوریت ۔ ایک مذاق۔ انتخابی نظام بدلنا ہوگا

    نعیم بھائی آپ کی بات درست ہے ہم جیسے لوگ تبدیلی بھی چاہتے ہیں لیکن پارلیمنٹ میں بیٹھے مگرمچھ یہ نہیں ہونے دیں گے۔ انہیں وہی نظام سوٹ کرتا ہے جس میں ذات، برادری، دھونس، دھاندلی کی بنیاد پر ووٹ پڑیں۔ اگر یہ چاہتے تو جس طرح انہوں نے 18ویں، 19ویں اور بیسویں ترمیم منظور کی یہ کام بھی کرسکتے تھے لیکن کریں گے نہیں۔ اگر انہوں نے کردیا تو ان کی دیہاڑیاں بند ہوجائیں گی۔ بلدیاتی نظام انہوں نے اس لئے ختم کردیا کہ کہیں غریب اور مڈل کلاس کی قیادت ان کے سروں پر مسلط نہ ہوجائے۔ ذرا اسمبلیوں پر نگاہ دوڑائیں جیتنے والوں کی اکثریت مخدوم، گیلانی، قریشی، بخاری، گردیزی ہے۔

    پی پی کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ پارٹی سے بیوفائی کرنیوالا ملک کا غدار، بھٹو پر تنقید کرنیوالا بھٹو کا دشمن۔ مظلومیت پر ووٹ حاصل کرتے ہیں۔‌ پھر انہوں نے سرائیکی منجن بیچنا شروع کردیا ہے اور یہ منجن ہاتھوں ہاتھ فروخت ہورہا ہے۔ ن لیگ دو تین فلائی اوور، دو چار سڑکیں بناکر بلے بلے کرالیتی ہے۔
     
    پاکستانی55 likes this.
  5. بزم خیال
    Offline

    بزم خیال ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 12, 2009
    Messages:
    2,753
    Likes Received:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستانی جمہوریت ۔ ایک مذاق۔ انتخابی نظام بدلنا ہوگا

    میرا خیال ہے کہ صرف انتخابی نظام بدلنے سے جمہوریت تو بحال ہو سکتی ہے مگر ملک جمہوری نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت کا مطلب ہے کیا آخر ۔ صرف شفاف الیکشن کا انعقاد یا مڈل کلاس کا حکومت مشنری چلانا ۔ ملک جن اخلاقی اساسوں پر چل نکلا ہے ۔ گدھا ریڑھی والے کو وزیراعظم بنا دیں ایک سال میں اس کا پورا خاندان لینڈ مافیا اور لینڈ کروزر پر ہو گا۔
    اگر ضرورت ہے تو قوم کے اخلاق سدھارنے کی تاکہ وہ برے کام کو برا جانیں۔
    میرٹ سب کے لئے ایک جیسا ہو۔
    تھانہ ۔ انصاف کے ترازو میں ڈنڈی نہ ہو۔
    قوم میں اتفاق ہو جو سیاست دانوں سے ممکن نہیں۔
    مذہبی تفرقہ بازی سے جان چھوٹے۔
    جو چور ہو اس کو عوام سزا دیں یہاں وہ پہلے سے زیادہ ووٹ لے کر منتخب ہو جاتا ہے۔
    ضرورت ہے عوام الناس کی سوچ بدلنے کی ۔ حکومت بجلی نہیں بناتی ۔ عوام نے ہر کمرے میں اے سی چالو رکھا ہوا ہے۔
    پٹرول آسمان سے باتیں کر رہا ہے ۔ عوام موٹرسائیکل بیچ کر گاڑیاں خرید رہی ہے ۔
    جس گھر میں چلیں جائیں وہ بچوں کے رزلٹ کارڈ ہاتھ میں لئے اے پلس دکھانے لگتے ہیں۔
    سادگی کو دفن کر چکے ہیں۔ دکھاوا کو پروموٹ کرتے ہیں۔
    میرے نزدیک صرف انتخابی نظام سے قومیں نہیں سدھرتیں۔ ان میں ایسے لوگ پیدا ہوں جو ان کے اخلاق ٹھیک کریں۔
    برائی کو برا کہنے والے لوگ۔
    ہر شخص دوسرے سے بر تری چاہتا ہے۔ تعلیمی ، معاشی ،سماجی برتری ۔
    تقوی اور پرہیز سے برتری کا معیار نہیں جانچا جاتا۔
    میں تین سال سے نیٹ کی دنیا میں موجود ہوں ۔ افسوس ہوتا ہے محبت کے اشعار ہوں ۔ مذہبی یا سیاسی مناظرے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔
    چند سال پہلے ایک اردو فورم کی ایڈ منسٹریٹر کے ساتھ اسی موضوع پر میرا مکالمہ ہوا ان کا جواب یہ تھا
    اتنے سالوں میں مجھے ایک بھی ان کی شئیرنگ ایسی نہیں ملی جو ان کے دعوی کو سچا ثابت کرے ۔
    ایکسپریس اخبار کا کالم نگار جاوید چودھری کی میں تعریف کرنا چاہوں گا کہ وہ انسان تربیتی نقطہ نگاہ سے خوبصورت تحریریں لکھتا ہے۔
    اب یہ وقت آ چکا ہے کہ ہمارے ارد گرد رہنے والے اگر ہماری وجہ سے کسی احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتے تو یہ بھی نیکی سے کم نہیں۔
    دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے اعمال کا جائزہ لینا ہو گا ۔ کون کس حد تک ٹھیک ہے کی بجائے یہ دیکھنا ہے کہ ہم کس حد تک ٹھیک ہیں۔ کسی دوسرے کی نیکی تولنے کی بجائے اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھنی چاہیئے۔
     
    پاکستانی55 and نعیم like this.
  6. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستانی جمہوریت ۔ ایک مذاق۔ انتخابی نظام بدلنا ہوگا

    السلام علیکم۔
    بطور مسلمان جب ہم سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک صالح اور باصلاحیت "قیادت" کے تصور اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ تصور بہت خوبصورت ہے کہ ہر انسان خود ہی سنور جائے۔ لیکن عملی طور پر اور نظامِ قدرت میں ایسا ممکن نہیں۔
    اگر ایسا ہوتا تو پھر ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش انبیائے کرام بھیجنے کی ضرورت نہ پیش آتی ۔ اللہ پاک حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ہی کوئی صحیفہ اتار دیتا کہ اب ہر کوئی اپنی اپنی اصلاح کرتا پھرے۔ لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوا۔۔ بلکہ اللہ پاک نے ہر دور میں‌ہرطبقہ کی ہدایت کے لیے راہنما بھیجے۔ بلاشبہ انسان کی اپنی اصلاح کی اہمیت ناگزیر ہے اور کوئی بھی معاشرہ افراد کی اصلاح کے بغیر صالح اور اچھا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کام کے لیے قیادت کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں۔
    خاتم النبین سیدنا محمد مصطفی صل اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ لیکن مسند ابوداؤد کی حدیث‌کے مطابق ہر دور اور ہر صدی کے سرے پر اللہ پاک امت کی رہنمائی کے لیے مجدد بھیجتا ہے۔ جو دین اسلام کو اس دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ثابت کرکے دین اسلام کی پھر سے اس دور میں بھی قابلِ عمل دین کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اور یوں اسلام کی آفاقیت برقرار رہتی ہے۔
    بعینہ ہم اقوام عالم کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہر قوم کے پاس ایک یا کئی مصلح۔ رہنما ۔ نجات دہندہ لیڈر نظر آتے ہیں جنہوں نے قوم کو افق عالم پر عظمت و وقار دے دیا۔
    پاکستان میں یقینا ایسے باصلاحیت لوگ موجود ہیں۔ جو باکردار ہیں۔ صالح ہیں۔ باصلاحیت ہیں۔ ایماندار ہیں۔ قوم کو ترقی و فلاح کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ لیکن موجودہ سیاسی و انتخابی نظام ایسی قیادت کے آگے آنے اور لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ ایک ایسا جال ہے جو غاصبوں، لٹیروں، وڈیروں ، رسہ گیروں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی طرف سے بڑی مہارت سے بچھایا گیا ہے۔ جس کو جمہوریت کا نام دے دیا گیا ہے۔ قوم پہلے ہی کم و بیش 70 فیصد غیر تعلیم یافتہ ہے اور شعور کی سطح تو شاید اس سے بھی نیچے ہو۔ ایسی قوم کو اس جمہوریت کے جال میں پھنسا کر نیست و نابود کرنے کا گھناؤنا پروگرام ہے۔
    ہمیں یعنی پاکستانی قوم کو اس ظالمانہ و غاصبانہ نظام کے گھناؤنے پن اور ہولناکی کا جتنا جلدی شعور نصیب ہوجائے اور ہمیں جنتا جلدی اس سے نفرت ہوجائے اور ہم جتنا جلدی اسے بدلنے کے لیے تیار ہوجائیں ۔ اتنا ہی ہمارے لیے اور وطن عزیز کے لیے بہتر ہوگا۔

    ورنہ وقت کا پہیہ تو چلتا رہتا ہے۔ فلسطین جیسی قبلہ اول کی حامل مقدس سلطنت کا یہ حشر ہوسکتا ہے۔ تو ہم کیا ہیں ؟؟؟

    اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے اور پاکستان کو دائمی سلامتی عطا فرمائے۔ آمین
     
    پاکستانی55 likes this.
  7. راشد احمد
    Offline

    راشد احمد ممبر

    Joined:
    Jan 5, 2009
    Messages:
    2,457
    Likes Received:
    15
    جواب: پاکستانی جمہوریت ۔ ایک مذاق۔ انتخابی نظام بدلنا ہوگا

    پاکستان میں انتخابی نظام تبدیل کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے علاوہ کوئی ادارہ نہیں۔ پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے تین ترامیم متفقہ طور پر پاس کیں لیکن کسی نے الیکشن ریفارمز پر توجہ نہیں دی۔ یہی ان کو سوٹ کرتا ہے۔

    میں نے کچھ عرصہ قبل ہی ایک تھریڈ میں پیشن گوئی کی تھی کہ ڈاکٹر صاحب جس دن سیاست میں‌آگئے ان پر بھی ذاتی حملے شروع ہوجائیں گے اور انہیں بھی کسی غیرملکی لابی کا ایجنٹ قرار دیدیا جائے گا اور وہی ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے صرف الیکشن لڑنے کا اعلان ہی کیا تھا کہ ن لیگ کے راناثناء اللہ نے ان پر حملے کرنے شروع کردئیے۔
    [​IMG]
     
    نعیم likes this.
  8. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستانی جمہوریت ۔ ایک مذاق۔ انتخابی نظام بدلنا ہوگا

    دشمنانِ پاکستان اور دشمنانِ اسلام کے تھنک ٹینکس کی بنائی گئی مختلف پالیسیوں میں ایک پالیسی یا چال یہ بھی ہے کہ اسلامی دنیا کے ہیروز کو متنازعہ بنایا جائے۔ یہ کام عقائد کی سطح پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے شروع کیا گیا اور تاریخ اسلام کے عظیم ہیروز سے لے کر تاحال ، ڈاکٹر علامہ اقبال رح۔قائد اعظم رح۔حکیم محمد سعید شہید، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر طاہر القادری ، وغیرھم تک جاری ہے۔
    اس چال کو کامیاب بنانے میں سب سے اہم اور گھناؤنا کردار میڈیا اور میڈیا اینکرز ادا کرتے ہیں۔ قوم کے سچے، مخلص، باصلاحیت اور قابل و دیانتدار شخصیات اور رہنماؤں کے خلاف پراپیگنڈہ کرکے قومی اذہان کے اندر ایسی سلو پوائزننگ کرتے ہیں جس سے قومیں اپنے ہیروز سے متنفر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اور انکی جگہ گھٹیا، کم علم،بدکردار، نااہل اور دشمنانِ اسلام کے ایجنٹوں کو بہ تکرار میڈیا پر لالا کر انہیں ہیروز کے طور پر پیش کرکے قوم کی امیدیں انہی سے وابستہ رکھی جاتی ہیں
    جس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آج پاکستانی قوم کے ساتھ ہوچکا ہے اور ہورہا ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر طاہر القادری ، ڈاکٹر عبدالقدیر ، حکیم سعید شہید، ایدھی وغیرہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے آج تک اس قوم کا بگاڑا کچھ نہیں بلکہ کچھ نہ کچھ سنوارنے ہی کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہماری قوم کے بیمار ذہنوں میں ایسے محسنوں کے لیے نفرت یا ناپسندیدگی کے جذبات ہوتے ہیں۔
    جبکہ لٹیروں، خونخوار بھیڑیوں ، دہشتگردوں اور ظالموں‌اور جابروں سے امیدیں وابستہ کرکے بار بار جوتے کھائے جانے کے لیے تیار رہتی ہے۔
     
    پاکستانی55 likes this.
  9. آصف حسین
    Offline

    آصف حسین ممبر

    Joined:
    Oct 23, 2006
    Messages:
    1,739
    Likes Received:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستانی جمہوریت ۔ ایک مذاق۔ انتخابی نظام بدلنا ہوگا

    ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
    جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
    دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
    تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
    اقبال
     
    پاکستانی55 and نعیم like this.
  10. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستانی جمہوریت ۔ ایک مذاق۔ انتخابی نظام بدلنا ہوگا

    کیوں نہ ایسا نظام ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے جس میں ایسے نالائق ، نااہل، عوام دشمن قسم کے افراد لیڈر بن جاتے ہیں۔
    جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ایدھی ، ڈاکٹر طاہر القادری، عمران خان، جیسے لائق، اہل ، محبت وطن اور محسنانِ ملک و ملت لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں۔

     
  11. راشد احمد
    Offline

    راشد احمد ممبر

    Joined:
    Jan 5, 2009
    Messages:
    2,457
    Likes Received:
    15
    جواب: پاکستانی جمہوریت ۔ ایک مذاق۔ انتخابی نظام بدلنا ہوگا

    پڑھئے اور سر دھنئے
    [​IMG]
     
  12. بزم خیال
    Offline

    بزم خیال ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 12, 2009
    Messages:
    2,753
    Likes Received:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستانی جمہوریت ۔ ایک مذاق۔ انتخابی نظام بدلنا ہوگا

    یہ سیاستدان کس ہڈی سے بنے ہیں ۔ نہ تو ان کو شرم ہی آتی ہے اور نہ ہی غیرت ۔ عوام کا خون چوسنے والی جونکیں ہیں یہ تو ۔
     
  13. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    یہ کیسی جمہوریت ہے؟؟
    یہ نظام ان امیروں کو نوازے جاتا ہے جن کے پاس پہلے ہی بےحدوحساب ہے اوراس نظام کے پروردہ طاقتور کرپٹ اشرافیہ ان غریب عوام سے منہ کا نوالہ بھی چھین لیتے ہیں جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ انہی سے لیا جاتا ہے۔
    یہ ٹیکس سسٹم کیا ہے۔ امیر تو ٹیکس دیتے نہیں۔ ٹیکس صرف غریبوں سے لیا جاتا ہے۔ بجلی کی قیمت چار پانچ روپے یونٹ ہے باقی سب ٹیکس ہی ٹیکس ہیں۔ یہی حال باقی روزمرہ کے اصراف کا ہے ۔
    ڈاکٹراجمل نیازی کا کہنا ہے کہ " سیاستدان حکمران غریبی ختم نہ کریں۔ صرف یہ کریں کہ تھوڑی سی اپنی امیری ختم کر دیں۔ غریبی خود بخود ختم ہو جائے گی مگر امیری بڑھتی جا رہی ہے اور غریب مرتے جا رہے ہیں۔

    جو کچھ ہو رہا ہے صرف چند لوگوں کے لئے ہو رہا ہے۔ نہ ہسپتال نہ سکول نہ بجلی نہ پانی۔ امیروں کے لئے کچھ بھی نہیں جو غریبوں کے لئے ہوتا ہے۔ سڑکیں اور پل اس لئے کہ امیر لوگوں کو راستے میں تکلیف نہ ہو۔ ان کے کاروبار میں رکاوٹ نہ ہو۔
    65 سال کے بالعموم اور گذشتہ 40 سال سے بالخصوص ثابت ہوچکا ہے کہ موجودہ نظام محض چند ہزار کرپٹ اشرافیہ کی لوٹ مار کو تحفظ دینے کا نظام ہے۔ جبکہ اس نظام میں غریب کو محکومی، غلامی، ذلت، رسوائی، مایوسی، بھوک، غربت، افلاس، بدامنی، دہشت گردی، خودکشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
     
    پاکستانی55 likes this.

Share This Page