1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ٹھنڈے لب

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از تفسیر, ‏27 جون 2008۔

  1. تفسیر
    آف لائن

    تفسیر ممبر

    شمولیت:
    ‏14 نومبر 2007
    پیغامات:
    12
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    [center:2a6oav9k]ٹھنڈے لب
    ایک مختصر افسانہ
    سید تفسیر احمد
    ۞۞۞[/center:2a6oav9k]


    • میں اسٹار بک کافی ہاؤس میں داخل ہوا اور بیٹھنے کے لیے ہرطرف نظردوڑائ لیکن کوئ سیٹ خالی نہیں تھی۔ میں آرڈر کرنے والی لائن میں کھڑا ہوگیا- لنچ کا وقت تھا، میں نے سوچا جب تک میں کھڑکی تک پہنچوں گا کوئ نہ کوئ سیٹ خالی ہوجاۓ گی۔ کافی لینے کے بعد میں نےایک دفعہ پھر سے جگہ تلاش کرنے کے لیے ہرطرف نظردوڑائ لیکن کوئ سیٹ خالی نہیں تھی۔ میں کاؤنٹر پرٹیک لگا کرکھڑا ہوگیا۔ ہرطرح کے لوگ آ جا رہے تھے۔ قریب کی یونیورسٹی سے طالب علم ، آفس ورکرآس پاس کی بلڈنگوں سےاور وہ لوگ جو کہ خریداری سےوقفہ لے رہے تھے۔

      وہ اکیلی گلاس کی دیوار کے نزدیک ایک کرسی پر بیٹھی تھی اس کی میز پر ایک خالی کافی کا کپ تھا اور اس کی نگاہ میز پر رکھے ہوۓ پرچے پرتھی۔ بالو ں کی ایک لٹ اس کے گالوں کوچھو رہی تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کوگالوں پر ڈھلکتےدیکھا۔ آنسوگالوں سے پھسل کر کاغذ کے پرچے پرگرے۔ میں نےاندازہ لگانے کی کوشش کی اس کاغذ پر کیا لکھا ہوسکتا ہے جو کہ ایک حسین لڑکی کوسرے عام رلا دے۔ شاید اُس سے، اُس کے محبوب نے ملنے کا وعدہ کیا تھا لیکن نہیں آیا یا خط گھرسے آیا ہو اور والدین نے اس کی شادی کسی اور سے کرنے کا وعدہ کرلیا ہو یا وہ اس کی پڑھائ کے پیسے نہیں بھیج سکتے۔

      میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا اور میری نظریں اس پرتھیں کہ اس نے اپنی نظریں اوپر اٹھائیں۔ ہماری نظریں ایک مختصر سے لمحہ کے لیے ملیں اوراس نے اپنی آنکھوں کو پھرسے جھکا لیا۔ یہ آنکھیں کتنی اُداس ہیں ، میں نےان کا درد اپنےدل میں محسوس کیا۔ اس نےخط کو پھر سے پڑھا اوراس کےگالوں پر آنسؤں کی ایک لکیر سی بن گئ۔

      اچانک وہ کھڑی ہوگئ اورتیزی سے دروازے کی طرف چلی گئی۔اس نے دروزا ہ کھولا اور فٹ پاتھ پر اترگئ۔ میں نےاس بھیڑ میں اس پر نگاہ رکھنے کی کوشش کی۔ وہ ٹریفک سِگنل کے پاس رکی، ایک لمحہ وہ فٹ پاتھ پہ تھی اور دوسرے لمحے سڑک پر۔ میں نے کار کے بریکوں کی آواز سنی۔ کپ رکھ کرمیں باہردوڑا۔ لوگ اس کے اردگرد جمع تھے۔ میں نے بڑی مشکل سے راستہ بنایا۔ وہ خون میں لت پت تھی۔

      کیا کسی نے ایمبولِنس کے لیے کال کیا؟ میں چلایا۔
      “ ہاں“ ۔ کسی نے کہا۔

      میں نے اس کےقریب بیٹھ کر اس کی نبض تلاش کرنے کی کوشش کی۔ نبض نہیں تھی۔ میں نےاس کےسینے پر کان رکھ کراس کے دل کی دھڑکن کو سننے کی کوشش کی۔ دل بہت آہستگی سے دھڑک رہا تھا - اس نے ایک ہچکی لی اور اُس کا دل خاموش ہوگیا۔

      کوئ چلایا۔ " اس کو سی پی آر دو"۔ میں نے اس کی ناک کو بند کرکےاس کے منہ سے منہ ملادیا اور اس کو لمبی لمبی سانسیں دینے لگا۔ پھر اس کے سینہ پر پندرہ دفعہ دباؤ ڈالا۔ میں نے پھر سےاس کےدل کی آواز کو سننا چاہا ۔ خاموشی بالکل خاموشی۔ میں نے پھر سے اس کو اپناسانس دینے کی کوشش کی مگراس کے لب ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ سڑک پر مکمل خاموشی چھاگئ۔

      دھیرے سے میں نے کاغذ کے پرچے کو اس کے ہاتھ سے جدا کیا۔ اس پر لکھا تھا۔ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ تمہیں جب یہ خط ملے گا میں اس دنیا کو چھوڑ چکا ہوں گا۔ ایک مدہم آواز اس کے پرس میں رکھے ہوۓ سیل فون سے آرہی تھی۔

      میں نے فون میں کہا ۔ “جی“۔
      " کیا ناز وہاں ہیں مجھے ان کو بہت ضروری پیغام دینا ہے"۔
      “ تم کون ہو"؟ میں نے پوچھا
      " میں اس کا بھائی ہوں۔ ناز سے کہنا کہ جمیل زندہ ہے“۔
      میرے ہاتھ سے سیل فون گرگیا۔
     
  2. خاورچودھری
    آف لائن

    خاورچودھری ممبر

    شمولیت:
    ‏17 جون 2008
    پیغامات:
    31
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    واہ وا
    تفسیر صاحب کیا خوب رنگ جمایا آپ نے :a180:
     
  3. تنہا روح
    آف لائن

    تنہا روح ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2008
    پیغامات:
    439
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ز بردست تحر یر تفسیر صاحب !!!

    کبھی کبھی یہ محبت یہ جذبات یہ دیوانگی انسان کو ذندہ نہیں رہنے دیتی !!! اور وہ انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے۔۔۔۔۔!!!!

    خدا کبھی کسی محبت کرنے والے یا محبت کرنی والی پر ایسا و قت نہ لائے! آمین
     
  4. نادر سرگروہ
    آف لائن

    نادر سرگروہ ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جون 2008
    پیغامات:
    600
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    تفسیر صاحب مختصر تحریر لکھنا بڑا ہی مُشکل کام ہے۔ لیکن دورِ حاضر کے قاری کے مزاج اور اُس کی مصروفیت کو دیکھتے ہُوئے ہر قلم کار کے لئے ایسا کرنے ضروری ہو گیا ہے۔ اور آپ مختصر تحریر میں تجسس پیدا کرنے میں کامیاب ہُوئے۔
    ہاں ! اُس لڑکی کی بے چینی کو ، اُس کے اضطراب کو ظاہر کرنے کو لئے دو تین سطریں مزید ہوتیں تو تجسس اور بڑھ جاتا۔

    میں اقتباس میں کُچھ جزئیات سے متعلق باتیں کرنا چاہوں گا ، اِس امید کے ساتھ کہ آپ اِس کا منفی اثر نہیں لیں گے۔

    لال رنگ میں ۔ ۔ ۔ میں اپنی تجویز پیش کروں گا۔
    گُلابی رنگ میں ۔۔۔۔ اُن الفاظ یا جُملوں کو نمایاں کروں گا۔ ۔ جو غیر ضروری ہیں۔ یعنی وہ الفاظ نہ بھی ہوتے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
    نیلے رنگ میں ۔ ۔ ۔ اسباب پر گُفتگوں کروں گا۔


    • میں اسٹار بک کافی ہاؤس میں داخل ہوا اور بیٹھنے کے لیے ہرطرف نظردوڑائ لیکن کوئ سیٹ خالی نہیں تھی۔ میں آرڈر کرنے والی لائن میں کھڑا ہوگیا- لنچ کا وقت تھا، میں نے سوچا جب تک میں کھڑکی تک پہنچوں گا کوئ نہ کوئ سیٹ خالی ہوجاۓ گی۔ کافی لینے کے بعد میں نےایک دفعہ پھر سے جگہ تلاش کرنے کے لیے ہرطرف نظردوڑائ لیکن اب بھی کوئ سیٹ خالی نہیں ہوئی تھی۔ میں کاؤنٹر پرٹیک لگا کرکھڑا ہوگیا۔ ہرطرح کے لوگ آ جا رہے تھے۔ قریب کی یونیورسٹی سے طالب علم ، آفس ورکرآس پاس کی بلڈنگوں سےاور وہ لوگ جو کہ خریداری سےوقفہ لے رہے تھے۔

      وہ اکیلی گلاس کی دیوار کے نزدیک ایک کرسی پر بیٹھی تھی اس کی میز پر ایک خالی کافی کا کپ تھا کافی کا ایک خالی کپ تھا ( یہاں آپ خالی کپ کے لئے کہنا چہتے ہیں ، نہ کہ کافی کے لئے)اور اس کی نگاہ میز پر رکھے ہوۓ ایک پرچے پرتھی۔ بالو ں کی ایک لٹ اس کے گالوں گال (بالوں کی ایک لٹ صرف ایک ہی گال کو چھُو سکتی ہے گالوں کو نہیں)کوچھو رہی تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کوگالوں پر ڈھلکتےدیکھا۔ آنسوگالوں سے پھسل کر کاغذ کے پرچے پرگرے۔ میں نےاندازہ لگانے کی کوشش کی کہ اس کاغذ پر کیا لکھا ہوسکتا ہے جو کہ ایک حسین لڑکی کوسرے عام رلا دے۔ شاید اُس سے، اُس کے محبوب نے ملنے کا وعدہ کیا ہو تھا لیکن اور نہیں آیا۔ یا خط گھرسے آیا ہو اور والدین نے اس کی شادی کسی اور سے کرنے کا وعدہ کرلیا ہو۔ یا وہ اس کی پڑھائ کے پیسے
      کا خرچ نہیں بھیج سکتے۔

      میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا اور میری نظریں اس پرتھیں کہ اس نے اپنی نظریں اوپر اٹھائیں۔ ہماری نظریں ایک مختصر سے لمحہ کے لیے ملیں اوراس نے اپنی آنکھوں کو پھرسے جھکا لیا۔ یہ آنکھیں کتنی اُداس ہیں ، میں نےان کا درد اپنےدل میں محسوس کیا۔ اس نےخط کو پھر سے پڑھا پڑھنا شروع کیا اوراس کےگالوں پر آنسؤں کی ایک لکیر سی بن گئ۔

      اچانک وہ کھڑی ہوگئ اورتیزی سے دروازے کی طرف چلی گئی۔اس نے دروزا ہ کھولا اور فٹ پاتھ پر اترگئ۔ میں نےاس بھیڑ میں اس پر نگاہ رکھنے کی کوشش کی۔ وہ ٹریفک سِگنل کے پاس رکی، ایک لمحہ وہ فٹ پاتھ پہ تھی اور دوسرے لمحے سڑک پر۔ میں نے کار کے بریکوں کی آواز سنی۔ کپ رکھ کرمیں باہردوڑا۔ لوگ اس کے اردگرد جمع تھے۔ میں نے بڑی مشکل سے راستہ بنایا۔ وہ خون میں لت پت تھی۔

      کیا کسی نے ایمبولِنس کے لیے کال کیا؟ میں چلایا۔
      “ ہاں“ ۔ کسی نے کہا۔

      میں نے اس کےقریب بیٹھ کر اس کی نبض تلاش کرنے کی کوشش کی۔ نبض نہیں تھی۔ نبض ساقط ہو گئی تھی۔ ( محاورے۔ ۔نبض ڈُوب جانا ۔ ۔ ۔ نبض ساقِط ہو جانا )۔میں نےاس کےسینے پر کان رکھ کراس کے دل کی دھڑکن کو سننے کی کوشش کی۔ دل بہت آہستگی سے دھڑک رہا تھا - اس نے ایک ہچکی لی اور اُس کا دل خاموش ہوگیا۔

      کوئ چلایا۔ " اس کو سی پی آر دو"۔ میں نے اس کی ناک کو بند کرکےاس کے منہ سے منہ ملادیا اور اس کو لمبی لمبی سانسیں دینے لگا۔ پھر اس کے سینہ پر پندرہ دفعہ دباؤ ڈالا۔ میں نے پھر سےاس کےدل کی آواز کو سننا چاہا ۔ خاموشی بالکل خاموشی۔ میں نے پھر سے اس کو اپناسانس دینے کی کوشش کی مگراس کے لب ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ سڑک پر مکمل خاموشی چھاگئ۔

      دھیرے سے میں نے کاغذ کے پرچے کو اس کے ہاتھ سے جدا کیا۔ اس پر لکھا تھا۔ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ تمہیں جب یہ خط ملے گا میں اس دنیا کو چھوڑ چکا ہوں گا۔ ایک مدہم آواز اس کے پرس میں رکھے ہوۓ سیل فون سے آرہی تھی۔

      میں نے فون میں کہا ۔ “جی“۔
      " کیا ناز وہاں ہیں مجھے ان کو بہت ضروری پیغام دینا ہے"۔
      “ تم کون ہو"؟ میں نے پوچھا
      " میں اس کا بھائی ہوں۔ ناز سے کہنا کہ جمیل زندہ ہے“۔
      میرے ہاتھ سے سیل فون گرگیا۔
    [/quote]
     
  5. تفسیر
    آف لائن

    تفسیر ممبر

    شمولیت:
    ‏14 نومبر 2007
    پیغامات:
    12
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    محترم نادر سرگروہ
    السلام علیکم

    میں آپ کے تبصرہ کا شکر گزار ہوں۔ میں کتابت اور املا کی خامیوں کو صحیح کرلوں گا۔

    والسلام

    تفسیر
     
  6. تفسیر
    آف لائن

    تفسیر ممبر

    شمولیت:
    ‏14 نومبر 2007
    پیغامات:
    12
    موصول پسندیدگیاں:
    0

    شکریہ تنہا روح

    مجھے آپ کا نک پسند آیا
     
  7. تفسیر
    آف لائن

    تفسیر ممبر

    شمولیت:
    ‏14 نومبر 2007
    پیغامات:
    12
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شکریہ خاور بھائی
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    تفسیر صاحب۔
    مختصر سطور میں اتنی گہری داستان سموکر پیش کرنے پر مبارکباد قبول فرمائیں۔
    آپ کی تحریر اور طرزِ تحریر دونوں اچھے لگے۔ :a180:
     
  9. تفسیر
    آف لائن

    تفسیر ممبر

    شمولیت:
    ‏14 نومبر 2007
    پیغامات:
    12
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نعیم بھائی ۔ ہمت افزائی کا شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں