1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ویلنٹائن ڈے، مسلمان اور اسلام

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از سندباد65, ‏22 فروری 2012۔

  1. سندباد65
    آف لائن

    سندباد65 ممبر

    شمولیت:
    ‏5 فروری 2012
    پیغامات:
    11
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    ویلنٹاین ڈے دنیا بھر میں ہر سال 14 فروری کو محبت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کے متعلق کئی روایات قدیم رومن تہذیب کے دور سے وابستہ ہیںجس میں یہ تہوار روحانی محبت کے اظہار کے لیے مختص تھا۔اس ضمن میں بہت سی دیو مالائی کہانیاں اس سے منسوب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روم کا بانی رومولوس نے ایک بار بھیڑئے کی مادہ کا دودھ پیا تھا جس کے باعث اسے طاقت اور عقلمندی حاصل ہوئی تھی۔اہل روم اس واقعے کی یاد میں ہر سال وسط فروری میںجشن منایا کرتے تھے جس میں ایک کتے اور ایک بکری کی قربانی دی جاتی تھی جن کے خون سے دو طاقتور اور توانا نوجوان غسل کرتے تھے اور پھر اس خون کو دودھ سے غسل کرکے دھویا جاتا تھا۔اس کے بعد ایک عظیم الشان پریڈ کا آغاز ہوتا جس کی قیادت وہ نوجوان کیا کرتے تھا۔ ان کے ہاتھوں میں چمڑے کا ہنٹر ہوتا تھا جس سے وہ ہر اس شخص کو مارا کرتے تھے جو ان کا راستہ کاٹنے کی کوشش کرتا تھا۔ رومن خواتین اس ہنٹر کی ضرب کو اپنے لیے ایک اچھا شگون سمجھتی تھیں کیوںکہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس طرح وہ بانجھ پن سے محفوظ رہیں گی۔
    مذکورہ بالا جشن کے دوران اہل روم ان لڑکیوں کے نام جو شادی کی عمر کو پہنچ جاتی تھیں پرچیوں پر لکھ کر ایک برتن میں ڈال کر وہ برتن ایک میز پر رکھ دیتے تھا اور پھر ان لڑکیوں سے شادی کے خواہشمند نوجوانوں کو دعوت عام دی جاتی تھی کہ وہ قرعہ نکالیں پھربذیعہ قرعہ ندازی جس نوجوان کے حصے میں جو لڑکی آتی تھی اسکی خدمت کے لیے وہ ایک سال تک اپنے آپ کو پیش کردیا کرتا تھا تاکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ لیں، پھر یا تو سال بھر کے بعد وہ شادی کے بندھن میں بندھ جاتے تھے یا پھر اگلے جشن کے موقع پر دوبارہ قرعہ اندازی میں شریک ہوتے تھے ۔اس وقت کی مذہبی عیسائی قیادت نے اس رسم کی یہ کہتے ہوئے سخت مخالفت کی تھی کہ یہ رسم نوجوان مردوزن میں اخلاقی بگاڑ کا موجب بن ر ہی ہے۔اس طرح یہ رسم اٹلی میں منسوخ کردی گئی جہاں یہ راسخ و رائج ہو چکی تھی۔ پھر اس بھولی بسری رسم کو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیا گیا۔ اور کچھ مغربی ممالک میں کتاب ِمحبت کے نام سے عشقیہ نظموں پر مشتمل ایسی کتابیں شائع کی گئیں جن میں سے مختلف اشعار کا انتخاب کرکے ایک عاشق اپنی محبوبہ کو بھیج سکے ان کتب میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے عشقیہ خطوط لکھنے کے طریقے اور ترغیبات بھی شامل ہوتی تھیں۔
    ویلنٹاین ڈے کے تہوار کے وجود میں آنے کے حوالے سے یہ روایت بھی مشہور ہے کہ جب رومن اپنے قدیم مذہب کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے لگے اور یہ مذہب تیزی سے پھیلنے لگا تو اس وقت کے رومن شہنشاہ کلاڈیوس دوئم نے تیسری صدی میں رومن نوجوانوں کی شادی پر پابندی عائد کردی کیونکہ شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد وہ جنگی مہمات میں شریک ہونے سے گریزاں ہونے لگے تھے۔سینٹ ویلنٹائن نے اس شاہی فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے نوجوان جوڑوں کی خفیہ شادیوں کا اہتمام کرنا شروع کر دیا۔ جب شہنشاہ کو اس بات کا پتہ چلا تو اس نے سینٹ کو پھانسی کی غرض سے گرفتار کرکے جیل بھیج دیاجیل میں اسے جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی جو کہ خفیہ ہی رہی کیونکہ عیسائی قانون کے مطابق پادری ساری عمر شادی یا محبت نہیں کر سکتے۔ مگر چونکہ وہ ایک راسخ العقیدہ عیسائی اور معروف عیسائی مبلغ تھا اس لیے شاہ روم نے اسے یہ پیشکش کی کہ اگر وہ عیسائیت کو چھوڑ کر رومن دیوتاؤں کی عبادت کرے تونہ صرف اسے معاف کر دیا جائے گا بلکہ شہنشاہ اپنی بیٹی کی شادی بھی اس سے کردے گا مگر سینٹ ویلنٹاین نے اس کی پیشکش ٹھکرا دی اور عیسائیت کو ترجیح دی جسکے باعث اسے 14 فروری 270 عیسوی کو پھانسی دے دی گئی۔اس طرح یہ دن اس سینٹ کے نام سے منسوب کردیا گیا ۔
    برطانیا میں ویلنٹاین ڈے سردیوں کے اختتام پر جنگلوں میں پرندوں کے ملاپ کی علامت کے طور پر منایا جاتا تھا اس موقع پر نوجوان ان لڑکیوں کی کھڑکیوں کی چوکھٹ پر پھولوں کے گلدستے رکھتے تھے جن سے وہ محبت کرتے تھے پھر ان کے پوپ نے اس دن کو سینٹ ویلنٹاین کی قربانی سے منسوب کرتے ہوئے 14 فروری کو محبت کے تہوار کا نام دیاجو کہ خالصتاً عیسائیوں کا ایک مذہبی تہوار ہے جس کے تانے بانے قدیم رومن کی غیر اسلامی تہذیب سے جڑے ہوئے ہیں اور جسے آج مسلمان بڑے فخر و انبساط کے ساتھ مناتے ہیںاور عیسائیوں کی پیروی کرتے ہوئے غیر محرم لڑکے او ر لڑکیاں ایک دوسرے کوتحفے میں گلاب کے پھول اور کارڈغیرہ دیتے ہیں۔ اس موقعے کی مناسبت سے ہمارے ٹیوی چینلز خصوصی پروگرام تیار کرتے ہیں اور مسلمان ناظرین عیسائیوں کی طرح بڑی رغبت سے ان پروگرامز کو دیکھتے ہیں اورذہن و قلب کے کسی گوشے میں یہ احساس تک پیدا نہیں ہوتا کہ کیا کفار کا یہ مذہبی تہوار ہماری تہذیب،ہماری ثقافت اور ہمارے دین اسلام کی تعلیمات اور مذہبی شعائر سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔
    آج ہماری بدقسمتی سے یہ تہوار کم وبیش ہر اسلامی ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے اور مسلم امت کی نوجوان نسل الا ماشاءاللہ نے کھلے دل وذہن سے نہ صرف اسے قبول کرلیا ہے بلکہ وہ یہود ونصاری سے زیادہ گرم جوشی اور رواداری کے ساتھ اسے منانے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں ۔ کئی مسلم ممالک میں ویلنٹاین ڈے پرفلاور شاپس پر گلاب کے پھول یا توناپید ہوجاتے ہیں یا ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیںاور لوگ زیادہ قیمتیں ادا کرکے بھی گلاب کے پھول خرید کر اپنے ویلنٹاین کے تحفہ دیتے ہیں۔فائیو سٹار ہوٹل اور بڑے ریسٹورنٹس اس موقع پر خصوصی پروگراموں اور خصوصی ڈشوں کا اہتمام کرتے ہیں اور ویلنٹاین جوڑوں کا انتحاب کرکے انہیں قیمتی انعامات سے نوازا جاتا ہے۔
    مسلم معاشرے میں اس غیراسلامی تہوار کی پذیرائی اور قبولیت کی ذمہ داری جہاںسٹلائیٹ چینلز، انٹرنیٹ اور ان مسلم ممالک کے میڈیاپر عائد ہوتی ہے وہاں والدین اور اساتذہ بھی اس شر کے فروغ میں برابر کے ذمے دار ہیں ۔ اگر والدین اپنی اولاد کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کریں اور انہیں دشمنانِ اسلام کے ان حملوں سے آگاہ کرتے رہیں اور اسی طرح اساتذہ بھی اپنے شاگردوں میں دینی تشحص بیدار کریں اور ان میں دین کا صحیح شعور پیدا کریں توپھر یہ ممکن ہی نہیں رہے گا کہ اسلام کے دشمن ان چور دروازوں سے مسلمانوں کی صفوں میں شبِ خون مار سکیں ۔ اسی طرح ائمہ کرام اور علمائے دین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ عصرِ حاضر کے تمام فتنوں اور خصوصاً ایسے فتن جو مسلمانوں کے اخلاق ،ان کی دینی حمیت اور انکے عقائد کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہوں ان کی انہیں نہ صرف پوری شد ت کے ساتھ مخالفت کرنی چاہئے بلکہ مسلم امہ میں ان خطرات کے خلاف بیداری کی بھر پور مہم کا آغاز کرنا چاہیے اور اس کام کے لیے تمام دستیاب وسائل سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔
    آخر میں مسلم نوجوانوں، بھائیوں اور بہنوں، ماؤں اور بیٹیوں سے التجا ہے کہ خداراکفار کی پیروی کرکے اپنےآپ کو تباہی کے گڑہوں میں مت دھکیلو۔ان کو خوش کرکے اللہ کے غضب کو آواز مت دوکیوںکہ جو اللہ کے دشمنوں کو خوش کرتا ہے وہ اللہ کو ناراض کرتا ہے اور اللہ کی ناراضگی درحقیقت اخروی بربادی ہے۔ وقتی خوشی کی خاطر دائمی رنج و الم سمیٹنا یقینا شدیدخسارے کا سودا ہوگا۔اگر محبت ہی کرنی ہے تو خود کو اللہ اور اس کے رسول ا کی محبت میں فنا کرلو ،محبت کا حقیقی مفہوم پالوگے، محبت کی معراج حاصل ہوجائے گی،شیطان کے ناپاک چنگل سے نکل جاؤ گے اور اللہ تمہیں دنیا اور آخرت کی حقیقی اور دائمی خوشیوں سے سرفراز فرمائےں گے۔
    غافلو!جان لو کہ جوانی اللہ رب العزت کی ایک بے بہا نعمت ہے اسے ضائع نہ کرو۔ اس کی صبح ،اسکی شام اور اس کی شب اللہ کی یاد، اسکے ذکر اور اسکے محبوب حضرت محمد مصطفے ا کی سنت کی اتباع میں بسر کرو ۔اس جوانی اور وقت کی قدر کرو کہ یہ دونوں چیزیں ایک بار رخصت ہوکر دوبارہ لوٹ کر نہیں آتیں۔اپنے دن کو اللہ اور رسول ا کی اطاعت و فرمانبرداری میں بسر کر واور دعائے نیم شبی کا خود کو عادی بناڈالو۔اپنی آنکھوں کی اس طرح حفاظت کرو کہ وہ کسی نامحرم کے شوقِ دید سے آلودہ نہ ہوں نہ ہی عریانی اور فحاشی کو اپنے اندر سمو سکیں۔اپنے کانوں کواس طرح آلودگی سے بچاؤ کہ وہ کسی کی غیبت نہ سنیں اور نہ کوئی فحش بات اور کلام ان تک پہونچے۔ اپنی زبان کی اس طرح حفاظت کرو کہ نہ کسی کی غیبت کی مرتکب ہو نہ اس سے کسی کی دل آزاری ہو اور نہ ہی دشنام طرازی کاذریعہ بنے۔تمہارے ہاتھ تمہارے پاؤں غرض ایک ایک عضو اللہ کی مرضی کا تابع بن جائے۔ سب سے بڑھ کر تمہارا دل جو تمام آرزوؤں ،تمناؤں اور خواہشات کا منبع اور مرکز ہے وہ اللہ کا مطیع اور فرماں بردار بن جائے تو پھر تمہیں خود کو خوش کرنے کے لیے کسی ویلنٹاین ڈے کی ضرورت محسوس نہ ہوگی کہ اللہ اور اسکے پیارے رسول ا کی سچی محبت کا راز پالینے کے بعد کسی اور کی محبت کی ضرورت او ر گنجائش باقی نہیں رہتی۔
    اللہ کے حضور دعا ہے کہ مجھے اور آپ سب کو دین کا صحیح شعور عطا فرمائے اور شیطان کی راہ پر چلنے اور اسکا آلہ کار بننے سے محفوظ رکھے اور یہود ونصاری کی پیروی کرنے، ان کی روش اور ان کی رسم ورواج اپنانے سے محفوظ و مامون رکھے۔ آمین ثم آمین۔
     
  2. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    جواب: ویلنٹائن ڈے، مسلمان اور اسلام

    تو ثابت ہوا کہ یہ غیر مسلم اقلیتوں کا تہوار ہے انہیں ہی منا نا چاہیے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے لئے
    مولد النبی
    (میلادالنبی(12ربیع الوال )سے بڑھ کر محبت و الفت کا نہ کوئی دن تھا نہ ہے نہ ہی ہو گا
     
  3. محب اردو
    آف لائن

    محب اردو مبتدی

    شمولیت:
    ‏7 مارچ 2012
    پیغامات:
    2
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ویلنٹائن ڈے، مسلمان اور اسلام

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
    بھائی ہمارے منانے کے لیے عبد الفطر او رعید الأضحی اور ہر ہفتے میں جمعہ کا دن ہی کافی ہے ۔ یہ عید میلاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم او رصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور اس کے بعد سلف صالحین رحمہم اللہ میں سے کسی نے نہیں منائی یہ تو بہت صدیوں بعد لوگوں نے اس کوایجاد کرلیا ہے ۔
    اللہ ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں