1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وہ پیڑ جن پر پرندوں کے گھر نہیں ہوتے۔۔۔۔دراز جتنے بھی ہوں معتبر نہیں ہوتے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از سہیل اقبال, ‏13 دسمبر 2011۔

  1. سہیل اقبال
    آف لائن

    سہیل اقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏27 نومبر 2011
    پیغامات:
    128
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    وہ پیڑ جن پر پرندوں کے گھر نہیں ہوتے۔۔۔۔دراز جتنے بھی ہوں معتبر نہیں ہوتے


    انسانی ساخت تو ایک جیسی ہوتی ہے مگر اس کے قلب و ذہن مختلف ۔۔۔ یہی سے قناعت اور صبر و شکر جیسی نعمت بھی جنم لیتی ہے اور ہوس ، لالچ اور نفس پرستی کی بے لگام سواری بھی۔۔۔زندگی کے ہر شعبے میں آپ کو بہت اچھے لوگ بھی ملیں گے اور بہت بد خصلت بھی۔۔۔بہت عرصہ ہوا اک دوست کے ہمراہ کسی کام کے سلسلہ میں جانا ہوا، انکم ٹیکس کے ایک ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر لگی تختی نے مجھے اپنی متوجہ کیا اس پر ایک شعر لکھا تھا

    دامان توکل کی یہ خوبی ہے کہ اس میں پیوند تو ہوسکتے ہیں دھبے نہیں ہوتے

    دروازہ کھٹکھٹایا اور اند ر چلا گیا تھوڑی دیر کی ملاقات میں اندازہ ہوگیا کہ یہ صاحب دروازے پر لکھے شعر کی عملی تفسیر ہیں۔میں آج اپنے ایک صحافی دوست کا تذکرہ کروں گا جن سے میری برسوں کی شناسائی ہے۔ میرے اس دوست کے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں سے گہرے روابط ہیں ۔مگر ان کی قناعت اور بے نیازی میڈیا کے باقی دوستوں کے لئے بھی قابل تقلید ہے ۔وہ اپنی خودی اور خوداری کی ٹھیک ٹھیک حفاظت کرتے ہیں۔اور بقول شاعر

    وہ پیڑ جن پر پرندوں کے گھر نہیں ہوتے دراز جتنے بھی ہوں معتبر نہیں ہوتے
    تمام عمر گزری تو پھر یہ راز کھلا کہ اہل ظرف کبھی اہل زر نہیں ہوتے

    میں نے اپنے ان صحافی دوست سے پوچھا کہ صدر زرداری تو بہت دوست نواز ہیں۔ آپ ان کی نوازشات سے کوئی فائدہ کیوں نہیں اٹھا لیتے۔ قربت اوردوستی کا تعلق آپ کا بھی ہے۔ ”شرارتاً“ کہا کہ تھوڑا سا جھک کر” رفعتیں“ پالینے میں کیا حرج تھی۔ کہنے لگے ہم اقبال کی بات مان کر فاقہ مستی میں دن گزارکے اپنی خود ی کو بلند کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ پوچھا ”دوست“ کی طرف سے کبھی نوازشات کی کوئی پیش کش بھی ہوئی؟ کہا بہت دفعہ ۔۔۔میں نے کہا بھائی قبول کر لیتے ۔۔۔مزے سے دن گزارتے۔۔۔ میں ملنے کےلئے فون کرتا ہوں آپ کہتے ہیں آج گیس بند ہے اور پٹرول ڈلوانے کی گنجائش نہیں ہے اسلئے نہیں آ سکتا۔کم از کم اس مصیبت سے تو جان چھوٹ جاتی آپ کو کس ”بے وقوف“ نے فاقہ مستی کے ساتھ خودی بلند کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ جھکنے والے بھی تو” رفعتیں“ پا گئے۔۔۔ کبھی دل میں خیا ل تو آتا ہو گا؟۔۔۔ پیش کشوں کو ٹھکرا کر پچھتاوا نہیں ہوتا؟ تو انہوں نے ایک شعر میں جواب دیا۔

    ہجر کی رات بھی کٹ گئی کب یہ ہوا کہ مر گئے ! تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے

    ابرا ر سعید صحافی تو انگریزی اخبار کے ہیں مگر اردو شاعری کے دیوان کے دیوان ازبر ہیں۔آپ کوئی بھی بات کریں اس کی مناسبت سے وہ شعر ڈھونڈ کے لے آئیں گے۔میں نے پوچھا آپ کے ”دوست“آصف زرداری بیمار زیادہ ہیں یا پریشان؟ کہنے لگے

    کس کا یقیں کیجئے کس کایقیں نہ کیجئے لائے ہیں بزم یار سے یار خبر الگ الگ

    میں نے کہا کہ آپ کے پاس کیا خبر ہے؟ تو کہنے لگے کہ میرا گمان ہے کہ یہ خبر تو کم از کم کنفرم ہے کہ گیلانی اور زرداری وزیر اعظم ہاﺅس اور ایوان صدر سے نکل کر اڈیالہ جیل میں جائیںگے۔پوچھا وہ کیوں؟ کہا پہلے بد عنوانی کے صرف الزامات تھے اب یار لوگوں نے شواہدبھی اکٹھے کر لیے ہیں۔ لہذا ہم پہلے بھی برے دنوں کے دوست تھے ملاقات جیل میں ہوتی یا احتساب عدالت میں۔لگتا ہے کہ پھر وہی لمبی ملاقاتیں پس زنداں اور احتساب کی عدالتوں میں پرانی یادوں کے ساتھ پھر تازہ ہونے والی ہیں۔پوچھا صدر زرداری کی سب سے بڑی خوبی کیا ہے ؟ کہنے لگے ”دوست نوازی“۔پوچھا خامی کیا ہے ؟ کہنے لگے ”دوست نوازی“۔ کیونکہ ریاست کے معاملات چلانے اور دوستی نبھانے میں فرق روا نہ رکھا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے جو آج صدر بھگت رہے ہیں اور مزید بھگتیںگے۔دوست نوازی اچھی خوبی ہے مگر دوست اگر گدھ کی خصلت رکھتے ہوں تو گوشت پوست نوچ لیتے ہیں۔
    خبریں توان کے پاس بہت ہوتی ہیں البتہ ان سے جب کسی حساس موضوع کے بارے میںخبر جاننے کی کوشش کی جائے تو وہ اکثر یہ شعر سنا کے اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔

    کہ درون خانہ ہیں ہنگامےکیا کیا چراغ راہ رو کو کیا خبر؟

    تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی سیاسی اٹھان کے بارے ان کے تاثرات جاننے کی کوشش کی تو بھی سننے کو یہی شعر ملا۔تاہم وہ عمران خان کی دیانت کی تعریف کے ساتھ ساتھ ان کے طرز سیاست سے یہ کہہ کر اختلاف رکھتے ہیں کہ جام بھی پرانے ہیں اور شراب بھی نئی نہیں۔انہی پرانے چہروں اور قبضہ مافیہ کو ساتھ ملا کر نظام کی تبدیلی کی بات مشکوک ہو جاتی ہے۔اس کااحساس اور رد عمل برسوں سے تحریک انصاف سے وابستہ نوجوانوں کے اندر بھی شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔
     
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: وہ پیڑ جن پر پرندوں کے گھر نہیں ہوتے۔۔۔۔دراز جتنے بھی ہوں معتبر نہیں ہوتے

    سہیل اقبال جی !
    پہلے تو عنوان کے شعر نے ہی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔ کیا خوب شعر ہے اور ساتھ میں آپ کا اندازِ تحریر بہت اعلیٰ!
    سیاست پر بہت اچھا تبصرہ ہے۔
    یعنی کچھ بھی نہ کہا کچھ کہہ بھی گئے
     
  3. محمد رضی الرحمن طاہر
    آف لائن

    محمد رضی الرحمن طاہر ممبر

    شمولیت:
    ‏19 اپریل 2011
    پیغامات:
    465
    موصول پسندیدگیاں:
    40
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: وہ پیڑ جن پر پرندوں کے گھر نہیں ہوتے۔۔۔۔دراز جتنے بھی ہوں معتبر نہیں ہوتے

    وہ پیڑ جن پر پرندوں کے گھر نہیں ہوتے۔۔۔۔دراز جتنے بھی ہوں معتبر نہیں ہوتے
     
  4. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: وہ پیڑ جن پر پرندوں کے گھر نہیں ہوتے۔۔۔۔دراز جتنے بھی ہوں معتبر نہیں ہوتے

    واقعی بہت اچھا لکھاہے۔۔۔بہت خوب جناب
     
  5. ایس کاشف
    آف لائن

    ایس کاشف ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2011
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: وہ پیڑ جن پر پرندوں کے گھر نہیں ہوتے۔۔۔۔دراز جتنے بھی ہوں معتبر نہیں ہوتے

    بہت خوبصورت تحریر ہے
     
  6. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: وہ پیڑ جن پر پرندوں کے گھر نہیں ہوتے۔۔۔۔دراز جتنے بھی ہوں معتبر نہیں ہوتے

    سہیل اقبال جی ، بہت خوب اور عمدہ لکھا ہے ماشاءاللہ۔ اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں