1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وہ رات ابھی ختم نہیں ہوئی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از محبوب خان, ‏6 اپریل 2011۔

  1. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    حسن مجتیٰ
    بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیویارک

    اس قضیے کو بتیس سال گزر گءے ہیں‌لیکن اس قضیے پر شان دار نظم ’شاخ کربلا پر اکیلے کبوتر کا نوحہ‘ لکھنے والے میرے شاعر دوست اور اب ناروے میں جلاوطن مسعود منور کہتے ہیں ’میں ہر رات سونے سے پہلے بھٹو کا ماتم کرتا ہوں‘۔

    مسعود منور جیالے بھی نہیں وہ بس ایک شاعر ہیں لکھاری ہیں۔ انہوں نے بھٹو کی پھانسی پر لکھا تھا:

    ’رات کے دو بجے تم سبھی سو چکے تھے مگر وہ ابھی جاگتا تھا‘

    پاکستان اور پاکستان سے باہر ایسے بے شمار لوگ ہوں گے جو بھٹو کی پھانسی پر ہر رات ہر دن اور ہر وقت ماتم کرتے ہوں گے۔

    اب بھٹو کے ایسے ماتم داروں کے لیے یقیناً یہ تشفی والی بات ہے کہ اس کے نام پر ووٹ لے کر آنے والی حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں عوام میں سب سے مقبول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کا مقدمہ پھر سے کھولنے اور چلانے کی درخواست ملک کی سپریم کورٹ میں دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
    وہ جو کہتے ہیں نا کہ جنگ کے میدان کے بعد دنیا کی سب سے بڑی نا انصافیاں عدالتوں کے کٹہروں میں ہی ہوئي ہیں۔ تو اسی طرح اگر کہا جائے کہ پاکستان میں جو سب سے بڑی سیاسی ناانصافیاں ہوئی ہیں تو ان میں سے ایک بڑی اور تاریخی نا انصافی بھٹو کی پھانسی بھی ہے۔

    وہ سوجے ہوئے مسوڑوں کے ساتھ تین روز تک پاکستان کی سپریم کورٹ کے سامنے اپنی سزائے موت کے خلاف اپنے دفاع میں بیان جاری رکھے ہوئے تھا۔ جو بعد میں کافکا کے ’دا ٹرائیل‘ کی طرح ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ کے نام سے شاہکار کتابی شکل میں موجود ہے۔

    میں ایسے کل کے نوجوان کو جانتا ہوں جسے ملٹری کورٹ نے اس لیے سزا سنائی تھی کہ اس نوجوان کو بھٹو کے اس عدالتی بیان کی کتابی شکل کو فوٹو سٹیٹ کرواتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ پاکستان میں ایسے ہزاروں نوجوان اب کسے یاد بھی نہیں:

    ’پاکستان کے عوام جمہوریت چاہتے ہیں

    ۔۔۔ملک آئین

    ۔۔۔صوبے خود مختاری

    ۔۔۔تم جنرل ضیاء الحق سیاست کے ساتھ فٹبال کھیلنا چھوڑ دو۔‘

    یہ بھٹو نے اپنے اسی بیان میں کہا تھا۔

    حیرت ہے کہ سزائے موت کی کال کھوٹری بھی اس سے بھٹو ہونا نہیں چھین سکی تھی۔ وہی حس مزاح، وہی جملوں کی کاٹ، غصہ، الفاظ کے خزینے، ان کا انتخاب اور روانی۔ فرانسیسی اصطلاحات سے لے کر جہان خانی انصاف جیسے سندھی مذاحیہ جملے اور سرائیکی شاعری تک بھٹو نے اپنے اس دفاعی بیان میں استعمال کیے تھے ’می لارڈ ہم اسے کو جہان خانی انصاف کہتے ہیں‘۔

    اس کی اس کتاب میں جا بجا پیش گوئیاں ہیں۔ ایک جگہ اس نے کہا تھا ’میرے ملک کے لوگ بھی بونا پارٹ ازم سے جان چھڑا لیں گے۔ فرانس میں وہ اٹھارہ سو اٹھاسی تھا اور یہ انیس سو اٹھاسی ہوگا‘۔

    سب نے دیکھا کہ انیس سو اٹھاسی ضیاء الحق اور اس کے فوجی آمرانہ عہد کے خاتمے اور پاکستان میں عارضی ہی سہی جمہوریت کی بحالی کا سال ثابت ہوا۔

    جہان خانی انصاف کا مطلب کیا ہوتا ہے، ہر کو‏‏ئی سندھی سمجھتا ہے۔ بھٹو کے ساتھ بھی جہان خانی انصاف ہوا تھا۔

    جہان خان اس شخص کو کہتے ہیں جو غلط کام بھی کرے اور یہ فیصلہ بھی خود کرے کہ وہ کام غلط تھا یا صحیح۔ ’بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی‘

    جج متعصب، جرنیل اس کے خون کے پیاسے اور دوست دغا باز نکلے تھے۔ سب سے بڑی بات کہ جیسا کہ ہم نے سنا ایک پھندا اور دو گردنیں تھیں۔

    ’ہمارے کسی نوکر کو بھی کبھی کوئی س‍زا نہیں ہو ئی‘۔ بہت برس ہوئے کہ بھٹو کی پہلی بیوی شیریں امیر بیگم نے ایک تاسف اور اپنے حساب سے ایک انٹرویو کے دوران مجھ سے کہا تھا۔
    جسٹس دوراب پٹیل نے جنہوں نے بھٹو کے خلاف سپریم کورٹ کی بینچ میں اپیل سننے والے ججوں میں شامل تھے اور اختلافی فیصلہ دیا تھا انیس سو نوے کے ابتدائی برسوں میں اپنی زندگي کے آخری دنوں میں میری اس وقت کی ایک صحافی ساتھی کو ایک انٹرویو دیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ کس طرح روز اول سے دورانِ مقدمہ، اپیل اور نظرثانی کی درخواست کی سماعت کے دوران نہ صرف بھٹو کے ساتھ انتہائی تعصب برتا گیا بلکہ وعدہ معاف گواہ اور ججوں کو بھی ضیاءالحق کی فوجی انتظامیہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق کی طرف سے دھونس، دھمکی اور رعایتوں میں رکھا گیا تھا۔

    جسٹس دوراب پٹیل نے میری صحافی ساتھی کو بتایا تھا کہ جسٹس انوارالحق نے جن کی خود بھٹو سے ذاتی پرخاش تھی انہیں بھٹو کی سپریم کورٹ کے سامنے اپیل کی سماعت کے دنوں میں دبے الفاظ میں کہا تھا کہ ’خیال رکھنا آپ کا تعلق اقلیت سے ہے‘۔

    جسٹس دوراب پٹیل نے میری ساتھی صحافی کو بتایا تھا کہ دوران مقدمہ قتل لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کو یہ اطلاعات تھیں کہ وعدہ معاف گواہ غلام حسین جو کہ کردار کے لحاظ سے بھی انتہائی خراب ریکارڈ رکھتا تھا کو علاج کے لیے کمبائينڈ ملٹری ہسپتال میں رکھا گیا تھا اور جہاں ان سے فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی کے عملدار ملنے آیا کرتے تھے۔

    وعدہ معاف گواہ غلام حسین کی گواہی کی بنیاد پر ذوالفقار علی بھٹو کو موت کی سزا سنائي گئی تھی۔
    اور یہ بھی کہ سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس نے بھٹو کی نظر ثانی کی درخواست سننے والے ججوں سے فیصلہ جلدی اور اس دن سنانے کے لیے کہا تھا جس دن فوجی آمر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاءالحق سیرت النبی کے جلسے سے خطاب کرنے لاہور میں موجود ہوں گے- غیر مصدقہ اطلاعات یہ بھی کہتی ہیں کہ صدر جسٹس انوار الحق نے گورنر ہاؤس لاہور میں ضیاءالحق سے ملاقات بھی کی تھی۔

    بھٹو کی پھانسی کے بعد ملک جس بحران میں چلا گیا آج تک اسی بحران میں ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ترکی کے جنرل گرسل سے بھٹو نے کہا تھا کہ وزیر اعظم عدنان میندرس کو پھانسی دینے کے بعد ترکی کا بحران ختم نہیں ہوگا بلکہ ترکی میں بحران پیدا ہی وزیر اعظم عدنان میندرس کی پھانسی کے بعد ہوگا۔

    مجھے ملتان سے تعلق رکھنے والا ایک بہت ہی پرانا پی پی پی جیالا جو اب فلوریڈا میں رہتا ہے کل کہہ رہا تھا ’ہمارے نزدیک تو وفاداری کی ایک ہی کسوٹی ہے کہ بھٹو کی پھانسی والی رات کون کس کے ساتھ تھا‘۔

    مجھے لگا بھٹو کی پھانسی والی رات پاکستان میں آج تک ختم نہیں ہوئی۔

    بشکریہ بی بی سی اردو
     

اس صفحے کو مشتہر کریں