1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں۔۔۔ مشتاق احمد یوسفی

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏30 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں۔۔۔ مشتاق احمد یوسفی
    Aadmi Mushtaq yusafi.jpg
    ان کی بڑی بڑی آنکھیں، اپنے ساکٹ سے باہر نکلی ہوتی تھیں
    اگر کوئی شخص محض ڈر کے مارے ان کی رائے سے اتفاق کر لیتا تو فوراََ اپنی رائے تبدیل کر کے اس کے سر ہو جاتے ان کی ڈانٹ سے میں نروس ہو گیا، میری آواز اتنے زور سے نکلی کہ میں خود چونک پڑا، قاضی اچھل کر سہرے میں گھس گیا
    یادش بخیر!میں نے 1945ء میں جب قبلہ کو پہلے پہل دیکھا، تو ان کاحلیہ ایسا ہو گیا تھا جیسا میرا اب ہے۔لیکن ذکر ہمارے یار طرح دار علی بشارت فاروقی کے خسر کا ہے،لہٰذا تعارف کچھ انہی کی زبانی سے اچھا معلوم ہوگا۔ہم نے بار ہا سنا، آپ بھی سن لیجئے۔

    وہ ہمیشہ میرے کچھ نہ کچھ لگتے تھے،جس زمانے میں میرے خسر نہیں بنے تھے ،تو میرے پھوپاہوا کرتے تھے۔اور پھوپا بننے سے پہلے میں انہیں چچا حضور کہا کرتا تھا۔ اس سے پہلے بھی وہ یقیناََ کچھ اور بھی لگتے ہوں گے۔ مگر اس وقت میں نے بولنا شروع نہیں کیا تھا۔ ہمارے ہاں مراد آباد اور کانپور کے رشتے ناطے سویوں کی الجھے اور پیج دارہوتے تھے۔ایسا جلالی!ایسا مغلوب، الغضب آدمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ان کا انتقال ہواتو میری عمر 40کے لگ بھگ ہوگی۔لیکن صاحب! جیسی دہشت ان کی آنکھوں کو دیکھ کر بچپن میں ہوتی تھی، ویسی ہی نہ صرف ان کے آخری دم تک رہی بلکہ میرے آخری دم تک بھی رہی ہو گی۔ بڑی بڑی آنکھیں، اپنے ساکٹ سے باہر نکلی ہوتی تھیں۔ لال سرخ۔ ایسی ویسی؟ بالکل خون کبوترکا ۔لگتا تھاکہ بڑی بڑی پتلیوں کے گرد لال ڈوروں سے بھی خون کے فوارے پھوٹنے لگیں گے اور میرا منہ خونم خون ہو جائے گا۔ہر وقت غصے میں بھرے رہتے تھے۔ پیدا کیوں ہوئے ! یہ ان کا تکیہ کلام تھا۔اور جو رنگ تقریر کا تھا، وہی تحریر کا۔

    رکھ ہاتھ، نکلتا ہے دھواں مغز قلم سے!

    ظاہر ہے،کہ کچھ ایسے لوگوں سے بھی پالا پڑتا تھا،جنہیں بوجوہ برا نہیں کہہ سکتے تھے۔ ایسے موقعوں پر زبان سے تو کچھ نہ کہتے،لیکن چہرے پر ایسا ایکسپریشن لاتے،کہ قد آدم گالی نظر آئے۔ کس کی شامت آئی تھی، کہ ان کی کسی بھی رائے سے اختلاف کرتا۔ اختلاف تو درکنار،اگر کوئی شخص محض ڈر کے مارے ان کی رائے سے اتفاق کر لیتا تو فوراََ اپنی رائے تبدیل کر کے اس کے سر ہو جاتے۔ ارے صاحب!بات اور گفتگو تو بعد کی بات ہے، بعض اوقات محض آداب کرنے سے مشتعل ہو جاتے تھے۔آپ کچھ بھی کہیں، کیسی ہی سچی بات کہیں،وہ اس کی تردید ضرور کریں گے۔کسی کی رائے سے اتفاق کرنے میں اپنی سبکی سمجھتے تھے۔ان کا ہر جملہ ’’نہیں‘‘ سے شروع ہوتا تھا۔ایک دن کانپور میں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔میرے منہ سے نکل گیا، ’’آج بڑی سردی ہے‘‘۔ بولے، ’’ کل اس سے زیادہ پڑے گی‘‘۔

    وہ چچا سے پھوپا بنے،اور پھوپا سے خسر۔۔۔ لیکن مجھے آخری وقت تک آنکھ اٹھا کر بات کرنے کی جسارت نہ ہوئی۔نکاح کے وقت وہ قاضی کے پہلو میں بیٹھے تھے۔ قاضی نے مجھ سے پوچھا، قبول ہے؟ان کے سامنے منہ سے ہاں کہنے کی جسارت نہ ہوئی۔بس اپنی ٹھوڑی سے دو بار ٹھونگیں مار دیں۔ جنہیں قاضی اور قبلہ نے رشتہ مناکحت کے لئے ناکافی سمجھا۔قبلہ کڑک کر بولے، ’’لونڈے، بولتا کیوں نہیں؟‘‘ ۔ڈانٹ سے میں نروس ہو گیا۔ ابھی قاضی کا سوال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ میں نے ’’جی ہاں قبول ہے‘‘ کہہ دیا۔ آواز یکلخت اتنے زور سے نکلی، کہ میں خود چونک پڑا۔ قاضی اچھل کر سہرے میں گھس گیا۔ حاضرین کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔ اب قبلہ اس پر بھنا رہے تھے کہ اتنے زور سے ’’ہاں‘‘ کہنے سے بیٹی والوں کی سبکی ہوتی ہے۔ بس ،ان کا تمام عمر یہی حال رہا۔اور تمام عمر میں کرب قرابت داری اور قربت قہری میں مبتلا رہا۔

    حالانکہ اکلوتی بیٹی، بلکہ اکلوتی اولاد تھی۔اور بیوی کو شادی کے بڑے ارمان تھے۔ لیکن قبلہ نے مائیوں کے دن عین اس وقت جب میرا رنگ نکھارنے کے لئے ابٹن ملا جا رہا تھا، کہلا بھیجا کہ دولہا میری موجودگی میں اپنا منہ سہرے سے باہر نہیں نکالے گا۔دو سو قدم پہلے سواری سے اتر جائے گا۔ اور پیدل چل کرعقد گاہ تک آئے گا۔ عقد گاہ انہوں نے اس طرح کہا جیسے اپنے فیض صاحب قتل گاہ کہا کرتے تھے۔اور سچ تو یہ ہے کہ قبلہ کی دہشت دل میں ایسی بیٹھ گئی کہ مجھے تو عروسی چھپر کھٹ بھی پھانسی گھاٹ لگ رہا تھا۔انہوں نے یہ شرط بھی لگائی کہ براتی پلائو ، زردہ کھا کر یہ ہرگز نہیں کہیں گے کہ گوشت کم ڈالا،اور شکر بھی ڈیڑھ گنا نہ تھی۔ خوب سمجھ لو!میری حویلی کے سامنے بینڈ باجا ہرگز نہیں بجے گا۔اور اگر تمہیں کوئی ناچ گانا کرواناہے توOver my dead body اپنے گھر میں ڈانس کرائو۔

    کسی زمانے میں راجپوتوں اور عربوں میں لڑکی کی پیدائش نحوست اور قہر کی نشانی تصور کی جاتی تھی۔ ان کی غیرت یہ کیسے گوارہ کر سکتی تھی کہ ان کے گھر بارات چڑھے۔ داماد کے خوف سے وہ نوزائیدہ لڑکی کو زندہ گاڑ آتے تھے۔ قبلہ اس وحشیانہ رسم کے خلاف تھے ، وہ داماد کو زندہ گاڑ دینے کے حق میں تھے۔

    چہرے، چال، اور تیور سے کوتوال شہر لگتے تھے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ بانس منڈی میں ان کی عمارتی لکڑی کی ایک معمولی سی دکان ہے۔نکلتا ہوا قد، چلتے تو قد، سینہ اور آنکھیں ،تینوں بیک وقت نکال کر چلتے تھے۔ ارے صاحب! کیا پوچھتے ہیں،اول تو ان کے چہرے کی طرف دیکھنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی،اور کبھی جی کڑا کر کے دیکھ لیا تو تو بس لال بھبھوکا آنکھیں ہی آنکھیں نظر آتی تھیں،

    نگہ گرم سے اک آگ ٹپکتی ہے اسد

    رنگ گندمی، آپ جیسا، جسے آپ اس گندم جیسا بتاتے ہیں جسے کھاتے ہی حضرت آدم ؑ جنت سے نکالے گئے تھے۔ہمارے خسر جب دیکھو، جھٹلاتے اور سنسناتے رہتے۔مزاج، زبان اور ہاتھ قابو میں نہ تھا۔دائمی طیش سے لرزہ براندام رہنے کے سبب اینٹ، پتھر، لاٹھی، گولی اور گالی، کسی کا نشانہ نہیں لگتا تھا۔ گچھی گچھی مونچھیں، جنہیں کسی کو برا کہنے سے پہلے اور بعد میں تائو دیتے۔ آخری زمانے میں بھوئوں کو بھی بل دینے لگے تھے۔ گٹھا ہوا بدن، ململ کے کرتے سے جھلکتا تھا۔ چنی ہوئی آستین، اور اس سے بھی مہین چنی ہوئی دو پلی ٹوپی۔ گرمیوں میں خس کا عطر لگاتے۔ کیکری کی سلائی کا چوڑی دار پاجامہ،چوڑیوں کی اتنی کثرت کہ پاجامہ نظر نہیں آتا تھا۔دھوبی الگنی پرنہیں سکھاتا تھا،الگ بانس پر دستانے کی طرح چڑھا دیتا تھا۔آپ رات کے دو بجے بھی دروازہ کھٹکھٹائیں تو چوڑی دار پاجامہ ہی میں برآمد ہوں گے۔

    میں تو یہ تصور کرنے کی جسارت بھی نہیں کر سکتا کہ دائی نے انہیں چوڑی دار پاجامے کے بغیر دیکھا ہو گا۔ یہ بھری بھری پنڈلیوں پر خوب کھبتا تھا۔ہاتھ کے بنے ہوئے ریشمی ازار بند میں چابیوں کا گچھا چھنچھناتا رہتا۔جو تالے برسوں پہلے بے کار ہو گئے تھے، ان کی چابیاں بھی اس گچھے میں محفوظ تھیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس تالے کی چابی بھی تھی جو 5سال پہلے چوری ہو گیا تھا۔ محلے میں اس چور کا برسوں چرچارہااس لئے کہ چور صرف تالا، پہرہ دینے والا کتا اور ان کا شجرہ نسب چراکرلے گیا تھا۔ فرماتے تھے کہ اتنی ذلیل چوری کوئی عزیز رشتے دار ہی کر سکتا تھا۔ آخری زمانے میں یہ ازار بند گچھا بہت ہی وزنی ہو گیا تھا۔

    مئی جون میں شہر کا ٹمپریچر 110 ڈگری ہو جاتا، اور منہ پر لو کے تھپیڑے پڑنے لگتے تو پاجامے کو ہلا کر ایئر کنڈیشنگ کر لیتے۔ پاجامے کی چوڑیوں کو گھنٹوں گھنٹوں پانی میں بھگو کر تربوز کھاتے۔ خس خانہ و برفاب کہاں سے لاتے۔ اس کے محتاج بھی نہ تھے۔ کتنی ہی گرمی پڑے، دکان بند نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے ، میاں! یہ بزنس تو پیٹ کا دھندہ ہے، جب چمڑے کی جھونپڑی (پیٹ) میں آگ لگ رہی ہو، تو کیا گرمی کیا سردی۔ لیکن ایسے میں کوئی شامت کا مارا گاہک آ نکلے، تو برا بھلا کہہ کر بھگا دیتے تھے۔ اس کے باوجود وہ کھنچا کھنچا دوبارہ انہی کے پاس آتا تھا۔ اس لئے کہ جیسی عمدہ لکڑی وہ بیچتے تھے، ویسی سارے کانپور میں کہیں نہیں ملتی تھی۔ فرماتے تھے، داغی لکڑی بندے نے آج تک نہیں بیچی ۔ لکڑی اور داغ دار؟ داغ تو دو ہی چیزوں پر سجتا ہے،دل اور عشق۔

    تمباکو ، قوام خربوزے اور کڑھے ہوئے کرتے لکھنئو سے ، حقہ مراد آباد اور تالے علی گڑھ سے منگواتے تھے۔ حلوہ، سوہن اور ڈپٹی نذیر احمد والے محاورے دلی سے۔ دانت گرنے کے بعد صرف محاوروں پر گزارہ تھا، گالیاں البتہ مقامی بلکہ خانہ ساز دیتے تھے۔ جن میں سلاست اور روانی پائی جاتی تھی۔ طبع زاد لیکن بلاغت سے خالی۔بس جغرافیہ سا کھینچ دیتے تھے۔ سلیم شاہی جوتیاں جے پور سے منگواتے تھے۔صاحب! آپ کا راجھستان بھی خوب تھا۔ کیا کیا سوغاتیں گنوائی تھیں۔کھانڈ، سانڈ، بھانڈ اور رانڈ۔ مگر یہ بات آپ نے عجیب بتائی کہ راجھستان میں رانڈ سے مراد خوبصورتی ہوتی ہے۔اور یہ بھی خوب رہی کہ مارواڑیوں کو جس چیز پر بھی پیار آتا تھا،اس کے نام میں ’’ٹھ‘‘ ، ’’ڈ‘‘ اور ’’ڑ‘‘ لگا دیتے تھے۔ راجھستان کے تین طرفہ کے تحفوں کے ہم بھی قائل اور گھائل ہیں۔ میرا بائی، مہدی حسن اور ریشماں۔

    ہاں، تو میں کہہ رہا تھا کہ باہر نکلتے تو ہاتھ پان کی ڈبیا اور بٹوے میں رہتا تھا۔ بازار کا پان ہرگز نہیں کھاتے تھے۔ بازاری پان صرف رنڈوے، تماش بین اور ممبئی والے کھاتے تھے۔ ڈبیا چاندی کی، نقشین ،بھاری اور ٹھوس۔ اس میں جگہ جگہ ڈینٹ نظرآتے تھے۔ جو انسانی سروں سے تصادم کے باعث پڑے تھے۔طیش میں آکر اکثر پانوں سے بھری ڈبیا بھی مار دیتے تھے۔ بڑی دیر تک یہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ مضروب کے سر اور چہرے سے خون نکل رہا ہے یا بکھرے پانوں کی لالی نے غلط رنگ جمایا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں