1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وہ امریکہ کی غلامی نہیں کرتے

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از m aslam oad, ‏9 اپریل 2011۔

  1. m aslam oad
    آف لائن

    m aslam oad ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2010
    پیغامات:
    224
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    تاشقند کا نام بہت معروف ہے، بالخصوص اعلانِ تاشقند (جنوری 1966ئ) کے حوالے سے ہر پڑھا لکھا پاکستانی جانتا ہے۔ یہ ترکستان کی مملکت ازبکستان کا دارالحکومت ہے۔ پہلی صدی ہجری میں جب مسلمانوں نے ترکستان فتح کیا، اس وقت یہ شہر شاش کہلاتا تھا اور اس علاقے کا نام ماوراء النہر یا ترکستان تھا۔ یہی ماضی قدیم کا توران تھا۔ ایرانی اسے ترکستان اور عرب ماوراء النہر (نہر پار) کہتے تھے، اس میں نہر (دریا) سے مراد دریائے جیحون (Oxus) یا آمو دریا تھا۔ ان دنوں آمو دریا افغانستان کی شمالی سرحد بناتا ہے اور اس کے پار تاجکستان اور ازبکستان واقع ہیں۔ ازبکستان کی وادی فرغانہ سے ظہیر الدین بابر پہلے کابل اور پھر ہندوستان آیا تھا اور 1526ء میں یہاں خاندان مغلیہ کی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔ امام ترمذیؒ کا شہر ترمذ آمو کنارے ازبکستان میں واقع ہے۔
    یہی تاشقند تھا جہاں 10 جنوری 1966ء کو پاکستان اور بھارت میں صلح نامہ (اعلان تاشقند) پر دستخط ہونے کے بعد رات کے پچھلے پہر بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری پر مذاکرات کی میز پر جیت جانے کی خوشی میں شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی اور اگلے دن کے اخبارات میں اعلان تاشقند پر دستخط کی خبروں کے ساتھ ساتھ شاستری جی کے ’’پرلوک‘‘ سدھار جانے کی خبر بھی شائع ہوئی تھی۔ ساڑھے چار فٹ کے شاطر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شاستری نے چھ فٹ کے دسویں پاس جنرل ایوب سے کشمیر پر کسی پیشرفت کے بغیر اپنے علاقے اور قیدیوں کی واپسی منوا لی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تاشقند اور اسلام آباد کا فضائی فاصلہ اسلام آباد اور کراچی کے باہمی فاصلے سے کم ہے۔ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان حائل واخان (افغانستان) کی پٹی اور تاجکستان کا کچھ علاقہ پار کرکے تاشقند آ جاتا ہے اور سمرقند اور بخارا تو اس سے بھی قریب ہیں۔ ازبکستان نے 29اگست 1991ء کو سوا صدی کی روسی سامراجی غلامی سے آزادی حاصل کی۔ انہی دنوں دیگر مسلم ترک ریاستیں کرغیزستان، تاجکستان، قازاقستان، ترکمانستان اور آذر بائیجان بھی آزاد ہو گئیں۔
    ازبکستان کے آزادی حاصل کرتے ہی وہاں امریکی آدھمکے۔ انہوں نے خطے میں اپنے منحوس پائوں جمانے کے لئے تاشقند میں بہت بڑا سفارت خانہ قائم کر لیا جس میں سفیر اور فوجی اتاشی سمیت 400 کے قریب لوگ کام کرتے تھے۔ ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر افتخار وارث ازبکستان کا سفر کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان دنوں وہاں غربت کا یہ عالم تھا کہ جب انہوں نے 100 ڈالر کی مقامی کرنسی لی تو2 لاکھ 75 ہزار سوم (مقامی سکہ) ملے۔ البتہ شہر صاف ستھرے تھے۔ ڈاکٹر صاحب جولائی 2010ء میں دوسری بار ازبکستان گئے تو ان کے دوست سید فیاض ہاشمی نے جن کا وہاں ٹورنگ اور ٹکٹنگ کا وسیع کاروبار ہے، ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ ہاشمی صاحب کا وہاں بہت اثر و رسوخ ہے، چنانچہ عشایئے میں اعلیٰ سرکاری افسران بھی مدعو تھے۔ وہاں بات چل نکلی کہ امریکہ نے بالآخر روس کو توڑ کر اکیلے سپر پاور بننے کا خواب پورا کر لیا۔ تب وہاں ایک انتہائی ذمہ دار افسر نے جس کا تعلق کے جی بی (سوویت دور کی روسی خفیہ پولیس) سے رہا تھا، ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ اگرچہ امریکہ نے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے مگر جتنے بھی ٹکڑے ہوئے ہیں وہ امریکہ سے بالکل خوفزدہ نہیں اور نہ وہ امریکی اثرورسوخ کو خود پر حاوی ہونے دیتے ہیں۔ ڈاکٹر وارث صاحب کو یقین نہ آیا اور انہوں نے کہا کہ جس امریکہ بہادر نے روس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کا اثرو رسوخ آپ کے ملک میں نہ ہو؟ اس پر ازبک افسر کہنے لگا:
    ’’ازبکستان نو آزاد ملک ہے، ہمارے ملک میں غربت کی شرح آپ کے ملک سے بہت زیادہ ہے، لیکن ہم امریکہ کی غلامی نہیں کرتے۔ جب یہاں امریکی سفارت خانے کو قائم ہوئے کچھ عرصہ گزر گیا تو ان کی طرف سے نئے فوجی اتاشی کے لئے ویزے کی درخواست دی گئی جو ہم نے دبا لی۔ جب بھی امریکی سفیر ہمیں لکھتے کہ پہلے فوجی اتاشی کے جانے کا وقت ہو گیا، دوسر اتاشی بلانا چاہتے ہیں، اس کے لئے تمام کاغذات جمع کرا دیئے ہیں، مہربانی کر کے ویزا جاری کیا جائے۔ لیکن ہمارا دفتر خارجہ جواب دیتا کہ کاغذات اوپر گئے ہوئے ہیں اور جب تک اوپر سے کوئی واضح جواب نہیں آتا، اس وقت تک ہم آپ کو ویزا دینے سے قاصر ہیں۔ آپ کو انتظار کرنا پڑے گا۔ اس خط کتابت میں پہلے فوجی اتاشی کے جانے کا وقت آ گیا اور وہ ہمارا ملک چھوڑ کر امریکہ واپس چلا گیا۔ پھر امریکی سفیر کی طرف سے دوبارہ خط آیا کہ فوری طور پر ویزا جاری کیا جائے تاکہ دوسرا شخص یہاں تعینات کیا جا سکے۔ تب ازبک فارن آفس نے امریکی سفیر کو لکھا کہ آپ اپنے فوجی اتاشی کے کاغذات اور تمام دفتری عملے کی تفصیل لے کر آئیں اور سیکرٹری خارجہ سے ملیں۔ امریکی سفیر تمام کاغذات اور سفارتی عملے کی تفصیل کے ساتھ خارجہ سیکرٹری سے ملا تو انہوں نے کہا: محترم سفیر صاحب! جنگ افغانستان تو کب کی ختم ہو چکی، پھر فوجی اتاشی کا یہاں کیا کام، لہذا ہم اس کے لئے ویزا دینے سے انکار کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ آپ کے پاس ملازمین کی بھاری بھر کم فہرست ہے جو سفارت خانے میں کام کرتے ہیں، حالت امن میں اتنے لوگوں کی ضرورت نہیں ہوتی، لہٰذا ہم نے اس میں سے 360 افراد کو مارک کر کے ان کے ویزے منسوخ کر دیئے ہیں۔ صرف 40 افراد جو ضروری ہیں، آپ کے سفارت خانے میں کام کریں گے۔ آپ کو 15دن دیئے جاتے ہیں، ان 360 لوگوں کو فارغ کر کے واپس بھجوا دیں۔ آپ کے اڈے اس ملک میں موجود ہیں، حالانکہ جنگ ختم ہو چکی ہے، آپ کو 15 دن اس کے لئے بھی دیئے جاتے ہیں کہ ان اڈوں سے انخلاء شروع کر دیں، ورنہ ان پر حکومت ازبکستان کا قبضہ ہو جائے گا اور وہاں جو جنگی سازو سامان ہے، وہ بحق سرکاری ضبط کر لیا جائے گا۔
    امریکی سفیر کچھ کہنا چاہتا تھا مگر ازبک سیکرٹری خارجہ نے ایک اور جملہ کہہ کر امریکی سفیر کی زبان بند کر دی۔ انہوں نے کہا: اگر آپ کو اس پر اعتراض ہے تو آپ اپنا سفارت خانہ یہاں بند کر سکتے ہیں، کسی اور امریکی کو ویزہ نہیں دیا جائے گا۔ امریکی سفیر خاموشی کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر آ گیا اور اسے وہی کرنا پڑا جو ازبک فارن سیکرٹری نے اس سے کہا تھا۔ 360 ملازمین کو فارغ کیا، اپنے اڈوں سے اپنی فوجوں کا انخلاء کیا اور پندرہ دنوں کے اندر اندر تمام اڈے خالی کر کے حکومت ازبکستان کے حوالے کر دیئے۔ اس کے بعد آج تک 40 کے سوا کسی امریکی کا ازبکستان کے لئے ویزا نہیں لگا‘‘۔
    یہ واقعہ دس بارہ سال پہلے یعنی بیسیویں صدی کے آخری برسوں کا ہے۔ آج تک امریکہ ازبکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ علاوہ ازیں چار پانچ سال پہلے بش مسلم کش اور شرق اوسط میں امریکی پالتو غنڈے اسرائیل کی طرف سے ایران کو حملے کی بار بار دھمکیاں دی جا رہی تھیں تاکہ وہ لیبیا کے کرنل قذافی کی طرح اپنی ایٹمی تنصیبات امریکی شکاری کتوں کے لئے کھول دے۔
    لیکن ایرانی صدر احمدی نژاد ڈٹ گئے اور پوری ایرانی قوم ان کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ ایران کے ترکی بہ ترکی جواب سے امریکی و اسرائیلی صلیبیوں اور صہیونیوں کو سانپ سونگھ گیا اور وہ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے۔ یہ تو زندہ قوموں کے طور ہیں۔ ادھر ہماری قوم بظاہر آزاد ہونے کے باوجود بدترین قسم کی استعماری غلامی کی زنجیروں میں جکڑی جا چکی ہے۔ ہماری بدقسمتی تھی کہ سانحہ نائن الیون (11 ستمبر 2001ئ) کے وقت ایک بدقماش اور بزدل شخص عسکری آمر مطلق بنا ہوا تھا جو امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کے ایک فون پر ڈھیر ہو گیا۔ اس نے ایک لمحے کی دیر نہ لگائی اور امریکہ کے ساتوں کے ساتوں ناجائز مطالبات مان کر پاکستان کو اکیسویں صدی کی صلیبی جنگ میں جھونک دیا جس میں ہمارے 40 ارب ڈالر بھسم ہو گئے۔ ہماری مغربی سرحدیں امریکی ڈرون اور میزائلی حملوں کی زد میں رہتی ہیں۔ ان حملوں سے ہمارے ہزاروں شہری و فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ ادھر سکیورٹی کے افراد اور دفاتر جوابی خود کش حملوں کی زد میں رہتے ہیں۔ بے غیرت جنرل مشرف نے دوست اسلامی ملک افغانستان پر صلیبیوں کی یلغار کے لئے پاکستان کی فضائیں، ہوائی اڈے اور انٹیلی جنس کے ذرائع پیش کر دیئے۔ ان مقبوضہ اڈوں سے صلیبی طیاروں نے 58 ہزار پروازیں کر کے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے گھٹیا مفادات اور امریکیوں سے سند حکمرانی لینے کے لئے وطن عزیز کو جو عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہے، یورپی و امریکی صلیبیوں کی چراگاہ بنا دیا ہے، چنانچہ امریکی قاتل جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو جس طرح فوری اہتمام سے لاہور سے امریکی بھیجا گیا ہے اور بے گناہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے معاملے میں جو بزدلی دکھائی ہے اس پر یہی کہا جا سکتا ہے:
    ایجنٹ ہیں صلیبیوں کے حکمراں بنے
    ان بزدلوں نے غیرتِ قومی ہے بیچ دی


    بشکریہ ہفت روزہ جرار
    والسلام۔۔۔علی اوڈراجپوت
    ali oadrajput
     

اس صفحے کو مشتہر کریں