1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ووٹ کی آواز ۔۔۔۔ عندلیب عباس

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏30 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ووٹ کی آواز ۔۔۔۔ عندلیب عباس

    دھاندلی ‘ چوری‘ دھوکہ ‘ سازش‘ انتخابات سے پہلے اور بعد میں ہارنے والے ایسے اسم ہائے صفت اکثر استعمال کرتے ہیں نتائج جو بھی ہوں۔ گلگت بلتستان کے برف پوش پہاڑوں سے لے کر کولوراڈوکے سنگلاخ پہاڑوں تک ووٹ کے سامنے وائرس کی یلغار دب گئی۔ کون سوچ سکتا تھا کہ گزشتہ سو برس کے دوران پھوٹنے والی بدترین وبااور موت کے خوف کوانتخابی جوش کی لہر بہا کر لے جائے گی۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ گلگت بلتستان کی منجمد کردینے والی سردی میں انتخابی معرکہ اس قدر گرم ہوجائے گا لیکن پھر جمہوری نظام کا یہی تو حسن ہے ۔ اس میں ایسا عوامی جوش دیکھنے میں آتا ہے ۔ ہر ذہن ‘ ہر شخص ‘ جوان ہو یا بوڑھا‘ مردہویا عورت‘ اسی کے رنگ میں رنگا ہوتا ہے۔ جو چیز انسانوں کو اہم بناتی ہے ‘ وہ اُن کی پسند کو آواز کا روپ دینے کی صلاحیت ہے ۔ کورونا وائرس کے دنوں میں انتخابات مزید تاریخی اور جوشیلے ہوگئے ‘اور یہ معمولی بات نہیں ۔
    گلگت بلتستان پاکستان کے شمال میں واقع ایسا خود مختار علاقہ ہے جس کی اپنی حکومت اور انتخابی نظام ہے ۔ یہ علاقہ پہلے نوابی ریاست جموں اور کشمیر کا حصہ تھا۔ اس پر پاکستان‘ بھارت اور مقامی آبادی کے درمیان محاذ آرائی تھی۔ 1970 ء میں یہ واحد انتظامی یونٹ کے طور پر وزارت ِ امور ِکشمیر و شمالی علاقہ جات کے ماتحت آگیا جس میں گلگت ایجنسی‘ لداخ ‘ بلتستان ضلع اور ہنزہ اور نگر کی ریاستیں شامل تھیں۔ یہ علاقہ دو انتظامی یونٹس میں تقسیم ہے : گلگت اور بلتستان/ سکردو ‘اور اس کی آبادی کم و بیش 13 لاکھ ہے۔ اسے چوبیس انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
    اس برس کے گلگت بلتستان انتخابات پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کرگئے تھے ۔ عام طور پر ایسے انتخابات پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ایک رسمی کارروائی ہوا کرتے تھے ۔ سب جانتے تھے کہ جو پارٹی اسلام آباد میں حکومت میں ہوگی‘ وہی جیتے گی ‘ تاہم اس مرتبہ تینوں جماعتوں نے انتخابات کو سنجیدگی سے لیا ‘ جس کی مندرجہ ذیل وجوہات تھیں:
    ۔1۔ ہر سیاسی جماعت کا سٹیج: یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مرکزی دھارے کی تین سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں۔ ہر پارٹی کے لیے ان انتخابات کے نتائج سیاسی اہمیت رکھتے تھے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے لیے یہ انتخابات بہت اہم تھے ۔ پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) نے اسے کڑی تنقید کا بنایا ہواتھا یہ مکمل طور پرناکام اور غیر مقبول ہوچکی ہے ۔ تحریک انصاف نے اس تاثر کو زائل کرتے ہوئے اپنی جماعت کی مقبولیت کو ثابت کرنا اور حزب ِ مخالف کے منفی پراپیگنڈے کو بے نقاب کرنا تھا ۔پیپلز پارٹی نہ صرف یہاں پہلے اقتدار میں رہ چکی تھی بلکہ گلگت بلتستان میں خاطر خواہ ووٹ بینک بھی رکھتی تھی کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس علاقے کو قانون سازی کا حق دیا تھا ۔ اُن کا خیال تھا کہ یہاں حاصل کیے گئے اچھے نتائج ان کے اس دعوے کو ثابت کرنے میں معاون ثابت ہوں گے کہ پیپلز پارٹی محض سندھ کی جماعت نہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کی اس سے پہلے یہاں حکومت تھی۔ اُنہوں نے ثابت کرنا تھا کہ صوبے میں کارکردگی کی وجہ سے اُنہیں یہاں سے حمایت ملی ہے ۔ ا س سے اُن کے اس بیانیے کو تقویت ملنی تھی کہ اُن کی کارکردگی بہتر تھی ۔
    ۔2۔ قیادت کا امتحان: یہ انتخابات اس حوالے سے بھی اہم تھے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتوں کی دوسری نسل پہلی مرتبہ باقاعدہ انتخابی اکھاڑے میں اُتری تھی ۔ بلاول بھٹو نے ان انتخابات میں بہت زیادہ وقت صرف کیا ۔ مریم نواز نے بھی گلگت بلتستان کی انتخابی مہم کے آخری دس دن وہاں گزارے ۔ تحریک انصاف کے علی امین گنڈاپوراور مرادسعید بھی وہاں فعال تھے ۔ بلاول اور مریم ‘ دونوں نے رائے دہندگان کو جلسوں میں شرکت کی تحریک دی اور درحقیقت تمام جلسوں میں عوام کا بہت زیادہ جوش و جذبہ دیکھنے میں آیا ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قیادت کا مطلب صرف جوشیلی تقاریر کرنا ہی نہیں ہوتا۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مسلم لیگ (ن) کی ناقص کارکردگی اور مریم نواز کے گلگت بلتستان کے ناراض اراکین کے بارے میں چبھتے ہوئے تبصروں نے انتخابات میں پارٹی کو شکست سے دوچار کردیا۔ حکمران جماعت ہونے کے ناتے تحریک ِ انصاف نے ووٹروں سے گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے کا وعدہ کیا ۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے پاس بھٹو کے جذباتی نعروں کے پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا اور یہ نعرے عوام پہلے بھی سنتے رہتے ہیں۔ اب اس جذباتیت کا ووٹوں میں ڈھلنا مشکل ہے ۔
    ۔3۔ بیانیے کی قبولیت : یہ انتخابات پی ڈی ایم کے بیانیے کی قبولیت کا بھی امتحان تھے ۔ جس دوران پیپلز پارٹی صرف تحریک ِ انصاف کی کارکردگی کو ہدف ِتنقید بناتی رہی ‘ پی ایم ایل ن نے اداروں کو نشانہ بنانے کی پالیسی اپنارکھی ہے ۔ اُن کا منفی بیانیہ اس خطے کے عوام نے مستر د کردیاکیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے فوج کو بہادری سے لڑتے دیکھ چکے ہیں۔ نئی پارٹی قیادت کی تقریروں میں سنجیدگی اور بصیرت کا فقدان واضح دکھائی دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی ممکنہ اپ سیٹ نہ ہوسکا جس کی سیاسی پنڈت امید لگائے بیٹھے تھے ۔
    گلگت بلتستان انتخابات کئی حوالوں سے اہم ہیں۔ ان کا انعقاد کورونا کی دوسری مہلک لہر کے دوران ہوا۔ موسم بھی سخت سرد تھا۔ اس کے باوجود عوام نے بے حد جوش و جذبے سے ان میں شرکت کی ۔ تمام جماعتوں کے جلسوں میں بھاری تعداد میں عوام شریک ہوئے ۔اس کا مطلب ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ سیاسی توجہ چاہتے ہیں۔ دوسرا حوصلہ افزا پہلو سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت تھی ۔ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ تمام جماعتوں نے خواتین امیدواروں کو نامزد کیا ۔ ان امیدواروں نے بھاری تعداد میں ووٹ بھی لیے ۔ خواتین رائے دہندگان کی طویل قطاریں اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھیں کہ گلگت بلتستان کی خواتین اپنی اہمیت سے واقف ہیں۔
    گلگت بلتستان میں حکومت کے قیام کے بعد وفاقی حکومت کے اقدامات اہمیت رکھتے ہیں۔ علاقے کو صوبائی حیثیت دینے کے وعدے پر عمل درآمد ہونا چاہیے ۔ ملازمت کے مواقع اور دیگر سہولیات کی فراہمی خطے کے بنیادی مسائل ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے لیے گلگت بلتستان سیاحت کے منصوبے کو جدید خطوط پر فعال بنائے ۔ رواں سال گلگت بلتستان اگلے برس آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہوگا۔ اسی طرح حزب ِ مخالف کے پاس بھی اپنے بیانیے پر نظر ِ ثانی کا موقع ہے ۔ یہ بات طے ہے کہ ریاست مخالف بیانیے کو کہیں بھی پذیرائی نہیں ملے گی ۔ ریاستی اداروں پر حملہ کرنے کی بجائے اُن جماعتوں کو عوامی مسائل پر توجہ دینی چاہیے ۔ گلگت بلتستان کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ موجودہ انتخابات سے پہلے وہاں پی ایم ایل ن کی حکومت تھی ‘ اس لیے عوامی سہولیات کے فقدان پر بات کرنے کا مطلب اپنی کوتائیوں کو تسلیم کرنا تھا ۔ قومی سطح پر حزب ِاختلاف کو عوامی معاملات پر بات کرنی چاہیے تاکہ وہ عوامی مفاد کی کے متبادل اور مؤثر نگہبان کا تاثر دے سکے ۔
    ہر بحران میں کوئی نہ کوئی موقع موجود ہوتا ہے ۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کورونا نہ ہوتا تو ٹرمپ جیت جاتے ۔ کورونا نے رائے دہندگان کو سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی ۔ ووٹر بھی محسوس کررہا ہے کہ اُنہیں ایسے حکمران چاہئیں جو اُن کا خیال رکھیں ۔ جارجیا سے لے کر گلگت بلتستان تک ووٹر جو اس سے پہلے کبھی باہر نہیں نکلے تھے اب جوق در جوق باہر نکلتے دکھائی دیے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ووٹر کی آواز آخر کار ووٹ مانگنے والوں سے زیادہ توانا ہوتی جائے گی ۔



     

اس صفحے کو مشتہر کریں