1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وسیلے کا جواز و عدم جواز

Discussion in 'تعلیماتِ قرآن و حدیث' started by سیف, Nov 15, 2007.

  1. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    (مسند احمد صفحہ 156جلد4 )
    عقبہ بن عامر الجہنی روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جماعت آئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے 9 سے بیعت لے لی اور ایک کو چھوڑ دیا۔ لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول آپ نے 9 سے بیعت لے لی اور ایک کو چھوڑ دیا۔ ارشاد فرمایا کہ اس سے اس لئے بیعت نہیں لی کہ وہ تعویذ پہنے ہوئے ہے۔ یہ سن کر ان صاحب نے ہاتھ اندر ڈال کر تعویذ توڑ ڈالا۔ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی بیعت لی اور فرمایا کہ جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔
    ======================
    (رواہ، ابوداود مشکوٰہ، صفحہ 389)
    عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ دم، تعویذ اور تولہ سب شرک ہیں۔
    ======================
    (ابو دائود، مشکوہ صفحہ 389، ترمذی جلد 2، صفحہ 28
    عیسٰی بن حمزہ (رح )کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ کے پاس عیادت کے لیے گیا وہ ”حمرہ (سرخ بادا)” کی بیماری میں مبتلا تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ حمرہ کے لیے تعویذ کیوں نہیں لٹکا لیتے، انہوں نے کہا کہ تعویذ سے اللہ کی پناہ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے کوئی بھی چیز لٹکائی تو وہ اسی چیز کے سپرد کر دیا جائے گا۔
    =======================
    ”عن شتیر بن شکل بن حمید عن ابیہ قال قلت یا نبی اﷲ علمنی تعویذا تعوذ بہ قال قل اللھم انی اعوذبک من شر سمعی وشر بصری وشر لسانی وشر قلبی وشر منیّ

    “شتیر بن شکل بن حمید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ مجھے تعویذ سکھلائیے جس کے ساتھ میں پناہ پکڑوں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تو کہہ ”اے اﷲ میں تیری پناہ پکڑتا ہوں اپنے کان کی برائی سے ‘اپنی آنکھ کی برائی سے ‘اور اپنی زبان کی برائی سے اپنے دل کی برائی سے اور اپنی منہ کی برائی سے ۔“ (ابوداود ‘ ترمذی ‘ نسائی ِ قال الالبانی اسنادہ صحیح ‘سنن ترمذی تحقیق البانی جلد 3 صفحہ 166 نسائی تحقیق الالبانی جلد 3 صفحہ 1081)
    =============================
    نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے :

    " سات مہلک چیزوں سے اجتناب کرو " ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم وہ کون کونسی ہیں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

    "1 ۔ اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا ۔
    2 ۔ جادو ،
    3 ۔ اس شخص کو قتل کرنا جس کی جان کو ناحق مارنا اللہ نے حرام کر رکھا ہے ۔
    4 ۔ سود خوری کرنا ۔
    5 ۔ یتیم کا مال کھا جانا ۔
    6 ۔ جنگ کے دن ( میدان سے ) پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلنا ۔
    7 ۔ اور بھولی بھالی پاکدامن و بے قصور عورتوں پر تہمت و بہتان لگانا "۔ ( متفق علیہ ) ۔
    ===========================
    اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جادو کیا گیا تھا تو انہوں نے قرآن کی آيتیں لکھ کر گلے میں نہیں لٹکائيں تھی بلکہ جبریل علیہ سلام معوذ لےکر اترے تھے تو ان کو پڑھ کر دم کرنے سے جادو کا اثر ختم ہوگیا تھا۔
    ===========================
    " وہ ان سے وہ ( جادو ) سیکھتے ہیں جس کے ذریعے وہ میاں بیوی کے مابین تفریق و علیحدگی پیدا کر دیتے ہیں "۔ ( البقرہ : 102 ) ۔
    =====================
    اسی طرح ارشاد الہی ہے :

    " وہ ایسی چیز ( جادو ) سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان ہی پہنچاتا ہے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا "۔
    (البقرہ : 102 ) ۔
    ==================
    جادو اذن الہی کے تابع :

    ہر جادو مسحور پر اثر انداز نہیں ھوتا کتنے ہی جادو گر ہیں کہ انھوں نے اپنی طرف سے کسی پر جادو کا بھر پور وار کیا مگر اس پر ان کے جادو کا کوئی اثر نہ ھوا ۔
    =============================
    ارشاد الہی ہے :

    " وہ کسی کو اس ( جادو ) کے ذریعے نقصان نہیں دے سکتے سواے اللہ کے حکم کے " ۔

    ( البقرہ : 102 ) ۔
    =====================

    حدیث معاذ رضی اللہ عنہ
    نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

    " یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی تمھیں نقصان پہنچانے کے لۓ اکٹھی ھو جاۓ تو وہ تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکتی سواۓ اس کے جو کہ اللہ تعالی نے تمھارے مقدر میں لکھ رکھا ہے "۔ ( سنن ترمذی ) ۔
    =======================
    نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :

    " ( شیطان ) اس جادو گر کاہن کی زبان پر وہ جھوٹ چڑھا دیتا ہے اور وہ اس کے ساتھ مزید سو جھوٹ ملا کر بکتا چلا جاتا ہے "۔ ( متفق علیہ ) ۔
    ==========================
    نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :

    " جس نے جادو کیا اس نے شرک کیا "۔
    ( سنن نسائی ) فتح المجید شرح کتاب التوحید میں شارح نے لکھا ہے :
    ===========================
    نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :

    "جو کسی عراف و جادوگر یا کاہن و ٹیوے باز کے پاس آیا اور اس نے اس سے کوئی باپ پوچھی اور اس کے جواب کو سچا سمجھا اور تصدیق کی اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل شدہ ( دین و شریعت ) کے ساتھ کفر کا ارتکاب کیا "۔ ( مسند احمد ) ۔
    ==============================
    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مختلف علاقوں میں اپنے بھیجے ھوۓ گورنروں کو یہ حکمنامہ بھیجا تھا :

    " ہر جادوگر اور جادوگر عورت کو قتل کر دو "۔
    =================================
    ارشاد الہی ہے :

    " اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں ( جادو وغیرہ ) کا خریدار ھوا اس کا آخرت میں

    کچھ حصہ نہیں ہے " ۔ ( البقرہ : 102 ) ۔
    =============================
    اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :

    "اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے"۔ ( الفاطر : 43 ) ۔

    امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

    " یعنی ان کے مکرہ و جادو ) کا وبال خود انہی کے اپنے سر پر ہی ھوتا ہے کسی دوسرے پر نہیں"

    امام محمد بن کعب القرظی فرماتے ہی:

    " تین کام ایسے ہیں کہ جو بھی کرے اسے اس وقت تک نجات نہیں ملتی جب تک کہ خود اس پر اس کامکر نازل نہ ھو ، یا اس پر ظلم و گناہ واقع نہ ھو اور اس کے ساتھ بدعھدی کر کے اسے ادھیڑ کر نہ رکھ دیا جاۓ ۔ لھذا اے مخاطب ! کسی سے جاود کروا کر جادوگروں جیسے گرے پڑے لوگوں کے ساتھ ہی آپ بھی دین سے نہ نکل جائيں اور یہ بات یاد رکھیں کہ یہ دنیا بہت ہی چھوٹی عمر والی ہے اور عنقریب تمھیں اندھیری قبر میں مٹی
    ( اینٹ ) کا سرہانہ بنانا ھو گا ۔

    اپنے سابقہ گناہ سے توبہ کا اعلان کر دیں اور دوسروں کے ساتھ نیکی و احسان کرکے اپنے دل کو حسد کے میل سے دھو ڈالیں نہ یہ کہ انہیں سے جادو کرواتے پھریں اور جس نے کسی کو جادو کروا رکھا ہے اس سے جادو کی گرہ کھلوا دیں قبل اس کے عظمتوں والے رب کی طرف سے تمھاری پکڑ آ جاۓ ۔
    ==================
    دعاء ذوالنون علیہ السلام :

    آپ ذوالنون حضرت یونس علیہ السلام والی بکثرت کرتے رہا کریں اور ان کی وہ دعاء یہ آیت کریمہ ہے :

    [لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمیں ]۔ ( الانبیاء : 87 ) ۔
    تیرے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں تو پاک ہے ( اور ) بیشک میں قصور وار لوگوں میں سے ھوں " ( الانبیاء : 87) ۔

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
    " جو مسلمان شخص بھی یہ دعاء مانگے گا اللہ اس کی دعاء ضرور قبول کرے گا "۔
    ( سنن ترمذی ) ۔

    علامہ ابن قیم رحمۃ علیہ لکھتے ہیں :
    " یہ ایک مجرب نسخہ ہے تو جو شخص بھی اس کو سات مرتبہ پڑھے گا تو اللہ تعالی اس کی دعاء قبول کرے گا "۔
    ================================
    ”وقل رب اعوذبک من ھمزات الشیاطین واعوذبک ان یحضرون “
    اور دعا کرو کہ پروردگار! میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں بلکہ اے میرے رب میں توتیری اس سے بھی پناہ مانگتاہوں ۔کہ وہ میرے پاس آئیں ۔ (سورہ المومنون آیت 98-97)
    =========================
    ”واذا قرات القرآن فاستعذ باﷲ من الشیطان الرجیم “
    پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے اﷲکی پناہ مانگ لےا کرو۔(سورۃ النحل:97)
    =========================
    ”عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت کان النبی صلی اللہ علیہ وسلمیقول اللھم انی اعوذبک من الکسل والھرم والمغرم والماثم اللھم انی اعوذبک من عذاب النار وفتنۃ النار وفتنۃ القبر وعذاب القبر ومن شر فتنۃ الغنی ومن شر فتنۃ الفقر ومن شر فتنۃ المسیح الدجال“

    حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اے اﷲ!میں تیری پناہ پکڑتا ہوں ‘سستی ‘بڑھاپے ‘قرض اور معصیت سے ۔اے اﷲ!میں تیری پناہ میں آتاہوں آگ کے عذاب سے اور آگ کے فتنے سے‘قبر کے فتنے ‘قبر کے عذاب سے اور مالداری کے فتنے کی برائی سے اور فقر کے فتنے کی برائی سے اور مسیح دجال کے فتنہ کی برائی سے ۔ (متفق علیہ بخاری جلد2 صفحہ 942 بحوالہ مشکوٰۃ ص 216)
    ===========================
    مصیبت سے بچاؤ کی دعاء :
    انا للہ و انا الیہ راجعون ، اللھم اجرنی فی مصیبتی و اخلف لی خیرا منھا
    " ھم سب اللہ ہی کے لۓ ہیں اور ھم سب اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ اے اللہ ! مجھے میری اس مصیبت سے بچانا اور مجھے اس سے بہتر معاوضہ عطا کرنا "۔

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
    " جس نے یہ دعاء کی اسے اللہ اس مصیبت سے بچا لیتا ہے اور اس ( مفقود چیز ) سے بہتر عطا فرماتا ہے "۔
    ( ابوداؤد )
    ===============================
    توبہ و استغفار بھی بکثرت کرتے رہا کریں اس کی بدولت آپ کے تمام غم دور کر دیۓ جائيں گے اور آپ کی
    تمام مشکلات حل کر دی جائيں گی ۔
    ===============================
    اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
    " اور جادو گر کہیں سے بھی آۓ کامیاب نہیں ھوتا "۔ ( طہ : 69 ) ۔
    =================================
    نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے :
    " سورۃ البقرہ پڑھا کرو ، اس کا اخذ کرنا باعث برکت ہے اور اس کا ترک کرنا حسرت و ندامت کا سبب ہے اور باطل پرست ( جادوگر ) اس کی استطاعت نہیں رکھتے "۔
    =================================
    قرآن کریم کی آخری دو سورتیں معوذتین ( قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس ) کا پڑھنا بھی جادو کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے ۔ اسی سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ھو کر فرمایا تھا :

    " ان دونوں سورتوں ( معوذتین ) کے ساتھ اللہ کی پناہ حاصل کیا کرو ان جیسی دوسری کوئی چيز کسی پناہ مانگنے والے کو حاصل نہیں "۔ ( ابوداؤد )

    علامہ ابن قیم لکھتے ہیں :

    "کہ مسلمانوں کو ان دو سورتوں کے ذریعے اللہ کی پناہ حاصل کرنے کی ضرورت سانس لینے ، کھانے پینے اور لباس پہننے کی ضرورت سے بھی زیادہ ہے "۔
    =================================
    ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے :
    "جس نے صبح کے وقت سات دانے عجوہ کھجور کے کھا لۓ اسے اس دن جادو اور زھر اثر نہیں کرتا"۔
    ( متفق علیہ ) ۔
    =================================
    ہر دعا اللہ قبول کرتا ہے بغیر کسی وسیلہ یا سفارش کے۔

    اللہ پہ امید رکھیں، ہر مصیبت وہ ہی دور کرتا ہے۔

    اللہ آپ کو ھدایت دے۔ آمین
    =============================
     
  2. محمدعبیداللہ
    Offline

    محمدعبیداللہ ممبر

    Joined:
    Feb 23, 2007
    Messages:
    1,054
    Likes Received:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    سیف صاحب آپ وسیلے کا بڑے ڈھرلے سے انکار کر رہے ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں۔
    جو لوگ وسیلے کے منکر ہیں وہ مجھے بتائیں کہ کیا وہ وسیلے کے بغیر اس دنیا میں تشریف لائے ہیں۔(کیونکہ اللہ تعالی کے لئے تو کچھ بھی ممکن نہیں جب حضرت آدم
    :as: کو بغیر ماں اور باپ کے پیدا کر سکتے ہیں اور حضرت عیسی :as: کو بغیر باپ کے تو پھر کیا ضرورت ہے ماں باپ کی کیا یہ انسان کو دنیا میں لانے کے لئے وسیلہ نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے)؟
    اللہ تعالی کا فرمان عالیشان ہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوں تو پھر کیااللہ تعالی انسان سے خود مخاطب نہیں ہو سکتے تھے کہ درمیان میں نبیوں کو لایا
     
  3. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    محمد عبید اللہ صاحب
    میں اب تک یہی سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالی بغیر وسیلے کے براہ راست دعا سنتا ہے۔ قبول کرے نہ کرے اس کی مرضی-

    اگر میری اس فہم میں کوئی غلطی ہے تو ضرور اصلاح فرمائیں-

    اگر آپ کو اس پوری پوسٹ میں جو درجنوں سطروں پر مشتمل ہے یہی ایک جملہ غلط لگا ہے تو بتا دیں میں اسے نکال دیتا ہوں- ویسے اگر آپ محسوس نہ کریں تو بتائیں کہ باقی باتوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے-
     
  4. محمود رضا
    Offline

    محمود رضا ممبر

    Joined:
    Aug 20, 2007
    Messages:
    89
    Likes Received:
    0
    وسیلے کے بغیر اللہ تعالٰی دعا سنتا ضرور ہے مگر اس کو قبول کرے یا نہ کرے یہ اس کی مرضی ہوتی ہے۔
    مگر جو دعا کسی کے وسیلے سے مانگی جائے تو اس کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ کیونکہ اللہ اپنے پیارے اور محبوب بندوں کے وسیلے کررد نہیں کرتا۔اسے اپنے محبوبوں سے پیار ہوتا ہے اور ان کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو شرف قبولیت بخشتا ہے۔
     
  5. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سیف بھائی ۔ آپ کی درجنوں سطور میں بیان کیے گئے حقائق درست ہیں۔
    جادو ٹونہ غیر شرعی امور ہیں۔ اور کفر و شرک کی علامات ہیں۔

    اللہ تعالی ہمیں سچی راہ دکھائے اور اس پر قائم و دائم رکھے۔ آمین
     
  6. محمدعبیداللہ
    Offline

    محمدعبیداللہ ممبر

    Joined:
    Feb 23, 2007
    Messages:
    1,054
    Likes Received:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جناب بات وہ کریں جو حقیقت پر مبنی ہے وسیلے کا انکار آپ کر رہے تھے جو کہ کسی بھی طور پر درست نہیں ہاں وسلیے کے اختلاف ضرور ہیں اور آپ کی سب باتون میں جو درست نہیں تھی اس کو میں نے اٹھا لیا اب آپ کیا وضاحت کریں گے کہ " اللہ تعالی بغیر وسیلے کے براہ راست دعا سنتا ہے۔ " سے آپ کیا شو کرنا چاہ رہے ہیں ذرا روشنی ڈالیں
     
  7. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    بات بالکل سیدھی اور صاف ہے اللہ تعالی سے جب دعا کی جاتی ہے تو وہ براہ راست سنتا ہے۔ دعا کرنے والا اس کے نزدیک کس مقام پر فائز ہے یہ وہی بہتر جانتا ہے۔
     
  8. شاکرالقادری
    Offline

    شاکرالقادری ممبر

    Joined:
    Jan 31, 2007
    Messages:
    38
    Likes Received:
    3
    دوستو!

    بات شروع ہوئي تھي عاملوں سے اور جا پہنچي وسيلہ کے انکار پر اور تعويز کي شرعي حيثت پر سب سے پہلے تو ہميں يہ ديکھ لينا چاہيے کہ تعويز کيا ہے اور لفظ تعويذ کے معني کيا ہيں
    ہماري دوست نے اوپر ايک پوسٹ ميں لکھا ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر جادو کييا گيا تو جبريل معوذتين لے کر آئے اسي طرح اعوذ باللہ من الشيطن الرجيم ميں بھي لفظ اعوذ شامل ہے “تعويذ، معوذتين، اعوذ، اعيذ“ ايک ہي قبيل کے لفظ ہيں اور ايک ہي مادہ سے برآمد ہتے ہيں جس کے معني ہيں پناہ چاہنا اور پناہ مانگنا اب ديکھا يہ جانا چاہيے کہ يہ پناہ کس سے مانگي جا رہي ہے اگر يہ پناہ اللہ سے مانگي جا رہي ہے تو يہ سراسر ااسلامي اور شرعي ہے
    کيونکہ
    اعوذ باللہ من الشيطن الرجيم
    قل اعوذ برب الفلق
    قل اعوذ برب الناس
    سے ظاہر ھے
    تعويذ لکھ کر بھي کيا جا سکتا ہے اور پڑھ کر بھي بشرطيکہ کہ تعويذ ميں اللہ سے پناہ مانگننے والے جملے لکھے اور پڑھے گئے ہوں لہذا قرآني آيات اور کلمات ربي نہ تو پڑھ کر دم کرنا خلاف شرع ہے اور نہ ہي لکھنا اور اپنے پاس رکھنا خلاف شرع ہے جو ايسا سمجھتا ہے وہ غلطي پر ہے
    دوسري بات وسيلہ اور شفاعت کي ہے
    آيتہ الکرسي ميں ہے
    من ذالذي يشفع عندہ الا باذنہ
    وہ کون ہے جو اس کے ہاں سفارش کرے مگر وہي جس کو ان حاصل ہو
    يہ درست ہے کہ اللہ کے ہاں سفارش نہيں کي جا سکتي مگر اسي آييت سے يہ بھي تو ظاہر ہے کہ جس کو سفارش کرنے کا اذن مل جائے وہ کر سکتا ہے کيونکہ "الا باذنہ" سے يہي ظاہر ہے
    پھر
    ولو انھم اذ ظلموا والي آيت پر غور کريں جس ميں کہا گيا ہے کہ اگر کوئي اپنے آپ پر ظلم کر لے تو وہ نبي کريم صلي اللہ علييہ وآلہ وسلم کے پاس چلا جائے اور اللہ سے مغفرت چاہے اور نبي بھي اس کے ليے مغفرت کريں تو وہ اپنے اللہ کو توبہ قبو کرنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا

    يہاں پر ہميں قرآن حکيم نے وہ طريقہ بتا ديا ہہے جس کے ذريعہ ہم اللہ سے مغفرت طلب کر سکتے ہيں اور وہ يہ ہے کہ:
    جب ہم سے کوئي غلطي ہو جائے يعني گناہ ہو جائے تو ہميں دربار رسالت ميں رجوع کرنا چاہيے
    اور اللہ سے مغفرت طلب کرنا چاہيے
    اور پھر رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم بھيي ہمارے ليے مغفرت طلب فرمائيں
    تو اللہ ہميں بخش ديگا اور ہماري توبہ قبول کر لے گا
    ///////////
    يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ اللہ تو ہماري شہ رگ سے نزديک ہے براہ راست سنتا بھي ہے اور قبول بھي کرتا ہے تو پھر اس نے يہ تعليم کيوں دي کہ جب اپنے آپ پر ظلم کر لو تو مييرے رسول کے پاس جائو اور پھر مجھ سے مغفرت طلب کرو
    دوسري بات
    ليکن آپ کہيں گے کہ چلو مان ليا کہ
    اللہ نے يہ کہہ ديا کہ رسول کے پاس جائو ليکن مغفرت تو اللہ سے ہي طلب کي گئي ناں
    ھاں يہ درست ہے کہ مغفرت اللہ سے ہي طلب کي گئي ليکن اس سے اگلي شرط بھي ملاحظہ ہو کہ " اور رسول بھي اس کے ليے مغفرت طلب کريں" تو پھر اللہ توبہ قبول کرے گا
    کيوں بھاائي بات سمجھ آتي ہے؟؟؟؟ سفارش اور وسيلہ اور کسے کہتے ہيں يہي تو ہے ناں
    تو برادران مکرم بے شک قبول کرنے والا سننے والا وہي اللہ ہے ليکن وہ ہميں يہ تعليم ديتا ہے کہ اس تک پہنچنے اس سے کوئي بات قبول کروانے کے ليے درميان ميں کسي کو لانا چاہيے اور يہي وہ چيز ہے جسے دوستوں نے وسيلہ اور سفارش کا نام دے کر اس کو شرک قرار دينا شروع کيا ہوا ہے
    اللہ ہہم سب کو ہدايت دے
    آمين
     
  9. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاءاللہ ۔ شاکر القادری بھائی ۔ آپ نے قرآنی آیات کے حوالہ جات سے تعویز اور وسیلہ پر بہت خوبصورت جواب دیا ہے۔ اور ہم جیسے بےعلموں کے علم میں گرانقدر اضافہ فرمایا ہے۔
    آپ کے موقف کی تائید میں ایک آیت کا اضافہ مزید کرنا چاہوں گا جو کہ موضوع کے مطابق بھی ہے ۔ سورۃ المائدہ میں اللہ پاک خود وسیلہ اختیار کرنے کا حکم فرما رہے ہیں۔

    يَا اَيّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَابْتَغُواْ اِلَيہِ الْوَسِيلَۃَ وَجَاھِدُواْ فِي سَبِيلِہِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO (الْمَآئِدَۃ ، (5 : 35)

    اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤo

    واضح ہو کہ اس آیت میں اللہ تعالی نے محض عبادات (تقویٰ ) اور جہاد کو اپنے قرب تک پہنچنے کو کافی قرار نہیں دیا بلکہ کوئی وسیلہ ڈھونڈنے کا حکم دیا ہے۔ اور قرآنی حکم ایک مسلمان پر واجب ہو جاتا ہے۔

    خدا تعالی ہمیں قرآنی تعلیمات کو اصل روح کے مطابق سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
     
  10. محمدعبیداللہ
    Offline

    محمدعبیداللہ ممبر

    Joined:
    Feb 23, 2007
    Messages:
    1,054
    Likes Received:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    ما شاءاللہ شاکر القادری صاحب اورنعیم صاحب بہت اچھی تفصیل بیان کی آپ نے اللہ تعالی آپ دونوں کو جزا دے
     
  11. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    ایک واضح اور متعین بات کو، تاویلات کے ذریعے اور علم الکلام کا مظاھرہ کرتے ہوئے، جھٹلانا اور اسے غلط ثابت کرنا مناسب نہیں۔ جب تعویذ لٹکانے کے بارے میں واضح حدیث موجود ہے تو پھر اس پر تو بحث نہیں ہونی چاھیے۔ اسی طرح
    " من ذالذي يشفع عندہ الا باذنہ
    وہ کون ہے جو اس کے ہاں سفارش کرے مگر وہی جس کو اذن حاصل ہو "
    جیسا غلط ترجمہ بھی آپ جیسے اھل علم کو زیب نھیں دیتا۔
    عربی سے معمولی شد بد رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ ”باذنہ” کا مطلب ”اس کے اذن سے” ھے نا کہ ’وہی جس کو اذن حاصل ہو”۔
    ---------------------------
    ”ولو انھم اذ ظلموا والی" آيت جب نازل ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ اس لیے اب اس کا حوالہ دینا مناسب نہیں۔
    --------------------------
    مکہ کے کافر بھی اللہ کو مانتے تھے لیکن درمیانی حوالے اور واسطے کے لیے 360 بت بنا رکھےتھے جن کو وہ اللہ تک رسائی کا وسیلہ سمجھتے تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی کی ہدایت کے لئے اور ایسے ہی بت توڑنے کے لئے تشریف لائے تھے۔ اب ہم نے ان بتوں کی جگہ دوسرے وسیلے اور واسطے بنا لئے ھیں۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔
    --------------------------
    يَا اَيّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَابْتَغُواْ اِلَيہِ الْوَسِيلَۃَ وَجَاھِدُواْ فِي سَبِيلِہِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO (الْمَآئِدَۃ ، (5 : 35)

    اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤo

    نعیم صاحب کیا واقعی اس آیت میں وسیلہ کا لفظ انسانی واسطے کو ظاھر کرتا ہے کہ جس کے توسط سے اللہ کے حضور تک پہنچا جا سکتا ہے؟
    ===================
    اللہ تعالی کے مقرب اور برگزیدہ بندے ھمارے لیے مشعل راہ اور باعث رہنمائی ہیں۔ اللہ کے نیک بندوں کی نگاہ سے ہی انسان کی کایا پلٹ سکتی ہے لیکن اللہ کے واسطے دعا کو اللہ تک رسائی کے لئے کسی وسیلے کا محتاج نہ بنائیں۔ دعا اللہ براہ راست سنتا ہے اور قبول کرتا ہے یا اس کا اجر عطا فرماتا ہے۔

    ان ہی گزارشات کے ساتھ میں درخواست کروں گا کہ آپ کو جو بات درست لگتی ہے اسی پر کار بند رھیں محض بحث کو جیتنے کے لیے کوشاں نہ رہیں۔ اس موضوع پر یہ میری آخری پوسٹ ہے۔ کیونکہ مزید بحث سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
    ===================
     
  12. نور
    Offline

    نور ممبر

    Joined:
    Jun 21, 2007
    Messages:
    4,021
    Likes Received:
    22
    پتہ نہیں محترم سیف صاحب جیسے اہل علم وہابی کو اس ترجمہ میں کونسی خرابی نظر آ گئی ۔ حالانکہ اس عقیدے پر تو سب متفق ہیں کہ خالق و مالک اور قادر مطلق اللہ تعالی کی ذات ہے۔ اس سے کوئی مسلمان انکار کر کے مسلمان رہ ہی نہیں‌سکتا ۔

    کچھ پیغامات پہلے انہوں نے بڑے ہی آرام سے پوچھا تھا کہ مجھے وسیلہ کے وجوب پر کوئی آیت دکھا دیں تاکہ میں اپنی اصلاح کر لوں۔ اور جب قرآنی آیات سامنے لائی گئیں تو کیسے دھڑلے سے “علم الکلام“ کہہ کر جھٹلانے پر تل گئے ہیں۔

    جب اللہ پاک نے کسی کو شفاعت کا “اذن“ دے دیا ہے تو معاذ اللہ ، استغفر اللہ ، اللہ رب العزت جو حکیم و دانا ہے وہ کوئی (معاذ اللہ ، معاذاللہ) تماشا تو نہیں کروانا چاہتا کہ کسی کو اذنِ شفاعت دے دے اور پھر اسکی شفاعت قبول نہ فرمائے۔ کیا اس نے ایسے ہی اپنے انبیاء و مقربین کے ساتھ کوئی (معاذاللہ ) کھیل تماشا کرنا تھا کہ یہاں تو اذنِ شفاعت عطا فرما دے اور جب شفاعت کا موقع آئے اور نبی رسول جیسے مقربین کوئی شفاعت کر دیں تو اللہ تعالی قبول نہ فرما کر اپنے مقرب رسولوں اور انبیاء کی ساری دنیا کے سامنے (معاذ اللہ ) سبکی کروا دے۔ کیا آپ نے اللہ کو ایسا سمجھ رکھا ہے؟ یا پھر آپ کو اور آپ جیسے وہابی توحید پرستوں کو اللہ تعالی سے معاذ اللہ زیادہ سمجھ آ گئی ہے کہ وہ اپنے محبوب مقربین انبیا و اولیاء کی شفاعت قبول نہیں فرمائے گا (میں نے یہ جملے صرف بات سمجھانے کے لیے بولیں ہیں)
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نعیم صاحب نے قرآن حکیم کی جس آیت کا حوالہ دیا ہے جس میں ہمیں واضح طور پر اللہ پاک کی بارگاہ میں وسیلہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ آپ اسے بھی معاذاللہ “علم الکلام “ کہہ کر ہی رد کر سکتے ہیں ؟ اب آپ بات انسانی وسیلے کی طرف کھینچ کر اس لیے لے جارہے ہیں کیونکہ آپ بہر صورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا انکار کرنا یا کروانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہی طریقہ وہابیہ ہے۔

    سوال کرنے والے کو پہلے خود جواب دینا چاہیے کہ اس آیت میں یہ کہاں آیا ہے کہ “انسانی “ وسیلہ اختیار نہ کرو ؟؟؟ ذرا جواب دیجئے گا۔

    حالانکہ اگر عبادات کا وسیلہ ہی مراد ہوتا تو اللہ تعالی نے اسی آیت میں تقویٰ اور جہاد کا حکم تو دے دیا ہے۔ لیکن یہ نہیں فرمایا کہ تقویٰ اور جہاد ہی کافی وسیلہ ہیں۔ بلاشبہ عبادات بھی وسیلہ بنیں گی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے واضح ہے کہ قرآن مجید بھی وسیلہ بنے گا، انسان کا صدقہ و خیرات، رمضان کے روزے اور دیگر عبادات وسیلہ بنیں گی۔ اور آخرت میں انسان کو اس سے مغفرت اور بلندی درجات نصیب ہو گی۔

    لیکن اس آیت میں تقوی اور جہاد جیسی عبادت کے باوجود کسی وسیلہ کا حکم دیا گیا ہے۔ جس کا انکار کوئی عام مسلمان تو کر نہیں سکتا کیونکہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے اکابر صحابہ بھی قحط سالی میں وسیلہء محمدی سے بارش کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔

    لیکن آپ جیسے توحید پرست ہی یہ جرآت کر سکتے ہیں کیونکہ آپ تو اللہ تعالی کے اتنے قریب ہو چکے ہیں کہ قرآن کی آیات کا بھی آپ کو پتہ چل گیا ہے کہ کونسی آیت صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے لیے تھی۔ اور کونسی نہیں۔

    جیسا کہ آپ نے “ولوانھم اذ ظلمو “ سے بڑے آرام سے استدلال فرما دیا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید اگر قیامت تک ہدایت ہے تو اسکی تعلیمات بھی قیامت تک کے لیے ہیں۔ پھر آپ کو توقصص الانبیا سے بھی ہدایت لینے کی ایک ذرہ برابر ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور مبارک سے بھی پہلے کے واقعات تھے۔ آپ کی دلیل کو سامنے رکھیں تو شاید آدھا قرآن معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ، بے معنی اور ناقابلِ عمل ٹھہرے ۔ کہ اس میں ان ادوار کا ذکر ہے جو گذرے ہوئے دور کے تھے۔

    اگر بقول آپکے ، قرآن کی وہ آیات ہی ہدایت ہیں جو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے بعد کے لیے نازل ہوئیں تو پھر تو قل ھواللہ احد کے مخاطب بھی صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ٹھہرتے ہیں۔ کیونکہ براہ راست تو اللہ تعالی کی توحید کا پیغام انہی کو دیا گیا تھا۔

    سبحان اللہ بلکہ انا للہ ۔ ایسی وہابیہ سوچ پر۔
    بقول شاعر

    خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔​

    معلوم نہیں سیف صاحب دوسروں کو غلط ثابت کر کے صرف خود ہی کو “ اللہ تعالی “ کی توحید کا پرستار ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہراً یہی نظر آتا ہے کہ یا تو وہ اپنی بات پراڑ کر قرآن و سنت کے دلائل کو بھی “علم الکلام “ کہہ کر بذاتِ خود جھٹلانے کی کوشش میں ہیں۔

    یا پھر انکا مقصد اس فورم کے ماحول کو خراب کر کے یہاں‌ کے سادہ لوح لوگوں کو دینی سیکشن سے متنفر کرنا ہے۔

     
  13. حماد
    Offline

    حماد منتظم اعلیٰ Staff Member

    Joined:
    May 13, 2006
    Messages:
    402
    Likes Received:
    95
    ملک کا جھنڈا:
    لڑی تقسیم کرنے کی وجہ

    اپنے موضوع سے ہٹ جانے کی وجہ سے اس لڑی کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے سابقہ گفتگو کو مقفل کر دیا گیا ہے۔

    سابقہ گفتگو کے لئے ملاحظہ ہو

    http://www.oururdu.com/forum/viewtopic.php?t=723
     
  14. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک مولوی کا ایک ہندو دکاندار سے جھگڑا ہو گیا تو اس مولوی نے مسجد میں اعلان کر دیا کہ فلاں ہندو وھابی ہو گیا ہے اس سے سودا سلف نہ لیا جائے۔
    جناب نور العین صاحب!
    اگر آپ کے پاس کوئی جواب نہیں تو کم از کم الزامات تو نہ لگائیں-
    اللہ کے ہاں ایسے غیر مصدقہ الزامات کی بھی جوابدہی کرنا ہو گی۔
     
  15. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اسی ضمن میں صحیح بخاری ، السنن الترمذی اور دیگر کئی کتب احادیث میں درج دو احادیث پاک بھی عرض کرتا ہوں جو کہ موضوع کو واضح کرنے میں اور ہر طرح کے شکوک و شبہات رفع کر کے حقیقت کو روز روشن کی طرح عیاں کرنے میں موثر ثابت ہوں گی ۔
    آئیے دیکھیے کہ کہ خود سیدنا عمرفاروق :rda: اور انکی امامت میں نماز استسقا ادا کرنے والے دیگر صحابہ کبار رضوان اللہ علیھم اجمعین کا عمل مبارک کیا تھا۔

    عَنْ اَنَسٍ رضي اللہ عنہ اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي اللہ عنہ کَانَ اِذَا قُحِطُوْا اسْتَسْقَي بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي اﷲ عنھما فَقَالَ : اَللَّھُمَّ اِنَّا کَنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَيْکَ بِنَبِيِنَا فَتَسْقِيْنَا، وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَيْکَ بِعَمِّ نَبِيِنَا فَاسْقِنَا، قَالَ : فَيُسْقَوْنَ. رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَۃَ وَابْنُ حِبَّانَ.

    (البخاري في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : سُؤَالِ النَّاسِ الامام الاستسقاء اِذا قَحَطُوا، 1 / 342، الرقم : 964، وفي کتاب : فضائل الصحابہ، باب : ذکر العَبَّاسِ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ رضي اﷲ عنھما، 3 / 1360، الرقم : 3507، وابن خزيمہ في الصحيح، 2 / 337، الرقم : 1421، وابن حبان في الصحيح، 7 / 110، الرقم : 2861، والطبراني في المعجم الاوسط، 3 / 49، الرقم : 2437، والبيھقي في السنن الکبري، 3 / 352، الرقم : 6220، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 270، الرقم : 351، واللالکائي في کرامات الاولياء، 1 / 135، الرقم : 87 وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 814، وابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 4 / 433.)

    ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا۔ فرمایا : تو ان پر بارش برسا دی جاتی۔‘‘

    اب ایک اور حدیث پاک دیکھیے کہ ایک نابینا شخص بارگاہ رسالت :saw: میں آیا تو اسے سرکار دوعالم :saw: نے کس طرح وسیلے کا حکم فرمایا

    عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضي اللہ عنہ اَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ اَتَي النَّبِيَّ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم فَقَالَ : ادْعُ اﷲَ لِي اَنْ يُعَافِيَنِي. فَقَالَ : اِنْ شِئْتَ اَخَّرْتُ لَکَ وَھُوَ خَيْرٌ. وَاِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ. فَقَالَ : ادْعُہُ. فَاَمَرَہُ اَنْ يَتَوَضَّۃَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَاُ وَيُصَلِّيَ رَکْعَتَيْنِ. وَيَدْعُوَ بِھَذَا الدُّعَاءِ : (اَللَّھُمَّ اِنِّي اَسْئَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَۃِ. يَا مُحَمَّدُ، اِنِّي قَدْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلَي رَبِّي فِي حَاجَتِي ھَذِہِ لِتُقْضَي. اَللَّھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِيَّ).

    رَوَاہ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَۃ وَاللَّفْظُ لَہُ.

    وَقَالَ اَبُوْعِيسَي : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ اَبُوْ اِسْحَاقَ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَي شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَقَالَ الْھَيْثَمِيُّ : حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْاَلْبَانِيُّ : صَحِيْحٌ.

    (الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ (ص)، باب : في دعاء الضعيف، 5 / 569، الرقم : 3578، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 168، الرقم : 10494، 10495، وابن ماجہ في السنن، کتاب : اقامۃ الصلاۃ والسنہ فيھا، باب : ماجاء في صلاۃ الحاجۃ، 1 / 441، الرقم : 1385، وابن خزيمہ في الصحيح، 2 / 225، الرقم : 1219، واحمد بن حنبل في المسند، 4 / 138، الرقم : 17240 - 17242، والحاکم في المستدرک، 1 / 458، 700، 707، الرقم : 1180، 1909، 1929، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 306، الرقم : 508، وفي المعجم الکبير، 9 / 30، الرقم : 8311، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 / 209، الرقم : 2192، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 147، الرقم : 379، والنسائي في عمل اليوم والليلة، 1 / 417، الرقم : 658 - 660، والمنذري في الترغيب والترھيب، 1 / 272، الرقم : 1018، والھيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 279.)

    ’’حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے لئے خیر و عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : یہ دعا کرنا : (اَللَّھُمَّ اِنِّي اَسْئَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَۃِ. يَا مُحَمَّدُ، اِنِّي قَدْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلَي رَبِّي فِي حَاجَتِي ھَذِہِ لِتُقْضَي. اَللَّھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِيَّ)
    ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔‘‘
     
  16. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    میں سب بہن بھائیوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اتنی با مقصد اور قیتمی باتوں سے سرفراز فرمایا۔ اللہ تعالی ان سب کو جزا دے اور ان کے علمی ذوق میں اضافہ کرے۔

    وسیلے کے جواز پر جو اتنی ساری باتیں کی گئی ہیں کیا ان کی روشنی میں یہ طے ہو جاتا ہے کہ بغیر وسیلے کے دعا کرنا لا حاصل ہے یا یہ کہ اللہ بغیر وسیلے کے دعا نہیں سنتا؟

    اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ ماننے میں کہ ‘‘اللہ بغیر وسیلے کے دعا سنتا ہے‘‘ کیا مانع ہے- کیا یہ ماننے سے کہ ‘‘اللہ بغیر وسیلے کے دعا سنتا ہے‘‘ وسیلے کا انکار ثابت ہو جاتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور اللہ تعالی اپنی عظمت، کبریائی اور ھماری فھم سے بھی بعید قدرت کا حامل ہوتے ہوئے ہماری سوچ تک سے آگاہ ہے تو کیا وہ ھماری دعا نہیں سنتا؟

    اگر آپ مانتے ہیں کہ اللہ دعا سنتا ہے تو پھر بحث کیسی؟ یہی تو میں نے بھی عرض کیا تھا۔
     
  17. پیاجی
    Offline

    پیاجی ممبر

    Joined:
    May 13, 2006
    Messages:
    1,094
    Likes Received:
    19
    محترم سیف بھائی اور باقی تمام ساتھیوں جن کے ذہن میں ایسے سوالات ہیں ان کے لئے ایک کتاب (عقیدہ توسل) کا لنک پیش کر رہا ہوں، ضرور ملاحظہ فرمائیں۔

     
  18. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    اس پوری کتاب میں کہیں بھی یہ مذکور نہیں کہ وسیلے کے بغیر دعا کرنا بے کار ہے یا اللہ تعالی بغیر وسیلے کے دعا نہیں سنتا۔

    پوری نماز دعاوں پر مشتمل ہے اس میں کسی وسیلے کا ذکر نہیں ملتا۔

    مسنون دعائوں کی کتب میں درج دعائیں تقریبا“ تمام بغیر وسیلے کے ذکر کے ہیں-

    دعا کرنے کے لیے کہیں بھی لازمی شرط کے طور پر وسیلے کا ذکر نہیں ہے۔
     
  19. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم محترم سیف بھائی ۔
    مبارک ہو کہ آپکو قرآن مجید کے حکم “وابتغو الیہ الوسیلۃ “ المائدہ 35:5 “ترجمہ اور اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرو“ پھر اسکے بعد حضرت یوسف علیہ السلام جیسے جلیل القدر انبیاء کی قمیض کے وسیلے سے قائم کردہ سنتِ انبیاء ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں وسیلہ اختیار کرنے کے حکم
    (بحوالہ الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ (ص)، باب : في دعاء الضعيف، 5 / 569، الرقم : 3578، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 168، الرقم : 10494، 10495، وابن ماجہ في السنن، کتاب : اقامۃ الصلاۃ والسنہ فيھا، باب : ماجاء في صلاۃ الحاجۃ، 1 / 441، الرقم : 1385، وابن خزيمہ في الصحيح، 2 / 225، الرقم : 1219، واحمد بن حنبل في المسند، 4 / 138، الرقم : 17240 - 17242، والحاکم في المستدرک، 1 / 458، 700، 707، الرقم : 1180، 1909، 1929، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 306، الرقم : 508، وفي المعجم الکبير، 9 / 30، الرقم : 8311، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 / 209، الرقم : 2192، ) اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ خلیفہء راشد حضرت عمرفاروق :rda: (بحوالہ البخاري في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : سُؤَالِ النَّاسِ الامام الاستسقاء اِذا قَحَطُوا، 1 / 342، الرقم : 964، وفي کتاب : فضائل الصحابہ، باب : ذکر العَبَّاسِ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ رضي اﷲ عنھما، 3 / 1360، الرقم : 3507، وابن خزيمہ في الصحيح، 2 / 337، الرقم : 1421، وابن حبان في الصحيح، 7 / 110، الرقم : 2861، والطبراني في المعجم الاوسط، 3 / 49، الرقم : 2437، والبيھقي في السنن الکبري، 3 / 352، الرقم : 6220، ) سے بڑھ کر اللہ تعالی کی توحید کی سمجھ اور اس سے مانگنے کا سلیقہ عطا ہوگیا ہے تو یقیناً آپ حق بجانب ہیں کہ باقی سب کو غلط ثابت کرکے خود کو “مومن کامل اور موحدِ اکمل“ ہونے کا پر خوشی کا اظہار فرمائیں۔ :hasna:
     
  20. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    نعیم بھائی مجھے صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ یا میں یا کوئی دوسرا اللہ تعالی سے براہ راست مخاطب ہو کر دعا مانگے تو کیا اللہ وہ دعا نہیں سنے گا۔

    آپ کی علمی و تحقیقی کاوش کی تعریف نہ کرنا ممکن نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی بغیر وسیلے کے دعا نہیں سنتا تو میں آپ سے متفق نہیں ہوں نہ ہو سکتا ہوں۔ اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالی بغیر وسیلے کے بھی دعا سنتا ہے (وسیلے کے ساتھ بھی) تو پھر یہ ساری بحث بے کار ہے۔ میں نے بھی یہی عرض کی تھی۔ اتنی سی بات پر اتنا بڑا اختلاف اور اتنا زیادہ مواد اکٹھا کرنا غیر ضروری تھا۔

    تاہم اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی بغیر وسیلے کے دعا نہیں سنتا تو پھر یہ ساری کاوش درست ہے۔
     
  21. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم سیف بھائی ۔

    میں سمجھا تھا کہ شاید آپ وسعتِ نظری سے تبادلہء خیالات اور کشادہ ظرفی سے علم و تحقیق سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن میں نے آپ کو سمجھنے میں واقعی غلطی کی۔ کیونکہ خود آپ کو ہی پتہ نہیں کہ لڑی کا موضوع کیا شروع کیا تھا اور اب بات کو ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاں سے کہاں لے جارہے ہیں۔ آپ کی لڑی کا عنوان ہی یہ نہ تھا کہ “ آیا اللہ تعالی دعا سنتا ہے یا نہیں “ بلکہ عنوان ہے “وسیلے کا جواز اور عدم جوازیعنی کیا اللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ اختیار کرنا ایک جائز شرعی امر ہے یا کہ خلافِ شرع اور ناجائز ہے ؟

    میرے بھائی ۔ جو مسلمان اللہ تعالی کو اسکی تمام شانوں کے ساتھ ساتھ “ السمیع والبصیر“ ہونے پر ایمان نہیں رکھتا اسکا تو ایمان ہی قابل قبول نہیں ہے۔ اس بات پر نہ تو کسی کو شک ہے اور نہ ہی دوسری رائے کہ اللہ تعالی سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔ تو میرے بھائی جس بات پر ہر کوئی متفق ہوتا ہے وہ بات تو کبھی موضوعِ بحث ہوتی ہی نہیں۔

    اور آپ کی یادداشت کو تازہ کرنے کے لیے عرض کردوں کہ اس لڑی کے آغاز میں خود آپ نے یہ موضوع ہی نہیں بنایا تھا کہ اللہ تعالی بغیر وسیلے کے دعا سنتا ہے یا نہیں ۔ بلکہ آپ کا فرمان تھا ۔

    لڑی کے آغاز میں آپ نے جتنے بھی جادو ٹونے ، شیطانی تعویز گنڈے کے خلاف احادیث پیش کیں اس میں سے کہیں سے بھی وسیلے کے عدم جواز کی دلیل ہی نہیں نکلتی تھی۔ اس بات کی طرف اسی لڑی میں محترم شاکر القادری صاحب اور محمد عبید اللہ صاحب اشارہ فرما چکے ہیں لیکن آپ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے سنی ان سنی کر کے ڈھاک کے تین پات کے مصداق لڑی کو آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔

    خیر آپ کا سننے والا مسئلہ تو حل ہوگیا کہ میرے سمیت الحمدللہ ہر مسلمان یہ ایمان رکھتا ہے کہ اللہ تعالی ہر کسی کی دعا سنتا ہے۔ بلکہ میں اضافہ کروں گا کہ دعائیں قبول فرمانے والی ذات بھی اللہ سبحانہ وتعالی ہی کی ہے۔ اسکے بنا کوئی دعاؤں کو قبول کرنے والا ہی نہیں۔

    اب براہ کرم آپ میرے چند سوالات کا جواب دے دیجئے۔

    سوال نمبر 1۔ اوپر کئی پیغامات میں دئے گئے حوالہ جات جس میں قرآن مجید میں “وابتغو الیہ الوسیلۃ “ کا حکم ہے ۔ اس سے آپ کیا مراد لیتے ہیں ؟ کیا اپنے دلائل سے قرآنی لفظ “وسیلہ“ کے معنی ہی بدل دیں گے؟

    سوال نمبر 2۔ حضور نبی اکرم :saw: کے اس فرمان کی آپ کیا تطبیق فرمائیں گے ؟ جو کہ حدیث الترمذي في السنن، 5 / 569، الرقم : 3578، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 168، الرقم : 10494، 10495، وابن ماجہ في السنن،1 / 441، الرقم : 1385، وابن خزيمہ في الصحيح، 2 / 225، الرقم : 1219، واحمد بن حنبل في المسند، 4 / 138، الرقم : 17240 - 17242، والحاکم في المستدرک، 1 / 458، 700، 707، الرقم : 1180، 1909، 1929، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 306، الرقم : 508، وفي المعجم الکبير، 9 / 30، الرقم : 8311، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 / 209، الرقم : 2192، )

    ’’حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے لئے خیر و عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : یہ دعا کرنا : (اَللَّھُمَّ اِنِّي اَسْئَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَۃِ. يَا مُحَمَّدُ، اِنِّي قَدْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلَي رَبِّي فِي حَاجَتِي ھَذِہِ لِتُقْضَي. اَللَّھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِيَّ) ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔‘‘

    کیا فرمانِ رسول :saw: کہ جسے قرآن مجید “وما ینطق عن الھویٰ “ فرما کر “وحی الہی“ کا درجہ دیتا ہے۔ ذرا آپ فرمائیں گے کہ حضور نبی اکرم :saw: نے یہ کیوں فرمایا ؟ یا آپ کو اس میں سے وسیلہ کا عدمِ جواز کیسے مل گیا ؟ کیا معاذ اللہ اس وقت “اللہ تعالی براہ راست سننے والا نہ تھا “ ؟

    پھر آخری سوال : صحیح بخاری سمیت دیگر کتبِ احادیث میں بیان کی گئی حدیث صحیح جو بیان کی گئی ۔ بحوالہ البخاري في الصحيح، 1 / 342، الرقم : 964، وفي کتاب : فضائل الصحابہ، باب : ذکر العَبَّاسِ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ رضي اﷲ عنھما، 3 / 1360، الرقم : 3507، وابن خزيمہ في الصحيح، 2 / 337، الرقم : 1421، وابن حبان في الصحيح، 7 / 110، الرقم : 2861، والطبراني في المعجم الاوسط، 3 / 49، الرقم : 2437، والبيھقي في السنن الکبري، 3 / 352، الرقم : 6220، 433.)

    ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا۔ فرمایا : تو ان پر بارش برسا دی جاتی۔‘‘‌

    سوال نمبر3۔ کہ حضرت سیدنا عمر فاروق :rda: ْنے حضرت عباس :rda: کا وسیلہ کیوں دیا ؟
    اگر آپ جواباً فرمائیں کہ اس وقت حضور نبی اکرم :saw: کے بعد حضرت عباس زندہ تھے۔ تو میرے بھائی یہ سوال ہی زندگی موت کا نہیں ۔ یہ سوال ہے کہ کیا آیا اس وقت اللہ تعالی (معاذ اللہ ، استغفراللہ ) براہ راست سنتا نہ تھا جو حضرت عمر فاروق :rda: جیسے جلیل القدر صحابی کو حضرت عباس :rda: کا وسیلہ اختیار کرنے کی ضرورت پیش آ گئی ؟ اس کی بھی تطبیق فرمائیے گا۔

    سوال نمبر 4۔ کیا آج آپ اور آپ کے وہابی و اہلحدیث طبقہ فکر کے علماء کو توحید کی سمجھ معاذ اللہ استغفراللہ ، خود نبی اکرم :saw: اور سیدنا عمر فاروق :rda: سے بھی بڑھ کر ہو گئی ہے کہ آپ قرآن و حدیث کے واضح دلائل کے باوجود بھی آپ کو “ اللہ تعالی کی بارگاہ کی طرف وسیلہ“ اپنانا ، کفر و شرک نظر آتا ہے ؟

    یاد رکھ لیں۔ نصِ شرعی اور احادیث صحیح سے وسیلے کا “جواز“ یعنی جائز ہونا ثابت ہوچکا ہے۔ اور خود حضرت عمر فاروق :rda: کا عمل اس پر قوی دلیل بھی بن چکا ہے۔

    اب اگر آپ وسیلے کو کفر وشرک اور اسکا عدمِ جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں تو آپ پہلے قرآن مجید کی پیش کردہ آیت “وابتغو الیہ الوسیلہ“ کی نفی لائیں ، پھر فرمانِ مصطفیٰ‌ :saw: کو غلط ثابت کریں اور پھر حضرت عمر فاروق :rda: کے عمل کا ردّ کریں ۔ پھر اسکے بعد قرآن و حدیث میں سے وسیلے کے غیرشرعی اور عدمِ جواز کے دلائل پیش کرکے مجھ جیسے بے علم کے علم میں اضافہ بھی کریں۔

    تا کہ آپ کی دعا کے بقول

    اللہ تعالی مجھے ہدایت دے دے۔ آمین :) کیونکہ آپ کو تو شاید اس نعمت کی ضرورت ہی نہیں۔

    والسلام علیکم ورحمۃ‌اللہ ‌
     
  22. ع س ق
    Offline

    ع س ق ممبر

    Joined:
    May 18, 2006
    Messages:
    1,333
    Likes Received:
    25
    ماشاء اللہ بہت سیرحاصل دلائل دیئے ہیں آپ نے۔ میری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ آپ کو مزید فہم و بصیرت اور مطالعہ میں وسعت عطا فرمائے۔ آمین
     
  23. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    نعیم بھائی مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی امید پر پورا نہیں اترا۔ ویسے میں تو وسعتِ نظری سے تبادلہء خیالات اور کشادہ ظرفی سے علم و تحقیق سے بات کرنا چاہتا ہوں لیکن دل سے تعصب اور بغض نکال دیں تو شاید آپ کو ایسا ہی لگے۔ آپ تو مجھے ایک خاص مکتب فکرسے متعلق، وھابی اور اہل حدیث سمجھ کر ہی بات کرتے ہیں تو کشادہ ظرفی اور علم و تحقیق کہاں رہے گی۔ ایک درخواست کروں گا کہ مجھے اھل حدیث یا وھابی وغیرہ نہ کہا کریں کیونکہ میرا ان فرقوں سے قطعی کوئی تعلق (جائز و ناجائز) نہیں۔ ویسے میں نے آپ کو کبھی بریلوی یا بدعتی یا کچھ اور نہیں کہا اور نہ ہی میں ان باتوں پر یقین رکھتا ہوں کہ کسی کو فرقوں کے حوالے سے پکارا جائے۔


    لڑی کا یہ عنوان میں نے نہیں رکھا نہ ہی اس عنوان سے لڑی میں نے شروع کی تھی۔ میرا ایک جملہ ہی خطا بن گیا اور لڑی شروع ہو گئی۔

    عربی میں وسیلہ کا مطلب اردو والے وسیلے جیسا ھرگز نہیں بے شک خود لغت میں دیکھ لیں۔ ویسے اللہ کی بارگاہ میں کوئی وسیلہ یا حوالہ پیش کرنا بدعت یا ناجائز نہیں لیکن یہ تصور کہ بغیر وسیلہ دعا قبول نہیں ہوتی یا بغیر وسیلہ دعا کا کوئی فائدہ نہیں میرے نزدیک غلط ہے۔

    آپ یقینا“ اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ اس وقت امت مسلمہ میں کئی ایسے عقائد جڑ پکڑ چکے ہیں جو اسلام کی اصل روح کے خلاف ہیں۔ یہ عقائد یہودیوں اور دوسرے اسلام دشمن لوگوں نے سوچی سمجھی منظم اور سالہا سال پر پھیلی ہوئی سازشوں اور منصوبہ بندیوں کے بعد اسلام میں شامل کئے ھیں۔

    اگر آپ بھی غور فرمائیں اور غیر جانب داری سے مطالعہ کریں تو آپ کو درست نتیجے پر پھنچنے میں آسانی ہو گی۔ آپ تو مجھے دوسرے اور مخالف فرقے کا سمجھ کر فورا“ دفاعی انداز میں حملہ آور ہو جانے جیسا تاثر دیتے ہیں۔

    تاریخ میں بہت سے واقعات اور روایات موجود ہیں جو ایک ہی واقعے کو بیان بھی کرتی ہیں اور پھر اس کی تردید بھی کر دیتی ہیں۔ بزرگان دین کی نوشتہ کتب میں ایسے واقعات بھی شامل کر دیئے گئے ھیں جن کا اسلام سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ تاریخ اسلام کے 90 فیصد مورخ رافضی تھے جنہوں نے نہ جانے کیا کچھ لکھ ڈالا۔ کیا ان ساری حقیقتوں کے پیش نظر یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ جن باتوں پر ایمان کی بنیاد نہیں لیکن وہ جزو ایمان بنا دی گئی ہیں ان پر غور کر لیا جائے۔

    امید ہے کہ میری ان گزارشات پر وسعتِ نظری سے تبادلہء خیالات کریں گے اور کشادہ ظرفی سے علم و تحقیق کر کے مستفید فرمائیں گے۔
     
  24. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم !
    آپ نے ایک بات پھر اپنی اصول پسندی ظاہر فرماتے ہوئے میری سوالیہ گذارشات کا جواب عنائت نہیں فرمایا بلکہ پہلو تہی کرکے گذر گئے۔ :)

    پہلی بات تو یہ کہ الحمد للہ ہم سب مسلمان ہیں۔ لیکن قرآن و حدیث کی سمجھ بوجھ ہر انسان کو اپنی اپنی عقل سمجھ اور درجہء ایمانی کی بنیاد پر مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے امت مسلمہ کے اندر کئی نکتہء نظر موجود ہیں جنکا انکار ناممکن ہے۔ بے شک وہ سب مسلمان ہیں۔ میری نظر میں بھی ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔کسی کلمہ گو کو محض کسی گروہ یا مسلک سے وابستگی کی بنا پر کافر نہیں سمجھنا چاہیے اور ہم ہوتے کون ہیں کافر سمجھنے والے۔ البتہ قرآن وحدیث کی روشنی میں گستاخ و بےادبِ رسول :saw: دشمن و گستاخِ اہلبیت اور دشمن و گستاخِ صحابہ کا ایمان تو خود “اللہ و رسول(ص)“ کو بھی قبول نہیں۔ چاہے ایسا گستاخ اعمال کے ڈھیر لگاتے ہوئے خود کو ایمان کے کتنے ہی اعلی درجے پر فائز کیوں نہ سمجھتا رہے۔

    امت کا سوادِ اعظم “اہلسنت والجماعت“ جو محبتِ و اتباعِ رسول :saw: ، محبتِ و تعظیمِ اہلبیت اطہار رضوان اللہ علیھم اور محبت و تکریم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اور اللہ تعالی کے مقربین اولیاء اللہ کے دامن سے وابستگی رکھتے ہیں۔ الحمد للہ انہیں اپنے صحیح العقیدہ ہونے میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے کوئی طعنہ سمجھتے ہیں۔

    البتہ دیگرمسالک میں اکثر وہابی و نجدی غیرمقلدین اپنا عقیدہ چھپاتے ہیں۔ خود کو وہابی کہلوانے میں عار بھی محسوس کرتے ہیں۔ یہی انکا طریقہء واردات ہوتا ہے اور سادہ لوح مسلمانوں کو اسی روپ میں دھوکہ دے کر ان کے دل سے ایمان کی بنیاد “محبت“ کو بےکار شئے بتا کر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جب انہیں وہابی یا نجدی کہا جائے تو خود کو روشن خیال اور وسیع القلب مسلمان بتاتے ہیں۔

    مثلاً خود آپ کی غیرجانبداری بھی اس لڑی میں آشکار ہوتی ہے جہاں آپ نے ڈاکٹر طاہرالقادری جو قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں گستاخانِ رسول و آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدے و ایمان پر سازشوں کو بے نقاب کرتا ہے اس کو ایک “ہندو گرو رجنیش اور سامری جادوگر“ جیسی تماثیل کے ذریعے بقول آپکے اپنی غیرجانبدارانہ رائے کا اظہار فرمایا۔ اور بعد ازاں یزیدپلید ملعون کو “نعوذ باللہ“ رضی اللہ عنہ کہنے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اعلی مرتبے کا عالم دین بیان کرکے اسکی بات “مضبوط حوالہ جات“ پر مبنی قرار دے کرانکی یزیدی محبت بھری گفتگو کو “غور سے سننے“ کا مشورہ عنایت فرما کر “اپنا غیر جانبدارانہ“ ایمان ظاہر فرمایا۔

    یہ جملے بھی ہمیشہ غیر مقلدین (نجدی واہلحدیث) کی طرف سے بولے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث (بلکہ حدیث میں بھی صرف امام بخاری و مسلم) کے بعد کوئی امام ، کوئی فقیہ نہیں ۔ امام اعظم ابوحنیفہ سمیت آئمہ اربعہ کے منکر ہیں۔ حالانکہ یہ عقیدہ دراصل “خیرالقرونِ قرنی“ والی حدیث کا ہی انکار ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنےزمانے اور اسکے بعد اس سے متصل زمانے اور پھر اس سے متصل زمانے کی فضیلت بیان فرمائیں اور عبدالوھاب نجدی کے پیروکار بڑے آرام سے فرما دیں کہ ساری تاریخ اسلام رافضیوں کی لکھی ہوئی ہے۔ گویا اسلام رافضیوں کے ہاتھ میں ہی رہا۔ اور بارہ تیرہ سو سال بعد عبدالوھاب نجدی اور اسکے پیروکاروں کو اچانک پھر سے دین اسلام کی صحیح سمجھ آئی اور انہوں نے اسکو عام کرنا شروع کردیا۔ اور یہی جملے دہرا کر آپ بھی اپنے نکتہء نظر کو واضح فرما رہے ہیں۔

    میرا خیال ہے کہ مجھ بےعلم سمیت ہماری اردو کو پڑھنے والے قارئین اتنے بھی بے سمجھ نہیں کہ آپ کے متضاد بیانات سے آپ کی غیرجانبداری کو نہ سمجھ سکتے ہوں۔ بہرحال یہ موضوع نہیں ہے۔ نہ ہی مجھے آپ سے اس پر جواب مطلوب ہے۔ البتہ مندرجہ ذیل پیرا گراف ضرور غور سے پڑھیں اور انصاف کے تقاضوں کی پاسداری فرماتے ہوئے جواب دیجئے۔ ورنہ پڑھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کسی ایک موضوع قرآن و حدیث کی روشنی میں تبادلہء خیالات کرنے کی بجائے صرف اپنی بات منوانے کے درپے ہیں۔ شکریہ

    محترم سیف بھائی ۔ میری پچھلی پوسٹ میں میرے سوالات کا جواب ابھی دینا باقی ہے۔ امید ہے آئندہ پوسٹ میں آپ اپنی مزید غیرجانبداریت ثابت کرنے کی بجائے میرے سوالات کا جواب دے کر مجھے مطمئن فرمائیں گے۔ شکریہ
     
  25. آبی ٹوکول
    Offline

    آبی ٹوکول ممبر

    Joined:
    Dec 15, 2007
    Messages:
    4,163
    Likes Received:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب نعیم بھائی اور ویسے بھی مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کے بات تو وسیلہ کے موضوع پر ہورہی ہے کہ جس کے جواز یا عدم جواز کو قرآن و سنت سے ثابت کرنا ہے یہ بیچ میں تاریخ کا ذکر چہ معنی دارد؟
    سیف بھائی گفتگو تو خالصتا ایک اسلامی عقیدے پر کر رہے ہیں کہ جس کا ثبوت یا عدم قرآن یا حدیث سے ہوگا لیکن بطور استدلال ساری کی ساری اسلامی تاریخ کو رافضی جامہ پہنا کر ایک تو اسلامی تاریخ کا مذاق اُڑا رہے ہیں اور دوسرے خلط مبحث کا ارتکاب ۔
     
  26. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    آپ کے تمام سوالوں کے جواب مجھ پر قرض ہیں۔ بدقسمتی سے مجھے وقت نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ اردو کمپوزنگ میں بھی دشواری ہوتی ہے تاہم میں جواب لکھ رہا ہوں مکمل ہونے پر پوسٹ کر دوں گا۔

    یہ جملے کوئی بھی لکھتا ہو لیکن ہے حقیقت جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عقائد کی بنیاد روایات کو بنایا جائے تو پھر اللہ حافظ ہے۔ ھارون رشید تک کے زمانے میں واضعین احادیث کو قتل کی سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔ ان کے پھیلائے ہوئے مواد کو کیسے الگ کریں گے۔ بہر حال مجھے یہ اصرار نہیں کہ آپ میری باتوں کو مانیں لیکن میں یہ حق ضرور رکھتا ہوں کہ ان پر غور کرنے کے لئے کہوں۔ اگر اس سے کسی‌کی‌اصلاح ہو جائے تو کیا برا ہے؟
    تالیاں بجانے والے صاحبان بھی خوب ہیں نہ بات سمجھتے ہیں اور نہ سمجھنے دیتے ہیں بس واہ واہ کر کے اپنی پوسٹیں بڑھاتے رھتے ہیں۔
     
  27. آبی ٹوکول
    Offline

    آبی ٹوکول ممبر

    Joined:
    Dec 15, 2007
    Messages:
    4,163
    Likes Received:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    محترم جناب سیف صاحب آپ کو تالیاں بجانے والے تو نظر آگئے مگر انھی تالیوں کی گونج میں ایک عدد جملہ معترضہ بھی تھا جس میں آپ سے یہی سوال کیا گیا تھا کہ آخر آپ سمجھانا کیا چاہتے ہیں امت کو؟ مگر آپ نے کمال ہوشیاری سے اس جملے سے پہلو تہی فرمائی بندہ آپ کے دلائل کا منتظر ہے۔
     
  28. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    میری کیا اوقات کہ میں امت کو سمجھا سکوں۔ آپ کے سوال کا جواب بھی جلد دوں گا۔
     
  29. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم سیف بھائی ۔ قرآن مجید کی آیت وسیلۃ
    يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَابْتَغُواْ اِلَيہِ الْوَسِيلَۃَ وَجَاھِدُواْ فِي سَبِيلِہِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
    اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کی بارگاہ) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤo (الْمَآئِدَۃ ، 5 : 35)

    کو اگر آپ محض “روایات“ فرما کر انکار کرنا چاہ رہے ہیں تو آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ اسکا حشر کیا ہوگا۔
    اور اگر احادیثِ صحیحہ کہ جن پر تمام آئمہ اسلاف و آئمہ حدیث متفق ہیں۔ اسکو آپ محض “روایات“ فرما رہے ہیں تو پھر آپ کا “منکرِ حدیث“ ہونے کا عقیدہ و ایمان واضح ہورہا ہے ۔
    اگر مجھے خدا نخواستہ غلط فہمی ہوئی ہے تو براہ کرم وضاحت فرما کر میری اصلاح فرما دیں۔ شکریہ
     
  30. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    Joined:
    Sep 27, 2007
    Messages:
    1,297
    Likes Received:
    2
    نعیم بھائی روایات جن کی کوئی سند نہیں اور صحیح احادیث میں جو فرق ہے اسے آپ بخوبی سمجھتے ہیں۔ احادیث سے انکار تو یقینا“ اسلام ہی سے انکار ہے۔ ہم اگر یہ سمجھیں کہ حضور اکرم :saw: پر جو وحی آتی تھی وہ تو درست ہے لیکن جو آپ:saw: کے اپنے ارشادات ہیں وہ خاکم بدہن درست نہیں تو ہم مسلمان ہی نہیں رہیں گے۔

    درخواست کروں گا کہ آپ پہلے دل سے یہ شبہ دور کریں کہ میں آپ کو پرویزیت، وھابیت، اھل الحدیثیت وغیرہ کی تقلید پر آمادہ کر رھا ہوں یا میرا ان مکاتب فکر میں سے کسی سے بھی کوئی تعلق ہے۔ تب ہی آپ میری بات کو سمجھ سکیں گے۔ پھلے سے ذہن میں یہ رکھیں گے کہ یہ آدمی وھابی ہے یا اھل حدیث ہے یا پرویزی ہے یا نجدی ہے یا دیو بندی ہے یا بقول کچھ دوستوں کے یزیدی ہے تو بات کا درست رخ یا درست فہم کیسے ممکن ہو گا۔

    رہی بات روایات کی تو میں سمجھتا ہوں جن روایات پر امت میں اختلافات ہیں ان کی تحقیق کرنا ضروری ہے چاہے اس پر کتنے ہی لوگ متفق ہوں کیونکہ امت میں اختلاف کی جڑ کو ختم کرنا اور اپنے بنیادی عقائد کو اللہ تعالی کے احکامات اور رسول اکرم :saw: کے حقیقی ارشادات کی روشنی میں قائم کرنا زیادہ اھم ہے۔
     

Share This Page