1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وائرس بم

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏30 جون 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    وائرس بم
    سید عاصم محمود

    آپ ذرا درج ذیل الفاظ پڑھیے………atggagaataحیرت زدہ نہ ہوں، یہ کوئی رمزی جملہ نہیں بلکہ انفلوئنزہ وائرس کی ایک قسم کے ایک جین کی پہلی ۱۰۰ اکائیاں ہیں۔ اس قسم کا اصطلاحی نام ایچ ۵ این ۱ جبکہ عوامی نام برڈفلو ہے۔ یہ وائرس پرندوں خصوصاً مرغیوں میں پلتا، بڑھتا اور پھیلتا ہے۔ کبھی کبھی انسانوں کو بھی نشانہ بنا ڈالتا ہے۔ جب یہ کسی انسان کو چمٹے، تو بڑی خطرناک بات ہے کیونکہ اس کا شکار بمشکل ہی بچ پاتا ہے۔برڈفلو وائرس پہلی بار ۱۹۹۷ء میں ہانگ کانگ میں دریافت ہوا۔ تب سے یہ مرغیوں اور دیگر پرندوں کی بدولت دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل چکا ہے۔ یہ اب تک ۳۴۰ انسانوں کو لقمۂ اجل بنا چکا۔ خیال ہے کہ گھر میں پلی مرغیوں کے ذریعے ان میں وائرس منتقل ہوا اور دونوں کی زندگی کا چراغ گُل کر گیا۔ تاہم انسانوں کے لیے خوشی کی بات ہے کہ یہ ایک سے دوسرے انسان میں کسی بھی طریقے سے منتقل نہیں ہوتا۔پچھلے ۵ برسوں سے سائنس دان برڈفلو وائرس کی ماہیت سمجھنے میں مصروف ہیں اور اس تحقیق پر اب تک اربوں روپے خرچ ہو چکے۔ وجہ یہ ہے کہ حکومتوں کو خطرہ ہے، ہسپانوی انفلوئنزہ کی طرح کسی وقت برڈفلو بھی بنی نوع انسان میں پھیل کر خوفناک تباہی پھیلا سکتا ہے۔ ہسپانوی انفلوئنزہ بھی انفلوئنزہ کی ایک قسم ہے۔ یہ ۱۹۱۸ء میں سامنے آیا اور اس نے تھوڑی ہی مدت میں 4 کروڑ انسان قبر میں اتار دیے۔سائنس دانوں کو تحقیق سے برڈفلو وائرس کے متعلق خاصی معلومات حاصل ہوئیں، لیکن انھیں انتہائی خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ بلکہ بعض سائنس داں تو یہ تحقیق بند کرنے کے حامی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں، یہ تحقیق ’’دہشت گردوں‘‘ کے ہاتھ لگ گئی، تو وہ اس کے ذریعے ایسا خطرناک وائرس بنا سکتے ہیں جو کسی انسانی آبادی میں چھوڑنے سے ایٹم بم سے بھی زیادہ تباہی لائے گا۔ماہرین نے دراصل بذریعہ تجربات برڈ فلو کی ایسی قسم لیبارٹری میں تیار کر لی ہے جو ایک سے دوسرے ممالیہ میں منتقل ہو سکتی ہے لیکن امریکی حکومت نے سائنس دانوں کو تحقیق کے نتائج شائع کرنے یا انٹرنیٹ میں دینے سے منع کر دیا ہے۔ اس پابندی کے پیچھے امریکیوں کا وہ خوف چھپا ہے جو امریکی کو ’’دہشت گردوں‘‘ سے ہے۔ سائنس دانوں کی اکثریت امریکی حکومت کی حامی ہے۔ انھیں بھی ڈر ہے کہ تحقیق منظرِعام پر آئی، تو مغرب کے مخالف جنگجو اس سے فائدہ اٹھائیں گے لیکن بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خطرے کے سامنے شترمرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں، بلکہ اس کا مقابلہ کرنا بہتر ہے۔ ایک امریکی ماہرِ سمیات سٹیفن میولر کہتا ہے ’’میں اس شیطان کو اس عفریت پر ترجیح دوں گا جسے نہیں جانتا۔‘‘دورِ جدید میں یہ رواج ہے کہ سائنس داں کوئی نئی تحقیق کریں، تو اس کے نتائج شائع کر دیتے ہیں۔ یوں ماہرین کے دوسرے گروہ اُسے جانچتے، پرکھتے اور اس کی بنیاد پرنئے تحقیقی منصوبوں کی بنیاد رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۴ء میں سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے برڈفلو وائرس کے تمام ۱۰ جین کی معلومات (ڈیٹا) معلوم کر لیں۔ انھوں نے پھر پوری تحقیق کے نتائج نیشنل لائبریری آف میڈیسن کی ویب سائٹ پر جاری کر دیے، وہ آج بھی دستیاب ہیں۔ (تاہم یہ قسم ایک سے دوسرے ممالیہ میں منتقل نہیں ہو سکتی)۔ لیکن یہ خطرہ بہرحال حقیقی ہے کہ وائرس، جراثیم یا زہریلی پھپھوندی کے ذریعے دہشت گرد ہی نہیں بلکہ کوئی ملک مثلاً امریکا یا روس حیاتیاتی ہتھیار بنا لیں۔مثلا ۲۰۰۱ء میں کسی نامعلوم شخص یا تنظیم نے خطوط میں آنتھرکس تخمک پھیلا کرکے امریکا میں دہشت پھیلا دی تھی۔ یہ زہریلے تخمک موت کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ اسی طرح ۲۰۰۲ء میں یہ خبر سائنسی حلقوں میں ہلچل مچا گئی کہ ایک امریکی ماہر سمیات، ایرک ویمر نے لیبارٹری میں مصنوعی طور پر پولیو وائرس تیار کرلیا۔ یہی نہیں ایرک نے اس تالیفی پولیو وائرس ہی کے ذریعے نئی اقسام بھی دریافت کر لیں۔ یہ انسانی ذہانت و محنت کا زبردست نیا کارنامہ تھا لیکن اس خبر میں تباہی کا پیغام بھی پوشیدہ تھا۔ وہ یہ کہ اسی نمونے پر ایسے وائرس و جراثیم مصنوعی طور پر تخلیق کرنا بھی ممکن ہے جو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلا دیں۔ اس پہلو کا ایک رخ یہ ہے کہ پچھلے ۱۰ برس کے دوران لیبارٹریوں میں نت نئے وائرس و جراثیم بنانے کا خرچ بہت کم ہوگیا ہے۔ چنانچہ اب معمولی سرمائے سے بھی حیاتیاتی انجینئرنگ کا آغاز ممکن ہے۔ا ۲۰۰۴ میں سب سے پہلے دنیا کی اکلوتی ’’پنگے باز‘‘ امریکی حکومت کو قدرتاً یہ احساس ہوا کہ امریکیوں کے دشمن حیاتیاتی ہتھیار بنا سکتے ہیں۔ چنانچہ اس نے حیاتیاتی حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے ایک مشاورتی سرکاری تنظیم، نیشنل سائنس ایڈوائزری بورڈ بنا ڈالی۔ اس بورڈ میں جرثومیات، سمیات اور حیاتیاتی جنگ و جدل سے متعلق چوٹی کے امریکی ماہرین شامل ہیں۔ بورڈ کے ماہرین کی ذمے داری تھی کہ دنیا بھر میں جہاں بھی وائرس، جراثیم اور الجی وغیرہ پر جو تحقیق ہو رہی ہے، اُسے نظر میں رکھیں۔ انھیں خصوصاً اس تحقیق کا جائزہ لینا تھا جو خیر اور شر، دونوں پہلو رکھتی ہے۔ تاہم پہلے ۷ برس میں بورڈ ارکان دھیمے رہے اور زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا مثلاً ۲۰۰۶ء میں امریکی محققوں نے لیبارٹری میں مصنوعی ہسپانوی انفلوئنزہ تیار کرلیا۔ انھوں نے پھر اپنی پوری تحقیق نیٹ پر جاری کر دی، لیکن بورڈ نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن اب بورڈ ارکان گہری نیند سے بیدار ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ ۲ تحقیقات ہیں، جنھوں نے ارکان کو بھی چوکنا کردیا۔ایک تحقیق ہالینڈ جبکہ دوسری امریکی ویسکونسن یونیورسٹی میں ہوئی۔ ان تحقیقات کا مقصد یہ تھا کہ برڈفلو وائرس میں لیبارٹری کے اندر ایسی کیمیائی تبدیلیاں کی جائیں کہ وہ ممالیہ فلو میں بدل جائے۔ یہ تحقیقات سفید نیولے پر ہوئیں، کیونکہ اس ممالیہ جانور کا بدن فلو وائرس میں گرفتار ہونے کے بعد انسانی جسم سے ملتے جلتے ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔ دونوں تحقیقات کی رپورٹ خفیہ ہے، لیکن ماہرین کی زبانی کچھ راز افشا ہوگئے۔ اس ضمن میں ولندیزی محققوں کے سربراہ اور ماہرِ سمیات، ران فوشیر نے سب سے زیادہ معلومات دیں۔

    فوشیر نے برڈفلو وائرس کے ۲ اہم جین کیمیائی طور پر تبدیل کر دیے۔ اس نے پھر ۲ سفید نیولوں کے جسم میں یہ تبدیل شدہ برڈفلو وائرس داخل کیا۔یوں وہ ان کے بدن میں پوری طرح نشوونما پاگیا۔ یہ نشوونما پایا ہوا وائرس پھر مزید سفید نیولوں کے بدن میں پہنچایا گیا۔ یوں اس ارتقائی عمل کے ذریعے ران فوشر نے ایسا ممالیہ فلو وائرس تیار کرلیا (جو برڈفلو کے برعکس) جو ہوا کے راستے متاثرہ سے دوسرے (ممالیہ) جانور کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔ یہ انسانی ذہانت کا ایک اور شاندار کارنامہ و سنگِ میل ہے، مگر انتہائی خطرناک پہلو بھی رکھتا ہے۔ فوشیر کا کہنا ہے کہ اگر اس ممالیہ فلو وائرس کو دنیا میں چھوڑا گیا، تو یہ اتنی خوفناک تباہی پھیلائے گا کہ ہسپانوی انفلوئنزہ معمولی نظر آئے گا۔ کچھ اسی قسم کا ممالیہ فلو وائرس ویسکونسن یونیورسٹی کے محققوں نے بھی تیار کرلیا۔ دونوں تحقیقات نے امریکی و یورپی حکومتوں کو ششدر کردیا۔ انھوں نے پھر سائنس دانوں کو ہدایت کی کہ وہ موٹے موٹے نکات تو عیاں کردیں، مگر نتائج تفصیل سے آشکار نہ کریں۔

    گو حکومتیں قانوناً محققوں کی تحقیقات افشا ہونے پر پابندی نہیں لگا سکتیں، مگر خود سائنس داں اس تحقیق پر تشویش میں مبتلا ہیں۔چنانچہ ماہِ جنوری ۲۰۱۲ء میں دنیا بھر کے محققوں نے برڈفلو پر ہونے والی تحقیق ۲ ماہ کے لیے روک دی۔ دراصل انھیں خطرہ ہے کہ وہ جس بیماری سے بنی نوع انسان کو محفوط رکھنا چاہتے ہیں، کہیں وہ حادثاتی طور پر پھیل ہی نہ جائے۔ امریکی حکومت کو بنیادی خطرہ یہ ہے کہ اگر ممالیہ فلو وائرس دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا، یا ان سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے اُسے تخلیق کرلیا، تو وہ امریکا اور یورپی ممالک میں اُسے پھیلا کر زبردست تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ سائنس داں بھی اس اَمر سے اتفاق کرتے ہیں کہ اگر ممالیہ فلو وائرس کی ساری معلومات شائع ہوئی، تو ان کی مدد سے دوسری لیبارٹریوں میں بھی اُسے بنانا ممکن ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ران فوشر یا امریکی محققوں کی محض تحقیق دیکھ کر دہشت گرد وائرس بنا لیں گے تاکہ اپنے حیاتیاتی حملے شروع کر سکیں۔اول تو یہ تحقیق ایسے مقام پر رکھی ہے کہ اس سے صرف اعلیٰ ترین سطح کے لوگ ہی واقف ہیں۔ پھر اس تحقیق کا تعلق سفید نیولوں سے ہے جو بہرحال انسان نہیں۔ چنانچہ ممالیہ فلو وائرس کو اگر کسی انسانی آبادی میں چھوڑ دیا جائے، تو یہ ضروری نہیں کہ وہ ایک سے دوسرے انسان کو لگ جائے۔ فی الوقت یہ بذریعہ ہوا ایک سفید نیولے سے دوسرے کو ہی نشانہ بناتا ہے۔ تحقیق پوشیدہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ منظرِعام پر آگئی،

    تو اس سے وہ شخص، گروہ یا ملک فائدہ اٹھا سکتا ہے جو برڈفلو وائرس کو کیمیائی بم میں بدلنا چاہتا ہے۔ جس طرح فوشر نے تبدیل شدہ وائرس ایک سے دوسرے جانوروں میں منتقل کیے، وہی طریق عمل اختیار کرکے کوئی اور بھی ممالیہ فلو وائرس بنا سکتا ہے اور اگر وہ مفسدانہ مقاصد رکھتا ہے، تو اُسے کھلا چھوڑ دینے میں قباحت محسوس نہیں کرے گا۔اگرچہ بعض دیگر وجوہ کی بنا پر ایسے قیامت خیز وائرس کی تیاری ناممکن نہیں تو کٹھن ضرور ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسے چوٹی کے ماہرین سمیات نے ایسی لیبارٹریوں میں تخلیق کیا ہے جو جدید ترین سائنسی آلات سے لیس ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ بعض ماہرین عام آلات سے لیس لیبارٹری میں برڈفلو کو ایک سے دوسرے جانور میں منتقل کرنے کا تجربہ کریں لیکن انھوں نے ’’انسانی فلو وائرس‘‘ تخلیق کر بھی لیا، تو وہ سب سے پہلے انہی کو نشانہ بنائے گا۔ لیکن امریکا کے بعض محقق چاہتے ہیں کہ برڈفلو وائرس کی زیادہ سے زیادہ اقسام تخلیق کی جائیں۔ دراصل اسی عمل کے ذریعے وائرسوں کے خلاف ویکسین بنانا بھی آسان ہوجاتا ہے۔ چنانچہ یہ ماہرین چاہتے ہیں کہ امریکی بذریعہ تحقیق خود ہی انسانی فلو وائرس تیار کر لیں تاکہ اس کی ویکسین بھی بنائی جا سکے۔ یوں مستقبل میں کسی گروہ یا ملک نے امریکا پر اس وائرس کا بم پھینکا بھی، تو وہ زیادہ تباہی نہیں پھیلا پائے گا
     
  2. عفت
    آف لائن

    عفت ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2011
    پیغامات:
    1,514
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: وائرس بم

    یہ تو بہت ڈرا دینے والی باتیں ہیں‌جی۔۔۔۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں