1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نیو یارک میں وزیراعظم کیلئے مشکلات!

Discussion in 'کالم اور تبصرے' started by آصف احمد بھٹی, Sep 25, 2013.

  1. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    نیو یارک میں وزیراعظم کیلئے مشکلات

    اثر چوہان

    ایک دوسرے کے بارے میں مذمتی بیانات جاری کرنے کے باوجود‘ طالبان کے بارے میں مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کی سوچ اور بیانیہ پالیسی ایک سی ہے اور جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن بھی مولانا فضل الرحمن سے دور ایک عمران خان کے قریب رہ کر‘ ان دونوں قائدین سے ہم آہنگی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پشاور کے گرجا گھر میں مسیحی برادری کے لوگوں کی عبادت کے دوران خودکش حملہ آوروں نے عورتوں اور بچوں سمیت 85 افراد کی جان لے لی۔ ابھی اس غیر انسانی واردات کی ذمہ داری کسی بھی دہشت گرد تنظیم نے قبول نہیں کی تھی کہ مولانا فضل الرحمن‘ عمران خان اور سید منور حسن نے یک زبان ہو کر لیکن اپنے الگ الگ بیانات میں کہا کہ ”پشاور کے گرجا گھر پر خود کش حملہ‘ حکومت اور طالبان کے مجوزہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔“ سید منور حسن نے مزید وضاحت کی اور کہا ”یہ خودکش حملہ اس لئے ہوا کہ حکومت نے طالبان سے مذاکرات میں دیر کر دی۔“ یعنی ذمہ دار حکومت ٹھہری‘
    لندن پہنچنے پر وزیراعظم نواز شریف نے بھی پشاور دھماکے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”دہشت گرد اسلامی تعلیمات کے برعکس بے گناہوں کو مار رہے ہیں۔ ایسے واقعات طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے نیک شگون نہیں ہیں۔ چرچ پر حملہ کرنے والے ملک دشمن ہیں۔ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ مشاورت سے ہو گا۔“ جماعت الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید نے مسیحی برادری پر جان لیوا حملوں کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیا اور وزیراعظم کے خارجہ امور کے مشیر جناب سرتاج عزیز نے (بھارت کا نام لئے بغیر کہا کہ ”دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں غیر ملکی عناصر ملوث ہیں۔“ لیکن رات گئے کالعدم تحریک طالبان سے منسلک ”جندل الحفصہ گروپ“ نے پشاور میں گرجا گھر پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اس گروپ کے ترجمان احمد اللہ نے کہا ہے کہ ”ہم نے امریکی ڈرون حملوں کا بدلہ لینے کے لئے خود کش حملہ آوروں کو بھیجا تھا اور آئندہ بھی اس طرح کے حملے کرتے رہیں گے۔“ ادھر ایک نجی نیوز چینل کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے پشاور کے خودکش حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
    طالبان سے منسلک ”جندل الحفصہ گروپ“ نے پشاور کے گرجا گھر پر حملے کی ذمہ داری قبول کر کے بھارت کو تو بری کر دیا۔ بھارت کے کہنے پر یا فی سبیل اللہ؟ اس بات کا فیصلہ تو پروفیسر حافظ محمد سعید اور جناب سرتاج عزیز ہی کریں گے۔ بہرحال پشاور میں دہشت گردی کی واردات کی ذمہ داری بھارت پر ڈالنے سے آل پارٹیز کانفرنس میں متفقہ طور پر قرار دئیے گئے۔ ”ہمارے اپنے“ (STAKEHOLDERS) تو خوش ہو گئے ہوں گے‘ جو مسجدوں‘ امام بارگاہوں اور اولیائے عظام کے مزاروں پر خودکش حملوں کو ”کار ثواب“ سمجھتے ہیں اور جنہوں نے حکومت بلکہ تمام سیاسی / مذہبی جماعتوں کی طرف سے مذاکرات کے بعد بھی اپر دیر میں ہمارے سینئر اور جونیئر فوجی افسروں کو شہید کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ”کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ یہ فوجیوں پر ہمارا آخری حملہ ہے۔ ہم آئندہ بھی اس طرح کے حملے کرتے رہیں گے۔“
    مولانا فضل الرحمن‘ سید منور حسن اور دوسرے مذہبی لیڈروں نے میجر جنرل ثناءاللہ خان نیازی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر بھی وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کو قصور وار قرار دیا اور عمران خان نے بھی (جن کی خیبر پی کے میں حکومت ہے)۔ الزام یہ لگایا گیا کہ ”وفاقی حکومت طالبان سے مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔“
    طالبان سے محبت کی وجہ سے عمران خان کو ”طالبان خان“ کہا گیا لیکن یہ محبت‘ یکطرفہ ہے۔ طالبان کو اگر عمران خان سے محبت ہوتی اور ان کی عزت کا پاس ہوتا تو وہ کم از کم تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد صوبہ خیبر پی کے میں دہشت گردی کی کوئی واردات نہ کرتے۔ عجیب بات ہے کہ پشاور کے گرجا گھر میں خود کش حملے کے بعد بھی عمران خان کی سوئی مولانا سمیع الحق کے موقف پر اڑی ہوئی ہے کہ ”پاکستان امریکہ کی جنگ سے باہر نکلے!“
    عمران خان اس وقت سیاست میں نہیں تھے جب جنرل ضیاءالحق کے دور میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ کو ”جہاد“ قرار دے کر اکثر مذہبی جماعتیں بھی اس میں کود پڑی تھیں۔ اتفاق سے ان میں زیادہ تر وہ جماعتیں تھیں جن کے اکابرین نے بانیان پاکستان علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خلاف کفر کے فتوے دئیے تھے اور قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں جب بھی عام انتخابات ہوئے‘ مذہبی جماعتوں کو بھاری مینڈیٹ نہیں ملا۔ مختلف مذہبی جماعتوں کے قائدین کے یہ بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ ”پاکستان میں انتخابات کے ذریعے اسلامی انقلاب نہیں آسکتا۔“
    طالبان مولانا سمیع الحق اور انہی کے مسلک کے دوسرے علماءکے مدرسوں کی پیداوار ہیں۔ مولانا سمیع الحق ”طالبان کے باپ“ اور مولانا فضل الرحمن ان کے ”برادر بزرگ“ کہلاتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی‘ سید منور حسن بھی ”طالبان اسلام“ کو سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ تینوں قائدین ”اسلامی جمہوریت“ کے حق میں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ طالبان کے ساتھ ان کی پوری پوری ہمدردیاں ہیں۔ (خدانخواستہ) اگر آئندہ دو ہزار سال میں طالبان کی خواہش کے مطابق ”اسلامی انقلاب“ آبھی جائے تو ان تینوں بزرگوں کو کوئی بھی یاد نہیں کرے گا۔
    قائداعظم نے قیام پاکستان کا مقصد ”اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت کا قیام قرار دیا تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد جب بانیان پاکستان کے مخالفین نے نظریہ پاکستان“ کی تفسیر اور تشریح کی ذمہ داری سنبھالی تو نئی نسل کی۔ ”THEOCRACY“ یعنی علمائے دین کی حکومت کے قیام کے لئے ”برین واشنگ“ کی جا رہی ہے۔ قائداعظمؒ نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی اقلیتوں کو مسلمانوں کے برابر سیاسی‘ سماجی اور معاشی حقوق دینے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں 11 اگست 1947ءکو قائداعظمؒ کی تقریر کا خاص طور پر حوالہ دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے پاکستان میں اقلیتوں کو مسلمانوں کے مساوی حقوق کی یقین دہانی کرائی تھی۔
    وزیراعظم نواز شریف بھی طالبان کے لئے (شاید اس امید پر کہ وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کر لیں گے) نرم گوشہ رکھتے تھے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے طالبان سے مذاکرات کے لئے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بھی وزیراعظم کے خلوص کا مظہر تھا‘ لیکن میجر جنرل ثناءاللہ خان اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد پشاور کے گرجا گھر میں قتل عام سے کیا طالبان اور مذاکرات کے بہانے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے والے دوسرے دہشت گرد، وزیراعظم اور ان کی حکومت کی ہمدردیوں کے مستحق رہیں گے؟ قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر سانحہ پشاور کی مذمت میں قرارداد منظور کی گئی ہے۔ ہر پاکستانی سوگوار ہے۔ مسیحی برادری پر قیامت صغریٰ بیت گئی لیکن اس نے صبر اور تحمل کا ثبوت دیا۔ اس لئے کہ اسے علم ہے کہ اس میں ریاست پاکستان کا کوئی قصور نہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے نیو یارک پہنچ چکے ہیں۔ وہ عالمی برادری (خاص طور پر عیسائی برادری) میڈیا اور صدر اوباما سے ناشتے کی میز پر اور دنیا کے دوسرے حکمرانوں سے مسئلہ کشمیر کے حل اور ڈرون حملوں کی بندش کے لئے کیا بات کریں گے؟ نیو یارک میں وزیراعظم کے لئے مشکلات تو ہوں گی۔


     

Share This Page