1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نگاہ ولی میں یہ تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی۔۔!!!!

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از دُعا, ‏14 ستمبر 2015۔

  1. دُعا
    آف لائن

    دُعا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مارچ 2015
    پیغامات:
    5,102
    موصول پسندیدگیاں:
    4,604
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم۔
    یونس 10 -آیت62

    بزرگان دین، اولیاءکرام، اہل اللہ، اور سلف صالحین کے الفاظ بظاہر تو مختلف ہیں لیکن معنی کے اعتبار سے متحد المعنی ہیں۔ یہی وہ حضرات ہیں جنہیں سرمایہ ملت، محافظین اسلام اور پابند شریعت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان حضرات کا ذکر محافل میں ہو یا مجالس میں، انفرادی ہو یا اجتماعی، عوام الناس میں ہو یا خواص الناس میں، اشعار میں ہو یا نثر میں، تقریر میں ہو یا تحریر میں باعث عز و شرف و صدافتخار ہے۔ بزرگان دین سے ملنا، ان کی مجالس میں بیٹھنا اور ان کے وعظ و ارشاد کا سننا سبب حلاوت ایمان ہے۔ یہی وہ حضرات ہیں جو فانقواللہ ماسنتطعتم کی عملی تفسیر ہیں اور یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہیں عارف باللہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔
    محبوب سبحانی قطب ربانی


    حضرت شیخ سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
    "جب انسان علم کی منزل طے کرتا ہے تو پھر عمل کی باری آجاتی ہے۔ جب عمل کی منزل طے کرتا ہے تو پھر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینا پڑتا ہے۔ اس فریضہ کی سر انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ وہ صاحب وفا، صاحب حیاء، صاحب تقوی، صاحب زہد، صاحب صدق، صاحب اخلاق اور صاحب کردار ہو۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مضبوط نہ ہو اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جبکہ اس کا تعلق خلفاء الربعہ یعنی حضرت( ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی، علی المرتضی) رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ہو اور ان سے تعلق اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بزرگان دین سے مضبوط ایمانی رشتہ قائم نہ ہو۔"


    حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ ہی کا ارشاد پاک ہے کہ جب انسان عارف باللہ ہو جاتا ہے تو اس کی زبان سے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے الفاظ وہ اثر رکھتے ہیں جو رب کریم کے "کن" میں ہیں۔ تو پھر ایسے حضرات کا ذکر کیوں نہ کیا جاۓ، انہیں اپنی تحریروں میں کیوں نہ لایا جاۓ۔ !اے لوگو سمجھ لو ولی اللہ ہی حقیقی بزرگ، اہل حق، عباد مخلصین، صاحب حال، عارف باللہ، منبع رشد و ہدایت، انعام یافتہ اور شاہد ہیں۔ !

    اے درماندہ اور پریشان حال لوگو • اگر تمہاری درماندگی و پریشانی کا کہیں مداوا ہے تو انہیں بزرگ و محترم ہستیوں کی معیت و قرب میں ہے۔ • اگر صراط مستقیم کی روشنی کی طلب و تلاش ہے تو وہ انہیں اللہ کے ولیوں کے دامن سے وابستگی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ • اگر مصائب و آلام کے نخچیر و گرفتار بلا ہو تو ان کا حل بھی انہیں برگزیدہ لوگوں کے نقش پا میں ہے۔ • اگر دولت، اطمینان قلب اور سکینہ و طمانیت کے لۓ سرگرداں ہو تو وہ بھی ان بزرگوں کے در سے عطا ہو گی۔ !اے لوگو غور کرو بقول مرشدنا حضرت فضل شاہ قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ فضیلت رخ کو ہے۔ جس طرف رخ ہو گا آثار و احوال و انجام اسی کے مطابق مرتب ہونگے۔ جو اس وقت حال ہے مستقبل بھی اسی کی کھوکھ سے جنم لے گا۔ وقت باآواز بلند پکار رہا ہے کہ زندگی کے ان لمحات کو غنیمت جانو اور اپنا رخ غیر سے خیر کی طرف، ناحق سے حق کی طرف اور شیطان سے رحمن کی طرف کر لو۔ !

    کسی نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔۔
    نگاہ ولی میں یہ تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

    [​IMG]
     
    ھارون رشید، پاکستانی55 اور غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    کسی باخبر انسان کی تحریر ہے۔
    بہت اعلی۔
     
    دُعا اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. محمد ایاز افضل عباسی
    آف لائن

    محمد ایاز افضل عباسی ممبر

    شمولیت:
    ‏14 ستمبر 2015
    پیغامات:
    59
    موصول پسندیدگیاں:
    86
    ملک کا جھنڈا:
    امام اہلسنت محدث اعظم پاکستان حضرت قبلہ شیخ الحدیث علامہ ابوالفضل مولانا محمد سردار احمد محدث بریلوی قدس سرہ العزیز جب شہزادہ اعلیٰ حضرت شیخ الانام حجتہ الاسلام مولانا شاہ محمد حامد رضا خان صاحب قدس سرہ کے ہمراہ دیار علم و فضل شہر عشق و محبت لاہور سے بریلی شریف حاضر ہوئے تو ان کے تقویٰ و طہارت اتباع سنت و شریعت اور ذوق تحصیل علوم کے جذبہ صادقہ اور ایک خاص روحانی تڑپ کو دیکھ کر آپ کے قابل فخر اساتذہ بالخصوص سیدنا امام حجتہ الاسلام حضور سیدنا مفتی اعظم فقیہ عالم مولانا شاہ مصطفی رضا خان صاحب نوری بریلوی اور عالم اسلام کے عبقری صدر المدرسین صدر الصدور صدرالشریعہ مولانا محمد امجد علی اعظمی رضوی قدست اسرارہم نے آپ کی تعلیم و تربیت اس نہج پر فرمائی اور اپنی فراست و بصیرت اور باریک بین نظروں سے دیکھ لیا تھا کہ طالب علم مستقبل میں دارالعلوم بریلی شریف کا صدر المدرسین اور شیخ الحدیث اور اپنے وقت کا استاد الاساتذہ ہوگا۔ حضور سیدنا حجتہ الاسلام قدس سرہ نے آپ اپنے دولت کدہ پر رکھا اور ہر قسم سہولت بہم پہنچائی حتی کہ عید بقرہ عید پر اپنے صاحبزادہ مفسر اعظم شاہ محمد ابراہیم رضا جیلانی علیہ الرحمہ کے جیسے کپڑے بنوائے جاتے‘ ویسے ہی حضور محدث اعظم علیہ الرحمہ آپ کو اپنے دولت کدہ پر پڑھاتے‘ دو سال بعد حضرت صدر الصدور صدر الشریعہ مولانا شاہ محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کی خدمت میں جامعہ معینیہ عثمانیہ دارالخیر والقدس اجمیر شریف بھیج دیا۔ وہاں حضرت صدر الشریعہ کے حلقہ درس میں سات سال زیر تعلیم رہے حضرت صدر الشریعہ قدس سرہ دارالعلوم کے اوقات مقررہ کے علاوہ بھی پڑھاتے اور جو کتابیں اس وقت مدرس کے کورس اور نصاب تعلیم میں شامل تھین‘ ان کے علاوہ بھی قدیمی نایاب درسی کتب اور حواشی قدیمہ و جدیدہ بھی پڑھاتے۔ حضرت صدرالشریعہ فرماتے تھے کہ مجھ سے جنہوں نے صحیح معنی میں پڑھا وہ مولانا سردار احمد صاحب اور حافظ عبدالعزیز صاحب ہیں اس جماعت جس میں حضرت محدث اعظم علیہ الرحمہ شامل تھے‘ جب ان طلباء کا امتحان ہوا تو ممتحن مولانا علامہ فضل حق رامپوری علیہ الرحمہ نے امتحان لیا تو حضرت محدث اعظم نے اپنی جماعت میں نمایاں و منفرد کامیابی حاصل کی اور سب سے زیادہ نمبر لئے۔ حضرت مولانا فضل حق رامپوری نے اپنی رپورٹ میں تحریر فرمایا ’’جیسے طلباء یہاں دارالعلوم اجمیر شریف میں موجود ہیں‘ پورے ہندوستان کے مدارس میں ایسے طلباء موجود نہیں‘‘
    اس جماعت کا ہر فرد صدر المدرسین و شیخ الحدیث ہوا۔ امتحانات کے بعد اور طلباء تو اپنے اپنے گھروں کو گئے اور متعدد کو مبارک پور اعظم گڑھ‘ الہ آباد اور جون پور و ممئی میرٹھ مقرر کیا گیا لیکن مرکز اہلسنت بریلی شریف کے مرکزی دارالعلوم جامعہ رضویہ منظر اسلام میں حضور محدث اعظم پاکستان کو پہلے سال ہی مدرس دوم اور ناظم تعلیمات مقرر کیا گیا۔ دو سال کے بعد صدر المدرسین اور شیخ الحدیث کے منصب عظمیٰ پر متعین و مقرر کیا گیا۔ 1356ھ میں آپ نے بریلی شریف کی مرکزی جامع مسجد بی بی جی صاحبہ میں دارالعلوم مظہر اسلام قائم کیا۔ اس دوران نہ صرف یو پی ‘ سی پی‘ بہار بنگال‘ پنجاب‘ سندھ‘ سرحد‘کشمیر‘ راجستھان‘ مارولڈ بلکہ افغانستان نیپال‘ برما‘ مصر اور شام تک کے طالبان علوم دینیہ اور تشنگان علوم حدیث نے آپ سے درس لیا اور شرف تلمذ حاصل کیا۔
    اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی شان تدریس اور درس حدیث میں مہارت نامہ کو دیکھ کر دنیائے اسلام کے نامور محدثین اور شیوخ وقت نے اپنے مریدین و متوسلین بلکہ اپنے صاحبزدگان کو تحویل علوم دینیہ و درس حدیث کے لئے آپ کی خدمت میں بھیجا۔
    جیسے شہزادہ اعلیٰ حضرت حجتہ الاسلام مولانا شاہ محمد حامد رضا خان صاحب بریلوی قدس سرہ نے اپنے صاحبزادگان مفسر اعظم علامہ محمد ابراہیم رضا جیلانی میاں‘ حضرت مولانا حماد رضا خان صاحب‘ برادر زادہ اعلیٰ حضرت فاضل اجل مولانا علامہ حسنین رضا خان صاحب بریلوی جانشین مولانا علامہ حسن رضا بریلوی قدس سرہ نے اپنے صاحبزادہ صدر العلماء علامہ تحسین رضا خان صاحب بریلوی کو امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ‘ محدث علی پوری علیہ الرحمہ نے حضرت مولانا محمد شریف صاحب نقشبندی کو حضرت علامہ مولانا قطب الدین جھنگوی اور حضور امیر ملت محدث علی پوری قدس سرہما نے علامہ عبدالرشید رضوی جھنگوی کو حضرت مخدوم پیر سید نور الحسن شاہ کیلیانوالہ نے حافظ العلوم علامہ پیر سید محمد جلال الدین شاہ صاحب بھکھی شریف والوں کو حضور صدر الشریعہ مولانا علامہ امجد علی صاحب اعظمی علیہ الرحمہ نے علامہ مولانا عبدالمصطفے ازہری اور مولانا علامہ عطاء المصطفی اعظمی و علامہ ثناء اﷲ محدث مثنوی اور علامہ مفتی مجیب الاسلام نسیم اعظمی کو مفسر اعظم علامہ جیلانی میاں بریلوی علیہ الرحمہ نے اپنے صاحبزادہ مولانا علامہ ریحان رضا خان صاحب بریلوی کو حافظ ملت علامہ حافظ عبدالعزیز بانی جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے مولانا حافظ محمد صدیق صاحب مراد آبادی کو مناظر اسلام علامہ محمد عمر اچھروی نے اپنی صاحبزادہ مولانا سلطان بہائو صاحب اور مولانا علامہ عبدالتواب صاحب کو حکیم الامت مفتی احمد یار خان صاحب نعیمی علیہ الرحمہ نے مفتی مختیار احمد محمد میاں گجراتی کوشیخ الاسلام خواجہ قمر الدین صاحب علیہ الرحمہ نے مولانا عزیزاحمد صاحب مرحوم مولانا اشرف سیالوی کو حضرت مخدوم پیر سید محمد معصوم شاہ صاحب نوری علیہ الرحمہ نے اپنے صاحبزادہ مولانا مخدوم سید محمد حسن صاحب نوری کو آل انڈیا سنی کانفرنس میں مصروفیت کے باعث صدر الافاضل مولانا علامہ نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ نے متعدد طلباء کو حضرت پیر سید نور الحسن صاحب کیلیانوالہ نے مولانا محمد سعید اور مولانا عبدالقادر صاحب مانگٹ کو مولانا علامہ محمد نقشبند صاحب کو پیر محمد شفیع صاحب چورہ شریف نے حضرت علامہ مفتی محمد ظفر علی صاحب نعمانی علیہ الرحمہ نے حضرت علامہ مفتی محمد حسین صاحب سکھروی کو غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ نے مولانا علامہ محمد فیض احمد اویسی کو اور مولانا قادر بخش حسین آبادی کو تحصیل علوم و دورہ حدیث کے لئے حضرت سیدی محدث اعظم پاکستان قدس سرہ کی خدمت میں بھیجا۔ اسی طرح اوربہت سے اکابر علماء نے اپنے صاحبزادگان کو درس حدیث پاک کے لئے آپ کے حلقہ درس میں بھیجا تھا۔ آپ کی شان تدریس اور خصوصا درس حدیث کی ممتاز و منفرد حیثیت کو دیکھ کر شہزادہ اعلیٰ حضرت سیدنا مفتی اعظم عالم اسلام قدس سرہ نے فرمایا تھا‘ ذکی و محدث باکمال‘ متوکل سراپا برکت فہیم عصر مدرس بے مثال‘ حاوی فروع مدصول محقق معقول و منزول عزیزالاولیائ‘ ان تینوں جملوں سے تاریخ وصال ۱۳۸۲ھ نکلتی ہے اور ایک جگہ فرماتے ہیں۔
    وہ محدث و محقق و فقیہ عالم علم ہدی جاتا رہا
    اس زمانے کا محدث بے مثال‘ جس کا ثانی ہی نہ تھا جاتا رہا
    اٹھ گیا دنیا سے استاد شفیق‘ مایہ لطف عطا جاتا رہا
     
    آصف 26، دُعا اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    قرآن مجید میں باری تعالیٰ اپنے ولیوں کی شان اور مقام اس طرح بیان فرمارہاہے:
    اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَoاَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَo
    ترجمہ: ’’ بلاشبہ اﷲ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہے اور وہ غمگین ہوں گے اور (اﷲ کے ولی وہ ہیں) جوایمان لائے اور پرہیز گاری اختیار کی‘‘۔(سورۂ یونس:آیت62-63)
    اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اولیاء اﷲ کی پہچان اس طرح بیان فرمائی کہ اﷲ کا ولی (اصلی دوست)وہ ہو تا ہے جو صاحب ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ متقی و پرہیز گار بھی ہو۔ قرآن وسنت کے احکامات وتعلیمات کا پابند ہو۔ اﷲ اور اس کے رسول ﷺکا اطاعت گزارو فرمانبردار ہو اور اﷲ کے ولی وہ ہوتے ہیں جو ساری ساری رات اﷲ کی عبادت وبندگی اورتوبہ واستغفارمیں گزار دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی اولیائے کاملین اور مشائخ کرام گزرے ہیں اورجوحیات ہیں ان کے مزارات، آستانوں ،خانقاہوں اوررہائش گاہوں کے ساتھ مساجدضرور ہیں جو اس حقیقت اسلام کو واضح اورآشکارکررہی ہیں اوراس بات کا ثبوت اوردلیل ہیں کہ اﷲ کے ولی اوردوست ہر حال میں صوم وصلوٰۃ کی نہ صرف پابندی کرتے ہیں بلکہ ان کے شب وروزمسجداور مدرسہ میں بسرہوتے ہیں۔
    اولیاء اﷲ کی علامت……عبادت وریاضت
    قرآن پاک میں اولیاء اﷲ کی پہچان اورمقام کے بارے میں مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَاخَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًاo وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًاo
    ترجمہ: ’’اور رحمن کے (مقرب)بندے وہ ہیں کہ جو زمین پر(عاجزی سے) آہستہ چلتے ہیں اور جب کوئی جاہل اُن سے ( کوئی ناگوار بات) کرتے ہیں تو کہتے ہیں (تمھیں) سلام اور وہ جو اپنے رب کیلئے سجدے اور قیام میں راتیں گزار دیتے ہیں‘‘۔
    (سورۃالفرقان:آیت ۶۴۔۶۳)

    اولیاء اﷲ کامقام اورشان یہ ہے کہ وہ نہ صرف عاجزی اورانکسارکے پیکرہوتے ہیں بلکہ جب ان سے کوئی جاہل نارواگفتگوکرتا ہے یا ناشائستہ طرزعمل اختیار کرتا ہے توبھی رحمٰن کے بندے ان سے حسن اخلاق اور خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں اوروہ راتوں کواﷲ تعالیٰ کی خوب عبادت وبندگی کرتے ہیں۔
    ایک حدیث شریف میں حضور اکرم ﷺنے اولیاء اﷲ کی پہچان اورشان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
    ﴿اذا رء وا ذکر اﷲ۔ ﴾
    ترجمہ: ’’ (اﷲ والوں کی پہچان یہ ہے کہ) ’’جب کوئی اُنھیں دیکھ لیتاہے توانھیں خدا یادآجاتا ہے‘‘۔(الحدیث)
     
    دُعا اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں