1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نوشی

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏5 جون 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    آپ سب کی خدمت میں اپنا ایک اور افسانہ پیش کر رہا ہوں‌ ۔


    نوشی(آصفؔ احمد بھٹی)

    اُس نے ٹیک لگا کریوں آنکھیں موندھ لیں جیسے طویل سفر سے لوٹا ہو اُسکے ساتھ والی سیٹ پرایک آٹھ دس سال کا لڑکا بیٹھا باہر دیکھ رہا تھا ۔
    انکل !آپ اکیلے ہیں۔بچے نے پوچھاوہ شاید باہر ایک ہی منظر دیکھتے دیکھتے بور ہوگیا تھا۔
    ہنہ۔وہ چونکاپھر مسکرا کر بولا۔ہاں بیٹا !بلکل اکیلا۔
    آپکے ممی پاپا کہاں ہیں۔اُس نے پھر پوچھا۔
    نہیں ہیں۔وہ سوچتے ہوئے بولا۔
    اور بھائی بہن؟ بچے نے سوال کیا۔
    میرا کوئی نہیں ہے بیٹا۔ وہ مسکرا کر بولا۔
    علی! اگلی سیٹ سے کسی خاتون نے پکارا۔
    جی مما!بچہ چونکا۔
    انکل !کو تنگ مت کرو۔بچہ پھر باہر دیکھنے لگا اُس نے بھی آنکھیں موندھ لی دفتاایک مانوس سی خوشبو اُس کے ناک سے ٹکرائی اُس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایک نوبیاہتاجوڑا اُس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ رہا تھا وہ چونک گیا اُسے لگا جیسے وہ جہاز کی آرام دہ سیٹ پر نہیں تپتے ہوئے صحرا میں پڑا ہو لڑکی بھی اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔
    نوشی!نوجوان نے لڑکی کو پکارا تو وہ چونکی۔ بیٹھونا۔
    نوشی! نوشی! بیٹھونا! نوشی! بیٹھونا! اُس کے دماغ میں ہتھوڑے برسنے لگے وہ اُٹھ کھڑا ہوا ۔
    ایکس کیوزمی! وہ پاس سے گزرتی ائیر ہوسٹس سے بولا۔ مجھے کوئی اور سیٹ مل سکتی ہے۔
    آپ بیٹھئے! میں دیکھتی ہوں!۔ ائیر ہوسٹس نے جواب دیا وہ مایوس ہوکر بیٹھ گیا اور پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا طویل رن وے پرعملے کی کچھ چھوٹی بڑی گاڑیاں اإدھر اُدھربھاگ رہی تھیں بچہ بھی باہر ہی دیکھ رہا تھا جہاں ابھی تک جہاز کا عملا جہاز پر کارگو لاد رہا تھا اگتا کر اُس نے گود میں رکھا اخبار کھول لیا مگر ہر لفظ نوشی بن گیا اور ہر تصویر میں وہ دونوں نظر آنے لگا۔
    نوشی! تم بہت خوبصورت ہو ۔نوجوان خوابیدہ لہجے میں بولا۔ بہت خوبصورت۔
    اُس کا رنگ پیلا پڑ گیا اور اُسے لگا جیسے کسی نے اُس پر منوں گند ڈال دیا ہوگندگی میں لتھڑنے کا إحساس إتنا شدید تھا کہ اُس کا جی متلانے لگا اور منہ کا ذائقہ بدل گیا اُس نے بے چین ہوکر نظریں اُٹھائیں لڑکی اُسے ہی دیکھ رہی تھی وہ پھر باہر دیکھنے لگا۔
    نوشی! تم نہیں جانتی ۔ نوجوان پھربولا۔ تمہیں دیکھنے کے بعد میں کتنا بے چین رہا ہوں ، نوشی ! تم نہیں جانتی منگنی کے بعدکے یہ دو مہینے میں نے کیسے گزارے ہیں۔ اُسے اُبکائی آنے لگی۔
    میں جانتی ہوں! میں جانتی ہوں! مجھے معلوم ہے! میں جانتی ہوں! مجھے معلوم ہے ! اُس کے سامنے نوشابہ آکھڑی ہوئی۔ مجھے معلوم ہے! میں جانتی ہوں! مجھے معلوم ہے! چاروں طرف سے ہزاروں پتھر اُس پر برسنے لگے اور اُس کا سارا بدن لہولہان ہوگیا اُس نے ایک بار پھر باہر کے منظر میں پناہ لی مگر باہر سب کچھ ویسا ہی تھا۔
    حمید ! گدھے کو بھی اسی سڑے ہوئے جہاز کی ٹکٹ ملی تھی ۔ اُس نے اپنے سیکرٹری کو گالی دی کچھ دور کھڑا اکلوتا جہاز ہنس دیا جیسے اُس نے اُس کی سوچ پڑھ لی ہو اور اب ساری چھوٹی بڑی بھاگتی گاڑیاں یہ بات دور کھڑے باقی جہازوں کو بتانے جا رہی ہوں اُس نے کھڑکی سے جھانک کر اُوپر دیکھا سفید سفید روئی جیسے چند بادل آسمان کی وسعتوں میں تیر رہے تھے وہ سوچنے لگا کاش وہ کوئی بادل ہوتا اور اپنی موج میں خوب آوارہ گردی کرتا اور پھر تھک کر کسی وادی پر برس جاتا یوں برس جانے کے خیال سے اُسے لذت محسوس ہوئی صحرا میں جلنے سے اورگند گی میں لتھڑنے سے توبکھر جانا برس جانا اور سیراب کرنا تو زیادہ بہتر تھا اُس نے تڑپ کر لڑکی کی طرف دیکھا مگر اب وہ اپنے شوہر سے سرگوشیوں میں مصروف تھی وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا دوسال پیچھے چلا گیا دو سال پہلے جب وہ کچھ نہیں تھا لا اُبالی اور بے پرواہ سا نوجوان تھا تب ایک خوبصورت سی صبح یونیورسٹی کے لان میں نوشابہ نے پہلی بار اُس سے اإظہار ِمحبت کیا تھا اور وہ ہکا بکا رہ گیا تھا۔
    تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ۔ نوشابہ سرجھکا کر کہہ رہی تھی ۔ بہت خوبصورت ! بہت گہری ! ڈوب جانے کو دل کرتا ہے میں جانے کب سے تم سے محبت کر رہی ہوں ! شدید محبت ! شاید تب سے جب ہم ملے بھی نہیں تھے ۔ اور وہ حیرت سے اُس گڑیا جیسی لڑکی کو دیکھ رہا تھا وہ کہہ رہی تھی ۔ میں کبھی إاظہار نہ کر سکی ڈرتی تھی کہیں تمہیں کھو نہ دوں ۔ اور پھر خوفزدہ رہنے والی وہ گول مٹول گڑیا جیسی لڑکی اُسے خوفزدہ کر گئی تھی محبتیں نچھاور کرنے والی واری جانے والی خوشیوں میں ساتھ دینے والی دُکھوں کو بانٹنے والی اور اُسے پوجنے والی ! کہیں دور جا چھپی تھی اور اب وہ دیوانہ ! صحرا صحرا اُسے ڈھونڈتا پھر رہا تھا ۔
    اور پھرجب اُسے اپنا بزنس شروع کیا اور اُس کے لیے اُسے إسلام آباد جانا پڑا تو نوشابہ گھنٹوں روتی رہی اور اُسے روکتی رہی تھی اُس نے سوچا کاش وہ رُک جاتا مگر وہ اُسے سمجھا کر إسلام آباد آگیا اور پھر اُس جمعرات کی وہ چمکیلی شام وہ کیسے بھول سکتا تھا جب وہ کراچی سے آئے کلائنٹ سے میٹنگ کر کے اُٹھا ہی تھا کہ نوشابہ کا فون آیا ۔
    تم فورا لاہور آسکتے ہو ۔ نوشابہ نے پوچھا۔
    کیوں ؟ وہ چونکا ۔ خیریت تو ہے نا۔
    یہاں آؤگے تو بتاؤنگی ۔ وہ دھیرے سے بولی وہ گھبرا گیا فورا پہلی فلائٹ سے لاہور بھاگا فجرکے قریب وہ لاہور پہنچا پھر صبح دس بجے تک سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا رہا دس بجے وہ اُسے اُس کی بتائی ہوئی جگہ ملا ۔
    مجھے معلوم تھا تم آؤگے ! مجھے یقین تھا ! میں جانتی تھی ! وہ کھلی جا رہی تھی۔
    تم نے مجھے ایسے کیوں بلوایا ہے ۔ وہ بولا ۔ سب ٹھیک تو ہے نا۔
    ہاں سب ٹھیک ہے ۔ وہ مسکرائی ۔ سب گھر والے ایک شادی میں گئے ہوئے تھے اور میں شام تک گھر میں اکیلے بور ہوجاتی إس لیے تمہیں بلوا لیا ہے ۔ پھر وہ شرمائی ۔ اور کتنے دن سے تمہیں دیکھا بھی نہیں تھا ۔ وہ نہال ہوگیا ساری تھکن ساری کوفت اُتر گئی سڑکوں پر پانچ گھنٹوں کی آوارگی اور بے چینی ایک دلچسپ کھیل بن گئی اور اإسلام آباد سے لاہور تک کا سارا فاصلہ سمٹ کر پنگوڑے کا إایک ہلارہ بن گیا ۔
    مجھے معلوم تھا تم آؤگے ! مجھے یقین تھا ! میں جانتی تھی ! وہ مسکرا رہی تھی خوشی سے ناچ رہی تھی اُسے سامنے بٹھا کرآنکھوں کے کیمرے سے اُس کی تصویریں اُتار رہی تھی اوراُس کے قدموں میں بچھی جا رہی تھی مگر ! جانے کیوں اُسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ آج اُس سے کچھ چھپا رہی ہے اور اُس نے پوچھا بھی مگر وہ ہنس کر ٹال گئی اور پھر اُس کے بعد کی ہر ملاقات پر وہ یہ بات شدت سے محسوس کرنے لگا وہ اُس سے پوچھتا مگر وہ ہر بار ہنس کر ٹال دیتی اور اُس پر واری جاتی اُس کے قدموں میں بچھی جاتی اُس کے گرد گھومتی رہتی آنکھوں کے کیمرے سے اُس کی تصویریں اُتارے جاتی گھنٹوں سامنے بٹھائے اُس کی آنکھوں میں تکتی رہتی پہروں اُس سے باتیں کرتی رہتی( اور جانے کیوں وہ اب اُس کی ہتھیلیاں چومتی رہتی وہ منع کرتا تو ہنس دیتی ) اور ہنستی تو ہنسے جاتی مگر اس کی پلکیں چمکتی رہتی لہجہ بھیگا بھیگا رہتا اُسے یاد نہیں تھا کہ یہ کتنے لمحے ،دن، مہینے، سال یا صدیوں پہلے کی بات ہے وہ ہاتھ اُلٹ کر دیکھنے لگا اب بھی وہاں نوشابہ کے لبوں کے کچھ نشان تھے ۔
    نوشی ! سچ کہنا میں تمہیں کیسا لگا ہوں ۔ نوجوان اپنی بیوی کا ہاتھ تھامے ہوئے بولا۔
    تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت گہری ! ڈوب جانے کو دل کرتا ہے ! میں جانے کب سے تم سے محبت کر رہی ہوں ! شدید محبت ! شاید تب سے جب ہم ملے بھی نہیں تھے ! تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت گہری ! وہ کچھ نہ بولی اور مُڑ کر اُسے دیکھنے لگی وہ سمجھ گیا کہ اُس کی موجودگی اُسے بھی پریشان کر رہی ہے مگر وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ بے چینی سے پہلو بدل کر رہ گیا۔
    تم نے جواب نہیں دیا ۔ نوجوان نے پھر پوچھا۔
    ضروری تو نہیں کہ ہر بات کا جواب لفظوں میں دیا جائے ۔ وہ نظریں جھکا کر بولی ۔ کچھ باتیں آنکھوں سے بھی کہی جاتی ہیں ۔
    تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت خوبصورت ! بہت گہری ! ڈوب جانے کو دل کرتا ہے ! بہت خوبصورت ! کتنے دن سے تمہیں دیکھا بھی نہیں تھا ! میں جانے کب سے تم سے محبت کر رہی ہوں ! شدید محبت ! شاید تب سے جب ہم ملے بھی نہیں تھے ! اُسے یاد آیا وہ ہمیشہ إسے اس زبان سے نابلد رہا ہے ہزار کوشش کے باوجود وہ نوشابہ کی آنکھوں میں لکھی وہ چمکتی بھیگی تحریر کبھی نہ پڑھ سکا تھا۔
    نوجوان ہنس دیا ۔ مگر مجھے یہ زبان نہیں آتی تم مجھے بھی سکھا دو ۔ وہ شرما گئی ۔
    مجھے بھی سکھا دو ۔ وہ کاسئہ لیے نوشابہ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
    تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت گہری ! بہت خوبصورت ! بہت گہری ! ڈوب جانے کو دل کرتا ہے ! بہت خوبصورت ! کتنے دن سے تمہیں دیکھا بھی نہیں تھا ! بہت خوبصورت ! وہ اُس کا سر کچلنے لگی اور ! اور پھر سے اُس کی ہتھیلیاں چومنے لگی۔
    ہم ہنی مون کے لیے ٹرین سے بھی تو جا سکتے تھے ۔لڑکی اپنے شوہر سے بولی وہ جھٹ سے ٹرین میں آبیٹھا بھاگتی دوڑتی پٹڑیوں کو کچلتی مٹی دھول اُڑاتی ٹرین طرح طرح کے بے فکرے لوگ آوازیں لگاتے شور مچاتے چائے پیسٹری اور ٹھنڈی بوتلوں والے اور ڈائیننگ کار کے بیرے بھلے شاہ میاں محمد اور دوسرے صوفیوں کے کلام سنانے والے میلوں پھیلے ہوئے کھیت اُن میں کام کرتے مرد اور عورتیں پگڈنڈیوں کے کنارے بیٹھے ہاتھ ہلاتے بچے درخت اور اُن کے سائے تلے چارپائیاں ڈالے بیٹھے بوڑھے کسان اوربندھے چرتے آوارہ گھومتے جانور اورکھیتوں میں قطاردر قطار گڑھے ٹیلیفون اوربجلی کے کھمبے چھوٹے بڑے پہاڑ ندی نالے چشمے اور پھر راوی کا پل ایک ہی لمحے میں سب اُس کی نظروں کے سامنے آگئے نوشابہ اُس کے سامنے آبیٹھی اور مسکراتے ہوئے بولی۔
    یہ ٹرین کا سفر بھی کتنا عجیب ہوتا ہے إانسان خواہ مخواہ تھک جاتا ہے وہ پھر جہاز میں آ بیٹھا ۔ مجھے معلوم تھا تم آؤگے ! مجھے یقین تھا ! میں جانتی تھی ! تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت گہری ! مجھے معلوم تھا تم آؤگے ! میں جانتی تھی ! مجھے یقین تھا ! بہت خوبصورت ! بہت گہری ! ڈوب جانے کو دل کرتا ہے ! شدید محبت ! کتنے دن سے تمہیں دیکھا بھی نہیں تھا ! میں جانتی تھی ! بہت خوبصورت ! بہت خوبصورت ! بہت گہری ! اُس نے مُڑ کر اُسے دیکھا وہ اپنے شوہر کی کسی بات پر مسکرا رہی تھی اُس کے سفید سفید دانت ایک دم نوکیلے اور خون آشام ہوگئے اُس نے جھرجھری سی لی۔
    تم مسکراتی ہو تو بہت اچھی لگتی ہو ۔ اُس کا شوہر اُس کی تھوڑی پکڑ کر بولا ۔ دل چاہتا ہے کہ ۔ وہ اُس پر جھکتے ہوئے بولا۔
    آپ بھی حد کرتے ہیں ۔ وہ اُسے دھکیلتے ہوئے بولی ۔ کوئی جگہ تو دیکھ لیا کریں ۔ وہ کھلکھلا کر ہنس دیا اُسے لگا جہاز میں سوار ہرشخص ہنس رہا ہے جہاز کا پائیلٹ ، ائیر ہوسٹس ، مسافر ، اُس کے ساتھ بیٹھا ہوا بچہ اور اُس کی ماں اور وہ دونوں سب اُس پر ہنس رہے ہیں اُس کا جی پھر متلانے لگا اور وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
    نوشی ! تم بہت خوبصورت ہو ۔ وہ پھر اُس کی تعریف کرنے لگا۔
    تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت گہری ! نوشابہ اُس پرجھکی کہہ رہی تھی۔ ڈوب جانے کو دل کرتا ہے ! جانے کب سے تم سے محبت کر رہی ہوں ! شاید تب سے جب ہم ملے بھی نہیں تھے ! تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ! بہت گہری ۔ اُسے اُس کے خون آشام نوکیلے دانت اپنی گردن میں اُترتے محسوس ہوئے۔
    تم جھوٹ بولتی ہو ۔ وہ چلایا نوشابہ جہاز سے باہر جا گری بچہ سہم کر اُسے دیکھنے لگا اُس کی ماں بھی مُڑ کر دیکھنے لگی وہ دونوں بھی اُسے دیکھ رہے تھے ۔
    کوئی دیوانہ لگتا ہے۔نوجوان نے اُسے دیکھتے ہوئے کہااور پھر مڑ کر اپنی بیوی کو دیکھنے لگا اور مسکرا کر بولا۔ نوشابہ ! تمہیں پا کر میں خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت إنسان سمجھتا ہوں ۔ وہ کچھ نہ بولی مگر اُس کی آنکھ میں چمکتا ہوا تارہ اُس نے دیکھ لیا جیسے وہ پشیمان ہو تبھی جہاز نے ایک جھٹکا لیا اوراُس کے پہیے حرکت کرنے لگے اُس نے اطمعنان سے ٹیک لگا کر آنکھیں موندھ لی ۔

    (آصفؔ احمد بھٹی)​
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: نوشی

    [​IMG]

    اللہ کریم آپ کی عقل میں اور اضافہ فرمائیں
     
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: نوشی

    واہ آصف بھائی، خوب لکھا آپ نے ۔
    یہ یادیں بھی انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ کبھی بھری محفل میں تنہا کر دیتی ہیں اور کبھی تنہائی میں بھی اپنی محفل لگا کر بیٹھ جاتی ہیں۔
    جیتے رہیں۔ :flor:
     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: نوشی

    چاچا جی آپ کا بہت بہت شکریہ ۔
    اور
    بلال بھائی !‌ آپ کی پسندگی کا بھی شکریہ ، اس افسانے میں نوشی اور نوشابہ ایک ہی کردار ہے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں