1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نواب مصطفیٰ خان شیفتہ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از سین, ‏26 جنوری 2013۔

  1. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:

    پھر محّرک ستم شعاری ہے
    پھر انہیں جستجو ہماری ہے

    پھر وہی داغ و دل سے صحبت گرم
    پھر وہی چشم و شعلہ باری ہے

    پھر وہی جوش و نالہ و فریاد
    پھر وہی شورِ آہ و زاری ہے

    پھر خیالِ نگاہِ کافر ہے
    پھر تمنائے زخم کاری ہے

    پھر وہاں طرزِ دلنوازی ہے
    پھر یہاں رسمِ جاں نثاری ہے

    پھر وہی بے قراریِ تسکیں
    پھر ہمیں اس کی یادگاری ہے

    پھر ہمیں کام کچھ نہیں تم سے
    پھر وہی وضع گر تمہاری ہے

    شیفتہ پھر ہے ننگ عزت سے
    پھر وہی ہم ہیں اور خواری ہے
     
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: نواب مصطفیٰ خان شیفتہ

    پھر وہی بے قراریِ تسکیں
    پھر ہمیں اس کی یادگاری ہے
    واہ !
    سین جی ! نواب مصطفے خان شیفتہ کا خوبصورت کلام شیئر کرنے کے لیے بہت شکریہ۔
    مزید کا انتظار رہے گا۔
     
  3. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: نواب مصطفیٰ خان شیفتہ

    شئیرنگ کا شکریہ
    نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے مذید اشعار کا نتظار رہے گا۔
     
  4. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: نواب مصطفیٰ خان شیفتہ

    شیفتہ ہجر میں تو نالہء شب گیر نہ کھینچ
    صبح ہونے کی نہیں خجلتِ تاثیر نہ کھینچ

    اے ستم گر رگِ جاں میں ہے مری پیوستہ
    دم نکل جائے گا سینے سے مرے تیر نہ کھینچ

    حور پر بھی کوئی کرتا ہے عمل دنیا میں
    رنجِ بے ہودہ بس اے عاملِ تسخیر نہ کھینچ

    عشق سے کیا ہے تجھے شکل تری کہتی ہے
    حسنِ تقریر کو آہیں دمِ تقریر نہ کھینچ

    ہے یہ سامان صفائی کا عدو سے کیوں کر
    دستِ مشاطہ سے یوں زلفِ گرہ گیر نہ کھینچ

    اے ستم پیشہ کچھ امیدِ تلافی تو رہے
    دستِ نازک سے مرے قتل کو شمشیر نہ کھینچ

    چارہ گر فکر کر اس میں، کہ مقدر بدلے
    ورنہ بے ہودہ اذیت پئے تدبیر نہ کھینچ

    کون بے جرم ہے جو شائقِ تعزیر نہیں
    شوقِ تعزیر سے تو حسرتِ تقصیر نہ کھینچ

    وجد کو زمزمہء مرغِ سحر کافی ہے
    شیفتہ نازِ مغنئ و مزامیر نہ کھینچ

    (نواب مصطفیٰ خان شیفتہ)​
     
  5. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: نواب مصطفیٰ خان شیفتہ

    شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
    جب یوں نگاہبانئ مرغِ سحر کریں

    محفل میں اک نگاہ اگر وہ ادھر کریں
    سو سو اشارے غیر سے پھر رات بھر کریں

    طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ؟
    دو اشک بھی بہت ہیں، اگر کچھ اثر کریں

    آز و ہوس سے خلق ہوا ہے یہ نامراد
    دل پر نگاہ کیا ہے، وہ مجھ پر نظر کریں

    کچھ اب کے ہم سے بولے تو یہ جی میں ہے کہ پھر
    ناصح کو بھی رقیب سے آزردہ تر کریں

    واں ہے وہ نغمہ جس سے کہ حوروں کے ہوش جائیں
    یاں ہے وہ نالہ جس سے فرشتے حذر کریں

    اہلِ زمانہ دیکھتے ہیں عیب ہی کو بس
    کیا فائدہ جو شیفتہ عرضِ ہنر کریں

    (نواب مصطفیٰ خان شیفتہ)
     
  6. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: نواب مصطفیٰ خان شیفتہ

    شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
    جب یوں نگاہبانئ مرغِ سحر کریں

    محفل میں اک نگاہ اگر وہ ادھر کریں
    سو سو اشارے غیر سے پھر رات بھر کریں

    طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ؟
    دو اشک بھی بہت ہیں، اگر کچھ اثر کریں

    آز و ہوس سے خلق ہوا ہے یہ نامراد
    دل پر نگاہ کیا ہے، وہ مجھ پر نظر کریں

    کچھ اب کے ہم سے بولے تو یہ جی میں ہے کہ پھر
    ناصح کو بھی رقیب سے آزردہ تر کریں

    واں ہے وہ نغمہ جس سے کہ حوروں کے ہوش جائیں
    یاں ہے وہ نالہ جس سے فرشتے حذر کریں

    اہلِ زمانہ دیکھتے ہیں عیب ہی کو بس
    کیا فائدہ جو شیفتہ عرضِ ہنر کریں

    (نواب مصطفیٰ خان شیفتہ)
     
  7. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: نواب مصطفیٰ خان شیفتہ


    تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا
    ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا

    صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر
    جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہو گا

    جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے
    الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا

    بے داد وہ اور اس پہ وفا یہ کوئی مجھ سا
    مجبور ہوا ہے، دلِ خود کام نہ ہو گا

    وہ غیر کے گھر نغمہ سرا ہوں گے مگر کب
    جب ہم سے کوئی نالہ سرانجام نہ ہو گا

    ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

    قاصد کو کیا قتل، کبوتر کو کیا ذبح
    لے جائے مرا اب کوئی پیغام، نہ ہو گا

    جب پردہ اٹھا تب ہے عدو دوست کہاں تک
    آزارِ عدو سے مجھے آرام نہ ہو گا

    یاں جیتے ہیں امیدِ شبِ وصل پر اور واں
    ہر صبح توقع ہے کہ تا شام نہ ہو گا

    قاصد ہے عبث منتظرِ وقت، کہاں وقت
    کس وقت انہیں شغلِ مے و جام نہ ہو گا

    دشمن پسِ دشنام بھی ہے طالبِ بوسہ
    محوِ اثرِ لذتِ دشنام نہ ہو گا

    رخصت اے نالہ کہ یاں ٹھہر چکی ہے
    نالہ نہیں جو آفتِ اجرام ، نہ ہو گا

    برق آئینہء فرصتِ گلزار ہے اس پر
    آئینہ نہ دیکھے کوئی گل فام، نہ ہو گا

    اے اہلِ نظر ذرے میں پوشیدہ ہے خورشید
    ایضاح سے حاصل بجز ابہام نہ ہو گا

    اس ناز و تغافل میں ہے قاصد کی خرابی
    بے چارہ کبھی لائقِ انعام نہ ہو گا

    اس بزم کے چلنے میں ہو تم کیوں متردد
    کیا شیفتہ کچھ آپ کا اکرام نہ ہو گا

    (نواب مصطفیٰ خان شیفتہ)
     
  8. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: نواب مصطفیٰ خان شیفتہ


    تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا
    ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا

    صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر
    جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہو گا

    جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے
    الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا

    بے داد وہ اور اس پہ وفا یہ کوئی مجھ سا
    مجبور ہوا ہے، دلِ خود کام نہ ہو گا

    وہ غیر کے گھر نغمہ سرا ہوں گے مگر کب
    جب ہم سے کوئی نالہ سرانجام نہ ہو گا

    ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

    قاصد کو کیا قتل، کبوتر کو کیا ذبح
    لے جائے مرا اب کوئی پیغام، نہ ہو گا

    جب پردہ اٹھا تب ہے عدو دوست کہاں تک
    آزارِ عدو سے مجھے آرام نہ ہو گا

    یاں جیتے ہیں امیدِ شبِ وصل پر اور واں
    ہر صبح توقع ہے کہ تا شام نہ ہو گا

    قاصد ہے عبث منتظرِ وقت، کہاں وقت
    کس وقت انہیں شغلِ مے و جام نہ ہو گا

    دشمن پسِ دشنام بھی ہے طالبِ بوسہ
    محوِ اثرِ لذتِ دشنام نہ ہو گا

    رخصت اے نالہ کہ یاں ٹھہر چکی ہے
    نالہ نہیں جو آفتِ اجرام ، نہ ہو گا

    برق آئینہء فرصتِ گلزار ہے اس پر
    آئینہ نہ دیکھے کوئی گل فام، نہ ہو گا

    اے اہلِ نظر ذرے میں پوشیدہ ہے خورشید
    ایضاح سے حاصل بجز ابہام نہ ہو گا

    اس ناز و تغافل میں ہے قاصد کی خرابی
    بے چارہ کبھی لائقِ انعام نہ ہو گا

    اس بزم کے چلنے میں ہو تم کیوں متردد
    کیا شیفتہ کچھ آپ کا اکرام نہ ہو گا

    (نواب مصطفیٰ خان شیفتہ)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں