1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نواب مصطفیٰ خان شیفتہؔ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏13 نومبر 2018۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    اپنے جوار میں ہمیں مسکن بنا دیا
    دشمن کو اور دوست نے، دشمن بنا دیا

    صحرا بنا رہا ہے وہ افسوس شہر کو
    صحرا کو جس کے جلوے نے گلشن بنا دیا

    تم لوگ بھی غضب ہو کہ دل پر یہ اختیار
    شب موم کر لیا، سحر آہن بنا دیا

    مشاطہ کا قصور سہی سب بناؤ میں
    اس نے ہی کیا نگہ کو بھی پر فن بنا دیا

    اظہارِ عشق اس سے نہ کرنا تھا شیفتہ
    یہ کیا کیا کہ دوست کو دشمن بنا دیا​
     
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    روز خوں ہوتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
    ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں

    فرشِ رہ ہیں جو دل افگار ترے کوچے میں
    خاک ہو رونقِ گلزار ترے کوچے میں

    سرفروش آتے ہیں اے یار ترے کوچے میں
    گرم ہے موت کا بازار ترے کوچے میں

    شعر بس اب نہ کہوں گا کہ کوئی پڑھتا تھا
    اپنے حالی مرے اشعار ترے کوچے میں

    نہ ملا ہم کو کبھی تیری گلی میں آرام
    نہ ہوا ہم پہ جز آزار ترے کوچے میں

    ملک الموت کے گھر کا تھا ارادہ اپنا
    لے گیا شوقِ غلط کار ترے کوچے میں

    تو ہے اور غیر کے گھر جلوہ طرازی کی ہوس
    ہم ہیں اور حسرتِ دیدار ترے کوچے میں

    ہم بھی وارستہ مزاجی کے ہیں اپنی قائل
    خلد میں روح، تنِ زار ترے کوچے میں

    کیا تجاہل سے یہ کہتا ہے "کہاں رہتے ہو؟”
    ترے کوچے میں ستم گار! ترے کوچے میں

    شیفتہ ایک نہ آیا تو نہ آیا کیا ہے
    روز آ رہتے ہیں دو چار ترے کوچے میں

    (نواب مصطفیٰ خان شیفتہ)​
     
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا
    ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا

    صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر
    جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہو گا

    جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے
    الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا

    بے داد وہ اور اس پہ وفا یہ کوئی مجھ سا
    مجبور ہوا ہے، دلِ خود کام نہ ہو گا

    وہ غیر کے گھر نغمہ سرا ہوں گے مگر کب
    جب ہم سے کوئی نالہ سرانجام نہ ہو گا

    ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

    قاصد کو کیا قتل، کبوتر کو کیا ذبح
    لے جائے مرا اب کوئی پیغام، نہ ہو گا

    جب پردہ اٹھا تب ہے عدو دوست کہاں تک
    آزارِ عدو سے مجھے آرام نہ ہو گا

    یاں جیتے ہیں امیدِ شبِ وصل پر اور واں
    ہر صبح توقع ہے کہ تا شام نہ ہو گا

    قاصد ہے عبث منتظرِ وقت، کہاں وقت
    کس وقت انہیں شغلِ مے و جام نہ ہو گا

    دشمن پسِ دشنام بھی ہے طالبِ بوسہ
    محوِ اثرِ لذتِ دشنام نہ ہو گا

    رخصت اے نالہ کہ یاں ٹھہر چکی ہے
    نالہ نہیں جو آفتِ اجرام ، نہ ہو گا

    برق آئینہء فرصتِ گلزار ہے اس پر
    آئینہ نہ دیکھے کوئی گل فام، نہ ہو گا

    اے اہلِ نظر ذرے میں پوشیدہ ہے خورشید
    ایضاح سے حاصل بجز ابہام نہ ہو گا

    اس ناز و تغافل میں ہے قاصد کی خرابی
    بے چارہ کبھی لائقِ انعام نہ ہو گا

    اس بزم کے چلنے میں ہو تم کیوں متردد
    کیا شیفتہ کچھ آپ کا اکرام نہ ہو گا

    (نواب مصطفیٰ خان شیفتہ)​
     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    کچھ امتیاز مجھ کو نہ مے کا نہ ساز کا
    ناچار ہوں کہ حکم نہیں کشفِ راز کا

    لگتی نہیں پلک سے پلک جو تمام شب
    ہے ایک شعبدہ مژۂ نیم باز کا

    دشمن پئے صبوح جگاتے ہیں یار کو
    یہ وقت ہے نسیمِ سحر اہتزاز کا

    ایمن ہیں اہلِ جذبہ کہ رہبر ہے ان کے ساتھ
    سالک کو ہے خیال نشیب و فراز کا

    پھنسنے کے بعد بھی ہے وہی دل شگفتگی
    کیا خوب جال ہے نگہِ جاں نواز کا

    تقویٰ مرا شعار ہے ، عصمت سرشتِ دوست
    پھر مجھ سے کون سا ہے سبب احتراز کا

    بارے عجیب بات تو پھیلی جہان میں
    پایا کسی نے گو ثمر افشائے راز کا

    ساقی کے ہیں اگر یہی الطاف، کیا عجب
    ارض و سما میں ہوش نہ ہو امتیاز کا

    پیرِ مغاں نے رات کو وہ کچھ دکھا دیا
    ہرگز رہا نہ دھیان بھی حسنِ مجاز کا

    دیتا ہے داغِ رشک پرندِ سپہر کو
    جلوہ تمہاری معجزِ گوہر طراز کا

    پانی وضو کو لاؤ، رخِ شمع زرد ہے
    مینا اٹھاؤ وقت اب آیا نماز کا

    یکتا کسی کو ہم نے نہ دیکھا جہان میں
    طولِ امل جواب ہے زلفِ دراز کا

    جورِ اجل کو شوخیِ بے جا کہا کیا
    تھا مست شیفتہؔ جو کسی مستِ ناز کا

    (نواب مصطفیٰ خان شیفتہؔ)​
     
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
    جب یوں نگاہبانئ مرغِ سحر کریں

    محفل میں اک نگاہ اگر وہ ادھر کریں
    سو سو اشارے غیر سے پھر رات بھر کریں

    طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ؟
    دو اشک بھی بہت ہیں، اگر کچھ اثر کریں

    آز و ہوس سے خلق ہوا ہے یہ نامراد
    دل پر نگاہ کیا ہے، وہ مجھ پر نظر کریں

    کچھ اب کے ہم سے بولے تو یہ جی میں ہے کہ پھر
    ناصح کو بھی رقیب سے آزردہ تر کریں

    واں ہے وہ نغمہ جس سے کہ حوروں کے ہوش جائیں
    یاں ہے وہ نالہ جس سے فرشتے حذر کریں

    اہلِ زمانہ دیکھتے ہیں عیب ہی کو بس
    کیا فائدہ جو شیفتہ عرضِ ہنر کریں

    (نواب مصطفیٰ خان شیفتہ)​
     
  6. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    پھر محّرک ستم شعاری ہے
    پھر انہیں جستجو ہماری ہے

    پھر وہی داغ و دل سے صحبت گرم
    پھر وہی چشم و شعلہ باری ہے

    پھر وہی جوش و نالہ و فریاد
    پھر وہی شورِ آہ و زاری ہے

    پھر خیالِ نگاہِ کافر ہے
    پھر تمنائے زخم کاری ہے

    پھر وہاں طرزِ دلنوازی ہے
    پھر یہاں رسمِ جاں نثاری ہے

    پھر وہی بے قراریِ تسکیں
    پھر ہمیں اس کی یادگاری ہے

    پھر ہمیں کام کچھ نہیں تم سے
    پھر وہی وضع گر تمہاری ہے

    شیفتہ پھر ہے ننگ عزت سے
    پھر وہی ہم ہیں اور خواری ہے

    (نواب مصطفیٰ خان شیفتہ)​
     
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    رات واں گُل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
    صُبح بُلبُل کی روِش ہمدَمِ افغاں دیکھا

    کوئی بے جان جہاں میں نہیں جیتا ،لیکن
    تیرے مہجوُر کو جیتے ہُوئے بے جاں دیکھا

    میں نے کیا جانیے کِس ذوق سے دی جاں دَمِ قتل
    کہ بہت اُس سے سِتم گر کو پشیماں دیکھا

    نہ ہُوا یہ کہ ، کبھی اپنے گلے پر دیکھیں
    یوں تو سو بار تِرا خنجرِ بُرّاں دیکھا

    اِس طرف کو بھی نِگہ تا سرِ مژگاں آئی
    بارے کُچھ کُچھ اثرِ گریۂ پنہاں دیکھا

    پانی پانی ہُوئے مرقد پہ مِرے آ کے وہ جب!
    شمع کو نعش پہ پروانے کی گریاں دیکھا

    غم غَلط کرنے کو احباب ہمَیں جانبِ باغ
    لے گئے کل، تو عجب رنگِ گُلِستاں دیکھا

    وَرد میں خاصیتِ اخگرِ سوزاں پائی
    نستَرن میں اثرِ خارِ مُغیلاں دیکھا

    ایک نالے میں سِتم ہائے فلک سے چُھوٹے
    جس کو دُشوار سمجھتے تھے، سو آساں دیکھا

    کون کہتا ہے کہ ظُلمت میں کم آتا ہے نظر!
    جو نہ دیکھا تھا، سو ہم نے شبِ ہجراں دیکھا

    شیفتہ ! زُلفِ پری رُو کا پڑا سایہ کہِیں
    میں نے جب آپ کو دیکھا تو پریشاں دیکھا

    مُصطفٰی خان شیفتہ​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں