1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نواب شاہ بنام ؛؛بینظیر؛؛

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏17 ستمبر 2008۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    حقیقت پر مشتمل بی بی سی اردو کی معلومات افزا خبر اور تجزیہ
    باآخر انیس سو بارہ میں سید نواب شاہ نے اپنے نام سے شہر بسانے کے لئے جو ساڑھے چھ سو ایکڑ زمین سندھ سرکار کو عطیہ کی تھی چھیانوے برس بعد اس کا نام بدل کر بینظیر بھٹو شہید رکھنے کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے اور نواب شاہ کا وارث خاندان پیپلز پارٹی کا حامی ہونے کے باوجود منہ تکتا رہ گیا۔
    قومی مشاہیر اور اکابرین کے نام پر کسی جگہ کا نام رکھنا بری بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرح سے انکی خدمات کا اعتراف اور آئندہ نسلوں تک انکی قربانیوں کی امانت پہنچانے کا ایک طریقہ ہے۔لیکن اس کے لیے بھی ایک مروجہ طریقِ کار ہونا چاہئے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ نواب شاہ شہر کے بانی کے نام پر خطِ تنسیخ پھیرنے کے بجائے بینظیر بھٹو کے نام پر ایک نیا شہر بسایا جاتا۔یا اگر نام ہی بدلنا تھا تو بھٹو خاندان کے آبائی ضلع لاڑکانہ کا نام بدلنے پر غور کیا جاتا یا پھر کراچی کا نام بینظیر آباد رکھ دیا جاتا جہاں ان کی زندگی کا بیشتر حصہ گذرا۔

    ہندو باغ سے مسلم باغ
    قدیم یا اصل ناموں کو بدلنے کا آخر کیا جواز ہے۔ مثلاً بلوچستان کی سب تحصیل ہندو باغ کا نام اس لئے ہندو باغ تھا کہ صدیوں پہلے کسی ہندو سادھو نے یہاں ایک شاداب باغ لگایا تھا لیکن ضیا الحق کے دور میں ایک دن اچانک ہندو باغ مسلم باغ ہوگیا۔


    برصغیر میں کئی مقامات کے نام تبدیل کئے گئے ہیں لیکن اس تبدیلی کے پیچھے کوئی نہ کوئی تاریخی منطق ضرور ہوتی ہے۔ مثلاً بمبئی کا نام ممبئی، مدراس کا نام چنائے، منٹگمری کا نام ساہیوال ، کیمبل پور کا نام اٹک ، فورٹ سنڈیمن کا نام ژوب رکھنے کی یہ منطق دی گئی کہ نئے نام دراصل ان مقامات کے قدیم نام ہیں۔ یہ منطق کسی حد تک سمجھ میں بھی آتی ہے۔

    لیکن پھر یہ سوال ابھرتا ہے کہ قدیم یا اصل ناموں کو بدلنے کا آخر کیا جواز ہے۔ مثلاً بلوچستان اور سندھ کا ایک سرحدی قصبہ کالی دیوی کے مندر کی بنیاد پر ٹمپل ڈیرہ کہلاتا تھا جو آج ڈیرہ اللہ یار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلوچستان کی سب تحصیل ہندو باغ کا نام اس لئے ہندو باغ تھا کہ صدیوں پہلے کسی ہندو سادھو نے یہاں ایک شاداب باغ لگایا تھا لیکن ضیا الحق کے دور میں ایک دن اچانک ہندو باغ مسلم باغ ہوگیا۔

    اٹھارہ سو اسی میں پنجاب کے علاقے ساندل بار میں اسوقت کے گورنر پنجاب سر چارلس جیمز لائل کے نام پر ایک بالکل نیا شہر لائل پور کے نام پر بسایا گیا۔لیکن انیس سو ستتر میں پاکستان کے اس تیسرے بڑے شہر کا نام شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے نام پر فیصل آباد رکھ دیا گیا ۔اس زمانے میں لائل پور کے کچھ لوگوں نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے یہ دلیل بھی دی تھی کہ اگر نام ہی بدلنا تھا تو لائلپور کوساندل بار یا اس علاقے کے تحریکِ آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ کا نام بھی دیا جا سکتا تھا۔لیکن جب اسلام آباد میں فیصل مسجد بنی تو کسی کو اعتراض نہیں ہوا کیونکہ یہ ایک اوریجنل منصوبہ تھا۔

    لائلپور سے فیصل آباد
    اٹھارہ سو اسی میں پنجاب کے علاقے ساندل بار میں اسوقت کےگورنر پنجاب سر چارلس جیمز لائل کے نام پر ایک بالکل نیا شہر لائل پور کے نام پر بسایا گیا۔ لیکن انیس سو ستتر میں پاکستان کے اس تیسرے بڑے شہر کا نام شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے نام پر فیصل آباد رکھ دیا گیا۔


    پاکستان میں اس وقت دو بڑے شہر ایسے ہیں جن کے نام اب تک نہیں چھیڑے گئے۔ایک نام تو ایبٹ آباد ہے جو ڈسٹرکٹ ہزارہ کے ڈپٹی کمشنر میجر جیمز ایبٹ نے اٹھارہ سو تریپن میں آباد کیا تھا۔جبکہ دوسرے شہر کی بنیاد اٹھارہ سو سینتالیس میں سر جان جیکب نے شمالی سندھ میں رکھی تھی جو جیکب آباد کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    جنرل ضیا الحق کے دور میں اس شہر کے نام پر بھی شبخون مارنے کی کوشش کی گئی اور بلدیاتی اجلاس میں ابو ظہبی کے امیر شیخ زید بن سلطان النہیان کے نام پر جیکب آباد کا نام رکھنے کی قرار داد پیش ہوئی لیکن اجلاس میں یہ نام چلنے کے بجائے جوتا چل گیا اور کوشش ناکام ہوگئی۔

    جیکب آباد کے شہریوں کا اپنے بابائے شہر سے عقیدت کا یہ عالم ہے کہ انہیں پیر جیکب کہا جاتا ہے۔قبر پر ہر شام چراغ جلتا ہے۔اور جوڑے محبت میں کامیابی کی منتیں ماننے آتے ہیں۔

    عجیب بات ہے کہ مختلف حکومتیں اپنے اپنے نظریے اور سیاسی مفاد کے مطابق تاریخی اور قدیم ناموں پر تو ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں اور انہیں حلوائی کی دوکان پر دادا جی کی فاتحہ دلانے سے کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔

    لیکن کسی علاقے کے لوگ ازخود اپنے علاقے کا نام بدلنے کی خواہش ظاہر کریں تو حب الوطنی کے واسطوں اور ملک دشمنی کے طعنوں سمیت طرح طرح کی تاویلیں پیش کرکے معاملہ دبانے کی کوشش ہوتی ہے۔

    سامنے کی مثال انیس سو ایک میں رکھے جانے والے نام شمال مغربی سرحدی صوبے کی ہے۔اس نام کی مقامی لوگوں کی امنگوں کے مطابق تبدیلی کا گزٹ نوٹیفکیشن آج تک جاری نہیں ہوسکا۔
    بشکریہ بی بی سی
    http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/09/080916_nawabshah_benazir_ra.shtml
     

اس صفحے کو مشتہر کریں