1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نعت گوئی

'جہانِ حمد و نعت و منقبت' میں موضوعات آغاز کردہ از الکرم, ‏30 جنوری 2012۔

  1. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    فن نعت گوئی​


    نعت گوئی فن شاعری کے زیور کا نگینہ ہے۔ نعت کا فن بہ ظاہر جس قدر آسان نظر آتا ہے بباطن اسی قدر مشکل ہے۔ ایک طرف وہ ذات گرامی ہے جس کی مدح خود رب العالمین نے کی ہے، دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں۔ اس لیے نعت کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سرشار ہو اور یہ وصف وہبی ہے۔ جسے اللہ توفیق دے وہی نعت کہہ سکتا ہے ایک طرح سے یہی کہا جائے گا۔

    آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں


    لفظ نعت ( ن ع ت ) عربی زبان کا مصدر ہے اس کے لغوی معنی کسی شخص میں قابل تعریف صفات کا پایا جانا ہے۔ نعت حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعریف و توصیف کے لیے خاص ہے۔ اردو میں شاید ہی ایسی کوئی صنف سخن ہو جس میں نعتیں نہ کہی گئی ہوں۔ اس لیے اس کے اسالیب طے شدہ نہیں ہیں۔ اس طرح سے اس کا دائرہ بہت وسیع ہو جاتا ہے۔ مگر سب سے اہم تقاضا محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سرشاری کا ہے۔ شاہ معین الدین ندوی اپنی کتاب ''ادبی نقوش '' میں رقم طراز ہیں:
    ''نعت کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ محض شاعری کی زبان میں ذات پاک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عامیانہ توصیف کر دینا بہت آسان ہے، لیکن اس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ برآ ہونا بہت مشکل ہے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ساتھ نبوت کے اصلی کمالات اور کارناموں، اسلام کی صحیح روح، عہد رسالت کے واقعات اور آیات و احادیث سے واقفیت ضروری ہے جو کم شعراء کو ہوتی ہے۔ اس کے بغیر صحیح نعت گوئی ممکن نہیں۔ نعت کا رشتہ بہت نازک ہے۔ اس میں ادنیٰ سی لغزش سے نیکی برباد گناہ لازم آجاتا ہے۔ اس پل صراط کو عبور کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ بارگاہ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں۔ شاہ معین الدین ندوی نے نعت گوئی کے لیے شاعر کا صاحبِ بصارت اور صاحب بصیرت ہونا اولین شرط قرار دیا ہے۔ کیوں کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مقدس، نبوت اور عبدیت کے کمال پر تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مدح رسول اور ذکر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اعلیٰ و ارفع قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، 'ورفعنا لک ذکرک' (اور ہم نے تمہارے ذکر کو بلند کیا)۔ خالق جس کی تخلیق پر نازاں ہوں اور مدح سرائی فرمائی ہو اس کی ثنا خوانی انسان سے کہاں ممکن ہے۔ کیوں کہ ذات مقدس کو وجہ تخلیق کائنات ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس لیے الفاظ پر کتنی ہی قدرت کیوں نہ ہو شاعر اپنے آپ کو عاجز پاتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ

    بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر


    نعت گوئی کی بنیادی شرط ہے، محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں فنا ہو جانا اور فنا کس طرح ہو؟ ایک مجلس میں آں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی انسان اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک میری ذات اس کے لیے ماں، باپ، اولاد، سب سے زیادہ محبوب نہ بن جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ وہاں تشریف فرما تھے۔
    انہوں نے عرض کیا کہ جناب والا کی ذات ستودہ صفات والدین اور اولاد سے زیادہ محبوب ہے، لیکن ابھی یہ کیفیت نہیں ہے کہ میں آپ کی ذات کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا سمجھوں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ایمان کی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمانا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ کے دل پر ضرب کاری لگی اور آں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہ سے دل کی کیفیت بدل گئی۔ حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے عرض کیا کہ خدا کا شکر ہے اب دل میں کیفیت پیدا ہوئی کہ جناب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اب تمہارا ایمان مکمل ہوگیا۔ اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رو سے ایک مومن کی تکمیل ایمانی کے لیے اس کے قلب کی یہی کیفیت ضروری ہے کہ اس کے اندر مکمل سپردگی ہو۔
    نعت گوئی کا محرک قرآن کریم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب کی شان میں جو الفاظ استعمال کیے اس کا ثانی تو ہو ہی نہیں سکتا۔ انسان ضعیف کی کیا بساط ہے۔ جو لب کشائی کرے۔ ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی فرماتے ہیں: قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی۔ مولانا رؤف امروہوی کہتے ہیں:

    لکھوں کیا وصف شاہ انس و جاں سے
    زباں اللہ کی لاؤں کہاں سے


    علامہ محسن کاکوروی کہتے ہیں:

    ادھر مخلوق میں شامل ادھر اللہ سے واصل
    خواص اس برزخِ کبریٰ میں ہے حرف مشدد کا


    ایک اور شاعر کا اعتراف ہے:
    حدیثوں میں خدا کا ذکر ان کا ذکر قرآن میں

    خدا کے مدح خواں وہ ہیں خدا ہے مدح خواں ان کا جس کا ثنا خواں اللہ تعالیٰ ہے وہاں انسان کیا جسارت کر سکتا ہے؟ لیکن اپنے محبوب کی مداحی کرنے سے خود کو روک بھی نہیں سکتا۔ اس لیے نعت کا ورودِ مسعود ہوا اور ہمارے شعرا نے ا س کے لیے آسمان سے زمینیں تراشیں۔
    نعت گوئی کا آغاز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہو چکا تھا۔ اس ذیل میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ کا نام نامی اسم گرامی خصوصیت سے لیا جاتا ہے۔ جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں بے شمار نعتیہ اشعار کہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ ان کے لیے اپنے سامنے منبر رکھوایا۔ اسی سے نعت گو کے اعلیٰ و ارفع مقام کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ کے دور میں جن صحابہ کرام نے نعتیں کہیں ان میں حضرت حمزہ بن عبد المطلب ، حضرت عبد الرحمن بن رواحہ، حضرت عباس بن عبد المطلب، حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ، حضرت کعب بن زبیر، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ، اور ابن حسین حضرت زین العابدین کے نام نامی اسم گرامی آتے ہیں۔ عرب کے شعرا نے فن نعت گوئی کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔ مگر ہندوستان کے شعرا بھی اس میں پیچھے نہیں رہے اسی لیے شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس سرزمین کے بارے میں کہا تھا:

    میرِ عرب کوآئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے


    یہ کہنا مشکل ہے کہ ہندوستان میں نعت گوئی کا آغاز کب ہوا۔ کبیر داس نے ایک دوہے میں لکھا ہے:
    عدد نکالوں ہر چیز سے چوتن کر لو دائے
    دو ملا کہ پچگن کر لو بیس کا بھاگ لگائے
    باقی بچے کے نو تن کر لو دو اس میں دو اور ملائے
    کہت کبیرسنو بھئی سادھو نام محمد آئے


    اسی طرح گرو گرنتھ میں آتا ہے:
    میم محمد من توں من کتابہ چار
    من خدائے رسول نوں سچا ای دربار


    ان کے علاوہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری، حضرت شمس الدین تبریز، شاہ بو علی شاہ قلندر پانی پتی، خواجہ نظام الدین اولیا، حضرت امیر خسرو نے بھی نعتیں کہی ہیں۔
    ہندوستان کے اردو اور فارسی شعرا میں نہ صرف مسلمان بلکہ اہل ہنود نے بھی نعتیں لکھی ہیں۔ ان میں کئی تو ایسے ہیں جن کے نعتیہ کلام کے دواوین بھی موجود ہیں۔ نور میرٹھی نے ہندو نعت گو شعرا پر ایک کتاب مرتب کی ہے۔ جس کا نام ہے ''بہ ہر زماں، بہ ہر زباں''۔ جس میں 326 ہندو نعت گو شعرا کا ذکر ہے اور ان کی نعتیں یکجا کر دی گئی ہیں۔
    اردو میں شاعری کی ابتدا عرض دکن سے ہوئی۔ اسی لیے سلطان قلی قطب شاہ اور محمد شاہ کو اردو کے پہلے نعت گو شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے۔ ان کے کلام کا خاصا حصہ نعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مشتمل ہے۔ اسی لیے ولی دکنی کے دور سے لے کر عہد جدید کے شعراء تک نعت گوئی کا سلسلہ برابر قائم ہے اور اردو کا ہر شاعر نعت کہنا اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتا ہے۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی اگرچہ عالم دین تھے مگر ان کی شہرت نعت گو کی حیثیت سے بھی ہے۔ انہیں عربی و فارسی اور اردو کے علاوہ ہندی زبان پر بھی قدرت حاصل تھی اور ان کی ایک نعت اس قدر مشہور ہے کہ ان کا ذکر آتے ہی اس کے اشعار زبان پر آجاتے ہیں:
    لم یات نظیر ک فی نظر مثل تو نہ شْد پیدا جانا
    جگ راج کو تاج تورے سرسو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا
    یا شمس نظرت الی لیلی چوبہ طیبہ رسی عرضے بکنی
    توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی موری شب نے نہ دن کو ہونا جانا
    انا فی عطش و سخاک اتم اے گیسوئے پاک اے ابر کرم
    برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا

    علامہ محسن کاکوروی نے بے معنی مبالغہ آرائی اور لفظوں کی صنعت گری سے احتراز کر کے سیدھے سادھے انداز میں نعتیہ قصیدے لکھے۔ اردو نعت گوئی میں کرامت علی خاں شہیدی، مولانا الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، منیر شکوہا آبادی، امیر مینائی، سحر لکھنوی، اصغر گونڈوی، بہزاد لکھنوی، حفیظ جالندھری، حفیظ تائب، حمید صدیقی، ماہر القادری جیسے نام ہیں جو متعبر اور معروف ہیں۔ ان کے علاوہ غیر مسلم شعرا میں پنڈت دیاشنکر نسیم، چھنو لال دلگیر، پنڈت ہری چند اختر، گوپی ناتھ امن، نوبت رائے نظر، پنڈت امر ناتھ آشفتہ دہلوی، بھگوت رائے راحت کاکوروی، مہاراجہ کشن پرساد، پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی، رگھوپتی سہائے، فراق گورکھپوری، اوم پرکاش، باقر ہوشیار پوری، تلوک چند محروم، تربھون ناتھ زار زتشی دہلوی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، بال مکند عرش ملسیانی، پریم لال شفا، کالی داس گپتا رضا، جگن ناتھ آزاد، آنند موہن گلزار دہلوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
    دور حاضر میں بھی نعتیہ شعرا کی بہت بڑی تعداد ہے۔ خاص طور سے پاکستان میں نعت گوئی کو کافی عروج حاصل ہوا ہے۔ وہاں نعتوں پر تحقیق کا بھی خاصا کام ہوا ہے۔ پاکستان کے نعتیہ شعرا میں حفیظ تائب، عبد العزیز خالد، مظفر وارثی، مشکور حسین یاد اور ریاض مجید نے نعت کو نیا رنگ و آہنگ دیا ہے اور نئی لفظیات سے آراستہ کیاہے۔ اگرچہ بظاہر نعت گوئی آسان لگتی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اگر اللہ اگر توفیق نہ دے تو نعت گوئی انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔ حضرت شیخ سعدی کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے مدح رسول میں تین مصرعے کہے۔ کوشش کے باوجود چوتھا مصرعہ نہ ہوتا تھا اور سخت پریشان تھے۔ ایک شب انہیں خواب میں بشارت ہوئی۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنفس نفیس موجود ہیں اور شیخ سعدی سے فرماتے ہیں سعدی تم نے تین مصرعے کہے ہیں ذرا سناؤ۔ شیخ سعدی نے تینوں مصرعے سنائے اور خاموش ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا یہ مصرعہ بڑھا لو۔ صلو علیہ و آلہ۔ اور یوں حضرت شیخ سعدی کی نعتیہ رباعی مکمل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس رباعی کو شرف قبولیت بخشا اور اس طرح شیخ سعدی نعت گو شعرا میں ممتاز ہو گئے۔ اس رباعی کے چار مصرعے ہمیشہ توصیف مدح رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کرتے ہیں۔

    بلغ العلےٰ بکمالہ
    کشف الدجیٰ بجمالہ
    حسنت جمیع خصالہ
    صلوا علیہ و آلہ


    لیکن جب نعت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات آتی ہے تو پھر اس قطعے پر آکر ختم ہو جاتی ہے:

    یا صاحب الجمال و یا سید البشر
    من وجہک المنیر لقد نور القمر
    لا یمکن الثنا کما کان حقہ
    بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

    رضوان احمد (پٹنہ)
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: نعت گوئی

    سبحان اللہ ۔ فن نعت گوئی پر سیر حاصل مضمون ہے۔
    محترم الکرم صاحب۔ اللہ پاک آپکو اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بار بار زیارت نصیب فرمائے۔ آمین
     
  3. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: نعت گوئی

    جزاک اللہ
    الکرم بھائی نہایت خوبصورت مضمون پیش کرنے کا شکریہ
     
  4. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: نعت گوئی

    جزاک اللہ!
    الکرم جی ! نعت گوئی بہت پیارا مضمون شیئر کیا آپ نے ۔
    شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں