1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ناگزیر

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از واصف حسین, ‏11 اگست 2014۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    آج جب ہم اسلامی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ہر طرف مسلمان مسائل میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور ہر سمت فتنے سر اٹھائے مسلمانوں کو برباد کرتے نظر آتے ہیں۔کہیں صیہونی طاقتیں ظاہری طور پر مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں اور کہیں خفیہ طور پر۔ہر طرف مسلمانوں پر ظلم و بربریت کی پہاڑ گرائے جا رہے ہیں اور ہم ایک دوسرے کی مدد کے بجائے ظالموں کا ساتھ دے رہے ہیں یا خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

    اس خاموشی کو مذید پختہ کرنے کے لیےہمیں قند میں لپٹی کڑوی تاویلیں دی جا رہی ہیں اور اس ظلم و بربریت سے بھی زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم ان تاویلوں کو قبول کر کے اور بھی گہرے خواب میں ڈوب رہے ہیں۔ہمیں احادیث مبارکہ کے ذریعے سوئے رہنے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور ہم اصل کو بھول کر ان احادیث کو اس تناظر میں لے رہے ہیں کہ اس دور میں ہمارا بہترین لائحہ عمل خاموشی اور تن بہ تقدیر رہنا ہے۔حضرت علامہ اقبال نے فرمایا ہے:

    اسی قرآں میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم
    جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
    ’تن بہ تقدیر‘ ہے آج ان کے عمل کا انداز
    تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
    تھا جو ’ناخوب، بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا
    کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر​

    عام بات چیت میں عموماً اور سوشل میڈیا پر باالخصوص تواتر سے احادیث بیان کی جا رہی ہیں جس میں مسلمانوں کے زوال، صیہونیوں کے مسلمانوں پر مظالم ، فتنہ دجال اور امام مہدی کے ظہور کا بیان ہے ۔ تشریع میں یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ یہ تو ہونا ہی ہے اور اس کا توڑ نہ تو ہمارے پاس ہے اور نہ ہمارے کچھ کرنے سے اس پر کچھ فرق پڑے گا۔ یعنی یہ سب کچھ ناگزیر ہے اور ہمارا کام فقظ یہ ہے کہ مجرمانہ خاموشی برقرار رکھیں اور اپنی باری کا انتظار کریں۔

    میں آپ کے سامنے صرف ایک صورت حال رکھتا ہوں اور فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں ۔ فرض کریں کہ آپ کو کسی بھی طریقے سےمعلوم ہو گیا ہے کہ آپ کے گھر کو آگ لگنی ہے اور سب کچھ تباہ ہو جا نا ہے۔ آپ کے گھر کے باہر کچھ لوگ آتش زدگی کا سامان لے کر پہنچے ہیں اور آگ لگانے لگے ہیں۔آپ کا طرز عمل کیا ہو گا؟ کیا آپ ان کے ساتھ مل کر خود اپنا گھر جلوائیں گے؟ کیا آپ خود کو گھر میں بند کر لیں کہ گھر جلنا اور تباہی تو نا گزیر ہے اب جل ہی جانا چاہیے؟

    اس صورت حال میں کم از کم میں تو اس وقت تک مزاحمت کروں گا جب تک میرے تن میں جان ہے۔ اگر گھر کو آگ لگنا ناگزیر بھی ہے تو میرے جیتے جی نہیں لگے گی۔

    مسلمان بھی تو بھائی بھائی قرار دیے گئے ہیں۔ اگرچہ مسلمانوں کی تباہی ناگزیر ہے اور نبی آخرزماں کا قول بر حق ہے مگر میرا کام تو فقط اتنا ہے کہ اپنے بھائی کا اس وقت تک ساتھ دوں جب تک میرے تن میں جان ہے۔آج اگر میں مجرمانہ خاموشی اختیار کرتا ہوں تو کل اپنے رسول کو کیا منہ دکھاوں گا؟

    تحریر کنندہ : واصف حسین
     
    ملک بلال اور محبوب خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    دین کے نام پر۔۔۔دین کی وہ تشریح کی جاتی رہی ہے۔۔۔۔اور کی جارہی ہے۔۔کہ الامان۔۔۔۔۔۔تاریخ گواہ ہےکہ چنگیز کو کچھ لوگوں نےعذاب الہی قرار دے کر۔۔مسلمانوں کو۔۔سر جھکانے کے مشورے دیے۔۔۔کہ اللہ کے عذاب سے کیونکر جنگ کی جائے؟۔۔۔۔یعنی دعوے توحید کے مگر۔۔۔توہم پرستی میں سب کو مات۔۔۔۔اس وقت بطو ر خاص۔۔جب جہدوجہد کا وقت آجاتا ہے۔
     
    ملک بلال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    واصف بھائی آپ کے خیال میں اس کے کیا اسباب ہیں؟
     
    پاکستانی55 اور محبوب خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    @ملک بلال بھائی۔۔۔۔۔اسباب میں۔۔۔۔۔قسمت کا لکھا۔۔۔۔روز روشن کی طرح عیاں۔۔۔۔اورخودساختہ مذہبی تشریحات کی ذریعے لوگوں کو ۔۔۔عملی جدوجہد سے روکنا سرفہرست ہیں۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام میں فرقہ پرستی کا کوئی تصور نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ.
    ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘
    آل عمران، 3 : 103
    مندرجہ بالا آیت دو حصوں پر مشتمل ہے : پہلا حصہ امر اور دوسرا نہی پر مبنی ہے۔ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، یہ مثبت حکم تھا لیکن اس کے بعد نہی کا حکم ہے کہ خبردار! تم باہمی تفرقہ اور انتشار کا شکار نہ ہونا۔
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرقہ پرستی کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

    يَدُ اﷲِ مَعَ الجَمَاعَةِ، وَ مَنْ شَذَّ شَذَّ اِلَی النَّارِ.
    ’’اجتماعی وحدت کو اللہ کی تائید حاصل ہوتی ہے، جو کوئی جماعت سے جدا ہو گا وہ دوزخ میں جا گرے گا۔‘‘
    ترمذی، السنن، کتاب الفتن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء فی لزوم الجماعة، 4 : 39 - 40، رقم : 2167
    اسلام انسانیت کی بقاء، معاشرے میں امن و سلامتی، اتحاد، اخوت اور بھائی چارے کا ضامن ہے۔ اس میں فرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ایک مقام پر فرمایا :

    إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ.
    ’’بیشک جن لوگوں نے (جدا جدا راہیں نکال کر) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ (مختلف) فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی چیز میں ان کے (تعلق دار اور ذمہ دار) نہیں ہیں۔‘‘
    الانعام، 6 : 159
    اس آیتِ کریمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے کوئی سرو کار اور تعلق نہ رکھیں، جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنی جمعیت کا شیرازہ منتشر کر دیا۔ علاوہ ازیں ملی شیرازہ کو تفرقہ و انتشار کے ذریعے تباہ کرنے والوں کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتہائی سخت احکامات صادر فرمائے۔
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    ’’جو شخص بھی تمہاری جماعت کی وحدت اور شیرازہ بندی کو منتشر کرنے کے لئے قدم اٹھائے اس کا سر قلم کر دو۔‘‘
    مسلم، الصحيح، کتاب الامارة، باب حکم من فرق امر المسلمين و هو مجتمع، 3 : 478، رقم : 1852
    گویا مذکورہ بالا قرآنی آیت اور حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اسلام میں فرقہ بندی اور تفرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔



    مگر ہمیں احادیث کے ذریعے یہ کہا جاتا ہے کہ 73 فرقے ہوں گے

    جبکہ انبیاء ہمیشہ فرقے ختم کرنے آتے ہیں وہ کیسے فرقوں کی ترغیب دیں گے


    مزید ملاحظہ فرمایئے۔۔۔

    شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّینِ ما وَصَّی بِہِ نُوحاً وَ الَّذی اٴَوْحَیْنا إِلَیْکَ وَ ما وَصَّیْنا بِہِ إِبْراہیمَ وَ مُوسی وَ عیسی اٴَنْ اٴَقیمُوا الدِّینَ وَ لا تَتَفَرَّقُوا فیہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکینَ ما تَدْعُوہُمْ إِلَیْہِ اللَّہُ یَجْتَبی إِلَیْہِ مَنْ یَشاء ُ وَ یَہْدی إِلَیْہِ مَنْ یُنیبُ (۱) ۔ اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی پیغمبر تمہاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم علیہ السّلام،موسٰی علیہ السّلام اور عیسٰی علیہ السّلام کو بھی کی ہے کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ پیدا ہونے پائے مشرکین کو وہ بات سخت گراں گزرتی ہے جس کی تم انہیں دعوت دے رہے ہو اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کے لئے چن لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے ہدایت دے دیتا ہے ۔
    اور دوسری آیت میں اختلاف کو آسمانی عذاب ، بجلی اور زلزلہ کی ردیف میں قرار دیا ہے ، لہذا خداوند عالم فرماتا ہے : ”قُلْ ہُوَ الْقادِرُ عَلی اٴَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِکُمْ اٴَوْ مِنْ تَحْتِ اٴَرْجُلِکُمْ اٴَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعاً وَ یُذیقَ بَعْضَکُمْ بَاٴْسَ بَعْضٍ انْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْآیاتِ لَعَلَّہُمْ یَفْقَہُونَ (۲) ۔ کہہ دیجئے کہ وہی اس بات پر بھی قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے یا پیروں کے نیچے سے عذاب بھیج دے یا ایک گروہ کو دوسرے سے ٹکرادے اور ایک کے ذریعہ دوسرے کو عذاب کا مزہ چکھادے -دیکھو ہم کس طرح آیات کو پلٹ پلٹ کر بیان کرتے ہیں کہ شاید ان کی سمجھ میں آجائے ۔
    خداوند عالم فرماتا ہے : ”وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمیعاً وَ لا تَفَرَّقُوا وَ اذْکُرُوا نِعْمَتَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ اٴَعْداء ً فَاٴَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَاٴَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ إِخْواناً وَ کُنْتُمْ عَلی شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَاٴَنْقَذَکُمْ مِنْہا کَذلِکَ یُبَیِّنُ اللَّہُ لَکُمْ آیاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ “ (۳) ۔
    اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہّنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ ۔
    نیز فرماتا ہے : وَ لا تَکُونُوا کَالَّذینَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ ما جاء َہُمُ الْبَیِّناتُ وَ اٴُولئِکَ لَہُمْ عَذابٌ عَظیمٌ (۴)
    اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا کہ ان کے لئے عذاب عظیم ہے ۔
    دوسری جگہ فرماتا ہے :
    وَ اٴَنَّ ہذا صِراطی مُسْتَقیماً فَاتَّبِعُوہُ وَ لا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبیلِہِ ذلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (۵) ۔
    اور یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے اس کا اتباع کرو اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ جاؤ کہ راہ ہخدا سے الگ ہوجاؤ گے اسی کی پروردگار نے ہدایت دی ہے کہ اس طرح شاید متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔

     
    نعیم, محبوب خان, واصف حسین اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    اس سوال کا جواب دینے سے پہلے میں ایک بات کی وضاحت کر دوں کی یہ میری رائے ہے اور اس سے کسی کو بھی اختلاف کا پورا حق ہے۔

    اسباب دو چیزوں کے ہیں اول یہ کہ صیہوینی مسلمانوں کو برباد کرنے کے درپے کیوں ہیں۔ یہودی اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ قوم تھی اور وہ ابھی تک اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ اللہ کی پسندیدہ قوم ہے اور اس دنیا میں حکمرانی صرف یہودیوں کا حق ہے۔ قران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ "اہل کتاب محمدٖ:drood: کو اس طرح پہچانتے ہیں جیسے کہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں"(مفہوم)۔ اللہ کے نبی:drood: کو پہچاننے کے باوجود انکار کی وجہ صرف یہ ہے کہ آخری نبی آل اسماعیل سے کیوں ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر یہودیوں کے متعلق کہا ہے کہ" اے یہودیو تم سمجھتے ہو کہ تم اللہ کی پسندیدہ قوم ہو تو پھر موت کی تمنا کرو" اور پھر مذید کہا کہ وہ ایسا کبھی نہیں کریں کہ اس بنا پر کہ وہ جو اعمال کرتے ہیں اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے۔ یہ بنیادی اختلاف ہے اور رسول پاک:drood: نے ارشاد فرمایا کہ یہود و نصاریٰ کبھی بھی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے۔ سو ان کی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی مسلمہ ہے اور وہ اس کو زیر کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔عظیم اسرائیل اور یہودی سرزمین کا نظریہ بھی اسی دشمنی کی کڑی ہے۔ سو یہودیوں کا مسلمانوں میں فتنہ انگیزی برپا کرنے کے اسباب واضع ہیں۔
    اسباب میں دوسری چیز یہ ہے کہ ہم من حیث الامت نفاق کا شکار اور غیر متحد ہیں۔ ایک درخت نے کلہاڑے سے کہا کہ تیری اتنی اوقات نہیں تھی کہ مجھے چیر سکتا مگر کیا کروں کہ دستے کی صورت میں میرے اپنے تیرا ساتھ دے رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہمارے اپنے مسلمان ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کہیں ان کو اپنی علاقے فراہم کر کے اور کہیں خاموشی اختیار کر کے۔مسلمانوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سرحدں میں مقید کر دیا گیا ہے۔عرب، افریقہ، ھند غرض ہر جگہ نقشے پر پیمانہ رکھ کر مسلمان کی الگ الگ سرحدیں بانٹی گئی۔اسی لیے آج جب غزہ پر حملہ ہوتا ہے تو مسلمان حکمران یہ سوچتے ہیں کہ یہ تو فلسطین میں ہو رہا ہے میری سرحدیں تو محفوظ ہیں۔میں اپنی معاملات نپٹاؤں یا فلسطین کی مدد کروں۔ یہ قومیت اور سرحدیں ہمارے ہاں جتنی پختہ ہو رہی ہیں یہود و نصاریٰ میں اسی قدر کم ہو رہی ہیں۔ اس کی مثال آپ کو یورپی یونین میں ملے گی۔ ایک ویزہ لے کر آپ پورے یورپ میں جا سکتے ہیں۔ ایک کرنسی یورو تمام یورپ میں قابل قبول ہے۔ مگر مسلم ممالک میں ایسی کوئی سہولت نہیں ہے۔اقبال نے اس وطنیت کو ایک بت قرار دیا ہے جوکہ اتحاد بین المسلمین کے لیے ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اقبال کی یہ نظم ملاحضہ کریں:
    اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور
    ساقی نے بنا کی روشِ لطف و ستم اور
    مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
    تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
    ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
    جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے


    یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
    غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے
    بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
    اسلام ترا دیس ہے، تو مصطفوی ہے
    نظارۂ دیرینہ زمانے کو دِکھا دے
    اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے !


    ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
    رہ بحر میں آزادِ وطن صورتِ ماہی
    ہے ترکِ وطن سنت محبوب الہٰی
    دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
    گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
    ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے


    اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
    تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے
    خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
    کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
    اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
    قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

    سو ہماری ناکامی اور ہماری زبوں حالی کا زمہ دار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔
     
    Last edited: ‏12 اگست 2014
    نعیم, ملک بلال, محبوب خان اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں