1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نام رکھا ہے فسوں گر نے سخن ساز مرا

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏16 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:


    نام رکھا ہے فسوں گر نے سخن ساز مرا
    گھونٹے دیتی ہے گلا اب مری آواز مرا

    رہ گیا راز کسی طرح اگر راز مرا
    بے نیازی بھی اٹھائے گی تری ناز مرا

    آج ہے موت بھی وہ عشق جو کل تک تھا حیات
    مختلف کتنا ہے انجام سے آغاز مرا

    بے پیے مست ہوا پی کے میں بہکا نہ کبھی
    وہ تھی ساقی کی کرامت پہ ہے اعجاز مرا

    ناوک ناز سے اڑتے ہیں نشانے دل کے
    اور پردے میں ابھی ہے قدر انداز مرا

    دھڑکنیں اب بھی ہیں ویسی ہی شکستہ دل کی
    بے صدا ہو نہ سکا ٹوٹ کے بھی ساز مرا

    عذر بے بال و پری تھا جو قفس توڑ چکا
    دیکھ کے رہ گئی منہ حسرت پرواز مرا

    روز اک تازہ بلا آتی ہے دل کے ہاتھوں
    جرمؔ آمادہ ہے دم لینے پہ دم ساز مرا
    جرم محمد آبادی​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں