1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نااہل پر اعتبار

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از پاکستانی55, ‏1 فروری 2019۔

  1. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ابوعبیدہ معمر بن المثنیٰ کے حوالے سے ایک سبق آموزحکایت نقل کی ہے،وہ فرماتے ہیں: میں نے یونس ابن حبیب سے دریافت کیا کہ مشہور ضرب المثل ’’مجیرام عامر(فلاں بجوکو پناہ دینے والا ہے)‘‘کا پس منظر کیا ہے؟انھوںنے فرمایا:اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ’’چند لوگ موسمِ گرما میں شکار کے لیے نکلے ،جب وہ شکار کی تلاش میں پھر رہے تھے تو انھیں ایک ام عامر (بجو )نظر آیا،شکاریوںنے اس کا تعاقب شروع کیا۔وہ دوڑتے دوڑتے تھک گئے لیکن بجو ہاتھ نہ آیا۔یہاںتک کہ وہ ایک اعرابی کے خیمے کے پاس پہنچ گئے ،بجو خیمے میں گھس گیا۔اعرابی خیمے سے باہر نکلا اور شکاریوںسے پوچھا :کیا معاملہ ہے؟انھوںنے جواب دیا ،ہم جس شکار کوہنکار رہے تھے وہ تیرے خیمے میں گھس گیا ہے،ہم اسے قابو کرنا چاہتے ہیں،اعرابی بولا:خدا کی قسم ! جب تک میرے ہاتھ میں تلوار ہے ،تم کبھی بھی اس تک نہیں پہنچ سکتے ،اعرابی کے تیور دیکھ کروہ شکاری واپس چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد اعرابی نے اپنی اونٹنی کا دودھ دوہا،ایک برتن میں دودھ اور دوسرے میں پانی ڈال کر بجو کے سامنے رکھ دیا،بجو کبھی دودھ نوشِ جاں کرتا اور کبھی پانی کا گھونٹ بھرتاجب وہ سیر ہوگیا تو ایک کونے میں جاکر سوگیا،رات ہوئی تو وہ اعرابی بھی اپنی مہمان نوازی اور خدمت گزاری سے مطمئن ہوکر گہری نیند سوگیا بجو نے اچانک اس پر حملہ کردیا اس کا پیٹ پھاڑ ڈالا ،اس کا خون پی لیا اوراسکے پیٹ کے اعضاء کھاگیا اوروہاں سے بھاگ گیا۔
    صبح ہوئی تو اعرابی کا چچازاد بھائی خیمے میں آیا،اپنے بھائی کی حالتِ زار دیکھ کر اس کونے میں پہنچا جہاں اس نے بجو کی مہمان نوازی فرمائی تھی ۔جب اسے موجود نہ پایا تو سمجھ گیا کہ یہ اسی بجو کا کیادھراہے ،چنانچہ تیر کمان لے کر نکلا اس بجو کا تلاش کیا اور اسے مارڈالا اوریہ اشعار پڑھے ۔
    (ترجمہ):’’جو کسی نااہل کے ساتھ بھلائی کرے گا تو اس کا انجام وہی ہوگا ،جو ام عامر (بجو) کوپناہ دینے والے کا ہوا‘‘۔
    ’’جب سے اس بجو نے خیمے کی پناہ لی تھی وہ برابر گابھن اونٹنی کے دودھ سے اس کی ضیافت کرتا رہا ‘‘۔ جب وہ شکم سیر ہوگیا تو اس نے اس احسان کا بدلہ یہ دیا کہ اپنے دانتوں اورپنجوں سے اپنے ہی محسن کا پیٹ چاک کردیا۔لہٰذا نیکی کرنے والوں سے کہہ دو کہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو نا شکروں کے ساتھ بھلائی کرتا ہے۔(حیاۃ الاحیوان)
    نتیجہ:انسان کو چاہیے کہ وہ کسی سے بھی دوستی کی پینگیں بڑھانے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے کہ کہیں وہ کسی بجو خصلت کی ضیافت تونہیں کررہا۔اسی طرح اقوام اورمعاشرے بھی مخصوص نفسیات کے حامل ہوتے ہیں،لہٰذا قومی اورملی قیادت کوبھی اپنے فیصلے بہت سوچ سمجھ کرکرنے چاہییں۔
    https://www.nawaiwaqt.com.pk/01-Feb-2019/978040
     

اس صفحے کو مشتہر کریں