1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

نئی سحر طلوع ہونے والی ہے۔ آفتاب احمد خان زادہ

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏27 اپریل 2014۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    نئی سحر طلوع ہونے والی ہے
    بشکریہ ایکسپریس نیوز

    آفتاب احمد خانزادہ اتوار 27 اپريل 2014


    [​IMG]
    ڈیکارٹ نے کہا ہے ’’میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں‘‘ ایک بڑا سوال جو سب کی زبان پر ہے کہ آخر پاکستان میں جمہوریت کیوں نہیں پنپ رہی ملک میں ادارے مستحکم کیوں نہیں ہو رہے ملک معاشی طور پر مضبوط کیوں نہیں ہو رہا۔

    ملک سے کرپشن، لوٹ مار، مہنگائی،غربت، دہشت گردی ،بدامنی بے روزگاری، بجلی،گیس، پانی کے بحران کا خاتمہ کیوں نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس کا جواب بالکل سیدھا سادہ سا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک ایسے سماج نے جنم نہیں لیا ہے جو جمہوریت کے لیے سازگار ہو۔ سماج لوگوںسے بنتا ہے، جو اس میں بستے ہیں اور ریاست لوگوں کا عکس ہوتی ہے یعنی جیسا لوگوں کا کردار اور سو چ ہو گی ویسے ہی ریاست نظر آئے گی۔

    سقراط نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسانی سماج میں تفرقہ اور نزاع کی اصل وجہ نظریہ انفرادیت ہے ایک فرد کی ذاتی خو شی یا ذاتی پسند وناپسند یا ذاتی مفاد سے انسانی سماج کے مسائل حل نہیں ہوسکتے بلکہ اصل حقیقت سماجی انصاف کا اصول ہے ۔ جس کی بنیاد سماجی اور انسانی اخلاق ہے ہم اس کی مثال یوں پیش کرسکتے ہیں کہ ایک چورکی ذاتی خوشی ذاتی مفاد اور ذاتی پسند یہ ہوتی ہے کہ اس کی چوری کا راز نہ کھلے اور وہ چوری کے مال سے مزے اڑاتا رہے جب کہ اس شخص جس کی حلال اور محنت مزدوری کی کمائی چوری ہوئی ہے، کی ذاتی خوشی ذاتی مفاد اور ذاتی پسند یہ ہوتی ہے کہ اس کا چوری شدہ مال اسے واپس مل جائے۔ یہاں ایک طریقہ یہ ہے کہ دونوں اپنی اپنی کوشش کریں اور دونوں میں سے جو طاقتور، ذہین یا بارسوخ ہو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے تو اسے ہم کیا کہیں گے۔

    کیا ہم اسے سماجی انصاف کہیں گے اس کا جواب نفی میں ہے اگر چور اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے تو یہ سماجی بے انصافی اور زیادتی ہے اس کا مطلب ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس دوسری طرف اگر وہ شخص اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے جس کا حلال اور محنت مزدوری سے کمایا ہوا مال چوری ہوا تھا تو ہم کہیں گے کہ یہ سماجی انصاف کے عین مطابق ہے۔ لہذا سماجی مسائل کا حل فرد کی خوشی ، پسند یا مفاد میں مضمر نہیں ہے بلکہ ان مسائل کا حل سماجی انصاف کے اصول میں مضمر ہے یہ ہی وہ واحد نکتہ ہے جس نے ہمارے سماج کے بخیے ادھیڑ کے رکھ دیے ہیں۔ عدم سماجی انصاف نے ہمارے پورے سماج کی مٹی پلید کرکے رکھ دی ہے۔ پاکستانی سماج میں موجود تمام برائیوں ، خرابیوں کی جڑ ہی عدم سماجی انصاف ہے۔

    اجڑنے کی تمام صورتوں میں بدترین صورت پاکستان کی ہے اور اس کی تمام تر ذمے داری اس ٹولے پر عائد ہوتی ہے جو اپنے آپ کو ہر قانون، ہر پابندی ہر ڈسپلن سے مبرا سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے ہر عمل اور اپنے ہر لفظ کو قانون کا درجہ دیتے ہیں اس ٹولے میں بڑے جاگیردار ، سیاست دان ، بڑے سرمایہ دار ، بڑے بزنس مین ، بیورو کریٹس اور میڈیا کے اکابرین شامل ہیں ان لوگوں کی اکثریت حادثاتی طورپر سماجی لحاظ سے بڑے عہدوں اور حیثیت پر آکر فائز ہوگئی ہے اب ان کی سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ وہ کیا سے کیا کردیں، اس کی مثال کچھ اس طرح سے لے لیں کہ اگر کسی معصوم بچے کو کھیلنے کے لیے موم کی گڑیا دے دی جائے تو وہ اس کا کیا سے کیا حال کر دے گا اوریہ ہی حال ان تمام حضرات کا ہے
    دراصل یہ بیماروں کا ایک ٹولہ ہے جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ صحت مند تصور کرتا ہے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں احساس تک نہیں ہے کہ وہ کتنی خوفناک بیماری میں مبتلا ہیں یہ تمام حضرات احساس برتری کا شکار ہیں جو اپنے علاوہ ملک کے 18 کروڑ انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کا درجہ دیتے ہیں۔ دنیا کے تمام ماہر نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ احساس برتری نام کی کوئی چیز کا وجود ہے ہی نہیں بلکہ احساس برتری دراصل احساس کمتری کی ہی ایک شکل ہے احساس برتری میں مبتلا لوگ دراصل احساس کمتری میں مبتلا ہو تے ہیں۔ اصل میں یہ سب کے سب ولن ہیں جو ہیرو کا بہروپ دھارے ہوئے ہیں دوسرے الفاظ میں یہ اول درجے کے ڈھونگی ہیں ،غریبوں میں جہالت اس قدر عبرتناک نہیں ہوتی جتنی کہ امیروں میں ہوتی ہے۔

    شو پنہار کہتا ہے ہر شخص اپنے شعور کی حدود میں گھرا ہوا ہے اور وہ ان حدود کو پار نہیں کرسکتا جیسے وہ اپنی جلد سے باہر نہیں آسکتا ۔ حصول املاک و روپے پیسے کا جنون صدیوں سے انسان کے ذہن و دماغ پر مسلط ہے اور یہ زہر ہر بل کی طرح اس کے رگ و پے میں سرایت کر گیاہے، اسی جنون نے انسانی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور معاشرہ انسانی میں عدل وانصاف کا خاتمہ کردیا ہے۔ آئیں ذرا تاریخ میں جھانکتے ہیں، افلاطو ن کی وفات تک ایتھنز دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا جیسا کہ افلاطون نے لکھا ہے دو شہر، ایک غربا کا اور دوسرا امراء کا اور دونوں ایک دوسرے سے بر سر پیکار ، غربا قانون سازی ، ٹیکسوں اور انقلاب کے ذریعے امیروں کو لوٹنے کے منصوبے بناتے ہیں، امرا غریبوں سے اپنے تحفظ کے لیے اپنے آپ کو منظم کیے رکھتے۔

    ارسطو کا کہنا ہے کہ طبقہ امراکے افراد کی ایک تنظیم کے اراکین یہ حلف اٹھایا کرتے تھے ’’ میں عوام کا دشمن رہوں گا اور کونسل میں ان کی مخالفت میں جو کچھ بھی کر سکا کروںگا ‘‘ ۔ آئسو کریٹس نے366 قبل مسیح میں یہ لکھا ہے ’’ امرا کا رویہ اس قدر غیر انسانی ہو گیا ہے کہ وہ اپنی اشیاء ضرورت مندوں کو بطور قرض امداد دینے کے بجائے انہیں سمندر میں پھینک دینے کو ترجیح دیتے ہیں اور غربا کا یہ حال ہے کہ انہیں کوئی خزانہ مل جانے کی اس قدر خو شی نہیں ہوتی جتنی کی کسی امیرکے مال اسباب پر قبضہ کرنے سے ہوتی ہے‘‘ ۔کم و بیش اسی قسم کی صورتحال کا آج ہمیں بھی سامنا ہے ۔ طاقتور ، بااختیاراور امیروں نے پاکستان کے 18 کروڑ عوام کو ناقابل برداشت نقصان کی بھٹی میں جھونک دیا ہے جس کی آگ میں آج یا کل استحصالی قوتوں کو ضرور بھسم ہوجانا ہے۔

    آج ملک کے 18 کروڑ عوام کے اندر ایک جذبہ بیدار ہو چکا ہے جسے غم و غصہ کہہ لیجیے یا طیش و غضبناکی اور یہ جذبہ ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑنے کو تیار ہے کیونکہ جتنی طاقت سے اس جذبے کو دبا دیا جاتا ہے اتنی ہی طاقت سے یہ ابھرتا ہے۔ استحصالی لوگو! تمہیں اس کی گہرائیوں میں اترنا چاہیے تم اندھیرے میں چند ہی قدم آگے بڑھو گے تو تمہیں تمہارے ہم وطن ، ہم زبان ، ہم مذہب لوگ بیٹھے نظر آئیں گے، قریب جائو اور سنو کیونکہ یہ لوگ تمہارے مقدر کی بات کررہے ہیں، تم سمجھتے تھے کہ ان کی روحیں مردہ ہوچکی ہیں تمہاری مرضی اور اجازت کے بغیر وہ سو چ نہیں سکتے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے ۔ تم انہیں گھاس تک نہیں ڈالتے تھے لیکن آج وہاں چاروں طرف اجالا ہے، نئی سوچ ، نئی فکر اور نئی صبح کا ۔اب محرومیوں ، بدنصیبوں کی آگ میں جلنے کی تمہاری باری ہے ، پاکستان کے اصل مالک 18 کروڑ عوام ہیں ۔ اب ملک پر عوام کی حاکمیت اور حکمرانی کی نئی سحر طلوع ہونے والی ہے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    پرامن اورمتوازن معاشرہ کے لیے علمأ کاکردار !


    معاشرے کے لیے علماء کا کردار اور اس کی اہمیت:

    اس امت میں علماء شریعت کا وہی کردار ہے، جو سابقہ امتوں میں انبیاء کرام علیہم السلام کا رہا ہے، حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کے بنیادی اور اہم مقاصد میں سے ایک مقصد یہ تھا کہ عالم انسانیت سے جور و ظلم کو دور کیا جائے، اس کی جگہ عدل و انصاف کی فضا قائم ہو، جس کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ، امن و توازن کا مظہر بن سکے۔ یہی حضرت آدم علیہ السلام کی آرزو بھی تھی،جو ” وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا“ (البقرة:۱۲۵) کی صورت میں پوری ہوئی۔

    معاشی فراوانی اور معاشرتی امن ، دعاء خلیل میں بھی شامل رہا۔رزق کی فراوانی اور امن و امان کا حصول قرآنی تعلیمات کے مطابق خیر و بھلائی کے پھیلاوٴ اور برائی کے خاتمہ اور انسداد کے ذریعہ ممکن ہے،جسے”امر بالمعروف“ اور ”نہی عن المنکر“کہا جاتا ہے ، یہ فریضہ یوں تو اپنے اپنے دائرہ کار میں امت کے ہر فرد پر عائد ہوتاہے اور اسی ذمہ داری کے سپرد ہونے کی بناء پر، امت محمد یہ”خیر امت“ کہلاتی ہے ۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ… الآیة۔(آل عمران:۱۱۰)

    امت کے علماء از روئے حدیث، انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں، اس لیے ان کے فرائض منصبی میں انبیاء کرام علیہم السلام کے کردار کی تبلیغ اور خیر امت کی صحیح اور بر وقت راہنمائی شامل ہے،

    موجودہ قومی اور بین الاقوامی صورت حال کا شدید تقاضا ہے کہ علماء امت اصلاح معاشرہ کی انفرادی کو ششوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر بھی اپنے کردارکو اجاگر کریں، تاکہ علماء کے سود مند وجود سے امت مسلمہ کی پریشانیوں کا ازالہ کیا جا سکے .

    سیاسی ، سماجی اور معاشی محرکات جن کے باعث انسانی معاشرہ، بالخصوص وطن عزیز کا امن و امان اور توازن بری طرح متاثر ہو چکا ہے، بدامنی اور عدم توازن کے محرکات سے پہلے امن و توازن کا مفہوم سامنے رکھتے ہوئے آگے چلتے ہیں۔

    امن و توازن کا معنی و مفہوم

    اہل علم جانتے ہیں ں کہ ”امن“ فساد کی ضد ہے، فساد، خرابی کو کہتے ہیں، ہر نوع کی خرابی کا ازالہ اور انسداد ہونا” امن“ کا مفہوم صادق آنے کے لیے ضروری ہے، ابن منظور لغوی ” امن“ کا تقاضا اور مقتضا بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ”الأ من یرید ان الارض تمتلی بالامن فلا یخاف احد من الناس والحیوان۔(لسان العرب)

    یعنی امن کے مفہوم میں فساد کے نہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں اور حیوانوں کا خوف و فساد سے اطمینان میں ہونا بھی داخل ہے، اس لغوی مفہوم پر وہی ” امن“ پورا اترتا ہے جو اسلامی تعلیمات میں ہمیں ملتاہے، اسلامی تاریخ میں حضرت عمر اول اور عمر ثانی (رضی اللہ عنہم) کے ادوار کی متعدد مثالوں سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔نیز جب ہر چیز اپنے موقع و محل میں رچی ، بسی اور سجی رہے، کسی قسم کے جھکاوٴ اور لڑھکاوٴ کا سامنا نہ ہو تو اسی کو ” توازن“ کہتے ہیں۔

    معاشرے کی بد امنی اور عدم توازن کے سیاسی محرکات

    #… پہلا محرک، مذہب اور سیاست کی تفریق کا نظریہ ہے، جس نے سیاست کو ایسا بے لگام بنادیا ہے، جہاں آسمانی ہدایات اور اخلاقی آداب سے مکمل آزادی کا فلسفہ، مفاداتی تصادم کراتا ہے، اس کے لیے کسی قسم کی حدود و قیود کی پرواہ نہیں کی جاتی، جہاں مفاد کی جنگ انتہاء پر ہو،ہر نوع کی روک ٹوک کا نظریہ پس پشت ڈال دیا گیا ہو، وہاں امن و توازن کا برقرار رہنا محال ہے۔

    #…مسلمانوں نے خلافت کی جگہ مغربی جمہوریت کو دے رکھی ہے، جو اپنے فکر و فلسفہ میں اسلام کی ضد ہے، حالانکہ خلافت و امامت کا قیام ، اسلام کی طرف نسبت کرنے والے تمام مکاتب فکر کے ہاں واجب ہے، اس فرض اور واجب سے اجتماعی اعراض اور کفار کی ناجائز پیروی اور کافرانہ نظام کی بالادستی تسلیم کرنے کی وجہ سے امت مسلمہ بحیثیت مجموعی ظلم اور کفران کی مرتکب ہے، اس ظلم و کفران سے اجتماعی توبہ اور علیحدگی کے بغیر اسلامی معاشرے میں امن اور توازن کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

    #…سیاسی نمائندگان اور حلقہٴ نمائندگی کے درمیان طبقاتی فرق بے شمار ایسے مسائل کو جنم دیتا ہے، جو طبقاتی کشمکش کا باعث ہوتے ہیں، نمائندگان عموما ًسرمایہ دار اور جاگیر دار طبقہ سے متعلق ہوتے ہیں، جبکہ حلقہ نمائندگی کی اکثریت غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہوتی ہے ، نمائندگان عوام کے مسائل کا ادراک نہیں کر پاتے ، بلکہ عوام میں شعور پیدا کرنے والے راستوں پربھی ناکے لگائے رکھتے ہیں ۔ نمائندہ اپنے حلقہ نمائندگی سے جب شعوری اور لاشعوری طور پر اتنے فاصلوں پر ہو تو سیاسی توازن کیسے ممکن ہوسکتا ہے ؟ چنانچہ عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے ایسے حربے استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے جو بد امنی کا ذریعہ بنتے ہیں۔

    #…ہماری سیاست میں وڈیرہ شاہی، جاگیرداری، سرمایہ داری اور موروثی سیاست نے عوام اور نمائندوں کے درمیان ایک خلیج قائم کر رکھی ہے، جسے عبور کرتے ہوئے کئی موجوں اور اضطرابات سے گزرنا ضروری ہے ، ظاہر ہے ایسے تلاطم میں امن و تواز ن کاتلاش کرنا عقل و بداہت کے خلاف ہے۔

    #…سیاست میں عدمِ برداشت بد امنی کا بڑا محرک ہے،حزب ِاقتدار جہاں ہر غلط کو صحیح کہنا سرکاری پالیسی بناتا ہے، حزبِ مخالف ہر صحیح اور غلط کو غلط کہنا اپنا مشغلہ بنائے رکھتا ہے۔اگلے الیکشن کا انتظار کرنے کی بجائے شور شرابہ ، ہلڑ بازی اور قلیل مدتی انتخابات کا واویلا پہلے دن سے ہی شروع کردیتا ہے، اس طرح جس طبقہ کو قوم کے امن و امان کے مسائل پر سوچنا تھا ،وہ خود بدامنی اور عدم توازن کی فضا قائم کرنے کو مشغلہ بنا لیتا ہے۔

    #…بد امنی اور عدم توازن کا سب سے بڑا سبب، غلامانہ خارجی پالیسی بھی ہے، جس کے نتیجے میں کفار کی بالا دستی قائم ہے اور قوم میں بد ظنی، بے چینی اور بد اعتمادی کی فضا شروع سے قائم چلی آرہی ہے، اغیار کی بالا دستی کے نتیجہ میں ملک کی جو صورت حال ہے ،وہ آفتاب نیمروز کی طرح واضح ہے ۔آج ملک کو جتنے بڑے سے بڑے چیلنجز کا سامناہے ، ان تمام کاباعث غلامانہ خارجہ پالیسی ہے۔

    #… میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ کردار بھی سیاسی فضا میں بد امنی اور عدم توازن کا بڑا محرک ہے۔

    #… سیاست میں ظلم و استحصال ، طاقت کا بے جا استعمال، اجتماعی مفاد پر شخصی مفاد کو ترجیح دینا بھی بدامنی کے بنیادی محرکات ہیں۔


    ماخوذ:


    http://banuri.edu.pk/ur/node/1547
     
    نعیم اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ کرے یہ جذبہ یہ غم و غصہ ایک طوفان برپا کر دے جس میں یہ کرپٹ لیڈر تنکوں کی طرح بہہ جائیں اور یہ پاک سر زمین کرپٹ اور غیر ملکی غلاموں سے پاک ہو جائے آمین
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    غوری بھائی ۔ آپ کا مضمون بہت سبق آموز اور فکر آمیز ہے۔
    پاکستان کی دینی جماعتوں اور علمائے کرام نے (الا ماشاءاللہ) پاکستانی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور اصلاحِ احوالِ امت میں اپنا کردار کما حقہ ادا نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ اپنی قدر، اپنا اعتماد اور اپنی ساکھ کھو بیٹھے ہیں۔
    علمائے کرام جدید علوم، تحقیق، ٹیکنالوجی سے دور ہونے کی وجہ سے پسماندہ ذہنیت کا شکار ہوگئے۔
    پیر خانے، خانقاہیں، جو روحانی نشوونما کے مراکز ہوا کرتے تھے۔ وہ صرف شیرینی و عرس تک محدود رہ گیا، علم، عمل، روحانیت، اخلاقیات سے رابطہ کٹ گیا۔
    مدرسے یا تو بیرونی آقاؤں کے ڈالروں اور ریالوں پر چلنے لگے اور انہی آقاؤں کی منشاء کے مطابق انتہا پسند ذہن تیار ہونا شرو ع ہوگئے۔
    یا پھر مقامی مدرسے مقامی چوہدریوں اور سرمایہ داروں کے چندوں سے چلنے لگے جس کی وجہ سے وہاں کے تعلیم یافتہ علماء تمام تر کوشش کے باوجود چوہدریوں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کی ذہنی غلامی کا شکا ہوگئے۔
    یہی وجہ سے کہ آج نامور مولانا حضرات، نامور مدرسہ جات اور نامور جماعتوں کے سربراہان، کبھی پاک فوج کے خلاف، کبھی اہل حق کے خلاف تنقیدیں کرتے نظر آئیں گے۔ اور کبھی جمہوریت بچانے کے نام پر رائے ونڈ لاہور، کلفٹن کراچی، 90 کراچی کا طواف کرتے نظر آئیں گے۔ ایسے مولویوں کو 50 ہزار معصوم پاکستانیوں کے قاتل بھی " مجاہد " نظر آتے ہیں اور پاک سرحدوں کی حفاظت کرنے والے عظیم افواج پاکستان کے "شہید" ہونے سے انکاری ہوجاتے ہیں۔
    علامہ اقبال نے اسی فرمایا تھا
    گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
    کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ

    جب مقامی چوہدریوں ، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے چندوں سے پل پل کر مولانا بنیں گے یا بیرونی آقاؤں کے ریالوں اور درہموں اور ڈالروں سے پرورش پائیں گے تو انکی "غیرتِ دینی " کا گلا تو وہیں گھٹ جاتا ہے۔ بعد میں ساری زندگی نہ خود کلمہ حق بلند کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی اور " اہلِ حق" کی حمایت میں زبان کھول سکتے ہیں۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں