چلو کہ دور نئی دنیا بسائیں اپنی یہاں تو جنگل کا راج چلتا ہے ہر طاقتور کمزور کو کھا جاتا ہے دولت کے بل پر مجبوریوں کو خریدا جاتا ہے ہر ایک نے اپنی اپنی الگ دنیا بسا رکھی ہے کوئی اکیلا دیکھے تو بچارہ مارا جاتا ہے انصاف کے ترازو میں عظمت کو دیکھو کس طرح تولہ جاتا ہے غریب کو ٹھوکروں میں امیر کو چارپائی پر بٹھایا جاتا ہے بازاروں میں بکتی ہے ٹکے ٹکے میں عزت غریب کے گھر کے پردے کو کس طرح نو چا جاتا ہے امیر مظلوم بنے پھرتے ہیں غریب بچارہ ناحق مارا جاتا ہے عدالتوں میں پسے کا راج چلتا ہے حنا انصاف کے ترازو میں سکہ کا راج چلتا ہے شاعرہ حنا شیخ