1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہار

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏30 اکتوبر 2011۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    انتخاب از: صدیقی


    میری زندگی ہے ظالم ،تیرے غم سے آشکارا
    تیرا غم ہے در حقیقت مجھے زندگی سے پیارا

    وہ اگر بُرا نا مانیں تو جہانِ رنگ و بُو میں
    میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہارا

    مجھے آ گیا یقیں سا کہ یہی ہے میری منزل
    سرِ راہ جب کسی نے مُجھے دفعتاً پُکارا

    میں بتاؤں فرق ناصح جوہے مُجھ میں اور تُجھ میں
    میری زندگی تلاطم ، تیری زندگی کنارا

    مُجھے گفتگو سے بڑھ کر غمِ اذنِ گفتگو ہے
    وُہی بات پُوچھتے ہیں جو نا کہہ سکوں دوبارا

    کوئی اے شکیل دیکھے یہ جنون نہیں تو کیا ہے
    کہ اُسی کے ہو گئے ہم جو نا ہو سکا ہمارا
     
  2. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہار

    کون‘ کس کا یہاں سہارا ہے
    اجنبی یہ جہان سارا ہے

    اپن حرمت پہ آہ بھرتا ہوا
    سبز پرچم پہ چاند تارا ہے

    ہم کہ اپنی ہی موج میں گُم ہیں
    ڈوبتا یہ وطن ہمارا ہے

    ہم مسلماں بھُلا ہی بیٹھے ہیں
    کیوں خُدا نے ہمیں اُتارا ہے

    قول میں کچھ ‘ تو فعل میں کچھ ہیں
    اِس کا انجام بس خسارا ہے


    سُمعـیّہ ناز نیہا
     
  3. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہار

    بہت خوبصورت صدیقی بھائی :222:
     
  4. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہار

    دستُور یہاں یہاں بھی اندھے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
    اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں

    تقدیر کے کالے کمبل میں عظمت کے فسانے لپٹے ہیں
    مضمون یہاں بھی بہرے ہیں عُنوان یہاں بھی اندھے ہیں

    زردار توقع رکھتا ہے نادار کی گرھی محنت پر
    مزدور یہاں بھی دیوانے ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں

    کچھ لوگ بھروسہ کرتے ہیں تسبیح کے چلتے دانوں پر
    بے چین یہاں یزداں کا جنوں انسان یہاں بھی اندھے ہیں

    بے نام جفا کی ہوں پر کچھ خاک سی اُڑتی دیکھی ہے
    حیراں ہیں دِلوں کے آئینے نادان یہاں بھی اندھے ہیں

    بے رنگ شفق سی ڈھلتی ہے، بے نور سویرے ہوتے ہیں
    شاعر کا تصوّر بھوکا ہے، سُلطان یہاں بھی اندھے ہیں
     
  5. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہار

    عشق پیشہ نہ رہے داد کے حق دار یہاں
    پیش آتے ہیں رعونت سے جفا کار یہاں
    سر پٹک کر درِ زنداں پہ صبا نے یہ کہا
    ہے دریچہ نہ کوئی روزنِ دیوار یہاں
    عہد و پیمانِ وفا، پیار کے نازک بندھن
    توڑ دیتی ہے زر و سیم کی جھنکار یہاں
    ننگ و ناموس کے بکتے ہوۓ انمول رتن
    لب و رخسار کے سجتے ہوۓ بازار یہاں
    سرخیِ دامنِ گُل کس کو میسّر آئی
    اپنے ہی خوں میں نہاۓ لب و رخسار یہاں
     
  6. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہار

    عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقدار یہاں
    پیش آتے ہیں رُعونت سے جفا کار یہاں

    سر پٹک کر درِ زنداں پہ صبا نے یہ کہا
    ہے دریچہ، نہ کوئی روزنِ دیوار یہاں

    عہدو پیمان وفا، پیار کے نازک بندھن
    توڑ دیتی ہے زرو سیم کی جھنکار یہاں

    ننگ و ناموس کے بکتے ہُوئے انمول رتن
    لب و رُخسار کے سجتے ہُوئے بازار یہاں

    سر خئی دامن گُل کس کو میسر آئی
    اپنے ہی خوں میں نہائے لب و رُخسار یہاں

    کشتی زیست سلامت ہے نہ پتوار یہاں
    موج در موج ہیں سو رنگ کے منجدھار یہاں

    ہمسفر چھوٹ گئے ، راہنما رُوٹھ گئے
    یوں بھی آسان ہوُئی منزل دشوار یہاں

    تیرگی ٹوٹ پڑی ،زور سے بادل گرجا
    بجھ گئی سہم کے قندیل رُخ یار یہاں

    کتنے طوفان اُٹھے، کتنے ستارے ٹوٹے
    پھر بھی ڈوبا نہیں اب تک دل بیدار یہاں

    میرے زخم کف پا چومنے آئے گی بہار
    میں اگر مر بھی گیا، وادئی پُرخار یہاں
     
  7. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہار

    یہاں ہے ہر ایک شے کی ہستی
    نہیں کی ہستی میں ہے کی ہستی

    حرام ہے جن میں مے پرستی
    ہے ان دنوں میں ہی مے کی ہستی

    خزاں کا بے برگ و ساز ہونا
    اسی سے ہے برگ نے کی ہستی

    دم پریشاں سے ہو گئی ہے
    وجود میں جو لے کی ہستی

    منیرؔ ھم کو ملی ہے کیسی
    مصیبت پے بہ پے کی ہستی
     
  8. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    یہاں ہے ہر ایک شے کی ہستی
    نہیں کی ہستی میں ہے کی ہستی

    حرام ہے جن میں مے پرستی
    ہے ان دنوں میں ہی مے کی ہستی

    خزاں کا بے برگ و ساز ہونا
    اسی سے ہے برگ نے کی ہستی

    دم پریشاں سے ہو گئی ہے
    وجود میں جو لے کی ہستی

    منیرؔ ھم کو ملی ہے کیسی
    مصیبت پے بہ پے کی ہستی
     
  9. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہار

    نہ خیال مرگ و ہستی نہ ملال عمر فانی
    میرا مدعامحبت میری آرزو جوانی

    وہی کیف ہے نہایت وہی لطف شادمانی
    تیری عشرتوں پہ صدقے میری تلخ زندگانی

    جو بھڑک اٹھے یہ شعلے تو مجھے بھی پھونک دینگے
    میرا قصہ محبت نہ سنو میری زبانی

    میرے دل کا ساتھ دیتی ہے میری زندگی کہاں تک
    مجھے ہوش آ رہا تھا کہ گزر گئی جوانی

    میں کروں تو شکوہ غم مگر اے یقین محکم
    مجھے بے زباں نہ کر دے کہیں ان کی بدگمانی​

    ۔
     
  10. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہار


    اک مسلسل تیرگی میں روشنی کا سلسلہ
    تیرے جیسا کب ہے کوئ دوسرا تیرے سوا

    پھونک دے پھر روح کوئ 'کوئ تازہ ولولہ
    بُجھ رہا ہے پھر خُدایا ' آس کا جلتا دیا

    میں کہ اپنی جان کا ' دشمن ہوا ہوں آپ ہی
    دنیا داری کے بھنور میں جا رہا ہوں ڈوبتا

    تھک گیا ہوں اب مسلسل رات دن چلتے ہوئے
    اب تو کوئ صورتِ منزل ہو پیدا اے خدا

    ابرار ندیم
     
  11. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہار

    ناخدا کا آسرا توہین ہے اے دل نہ دیکھ
    آبرو سے ڈوب کر مرجا سوئے ساحل نہ دیکھ
    او کماں والے بہت سی راز کی باتیں بھی ہیں
    ایک اپنے تیر کی خاطر ہمارا دل نہ دیکھ
    حشر میں پیشِ خدا کس پر ہے پرسش کا اثر
    میرا منہ کیا دیکھتا ہے اپنا منہ قاتل نہ دیکھ
    وہم آتا ہے یہ رہ رہ کر کہ تو راہزن نہ ہو
    ہم کو مڑ کر بار بار اے راہبرِ منزل نہ دیکھ
    اس سے اپنا نام یہ کہہ کر زرا پوچھو قمر
    میری صورت سے زرا پہچان میرا دل نہ دیکھ
     
  12. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہار

    تمہارے بعد اس دل کا کھنڈر اچھا نہیں لگتا

    جہاں رونق نہیں ہوتی وہ گھر اچھا نہیں لگتا

    نیا اک ہم سفر چاہوں تو آسانی سے مل جائے

    مگر مجھ کو یہ اندازِ سفر اچھا نہیں لگتا

    کھلی چھت پر بھی جا کر چاند سے کچھ گفتگو کر لو

    غزل کہنا پسِ دیوار و در اچھا نہیں لگتا

    مسلسل گفتگو بھی اپنی وحشت کو بڑھاتی ہے

    مسلسل چپ بھی کوئی ہسفر اچھا نہیں لگتا

    مصور، پینٹنگ اچھی ہے لیکن کیا کہا جائے

    شجر ہم کو تو بے برگ و ثمر اچھا نہیں لگتا

    خد و خال و قد و قامت بظاہر پہلے جیسے ہیں

    وہ جیسا پہلے تھا اب اس قدر اچھا نہیں لگتا
     
  13. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہار

    مرے ہمسفر ! تری نذر ہیں مری عمر بھر کی یہ دولتیں

    مرے شعر ، میری صداقتیں ، مری دھڑکنیں ، مری چاہتیں

    تجھے جذب کرلوں لہو میں میں کہ فراق کا نہ رہے خطر

    تری دھڑکنوں میں اتار دوں میں یہ خواب خواب رفاقتیں

    یہ ردائے جاں تجھے سونپ دوں کہ نہ دھوپ تجھ کو کڑی لگے

    تجھے دکھ نہ دیں مرے جیتے جی سرِ دشت غم کی تمازتیں

    مری صبح تیری صدا سے ہو ، مری شام تیری ضیا سے ہو

    یہی طرز پرسشِ دل رکھیں تری خوشبوں کی سفارتیں

    کوئی ایسی بزم بہار ہو میں جہاں یقین دلا سکوں

    کہ ترا ہی نام ہے فصلِ گل ، کہ تجھی سے ہیں یہ کرامتیں

    ترا قرض ہیں مرے روز و شب ، مرے پاس اپنا تو کچھ نہیں

    مری روح ، میری متاعِ فن ، مرے سانس تیری امانتیں
     
  14. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہار

    پھول تھے رنگ تھے لمحوں کی صباحت ہم تھے

    ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے

    سب خرد مند بنے پھرتے ہیں ہر محفل میں

    اس ترے شہر میں اک صاحبِ وحشت ہم تھے

    اب کسی اور کے ہاتھوں میں ترا ہاتھ سہی

    یہ الگ بات کبھی اہلِ رفاقت ہم تھے

    رتجگوں میں تری یاد آئی تو احساس ہوا

    تیری راتوں کا سکوں نیند کی راحت ہم تھے

    اب تو خود اپنی ضرورت بھی نہیں ہے ہم کو

    وہ بھی دن تھے کہ کبھی تیری ضرورت ہم تھے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں