1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میں تلخیء حیات سے گھبرا کے پی گیا - ساغر صدیقی

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از مبارز, ‏26 اپریل 2010۔

  1. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (ساغر صدیقی)

    میں تلخیء حیات سے گھبرا کے پی گیا
    غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

    اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
    یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا

    چھلکے ہوئے تھے جام، پریشان تھی زلف یار
    کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

    میں آدمی ہوں، کوئی فرشتہ نہیں حضور
    میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

    دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت
    دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

    کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
    پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

    ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
    ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں