1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میلاد نامۂ انبیاء علیہم السلام

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏12 مارچ 2007۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    میلاد نامۂ انبیاء علیہم السلام
    عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے عشق و محبت میں رچی خوبصورت تحریر

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کائنات کی جملہ خوبیوں اور محاسن کی جامع ہے جن کا ذکر کرنا ازل سے تا امروز اہل ایمان کا شیوہ رہا ہے۔ بلاشبہ ذکر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبادت ہے اور یہی اصل ایمان بھی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر جمیل کے ہزاروں طریقوں میں سے ایک معروف طریقہ جو قرون اولیٰ سے چلا آ رہا ہے محافل میلاد کا انعقاد ہے، ان پاکیزہ محافل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ، فضائل و خصائل، کمالات اور ولادت با سعادت کے واقعات کا تذکرہ بڑے ذوق و شوق اور والہانہ انداز سے کیا جاتا ہے۔ ماہ ربیع الاول میں خصوصیت کے ساتھ یہ سلسلہ اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے اور بلاد اسلامیہ میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات ایک جشن کا سا سماں پیدا کر دیتی ہیں۔

    ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوں تو ہر گوشہ اپنے اندر بے پایاں عظمتیں رکھتا ہے لیکن وہ گوشہ جسے ہم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعبیر کرتے ہیں، اس کا ایک پہلو وہ ہے جس میں اہل ایمان اللہ رب العزت کے اس عظیم احسان کو یاد کرتے ہیں جو اس نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت کی صورت میں تمام عالم انسانیت پر فرمایا۔ ماہ ربیع الاول میں جو نعمت عظمیٰ ہمیں عطا کی گئی اور اس کے ساتھ کیا کیا عجائبات ظہور پذیر ہوئے ان کا حسین تذکرہ انتہائی دل آویز پیرایے میں بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سارا بیان اہل ایمان انتہائی فرحت و مسرت اور محبت و شوق کے انداز سے کرتے ہیں۔ اس ذکر جمیل کا دوسرا پہلو وہ بیان ہے جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق اور حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تک پاک پشتوں سے منتقل ہوتا ہوا پہلوئے سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا سے ظہور کے مرحلے کا احاطہ کرتا ہے۔ اس عنوان کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل و فضائل کا تذکرہ ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے کرتا ہے اس میں نثر و نظم کے تمام قرینے اور پیرایے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ کوئی نعت کی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سراپا اور زلف و رخسار کی باتیں چھیڑتا ہے اور کوئی خطاب کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسین خدو خال اور سراپائے جمیل کا نقشہ پیش کرنے کی سعی کرتا ہے اس کا تیسرا پہلو حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے بیان پر مشتمل ہوتا ہے۔

    میلاد نامہ کی اہمیت

    عرب ممالک میں ائمہ محدثین اور علماء ربانیین نے آقا علیہ السلام کے میلاد کے موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ میلاد کے بیان کو بلاد عربیہ میں مولد، موالید یا مولود پڑھنا کہتے ہیں۔ اس لئے ایسی کتابوں یا مضامین کو جس میں حضور علیہ السلام کے میلاد کے واقعات مذکور ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات کا تذکرہ ہو مولود کہا جاتا ہے۔ اہلِ عرب میں جو اہلِ محبت ہیں ان کے ہاں اکثر و بیشتر اب بھی یہی طریقہ رائج ہے کہ جب میلادِ پاک کا مہینہ شروع ہو جاتا ہے تو وہ محافل میلاد میں ذوق و شوق سے مولود پڑھتے ہیں، حرمین شریفین میں آج بھی نثر و نظم کی صورت میں مولود پڑھے جاتے ہیں۔ مدینہ طیبہ، مکہ معظمہ، شام، مصر، عراق، عمان، اردن، عرب امارات، کویت، لیبیا، طرابلس، مراکش اور دنیائے عرب کے علاوہ دنیا کے ہر ملک میں ائمہ و محدثین کے تصنیف کردہ مولود نظم و نثر کی صورت میں اب بھی موجود ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا انبیاء علیہم السلام کی ولادت کے واقعات کو بیان کرنا مولد یا مولود کہلاتا ہے، اردو میں اس کو میلادنامہ کہتے ہیں۔

    تذکارِ انبیاء سنتِ الٰہیہ ہے

    بعض ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ولادت باسعادت کے ذکر کی کیا ضرورت ہے؟ ولادت تو ہوچکی اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات و سیرت کو بیان کیا جائے۔ اس سوچ اور ذہنیت کا ازالہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

    قرآن و سنت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندوں کا فقط ذکر کرنا ہی عبادت ہے یہ اللہ کی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید میں جابجا اپنے صالح و مقرب بندوں کا ذکر فرماتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کا ذکر بطور خاص فرماتا ہے کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے مرتضیٰ بندے ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم ان کی ولادت اور سیرت دونوں کو بیان کرتا ہے۔ قرآن کریم نے انبیاء علیہم السلام کے ذکر کو اللہ تعالیٰ کی سنت اور حکم کے طور پر بیان کیا ہے۔ قرآن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے جاری ہوا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی سنت ہوگی۔ اس بناء پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے واقعات اور اس کی جزئیات تک بیان کرنا سنتِ الٰہیہ بھی ہے اور خود سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی۔ انبیاء علیہم السلام کے حالات و واقعات کا ذکر کرنا کتنا باعث خیر و برکت ہے اس کی تفصیل آیات بینات کی روشنی میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ یوں تو قرآن مجید نے انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں کے حالات و واقعات کو جا بجا تفصیل سے بیان کیا ہے مگر کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں انبیاء و مقربین کے ذکر کو ہی عنوانِ کلام بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے چند آیات درج ذیل ہیں : اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورت انعام میں اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

    1. وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلاًّ فضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَO وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍO

    (الانعام، 6 : 86۔ 87)

    ’’اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط (کو بھی ہدایت سے شرف یاب فرمایا) اور ہم نے ان سب کو (اپنے زمانے کے) تمام جہان والوں پر فضیلت بخشیo اور ان کے آبا (و اجداد) اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی (بعض کو ایسی فضیلت عطا فرمائی) اور ہم نے انہیں (اپنے لطفِ خاص اور بزرگی کے لئے) چن لیا تھا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرما دی تھی۔‘‘

    سورۃ ابراہیم کا نام ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے خلیل کے نام پر رکھا۔ اس میں فرزندان ابراہیم علیہ السلام کو فرزند اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام کے حوالے سے فرمایا :

    2. الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِO

    (ابراہیم، 14 : 39)

    ’’سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحق (دو فرزند) عطا فرمائے، بیشک میرا رب دعا خوب سننے والا ہےo‘‘

    3. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّاO

    (مَرْيَم، 19 : 41)

    ’’اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم کا ذکر کیجئے، بیشک وہ بڑے صاحب صدق نبی تھےO‘‘

    4. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَى إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولاً نَّبِيًّاO

    (مریم، 19 : 51)

    ’’اور (اس) کتاب میں موسیٰ کا ذکر کیجئے بیشک وہ (نفس کی گرفت سے خلاصی پاکر) برگزیدہ ہوچکے تھے اور صاحب رسالت نبی تھے‘‘

    5. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّاO وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّاO

    (مریم، 19 : 56۔ 57)

    ’’اور (اس) کتاب میں ادریس کا ذکر کیجئے بیشک وہ بڑے صاحب صدق نبی تھے o اور ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھا لیا تھا‘‘

    6۔ اسی طرح یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے ارشاد فرمایا گیا :

    وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّاO

    (مریم، 19 : 13)

    ’’اور (ہم نے) اپنے لطف خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا) اور وہ بڑے پرہیزگار تھےo‘‘

    سورت انبیاء ساری کی ساری نفوسِ مقدسہ کے محبوب تذکروں سے بھرپور ہے حتیٰ کہ پے در پے مقرب اور محبوب انبیاء کے تذکرے شروع کرنے سے قبل آیت 50 میں فرمایا جا رہا ہے :

    7. وَهَذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ أَفَأَنتُمْ لَهُ مُنكِرُونَO

    (الانبیاء، 21 : 50)

    ’’اور یہ (قرآن) برکت والا ذکر ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، کیا تم اس سے انکار کرنے والے ہوo‘‘

    ’’ذکرِ مبارک‘‘ کا عنوان دے کر اگلی آنے والی متعدد آیات میں انبیاء علیہم الاسلام کا تذکرہ کیا۔

    پھر اس سورت میں مقبولانِ حق کے ذکر کا سارا سلسلہ محبوبانِ عالم کے سرتاج صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جا کر ختم کیا آیت نمبر 107 کا اختتام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکرِ جمیل سے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

    8. وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO

    (الانبیاء، 21 : 107)

    ’’اور (اے رسول محتشم) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔‘‘

    اس کے بعد اس سورت میں کسی اور نبی اور رسول کا ذکر نہیں فرمایا گیا کیونکہ تذکرہ محبت اپنے معراج اور نقطۂ کمال کو پہنچ چکا تھا۔ اہل فہم و بصیرت کے لئے اتنا ہی کافی ہے ورنہ قرآن مجید میں اور بھی بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرب بندوں کے تذکرے فرمائے ہیں اور ان میں سے یکے بعد دیگرے سب کے روحانی مشاغل و معمولات کا ذکر فرمایا ہے۔ اپنے مقربین کی دعاؤں اور مناجات کے کلمات بھی من و عن بیان فرمائے ہیں۔ جن سے وہ اللہ کو پکارتے تھے، ان کی عبادت گاہوں کا ذکر کیا ہے اور ان کے خاص اوقات دعا، انداز دعا اور مقامات دعا و گریہ تک بیان فرمائے ہیں۔ ان پر اپنی غیبی نوازشات کا ذکر کیا۔ ان کی آزمائشیں، ریاضات اور مجاہدات کا ذکر فرمایا اور ان کی ثابت قدمی اور اولوالعزمی بیان فرمائی ہے۔ الغرض ان کے ذکر کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا اور ہمیں بار بار ادھر متوجہ کیا ہے کہ یہ سب التزام عبادت گزاروں اور طاعت شعاروں کے لئے ہے جو کوئی چاہے کہ اللہ کی اطاعت و عبادت اور محبوبیت و مقربیت کی راہ پر گامزن ہو تواس کے لئے یہی تذکرے زاد سفر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام کے ہر دور میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے لے کر آج تک حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ سیرت اور حسن صورت کا بیان کرنا ہر صاحب ایمان و محبت کا محبوب عمل رہا ہے۔ ائمہ محدثین، علماء کاملین اور اولیاء و عارفین سب اپنے اپنے ذوق کے مطابق ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل کا اہتمام کرتے چلے آ رہے ہیں اور ہر دور میں اس حوالے سے ہزارہا کتابیں تصنیف کی جاتی رہی ہیں تاکہ اس سنت الہٰیہ پر عمل کی برکات نصیب ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود اپنے کلام قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے میلاد کا بیان کیا ہے۔ قرآن مجید کی بہت ساری شانوں میں سے ایک شان یہ بھی ہے کہ یہ میلادنامۂ انبیاء علیہم السلام ہے اور میلاد پڑھنے والی خود ذات خدا ہے، لہٰذا اس اعتبار سے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد پڑھنا سنت الٰہیہ ہے۔

    میلادِ انبیاء علیہم السلام کی اہمیت

    انبیاء علیہم السلام کی ولادت فی نفسہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ ہے ہر نبی کی ولادت کی نعمت کے طفیل اس کی امت کو باقی ساری نعمتیں نصیب ہوئیں۔ ولادت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت یعنی نبوت و رسالت کی نعمت، نزولِ قرآن اور وحی کی نعمت، ہدایت و سیرت کی نعمت جتنی بھی نعمتیں ہیں تسلسل کے ساتھ عطا ہوئیں۔ ان ساری نعمتوں کا اصل موجب وہ دن ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ولادت ہوئی اور ان کی اس دنیائے آب و گل میں تشریف آوری ہوئی، لہٰذا حضور علیہ السلام کی ولادت باسعادت پر خوش ہوکر جشن منانا ایمان کی علامت اور حضور علیہ السلام کے ساتھ قلبی تعلق کا آئینہ دار ہے۔

    ولادت یا پیدائش تو ہر انسان کے لئے خوشی کا باعث ہے، یوم پیدائش کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے، قرآن مجید کے نقطہ نظر سے ہر نبی کا یومِ ولادت خاص اہمیت کا حامل ہے، حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے سورۂ مریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

    وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّاO

    (مریم، 19 : 15)

    ’’اور یحییٰ پر سلام ہو، ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘

    اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے قرآن مجید کلام کی نسبت ان کی طرف کرکے فرماتا ہے :

    وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّاO

    (مریم، 19 : 33)

    ’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گاo‘‘

    اگر ولادت کا دن قرآن و سنت اور شریعت کے نقطہ نظر سے خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو اس دن بطور خاص سلام بھیجنے کا بیان چہ معنی دارد؟ لہٰذا اسی خاص اہمیت کے پیش نظر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے انبیاء کرام کے میلاد کا ذکر فرمایا ہے۔ ذیل میں چند جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ بطور حوالہ کیا جائے گا۔

    1۔ میلاد نامۂ آدم علیہ السلام

    اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاں اپنے محبوب اور برگزیدہ بندوں کی پیدائش کا ذکر فرمایا ہے وہیں سب سے پہلا ذکر ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا کیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :

    وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً.

    (البقرہ، 2 : 30)

    ’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘

    قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر تفصیل کے ساتھ آیا ہے اور صرف پیدائش کا ذکر ہی نہیں بلکہ ان کی حیات طیبہ کے کئی پہلوؤں کا ذکر موجود ہے جیسے جنت میں ان کے رہن سہن، تخلیق آدم پر فرشتوں کی چہ میگوئیاں، شیطان رجیم کا اعتراض اور پیکر آدم کو سجدہ نہ کرنے کا ذکر بھی تفصیل سے موجود ہے۔ انسانی تخلیق سے متعلق جتنی آیات مبارکہ ہیں ان کے اولیں مصداق سیدنا آدم علیہ السلام ہیں جن کے احوال کو تفصیل سے قرآن مجید کی زینت بنایا گیا ہے یہی ان کا میلاد نامہ ہے۔

    2۔ میلادنامۂ موسیٰ علیہ السلام

    سیدنا موسیٰ علیہ السلام وہ جلیل القدر نبی ہیں جنہوں نے فرعون جیسے ظالم، جابر اور سرکش شخص کو جو زمین پر خدائی کا دعویدار بنا بیٹھا تھا للکارا۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ذریعہ قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دی، فرعون کو غرق کرکے ہمیشہ کیلئے نشانِ عبرت بنا دیا، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل فرعون نے قوم بنی اسرائیل پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔ جب اسے نجومیوں نے بتایا کہ بنی اسرائیل میں کسی ایسے بچے کی پیدائش ہونے والی ہے جس کے ذریعہ بنی اسرائیل تمہاری محکومی سے نجات پا لے گی تو اس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیئے، لڑکوں کو ذبح کروا دیتا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا۔ اس پس منظر میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کے حالات، ان کی پیدائش، پھر دودھ پلائے جانے کا بیان، ان کے بامرِ الٰہی صندوق میں ڈالے جانے، پھر فرعون کے محل کے ساتھ دریا کی لہروں کے دوش پر بہتے ہوئے صندوق کے وہاں پہنچنے کا بیان، پھر فرعون کے محل میں پرورش پانے اور رضاعت کے لئے ان کی والدہ کی طرف لوٹائے جانے، پھر جوانی اور بعثت یعنی ایک ایک چیز کو بیان کیا ہے یہی میلادنامہ موسیٰ علیہ السلام ہے جو اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے۔ ’’سورہ القصص‘‘ کا آغاز ہی قصۂ موسیٰ و فرعون سے ہوا ہے جو کہ 50 آیات مبارکہ پر مشتمل ہے۔ پہلے 5 رکوعات میں مسلسل آپ کا ذکر ہے۔

    3۔ میلادنامۂ مریم علیھا السلام

    اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت مریم علیھا السلام کا میلادنامہ بھی بیان کیا ہے جو اگرچہ پیغمبر نہیں لیکن ایک برگزیدہ پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ اور ایک پاکباز ولیۂ کاملہ ہیں۔ سورہ آل عمران (آیت نمبر34 سے) کے اندر اللہ تعالیٰ نے میلاد نامہ مریم علیہا السلام بیان فرمایا۔ اب کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ قرآن نے گذشتہ واقعہ بیان کیا ہے تو آپ اس کو میلاد نامہ کیسے قرار دے رہے ہیں؟ تو ایسے ذہن رکھنے والے لوگوں کو جان لینا چاہیئے کہ جو چیز فقط تعلیم و تربیت اور رشد و ہدایت کی غرض سے بیان کی جاتی ہے اس کی حدود قیود ہوتی ہیں، کہ کیا بیان کرنا ضروری ہے اور کیا ضروری نہیں؟ جو بات مضمون سے جتنی متعلق ہو اتنی بتائی جاتی ہے اور جو چیز غیر متعلق ہو اس کو کم از کم کلام الٰہی میں جگہ دینے اور قرآن مجید کا مضمون بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ اب ذیل میں حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت سے متعلق آیات اور ترجمہ پر غور کریں جس سے خود بخود پتہ چل جائے گا کہ یہ نفسِ مضمون کسی تعلیم و تربیت اور رشد و ہدایت کے لئے نہیں بلکہ فقط ولادت کا قصہ بیان ہو رہا ہے جسے ہم بجا طور پر میلاد نامہ سے تعبیر کر رہے ہیں، ارشاد ہوتا ہے :

    إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُO فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَى وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وِإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِO

    (آل عمران، 3 : 35 ۔ 36)

    ’’اور (یاد کریں) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے (دیگر ذمہ داریوں سے) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں سو تو میری طرف سے (یہ نذرانہ) قبول فرمالے بیشک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo پھر جب اس نے لڑکی جنی تو عرض کرنے لگی مولا! میں نے تو یہ لڑکی جنی ہے، حالانکہ جو کچھ اس نے جنا تھا اللہ اسے خوب جانتا تھا، (وہ بولی) اور لڑکا (جو میں نے مانگا تھا) ہرگز اس لڑکی جیسا نہیں (ہوسکتا) تھا (جو اللہ نے عطا کی ہے) اور میں نے اس کا نام ہی مریم (عبادت گزار) رکھ دیا ہے اور بے شک میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے شر) سے تیری پناہ میں دیتی ہوںo‘‘


    یہ حضرت مریم علیھا السلام کی ولادت کا حسین تذکرہ ہے جسے اللہ رب العزت نے بیان فرمایا، آگے ان کے بچپن کا بیان ہو رہا ہے جب وہ حضرت زکریا علیہ السلام کے سایہ عاطفت میں پرورش پانے لگیں، اس دوران اللہ رب العزت نے ان پر جو نوازشات کیں اور بے موسم پھل عطا فرمائے اس کا تذکرہ ہے، جس کے توسل سے حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے اولاد نرینہ کی دعا کی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بشارت عطا فرمائی۔

    یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بیان کردہ میلادنامہ مریم علیھا السلام ہی تو ہے کہ اس قدر چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بیان کر دیں جن کا بظاہر تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں مثلاً یہ فرمانا کہ وہ قرعہ اندازی کر رہے تھے، اپنے قلم پھینک رہے تھے اور یہ بات کہ آپس میں جھگڑ رہے تھے، لیکن امت مسلمہ کی تعلیم و تربیت کا کون سا پہلو سنت الٰہیہ کی پیروی میں اس کے اندر پوشیدہ ہے؟ اگر بیان کرنے والے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلادنامہ بیان کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات و واقعات کی تفصیلات و جزئیات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے وقت ظہور میں آنے والے آثار و برکات بیان کریں تو یہ بھی نہ صرف دین اور ایمان کی بات بلکہ اصلِ ایمان ہے۔ کاش کوئی اتنی سی بات سمجھ سکے کہ اگر اللہ کی ایک پاکباز ولیہ کا میلادنامہ قرآن مجید میں بیان ہو رہا ہے تو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو محبوب رب العالمین ہیں اور تاجدارِ انبیاء علیھم السلام ہیں ان کا میلاد نامہ کیوں بیان نہیں ہو سکتا او ر یہ ہرگز ہرگز بدعت نہیں بلکہ جزوِ ایمان، اصلِ ایمان اور عین توحید ہے۔

    4۔ میلاد نامۂ یحییٰ علیہ السلام

    اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے میلادنامے کو بھی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ جب ان کے والد گرامی قدر اور اللہ کے نبی حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیھا السلام کی پرورش کے دوران توسل مکانی کیا اور حجرہ مریم علیھا السلام میں کھڑے کھڑے دعا کی۔ سورۃ مریم میں ان کی ولادت کا مکمل بیان آ رہا ہے جبکہ پہلے رکوع (آیت نمبر1 تا 15) میں سارا بیان میلادِ یحییٰ علیہ السلام کا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ان آیات مبارکہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ میلادنامہ یعنی پیغمبر کی ولادت کا ذکر قرآن کے الفاظ میں اللہ کی رحمت ہوتا ہے۔ جب حضرت یحییٰ علیہ السلام کے میلاد کا ذکر رحمتِ رب ہے تو میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر نص قرآن سے بدرجہ اولیٰ رحمت ثابت ہوا۔ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی رحمت اور کیا ہو سکتی ہے، لہٰذا عقلی و منطقی رو سے بھی میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ذکرِ رحمت ہو گا۔

    5۔ میلاد نامۂ عیسیٰ علیہ السلام

    سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ حضرت مریم علیھا السلام جو اللہ رب العزت کی پاکباز ولیہ تھیں ان کے میلاد نامہ کے بیان کے بعد ان کے فرزند اللہ کے برگزیدہ نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا میلادنامہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان فرمایا۔ سورہ مریم کا ایک مکمل رکوع میلادنامہ عیسیٰ علیہ السلام پر مشتمل ہے جس میں ان کی ولادت سے قبل ان کی والدہ محترمہ کو بیٹے کی خوشخبری دی گئی اس کا تفصیلی بیان بھی قرآن مجید کی سورہ آل عمران آیت 45 تا 47 میں مذکور ہے :
    اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر تفصیل سے سورہ مریم آیت نمبر 16 تا 35 میں کرتے ہوئے چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی بیان کیا گیا کہ کس طرح جبرئیل امین علیہ السلام آئے اور انہوں نے روح پھونکی اور حضرت مریم علیھا السلام اُمید سے ہو گئیں، بچوں کی ولادت کے وقت جیسے ہر ماں کو درد زہ ہوتا ہے، جو کہ معمول کی چیز ہے حضرت مریم علیھا السلام کو بھی تکلیف لاحق ہوئی لیکن قرآن نے حضرت مریم علیھا السلام کی اس تکلیف کا بھی ذکر کیا، بتقاضائے نسوانیت ان کے شرمانے کا ذکر بھی قرآن مجید نے کیا، پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ جو خلوت گزیں ہوگئیں اس کا ذکر کیا، پھر تکلیف کو رفع کرنے کے لئے اللہ نے چشمے کا شیریں پانی مہیا کیا، تازہ کھجوریں دیں جسے کھانے سے تکلیف دور ہو گئی، پھر عین ولادت کا ذکر کیا، پھر ولادت کے بعدجب وہ نومولود کو اٹھا کر اپنے لوگوں کے پاس لے گئیں ان کے طعنوں کا ذکر کیا اور طعن و تشنیع کے جواب میں پنگھوڑے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کلام کرنے کا ذکر کیا۔

    6۔ میلادنامۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    گذشتہ صفحات میں ہم نے ’’قرآن میلادنامہ انبیاء علیھم السلام‘‘ کے عنوان سے ان انبیاء کرام علیھم السلام کے میلادنامے بیان کئے جن کا میلاد خواں خود خدائے رحمان ہے۔ قرآن کے حوالے سے ان انبیاء کرام علیھم السلام کے میلادنامے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انبیاء علیہ السلام کی ولادت کے واقعات کا ذکر، ان کے کمالات و برکات اور ان پر رب کریم کی عنایات کا ذکر کیا جائے، یہ سب سنتِ الٰہیہ اور ان کا بار بار دہرانا قرآن کا منشاء ہے۔ اب یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ انبیاء کرام جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ہوئے ان کا ذکر تو قرآن مجید میں آیا ہے تو کیا حضور علیہ السلام کی ولادت کا بھی کوئی ذکر قرآن مجید میں ہے؟ تو اس کا جواب اثبات میں ہے۔ قرآن مجید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ مطالعۂ قرآن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے نبیوں کی ولادت کا ذکر فرما کر ان کی شان کو اجاگر کیا اور یہی میلادنامۂ انبیاء ہے۔ اگر قرآنی آیات کے مفہوم پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اللہ رب العزت نے امام الانبیاء رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جتنے بھی انبیاء علیھم السلام کا ذکر کیا وہ فقط ذکرِ ولادت تھا مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا تو اس شان امتیاز کے ساتھ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی نسبت سے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہرِ ولادت بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباو اجداد اور خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھاتے ہوئے، ارشاد فرمایا :

    لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَO

    (البلد، 90 : 1 تا 3)

    ’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo(اے حبیبِ مکرّم!) اس لئے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئیo‘‘

    اللہ تبارک و تعالیٰ نے شہر مکہ کو اس وجہ سے لائقِ قسم نہیں ٹھہرایا کہ وہاں کعبۃ اللہ، حجر اسود، مطاف، حطیم، صفا و مروہ اور آب زمزم ہے بلکہ قسم کھانے کی وجہ ازروئے قرآن یہ ہے کہ اس شہر کو محبوب خدا کی جائے سکونت ہونے کا شرف حاصل ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے شہر مکہ کی قسم اس لئے کھائی کہ وہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن ہے، پھر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملہ آباؤ اجداد کی قسم کھائی۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے پیدا ہونے کی قسم نہیں کھاتا بلکہ صرف ایک ہی پیدا ہونے والی ہستی کی قسم کھاتا ہے جس کے باعث ہر کوئی پیدا ہوا ہے۔

    ان آیات مقدسہ کے ذریعہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے امت مسلمہ کو یہ سمجھا دیا کہ میرے محبوب کی ولادت کا ذکر قیامت تک آنے والوں پر واجب ہے، یہ سوچ کہ ولادت کا ذکر کرنے کا کیا فائدہ؟ قرآن مجید کی سینکڑوں آیات سے انکار کے مترادف ہے کیونکہ انبیاء کی ولادت کا ذکر کرنا اور ان کا میلادنامہ قرآن میں بیان کر کے اس کی تلاوت کا حکم دینا منشائے خداوندی ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بعنوان میلاد کرتے ہیں تو اللہ کی سنت ادا ہوتی ہے۔

    انبیاء علیہم السلام کے واقعاتِ میلاد کے بیان، قرآن مجید کی ان آیات کے مفہوم پر جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب اور برگزیدہ بندوں کی ولادت کو بیان کیا ہے، غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان آیات میں بیان کردہ واقعات کا امت مسلمہ کی تعلیم و تربیت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں سوائے اس کے کہ ان سب واقعات کا مقصود میلادنامہ انبیاء کا بیان ہے۔

    اللہ رب العزت نے اپنے برگزیدہ انبیاء کی ولادت کا ذکر اس قدر اہتمام سے کیا کہ انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے خیال کو بھی بیان کیا میلادنامہ یحییٰ علیہ السلام پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب ان کے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام حجرہء مریم علیھا السلام میں تشریف لے گئے اور وہاں ان کے پاس بے موسم پھلوں کو دیکھا تو اسی جگہ بیٹے کی ولادت کی دعا مانگی، پھر جب ان کو خوشخبری ملی کہ بیٹا عطا ہو گا تو دل میں بشری تقاضے کے تحت ایک خیال آیا کہ میں اتنا بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہو چکی ہے تو میرا بیٹا کیسے پیدا ہو گا؟ یہ خیال آتے ہی اللہ کی بارگاہ میں سوال کیا تو قرآن نے اس خیال اور اس کے نتیجے میں ذہن میں پیدا ہونے والے سوال کا بھی ذکر کیا پھر اﷲ تعالیٰ نے اس سوال کا جو جواب دیا اس کا ذکر بھی فرمایا۔
    اسی طرح میلادنامہ عیسیٰ علیہ السلام کا مطالعہ بھی بڑا ایمان افروز اور فکر انگیز ہے اس میں بعض چیزوں کو پڑھ کر کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس قدر معمول کی چیزوں کو بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی جیسے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے لے کر ولادت عیسیٰ علیہ السلام تک لمحہ بہ لمحہ واقعات کا ذکر، دردِ زہ کی تکلیف کا تذکرہ اور اس وقت حضرت مریم علیھا السلام کو جو پریشانی لاحق ہوئی اور انہوں نے اس پریشانی کے عالم میں جب کہا ’’اے کاش! میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل بھولی بسری ہوچکی ہوتی۔‘‘ اس قسم کی باتوں کا بھی ذکر کرکے اللہ تبارک و تعالیٰ نے امت مسلمہ کو یہ شعور عطا کیا کہ جس طرح قرآن دیگر انبیاء کی ولادت کے باب میں بہت سے واقعات بیان کرتا ہے اسی طرح جب حبیب کبریاء سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات آئے اور ان کی ولادت کا ذکر چھڑے تو تم بھی حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے بات شروع کرو اور سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کی گود سے لے کر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا کے گاؤں تک کے سارے واقعات بیان کرو اور جو کمالات و برکات مشاہدے میں آئے ان کا ذکر کرو یہی سنتِ الٰہی اور منشاءِ قرآن ہے۔ دیگر انبیاء علیھم السلام کا ذکر تو وحئ الٰہی کے ذریعے حضور علیہ السلام نے کیا اور ظاہر ہے کہ حضور علیہ السلام کا ذکر بعد میں آنے والوں ہی نے کرنا تھا۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر امت ہی کرے گی کوئی نبی نہیں۔

    میلادنامۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہی واقعات کا بیان ہے جو آقا علیہ السلام کی ولادت باسعادت سے قبل اور ولادت کے وقت ظہور میں آئے۔ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تک کس طرح پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتا رہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر کیا کیا احسانات فرمائے۔ اب جب بھی بطور خاص ماہ میلاد ربیع الاوّل آتا ہے تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسین تذکروں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا پیغام عام کیا جاتا ہے۔ یہ بڑا ایمان افروز سماں ہوتا ہے کہیں نعت خوانوں کی ٹولیاں جمع ہوکر حضور علیہ السلام کے زلف و رخسار کی بات کرتی ہیں، کوئی شہر مدینہ کے گلی کوچوں، کوئی گنبد خضرا کے حسین منظر کی، کوئی روضہ اقدس کی سنہری جالیوں کی بات کرتا ہے، کوئی اس شہر دلنواز کی روشنیوں اور رونقوں کی بات کرتا ہے، کوئی آقا علیہ السلام کے دیدار و وصال کی بات کرتا ہے، کوئی حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا کے گھر کا تذکرہ کرتا ہے، کوئی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا کے آنے اور آقا علیہ السلام کو لے جانے کی بات کرتا ہے، کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کی بات کرتا ہے، کوئی چودہ سو سال پیچھے پلٹ کر شہر مکہ کی وادی میں آقا علیہ السلام کے خرامِ ناز کا حسین تذکرہ چھیڑتا ہے، الغرض اس مہینے میں فقط محبت کے ترانے گونجتے ہیں، محبت کے تذکرے ہوتے ہیں، آقا علیہ السلام کی ولادت اور بچپن کی باتیں ہوتی ہیں، یہ سب کچھ اس لئے کیا جاتا ہے کہ اہل ایمان کے دلوں کے اندر موجود خوابیدہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشق کے یہ ترانے سن کر جاگ اٹھے۔ ۔ ۔ گذشتہ صفحات میں قرآن مجید کے حوالے سے انبیاء علیھم السلام کے میلادناموں کے بیان سے اس سوال کا رد ہو جاتا ہے کہ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان کے تحت یہ بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ کس طرح نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پشت میں آیا؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کس طرح ہوئی؟ وغیرہ۔ اس کے بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ انبیائے اکرام کے احوال پڑھ کر بھی اگر کوئی یہ سوچے اور سمجھے کہ ان چیزوں کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تو اس سے قرآن مجید کی سینکڑوں آیات کا انکار لازم آتا ہے۔ یہ اس لئے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے کوئی قصے کہانی کی کتاب نہیں جس میں معاذ اللہ غیر ضروری اور بے فائدہ باتوں کا ذکر کیا گیا ہو۔

    (تحریر : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ)​
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ ۔ سبحان اللہ۔ سبحان اللہ

    ایک امتی کے لیے اپنے کریم نبی :saw: کے یومِ ولادت سے بڑھ کر کونسی خوشی ہوگی

    ایک غلام کے لیے اپنے آقا :saw: کے یومِ ولادت سے بڑھ کر کونسی خوشی ہوگی

    ایک محب کے لیے اپنے محبوب :saw: کے یومِ ولادت سے بڑھ کر کونسی خوشی ہوگی

    آج جشنِ چراغاں‌ مناؤ سرورِ سروراں آگئے ہیں :saw:
    دل سجائے ہیں گھر بھی سجاؤ دونوں عالم کی جاں‌آگئے ہیں
     
  3. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    سبحان اللہ تعالی !!

    اور

    جزاک اللہ تعالی جناب پیا جی صاحب
     
  4. گجر
    آف لائن

    گجر ممبر

    شمولیت:
    ‏22 فروری 2007
    پیغامات:
    115
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :222: ماشااللہ و جزاک اللہ بخیر :222:​


    جشنِ آمدِ رسول صلٰی اللہ علیہ وسلم
     

اس صفحے کو مشتہر کریں