شہر دل کی گلیوں میں شام سے بھٹکتے ہیں چاند کے تمنائی بے قرار سودائی دل گداز تاریکی جاں گداز تنہائی روح و جاں کو ڈستی ہے روح و جاں میں بستی ہے شہر دل کی گلیوں میں سردسرد راتوں میں زرد چاند بخشے گا بے حساب تنہائی بے حجاب تنہائی شہر دل کی گلیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشہ جاتے ہیں جدھر سب میں ادھر کیوں نہیں جاتا وہ نام جو برسوں سے نہ چہرہ نہ بدن ہے وہ خواب اگر ہے تو بکھر کیوں نہیں جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاگل آنکھوں والی لڑکی اتنے مہنگے خواب نہ دیکھو تھک جاﺅگی کانچ سے نازک خواب تمہارے ٹوٹ گئے تو پچھتاﺅ گی سوچ کا سارا اجلا کندن ضبط کی راکھ میں گھل جائے گا کچے پکے رشتوں کی خوشبو کا ریشم کھل جائے گا تم کیا جانو خواب ،سفر کی دھوپ کے تیشے خواب، ادھوری رات کا دوزخ خواب، خیالوں کا پچھتاوا خواب کی منزل رسوائی خواب کا حا صل تنہائی تم کیا جانو؟؟؟؟ مہنگے خواب خریدنا ہوں تو آنکھیں بیچنا پڑتی ہیںیا رشتے بھولنا پڑتے ہیں اندیشوں کی ریت نا پھانکو اتنے مہنگے خواب نا دیکھو تھک جاﺅ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے تو محبت سے کوئی چال تو چل ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے دل دھڑکتا نہیں تپکتا ہے کل جو خواہش تھی آبلہ ہے مجھے ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے کوہ کن ہو کہ قیس ہو کہ فراز سب میں اک شخص ہی ملا ہے مجھے
یہ چاہتیں یہ پذیرائیاں بھی جھوٹی ہیں یہ عمر بھر کی شناسائیاں بھی جھوٹی ہیں یہ لفظ لفظ محبت کی یورشیں بھی فریب یہ زخم زخم مسیحائیاں بھی جھوٹی ہیں مرے جنوں کی حقیقت بھی سر بسر جھوٹی ترے جمال کی رعنائیاں بھی جھوٹی ہیں کھلی جو آنکھ تو دیکھا شہر فرقت میں تری مہک تری پرچھائیاں بھی جھوٹی ہیں ترے فراق کا اب بھی یقین نہیں آتا یہ رتجگے یہ تنہائیاں بھی جھوٹی ہیں فریب کار ہیں اظہار کے وسیلے بھی خیال و فکر کی گہرائیاں بھی جھوٹی ہیں اسے یہ دکھ کہ رسوا ہوا میں اس کے لیے مجھے یہ دکھ کہ رسوائیاں بھی جھوٹی ہیں تمام لفظ و معانی بھی جھوٹ ہیں ساجد ہمارے عہد کی سچائیاں بھی جھوٹی ہیں
قربتوں میں بھی جُدائی کے زمانے مانگے دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لئے اب یہی ترک تعلق کے بہانے مانگے اپنا یہ حال ہے کہ جی ہار چکےلُٹ بھی چکے اور محبت وہی انداز پرانے مانگے زندگی ہم تیرے داغوں سے رہے شرمندہ اور تُو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جان فراز مل گئے تُم بھی تو کیا اور ناجانے مانگے
جو آنسو دل میں گرتے ہیں وہ آنکھوں میں نہیں رہتے بہت سے حرف ایسے ہیں جو لفظوں میں نہیں رہتے کتابوں میں لکھے جاتے ہیں دُنیا بھر کے افسانے مگر جن میں حقیقت ہو کتابوں میں نہیں رہتے بہار آئے تو ہر اک پھول پر اک ساتھ آتی ہے ہوا جن کا مقدر ہو وہ شاخوں میں نہیں رہتے لیے پھرتے ہیں کچھ احباب ایسے مضطرب سجدے جہاں دربار مل جائے جبینوں میں نہیں رہتے مہک اور تتلیوں کا نام بھونرے سے جُدا کیوں ہے کہ یہ بھی تو خزاں آنے پہ پھولوں میں نہیں رہتے امجد اسلام امجد
داغ لگے تو دھونے میں بھی عمر لگا دی ہم نے سپنے بونے میں بھی عمر لگا دی ہنستے تھے تو صدیاں حیراں ھوتی تھیں روئے تو پھر رونے میِں بھی عمر لگا دی بیگانے پن میں بھی اس نے عمر ِبتائی اور پھر میرے ھونے میں بھی عمر لگا دی