محترم بھائی وقاص راجہ ! بہت عمدہ پسند ہے آپ کی۔ ایک گزارش ہے اگر تصویری شاعری کے ساتھ اسی شعر کو اسی پوسٹ میں ساتھ ٹایپ بھی کر دیں تو زیادہ لوگ آپ کی پسند تک پہنچ سکیں گے۔ شکریہ
میں نہیں ہوں وہ ناصح جو عمل سے عاری ہو یعنی اک تونگر ہو اور پھر بھکاری ہو دل فگار دنیا کو بس طلب ہے مرہم کی اس زباں سے کیا حاصل کاٹ میں جو آری ہو دوسروں کی خاطر بھی کچھ نہ کچھ کرنا تھا زندگی وہ کیا جس میں اپنی جاں ہی پیاری ہو جو زمیں اپنوں پر تنگ ہوگئی آخر اس زمیں یو یوں سمجھو جیسے وہ ہماری ہو دردناک منظر نے دل دکھا دیا اپنا پھول جس میں کھلتے ہوں کوئی ایسی کیاری ہو مل کے سب اٹھائیں تو بوجھ کم نظر آئے سب کے دل میں ایک جذبہ اور ذمہ داری ہو یہ نفاق یہ نفرت خود بخود نہیں ابھری ایسا لگتا ہے شاید جان کر ابھاری ہو بے عمل دعاوں پر کر رہا ہے کیوں تکیہ کیا خبر نہیں تجھ کو اس میں تری خواری ہو تیرا نفس امارہ تیرا خود ہی دشمن ہے پہلے اس پہ اے غوری ایک ضرب کاری ہو