1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میری زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ،!!!!

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالرحمن سید, ‏6 اپریل 2011۔

  1. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    ایک دفعہ شاید سنمبر 1989 میں جب مجھے سعودی عرب کے ایک اسپتال کے لئے اکاؤنٹنٹ کی ملازمت کے سلسلے میں ایک آفر لیٹر ملا، جسے میں نے قبول کرکے اپنے دستخط کئے اور واپس بھیج کر ویزے کا انتظآر کرتا رہا، مگر افسوس کہ ویزا لیٹ ہوگیا کیونکہ یہاں پاکستان میں تمام ویزے میڈیکل فیلڈ کے تھے، تو اکتوبر 1989کے آخیر میں میرے نام پر ھی ویزا بھیجا گیا، کسی ایجنٹ کے نام پر نہیں تھا، اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ خود ہی قسمت آزمائی کی جائے، فوراً ہی میں سعودی سفارت خانہ پہنچا، وہاں پہلے ویزا کنفرم کیا، اور فارم کے ساتھ پاسپورٹ جمع کرادیا، لیکن ویزے کی قسم “میل نرس“ کی ہی تھی،

    دوسرے دن ہی مجھے پاسپورٹ بمعہ ویزا اسٹمپ ہوئے مل گیا، مجھے خود حیرانگی ہوئی، کہ کوئی بھی پریشانی آٹھائے ہوئے میرے پاسپورٹ پر ویزا لگ گیا جبکہ پہلے پاسپورٹ کی تجدید کرانے کے لئے بھی کافی پریشانی اٹھانی پڑی تھی،!!!!!!

    چلئے خیر اب ھم پہنچے پروٹیکٹر آفس جہاں پر نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ کی اسٹمپ لگتی ھے اور ساتھ ھی انشورینس بھی کرانی پڑتی ہے، پہلے دن تو کچھ تاخیر سے پہنچا تو لائن میں لگ کر جب کھڑکی تک پہنچا تو کھڑکی بند اور پھر دوسرے دن صبح صبح پہنچ گیا اس وقت بھی بہت بڑی لمبی لائن لگی ہوئی تھی، ایسا لگتا تھا کہ لوگوں نے یہیں پر ہی بستر لگائے ہوئے تھے، بہرحال جب نمبر آیا تو فارم پاسپورٹ کے ساتھ دیا، تو انہوں نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ پاسپورٹ پر اپنا پیشہ بدلواؤ، میں نے کہا کہ بھئی پاسپورٹ پر تو پرائویٹ سروس لکھا ہوا ہے، کھڑکی سے اس نے غصہ میں جواب دیا کہ تمھیں نظر نہیں اتا، کہ ویزے پر پیشہ تو “میل نرس“ کا ہے، پاسپورٹ پر بھی یہی پیشہ ہونا چاہئے،

    ٌلائن میں لگنے سے پہلے مجھے ایک صاحب ملے تھے اور کہا بھی تھا کہ اگر آپ اپنا کام جلدی کروانا چاہتے ہیں تو میں کرادونگا، وہی صاحب بعد میرے پاس آئے اور اپنی ٹوپی سیدھی کرتے ہوئے بولے، !!!!!!
    کیا ہوا بھائی کام نہیں ہوا کیا،؟؟؟؟؟؟

    میں نے مایوسی کی حالت میں کہا کہ،!!!
    نہیں اس نے پاسپورٹ پر پیشہ بدلوانے کو کہا ہے،!!!!!!

    اس آدمی نے میرا پاسپورٹ لیا اور دیکھنے لگا، اور کچھ دیکھ کر کہا!!!!
    ہاں بھئی پاسپورٹ آفس جاؤ اور وہاں سے اپنا پیشہ بدلوا کر لاؤ، اور باقی کام میں کرادوں گا،!!!!!

    میرا سارا دن وہیں پر ضائع ہو گیا ، مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ویزا “میل نرس“ کا ہی تھا، کیونکہ یہاں پاکستان میں اس اسپتال کے سارے ویزے میڈیکل فیلڈ سے ہی تعلق رکھتے تھے، اور میرے پاسپورٹ پر صرف “پرائویٹ سروس“ ہی لکھا ہوا تھا، مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس پر کوئی اعتراص تو نہیں ہونا چاہئے تھا، کیونکہ سعودی ایمبیسی نے کوئی بھی اعتراض نہیں ‌اٹھایا تھا، میں نے وہاں سعودی عرب میں اسی اسپتال میں ٹیلیفوں پر بات بھی کی، وھاں سے جواب ملا کہ آپ کا پیشہ یہاں آئیں گے تو بدل دیا جائے گا، لیکن اس وقت ہمارے پاس پاکستان کیلئے صرف میڈیکل پیشے سے تعلق رکھنے والے ہی ویزے ہیں، مجبوری ہے!!!!!

    مجبوراً میں وہاں پاسپوٹ آفس پہنچا، کافی پریشانی اٹھائی لیکن سیدھے طریقے سے میرا پیشہ بدل نہیں سکا، جبکہ میں نے ساری صورت حال انہیں بتائی کہ میں تو ایک اکاؤنٹنٹ ہوں اور مجھے وہاں سے ایک آفر لیٹر میں بھی دکھایا جس میں اکاونٹٹ کی ہی تقرری لکھی ہوئی تھی، لیکن وہاں کے کسی بھی انچارج کو میں قائل نہ کرسکا، انہوں نے کہ یہ اسی صورت ہوسکتا ہے کہ آپ “میل نرس“ کا سرٹیفیکیٹ یہاں کے مقامی اسپتال سے لے آئیں اور وہ “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ ہونا چاہئے،!!!!

    میں پاسپورٹ آفس کے مین گیٹ سے مایوسی کے عالم میں باھر نکلا تو کافی لوگ میری حالت دیکھ کر چپک گئے، بھائی صاحب آپ بتائے آپ کا کام کیا ہے ہم فوراً ابھی اسی وقت آپکا کام کرادیں گے، مجھے سامنے ہی وہی آدمی نظر آیا جس نے میرے پاسپورٹ کی تجدید کرائی تھی، وہ میرے پاس آیا اور سب لوگوں کو یہ کہہ کر بھگا دیا کہ یہ میرے گاھک ھیں،!!!، میں بھی انکی ٹیبل کے سامنے ایک اسٹول پر جاکر بیٹھ گیا، اور ساری روداد سنادی، انہوں نے کہا کہ جب میں یہاں آپکا خادم باھر میز لگا کر بیٹھا ہوں تو آپ کو اِدھر اُدھر بھٹکنے کی کیا ضرورت ہے،پہلے بھی آپکو پاسپورٹ تجدید کرانے میں کتنی مشکل پیش آئی تھی اور میں نے آپکا کام ایک گھنٹے میں کروادیا تھا، اب جب بھی کوئی بھی پاسپورٹ کے علاوہ بھی کوئی اور کسی بھی گورنمنٹ کے کھاتے کا کام ہو میرے پاس تشریف لائیں، میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپکا کام فوراً سے پیشتر کروادوں گا، مگر جیسا کام ویسا ہی دام بھی ہوگا!!!!

    مجبوری تھی کیونکہ اس ویزے کے آتے ہی میں یہاں ایک اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، بال بچوں کے ساتھ تھا اور والدین بہن بھائی سب تھے ساتھ ہی گھر کا میں بڑا بیٹا بھی تھا، کیا کرتا مجبوراً میں نے اس سے پوچھا اسکے کتنے دام ہونگے،اس نے 500 روپے کا نسخہ بتایا اور اس وقت 300 روپے گورنمنٹ کی فیس اس کے علاؤہ تھی جوکہ میں پہلے ہی بنک میں جمع کراچکا تھا، میں نے بھی کچھ رقم اسی سلسلے کے لئے ایک دوست سے ادھار لی ھوئی تھی، اسی وقت اسے اس کی مطلوبہ رقم اس کے ہاتھ میں رکھی، اور اس نے مجھ سے پاسپورٹ، فارم لئے اور اندر چلا گیا، اور صرف آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہ باھر آگیا، میں سمجھا کہ شاید میرا کام نہیں ہوا، لیکن اس نے مجھے پاسپورٹ دے دیا، کھول کر دیکھا تو میرے پیشہ تبدیل ہوچکا تھا، اور ایک صفحہ پر تصدیق شدہ مہر کے ساتھ اور متعلقہ انچارج کے دستخط کے ساتھ، !!!!!!

    کمال ہے میں نے اس سے پوچھا بھئی یہ کیسے ہوگیا، اس نے جواب دیا کہ جتنے بھی اندر بیٹھے ہیں، سارے چور ہیں اور ہم سے پیسہ لے کر کام کرتے ہیں، اور ہم بھی یہاں پر کچھ ان کی بدولت کچھ نہ کچھ کما لیتے ہیں، اگر کوئی بھی کام ہوا کرے میرے پاس بلاجھجک چلے آنا، میں تمھارے لئے کچھ نہ کچھ رعائت کردونگا، میری شکل پہچان لو، یہیں میں گیٹ کے سامنے بیٹھتا ہوں،!!!!!!

    میں نے بھی سکون کا سانس لیا، اور دوسرے دن صبح صبح پروٹیکٹر آفس پہنچا اور میں جاکر سیدھا لائن میں لگ گیا، میں نہیں چاھتا تھا کہ اس آدمی سے ملوں اور پھر کوئی دوسرا غلط طریقہ اختیار کروں، اب تو کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا اور پاسپورٹ پر پیشہ “میل نرس“ کا تبدیل ہوچکا تھا، مجھے اس وقت مکمل امید تھی کہ اب کوئی اعتراض نہیں اٹھے گا، جب میرا نمبر آیا تو انھوں نے میرا نرسنگ کا سرٹیفکیٹ مانگا جو کہ “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ بھی ہو، اور اس کے علاوہ انہوں نے ایک اور مسئلہ کھڑا کردیا کہ بھئی آج کل تو میڈیکل اسٹاف کو باھر جانے کیلئے وزارتِ صحت“ یعنی “منسٹری آف ھیلتھ“ سے اجازت نامہ یعنی “نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ“ لینا ضروری ہے،

    میں نے ان کو پھر نئے سرے سے پھر اپنے اکاونٹنٹ‌ کی سروس کا لیٹر دکھاتے ہوئے ساری روداد سنائی، مگر انہوں نے اپنی مجبوری ظاھر کرتے ہوئے انکار کردیا، !!!!!

    جیسے ہی میں وہاں سے مایوس ہوکر باھر نکلا تو وہی آدمی پھر مل گیا، اور کہا،!!!! ہاں بھائی سناؤ تمھارا کام بنا یا نہیں،!!!!!

    میں نے جواب دیا کہ!!!! نہیں انہوں نے انکار کردیا، کیونکہ انہیں وزارتِ صحت سے اجازت نامہ چاہئے، اب یہ میں کہاں سے لاؤں،!!!!!!

    اس نے فوراً کہا،!!!
    دیکھو اس چکر میں نہ پڑو، اگر تم چاہتے ہو کہ تمھارا کام ہوجائے، تو مجھے کہو میں تمھارا آج ہی اور اسی وقت تمھارا کام کرادیتا ہوں،!!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!
    کیسے ہوگا یہ کام بھائی صاحب،!!!!

    اس نے جواب دیا کہ،!!!
    بس صرف پانچ ہزار روپے ہدیہ دینا ہوگا اور باقی گورنمنٹ کی فیس اور انشورینس وغیرہ الگ سے ادا کرنے ہونگے،!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!
    اس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں ہے، !!!!!

    اس نے تنزیہ انداز میں کہا کہ،!!!
    ہاں دوسری تجویز بھی ہے، یہاں سے تمھیں اسلام آباد جانا ہوگا، وہاں پر وزارت صحت کے دفتر پہنچو، اور اپنی درخوست دو تو شاید وہ کچھ تمھاری فریاد پر غور کریں اور تمھیں باھر جانے کا اجازت نامہ دے دیں، مگر یہ اتنا آسان نہین ‌ہے بھائی، مجھے 5000 روپے دو اور فوراً اپنا کام ابھی اور اسی وقت کرالو،!!!!

    میرا دل نہیں مانا میں تو یہ سمجھا کہ شاید یہ مجھ سے بس روہے اینٹھنا چاھتا ہے، میں نے اس سے کل کے آنے کا بہانہ کرکے اس سے جان چھڑائی اور وہ شخص مجھے آخری وقت تک قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن میں اسکی ہاں میں ہاں ملاتا ہوا بس اسٹاپ تک پہنچا، وہ بھی میرے پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا، شاید آج اس کے پاس کوئی مرغا نہیں پھنسا تھا اور آخرکار مجھے اسکو چائے پلا کر ہی فارغ کرنا پڑا، مجھے تو وہ کوئی فراڈ ہی لگ رہا تھا،!!!!!!

    تھک ھار کر میں گھر پر آگیا اور مجھے بہت ہی دکھ ہو رہا تھا، اسی چکر میں اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، اور ادھار پر ادھار لئے جارھا تھا، ویزا تو لگ چکا تھا، پاسپورٹ پر بھی پیشہ تبدیل ہوچکا تھا، اور اسی دوران ویزے کو لگے ہوئے بھی ایک مہینہ گزر چکا تھا، ویزے کی معیاد شاید تین مہینے کی تھی، نومبر1989 کا آخری ھفتہ چل رھا تھا، نوکری چھوڑے ہوئے بھی دو مہینے ہو چکے تھے، ایک ہمارے جاننے والوں کے پاس پارٹ ٹائم ایک جاب کرنے لگا، جہاں سے وہ مجھے گزارے کیلئے ھر ھفتے کچھ نہ کچھ گزارے کیلئے میرے ھاتھ میں رقم رکھ دیتے تھے، میں ان کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا کہ انہوں نے میری اس مشکل کے دنوں میں مدد کی،!!!!

    بہرحال میں کچھ مایوس ہو چکا تھا، ھر کوئی مجھے ایک نیا مشورہ دے رھا تھا، والد صاحب مجھ سے الگ ناراض تھے، کہ نوکری چھوڑ کر ویزے کے چکر میں دو مہینے ضائع کرچکا تھا، جبکہ انہیں تمام کہانی سنا بھی دی لیکن انہیں سمجھ نہ آئی، خیر میں دوسرے دن ھی صرف اپنی بیگم کو اور امی کو بتا کر اسلام آباد روانہ ہوگیا، تاکہ وہاں سے وزارت صحت سے میرے باھر جانے کا اجازت نامہ لے لوں، شناختی کارڈ پاسپورٹ اور تمام ضروری دستاویزات، اسکول کالج سب اصل سرٹیفکیٹ اور ڈگری لئے اسلام آباد پہنچ گیا، دسمبر 1989 کا مہینہ شروع ہوچکا تھا،!!!!!

    وہاں اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں پہنچا انہیں اپنی تمام کہانی شروع سے سنائی، اور وہ مجھے انکے دوست کے پاس لے گئے، ان کو پھر نئے سرے سے ساری کہانی سنادی، انہوں نے کہا کہ میں کوشش کرکے دیکھتا ہوں، دوسرے دن ان صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بہت مشکل ہے اس کے لئے تو سب سے نرسنگ کا سرٹیفکیٹ بنوانا پڑے گا پھر اسے “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے رجسٹر کروا کر باقائدہ تصدیق کرانا ہوگا، اور پھر اس تمام پروسس کے بعد آپ باھر جانے کیلئے وزارت صحت کو اجازت نامہ کیلئے درخواست دینی ھوگی، اب ان کی مرضی ہے کہ اجازت دیں یا نہ دیں،!!!!

    اس تمام کاروائی کیلئے ایک صاحب نے کہا کہ وہ یہ سارے کام کروادیں گے لیکن اس پر 45000 روپے تک کا خرچہ آئے گا، میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا، ہر دفعہ کوئی نئی مشکل کھڑی ہوجاتی ہے، پھر میں نے ایک کوشش اور ایک اور دوست جو میرے ساتھ پہلے 1978 سے 1983 تک سعودی عرب میں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں ساتھ کام کرچکے تھے، ان کے پاس پہنچا، وہ مجھے ایک کسی حکومت وقت کے ایک سیاسی کارکن کے پاس لے گئے، وہ مجھے فوراً ساتھ لے کر راولپنڈی کے پروٹیکٹر آف امیگریشن کے آفس لے گئے اور وہاں وہ مجھے سیدھا ایک ڈائریکٹر کتے پاس لے گئے، انہوں نے کہا کہ فارم وغیرہ بھر دو، اور کھڑکی پر جمع کرادو، فارم پہلے ہی سے میرے پاس پہلے کا بھرا ہوا رکھا تھا اس فارم پر انہوں نے دستخط کئے، اور میں نے کاونٹر پر جمع کرادیا، اور جو میرے ساتھ آئے تھے وہ واپس چلے گئے، خیر مجھے انتظار کرنے کو کہا گیا کچھ ہی دیر میں ایک صاحب نے مجھے کاونٹر سے ہی پاسپورٹ بغیر پروٹیکٹر اسٹیمپ کے واپس کردیا، میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کاغذات مکمل نہ ہونے کا بہانہ کیا، دو تین دفعہ اسی طرح سفارش سے کام کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، اب تو میں ھمت ہار چکا تھا،!!!!!

    اسی طرح مجھے وہاں پر تقریباً 20 دن گزر چکے تھے، سخت سردیوں کے دن تھے میں نے اپنا ارادہ باھر جانے کا ترک کیا، اور راولپنڈی میں اپنی پرانی کنسٹرکشن کمپنی کے ھیڈ آفس پہنچ گیا اور وھاں اپنے تمام پرانے دوستوں سے ملاقات کی، ایک میرے پرانے باس جناب خواجہ خالد محمود صاحب کے پاس کافی دیر تک بیٹھا، اور اپنے سارے دکھ درد ان سے کہہ ڈالے، اور کہا کہ مجھے اب دوبارا یہیں پر آپ مجھے نوکری دلوادیں کیونکہ میں واپس خالی ھاتھ اسی طرح نہیں جاسکتا، کیونکہ والد صاحب بہت غصہ ہونگے، میں تو ان سے پوچھے بغیر یہاں آیا تھا،!!!!

    خواجہ خالد محمود صاحب نے مجھے کافی حوصلہ دلایا، اور کہا کہ،!!!! ایک کوشش اور کرکے دیکھتے ہیں، ایک میرے ڈاکٹر دوست ایک اسپتال میں کام کرتے ھیں، گھبراؤ نہیں، اگر کہیں کچھ نہ ہوسکا تو اسی کمپنی میں تمھارے لئے ضرور کوشش کریں گے، اور انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ہے کہ تم خالی ہاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!

    وہ پھر مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور وہاں ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا، اور بعد میں میں نے ان سے اجازت لی، انہوں نے مجھے تاکید کی کہ شام کو یہیں میرے گھر پر آجانا تو ہم دونوں مل کر ساتھ اسپتال ایک دوست کے پاس چلیں گے اور تمھارے نرسنگ کے سرٹیفکیٹ کے بارے میں معلومات کریں گے، اسکے وزارت ھیلتھ میں بھی کافی تعلقات ہیں !!!!!!!

    مجھے ایک اور امید کی کرن نظر آئی، اور کچھ دل میں ایک سکون سا محسوس ہوا، اسی دوران میں وہاں سے وقت گزارنے کیلئے ایک دوست کے پاس چلا گیا، اور شام ہوتے ھی وعدے کے مظابق خالد محمود صاحب کے گھر پہنچا، تو دیکھا کہ ان کے گھر پر تالا لگا ہوا تھا، میں نے وہاں کھڑے ہوئے چند لوگوں سے پوچھا کہ خواجہ خالدصاحب کا پتہ ہے کہاں چلے گئے، ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ان کا کچھ دیر پہلے ہی ہارٹ اٹیک کے سبب انتقال ہوچکا ھے ان کی میت اس وقت ان کے والد صاحب کے گھر پر ہے، جو کوہ نور ملز میں کام کرتے ہیں،اور وہیں انکے بنگلے سے ہی رات کو عشاء کے بعد ان کی تدفین نزدیکی قبرستان میں ہوگی،!!!!

    یہ سنتے ہی میرے پیروں کے تلے سے زمین نکل گئی اور مجھے چکر سے آنے لگے اور میں ‌وہیں زمین پر بیٹھ گیا، اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے،!!!!!!

    اپنی زندگی میں ایسی ٹریجڈی میں‌ نے کبھی نہیں دیکھی تھی، کچھ وقت پہلے ہی میں نے ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا تھا، وہ میری سابقہ ملازمت کے دوران میرے بہت ہی مہربان انجارج رہے تھے، جب میں اسی شہر راولپنڈی میں ہی اس کمپنی میں 1983 سے 1985 تک میرا ان کا بہت ہی اچھا ساتھ رہا تھا، اور وہ ھمیشہ سب کے ساتھ بغیر کسی عذر کے خدمت کرتے رہے، اور آج شاید میری ان سے آخری ملاقات ہونی تھی، اس لئے میں ان سے کسی کام کے سلسلے میں مدد کیلئے آیا تھا، لیکن وہ میری مدد کئے بغیر ہی چلے گئے، مگر ان کی دعاء آج تک مجھے یاد ہے کہ “ انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ہے کہ تم خالی ہاتھ واپس نہیں جاؤ گے“،!!!!!“

    میں وہاں سے سیدھا خواجہ خالد محمود صاحب کے گھر کوہ نور ملز کے رھائشی بنگلوز میں پہنچا، اور وہاں پر کافی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ان کا آخری دیدار کرنے آئے تھے، ان میں سے کافی میرے بھی جاننے والے تھے اور سب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کچھ تو دھاڑیں مار کر رو رہے تھے، انکے بھائی سے مہیں پر میری اچانک ملاقات ہوئی، ان سے میری ملاقات ان کے مرحوم بھائی کے گھر پر ہی دوپہر میں کھانے پر ملاقات ہوئی تھی، جہاں وہ بھی اس وقت موجود تھے، وہ مجھ سے لپٹ گئے اور روتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آج آپکے ساتھ وہ دوپہر میں کھانے پر بالکل صحیح سلامت تھے ، اور اس وقت دیکھو ان کی میت رکھی ہوئی ہے،!!!! انکے والد صاحب بھی بہت رو رہے تھے،!!!!!

    مجھے وہ اپنے ساتھ اندر لے گئے اور آخری دیدار کرایا، مجھے یقیں ہی نہیں آرہا تھا کہ انکا انتقال ہو گیا ہے، ان کا چہرہ بالکل ہشاش بشاش لگ رہا تھا، لگتا تھا کہ وہ ابھی اٹھیں گے اور کہیں گے چلو سید بھائی اور میرے ساتھ میرے کام کے لئے چل دیں گے، ان کے اس حادثہ کے بعد تو میں نے اپنا باھر جانے کا اردہ بدل ہی لیا تھا،!!!!!!

    خواجہ صاحب کی تدفین کے بعد سب سے رخصت لیتا ہوا، میں سیدھا اپنے دوست کے پاس آیا اور دوسرے دن اسی اپنی پرانی کمپنی میں دوستوں سے ملنے کیلئے گیا، اس دن اس کمپنی میں بالکل سوگ کا عالم تھا، سب سے ملتے ہوئے میں اجازت لے رہا تو ایک انکے ہی دوست جناب حاجی نسیم صاحب نے مجھ سے کہا کہ تمھارا کام اب میں کراونگا اس وقت میرے ساتھ چلو، وہ میرے والد صاحب کے دوستوں میں سے بھی تھے، مگر میں بے دلی سے صرف انکا دل رکھنے کیلئے ان کے ساتھ چل دیا،

    وہ مجھے ان کے دوست کی ایک ٹریول ایجنسی پر لے گئے، اور وہاں انہوں نے کہا کہ یہ میرے بچوں سے بھی زیادہ عزیز ہے اس کا کام ہونا چاھئے، ساری کہانی پھر سے میں نے سنائی، انہوں نے کہا کہ،!!!! کوئی مسئلہ ہی نہیں حاجی صاحب کل اسکا کام ہوجائے گا، اپ کوئی فکر ہی نہ کریں میں نے انہیں سارے دستاویزات دکھائے، انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاھئے آپ بس مجھے پاسپورٹ دے دیں اور کل آکر کسی بھی وقت لے جائیں، !!!!!!

    مجھے امید تو بالکل نہیں تھی لیکن مجھے مرحوم خواجہ خالد محمود صاحب کی ایک دعاء پھر یاد آرھی تھی،!!!!!

    انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!

    دوسرے دن میں اسی ٹریول ایجنسی پر پہنچا اور وھاں پر انہوں نے مجھے کچھ انتظار کرنے کو کہا اور کسی کو ٹیلیفون کیا پھر کچھ ہی دیر میں ایک صاحب داخل ھوئے انہوں نے ان صاحب کو میرا پاسپورٹ دیا، انہوں نے پاسپورٹ کو چیک کیا اور مجھے تھما دیا کہ جاؤ بیٹا خوش رھو تمھارا کام ھوگیا، بس مجھے صرف 219 روپے انہیں دینے پڑے، مجھے تو یہ حیرت انگیز ھی دکھائی دے رہا تھا، اور مجھے یہ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میرا کام ہوگیا ہے اور وہ بھی صرف 219 روپے میں،!!!!!!!! اور میں 31 دسمبر 1989 کو کراچی ائرپورٹ سے جدہ کیلئے ایک سعودیہ کی پرواز سے روانہ ہوگیا،!!!!!!

    پرواز کے دوران میرے کانوں میں مرحوم خواجہ خالد محمود صاحب کی یہ دعاء گونجتی رہی تھی،!!!!!!!!
    انشااللہ تعالیٰ میری دعاء یہی ہے کہ تم خالی ہاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!

    لیکن افسوس اور دکھ کی بات یہ تھی، کہ میرے والد جو مجھے بہت چاہتے تھے، میری جدائی ان سے برداشت نہ ہو سکی، اور انہوں نے میرے پردیس جانے کو بہت ہی زیادہ اپنے دل ودماغ پر سوار کرلیا اور میرے جدہ پہنچنے کے 12 دن بعد ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، اللٌہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفدوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،!!! آمین،!!!! اس سے بڑھ کر میرے لئے بہت ہی تکلیف دہ بات یہ تھی کہ میں واپس پاکستان جا نہیں سکتا تھا کیونکہ میرا پاسپورٹ میری آمد کی رجسٹریشن کیلئے وہاں کے جوازات کے آفس میں وہاں کے اقامہ اور ملازمت کے اجازت نامہ کے لئے جمع ہو چکا تھا۔

    میں اس سانحہ کو کبھی بھی بھول نہیں سکتا ہوں، وہ بہے ہی سب کی نظروں میں بہت ہی اچھے اور مہربان انسان تھے، ہر ایک ان سے بہت انسیت رکھتا تھا، اور میرے تو بہت ہی شفیق باپ تھے،!!!!!
     
  2. نورمحمد
    آف لائن

    نورمحمد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 مارچ 2011
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میری زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ،!!!!

    سبحان اللہ

    شکریہ سید صاحب - بہت عجیب واقعہ ہے ۔ حقیقت میں جب برے دن آتے ہیں تو بنتے کام بھی بگڑ جاتے ہیں ۔ اللہ تعالی ایسے وقت میں صبر کرنے کی توفیق نصیب کرے ۔

    جزاک اللہ
     
  3. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میری زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ،!!!!


    بہت شکریہ نور محمد صاحب، یہ واگعہ میں پہلے بھی اپنی کہانی، "یادوں کی پٹاری" میں لکھ چکا ہوں،

    لیکن افسوس اور دکھ کی بات یہ تھی، کہ میرے والد جو مجھے بہت چاہتے تھے، میری جدائی ان سے برداشت نہ ہو سکی، اور انہوں نے میرے پردیس جانے کو بہت ہی زیادہ اپنے دل ودماغ پر سوار کرلیا اور میرے جدہ پہنچنے کے 12 دن بعد 12 جنوری 1990 کو ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، اللٌہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفدوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،!!! آمین،!!!! اس سے بڑھ کر میرے لئے بہت ہی تکلیف دہ بات یہ تھی کہ میں واپس پاکستان جا نہیں سکتا تھا کیونکہ میرا پاسپورٹ میری آمد کی رجسٹریشن کیلئے وہاں کے جوازات کے آفس میں وہاں کے اقامہ اور ملازمت کے اجازت نامہ کے لئے جمع ہو چکا تھا۔

    میں اس سانحہ کو کبھی بھی بھول نہیں سکتا ہوں، وہ بہے ہی سب کی نظروں میں بہت ہی اچھے اور مہربان انسان تھے، ہر ایک ان سے بہت انسیت رکھتا تھا، اور میرے تو بہت ہی شفیق باپ تھے،!!!!!
     
  4. نورمحمد
    آف لائن

    نورمحمد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 مارچ 2011
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میری زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ،!!!!

    آہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ۔ ۔ ۔سید صاحب ۔ ۔ بہت افسوس ہوا یہ سن کر ۔ ۔ ۔ میرے پاس آپ سے ہمدردی جتانے کے لئے الفاظ ہی نہیں ہیں بس دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کے والد صاحب کی مغفرت فرمائے اور جنت الفدوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے -
     
  5. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میری زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ،!!!!

    آمین ثمہ آمین، !!!!!نور محمد صاحب، آپ کی دعاؤں کیلئے میں تہہ دل سے ممنوں ہوں،!!!

    خوش رہیں،!!!
     
  6. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میری زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ،!!!!

    سید انکل پڑھ کر بہت کچھ حاصل ہوا :222:

    اللہ تعالی آپ کے مرحوم دوست اور والد صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے آمین
     
  7. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میری زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ،!!!!

    آمین ثمہ آمین،!!!!!
    بہت بہت شکریہ حسن جی،

    زندگی ہی میں اللٌہ تعالیٰ اتنے امتحانات سے گزارتا ہے کہ جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، ان سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے، !!!!

    خوش رہیں،!!!!
     
  8. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: میری زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ،!!!!

    بہت شکریہ سید انکل مجھے مزید انتظار ہے آپ کی شیئرنگ کا :222:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں