نجوم و قمر - طرحی غزل ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ جلتے ہیں تیز دھوپ میں پر بولتے نہیں گلشن میں چپ کھڑے ہیں شجر بولتے نہیں صحرا کو دے رہے ہیں گلستاں کا روپ ہم یہ کام گو اہم ہے مگر بولتے نہیں رہتا ہے تیرا ہجر کی راتوں میں انتظار "ہم تجھ سے اے نسیم سحر بولتے نہیں" آسان منزلیں بھی ہوئی ہیں بہت کٹھن مجھ سے مرے شریک سفر بولتے نہیں جھونکے ہوا کے بھر گئے نفرت سے کیا یہاں کیا وجہ کیوں بشر سے بشر بولتے نہیں مسند جو مل گئی ہے تو اترا رہے ہیں وہ ورنہ خلاف شان دگر بولتے نہیں وہ دیکھ تو رہے ہیں بہت دور تک مگر خاموش ہیں سب اہل نظر بولتے نہیں برسوں سے ہم نوالہ بھی ہیں ہم پیالہ بھی لیکن بجز زبان شرر بولتے نہیں کرتا ہے ان سے رات میں پہروں وہ گفتگو غوری سے کیوں نجوم و قمر بولتے نہیں ٭ ٭ ٭ ٭ عبدالقیوم خان غوری
جواب: میری بیاض (3) واہ ما شاء اللہ واہ ۔ سبحان اللہ بہت ہی اعلیٰ مضامین نکالے ہیں بھائی آپ نے خوش رہیں۔ ایک ایک شعر قابل داد ہے
جواب: میری بیاض (3) طاہرہ مسعود بہن آپ کی پسندیدگی کا شکریہ۔ میری غزلوں میں ہر شعر اپنے اندر ایک مضمون کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میری تمام غزلیں تقریبا اڑھائی ماہ میں مکمل ہوئیں۔ پہلے خیالات کو بننا، پھر انھیں سانچوں میں ڈھالنا، پھر ردیف قافیے کی قید برداشت کرنا، پھر میزان کرنا، پھر نوک پلک سنوارنا، اور پھر آستاد محترم سے اصلاح و بحور اور اوزان کی چانچ پڑتال کروانا۔ کس قدر خون جگر سے سینچنا پڑتا ہے ایک غزل کہنے میں، یہ تو کہنے والا ہی جانتا ہے۔ اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھیں۔