نفس امارہ ٭ ٭ ٭ میں نہیں ہوں وہ ناصح جو عمل سے عاری ہو یعنی اک تونگر ہو، اور پھر بھکاری ہو دل فگار دنیا کو بس طلب ہے مرہم کی اس زبان سے کیا حاصل کاٹ میں جو آری ہو دوسروں کی خاطر بھی کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا زندگی وہ کیا جس میں اپنی جاں ہی پیاری ہو جو زمین اپنوں پر تنگ ہو گئی آخر اس زمیں کو یوں سمجھو جیسے وہ ہماری ہو دردناک منظر نے دل دکھا دیا اپنا پھول جس میں کھلتے ہوں کوئی ایسی کیاری ہو مل کے سب اٹھائیں تو بوجھ کم نظر آئے سب کے دل میں اک جذبہ اور ذمہ داری ہو یہ نفاق یہ نفرت خود بخود نہیں ابھری ایسا لگتا ہے شاید جان کر ابھاری ہو بے عمل دعاؤں پر کررہا ہے کیوں تکیہ کیا خبر نہیں تجھ کو اس میں تری خواری ہو تیرا نفس امارہ تیرا خود ہی دشمن ہے پہلے اس پہ اے غوری ایک ضرب کاری ہو = = = = = عبدالقیوم خان غوری – الجبیل الصناعیة، المملكة العربية السعودية
جواب: میری بیاض (2) اس غزل میں ہر شعر ایک کہانی ہے۔ کہیں کراچی میں فتنہ پروری، کہیں بنگلا دیش میں محصور پاکستانی (جن کی دوسری نسل) بھی جوان ہوگئی۔ کہیں فرقہ واریت ۔۔۔۔ میں نے ہمیشہ پریکٹیکل شاعری کی مگر اسے پسند کرنے والے ایک آدھ ہی ہوتے ہیں۔ دنیا گلیمر کی دیوانی ہے (کھوکھلی باتیں) لوگوں کو زیادہ ایٹریکٹ کرتی ہیں۔ آپ کی پسندیدگی کا شکریہ۔ آپ کو رمضان مبارک ہو۔