شیریں کلامی ٭ ٭ ٭ نہیں تھا ذہن میں کوئی تصور تک مسافت کا مگر آیا ہے لے کر شوق مجھ کو تیری چاہت کا بہت پر پیچ راہیں تھیں مگر وہ کٹ گئیں پل میں کمال اپنا نہیں، اعجاز ہے تیری رفاقت کا اگر سینہ سپر باطل کے آگے ہم نہیں ہوں گے ثبوت اس کو ملے گا کیسے ایماں کی صداقت کا نہ لو تم بخل سے کچھ کام اب شیریں کلامی میں مزا جاتا رہے گا ورنہ لفظوں کی حلاوت کا میسر آ گئ جس شخص کو افکار کی دولت اسی کے ذہن کو ادراک ہوتا ہے بلاغت کا قدم اک بار اٹھتے ہیں تو پھر رکتے نہیں ہرگز ازل سے ہے یہی دستور دل والوں کی چاہت کا شعور و فہم کی عقل و خرد کی آبیاری س ے ابل پڑتا ہے چشمہ کوئی تحسین فراست کا زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں اکثر کچھ مناظر سے نہیں ہے دخل، کم گوئی میں کچھ انساں کی عادت کا جنھیں ملتا ہے اعلی ظرف اور کردار اے غوری نہیں کرتے کبھی پرچار وہ اپنی شرافت کا ٭ ٭ ٭ عبدالقیوم خان غوری