1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میری امی، میری سپر ہیرو

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏15 مئی 2018۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    میری امی، میری سپر ہیرو

    کائنات کی سب ماؤں کی کہانی ایک سی ہوتی ہے۔ محبت، مہربانی اور قربانی کی کہانی۔ جس کہانی میں یہ سب نہ ہو، وہ عورت تو ہو سکتی ہے، بچہ پیدا کرنے والی مشین بھی ہو سکتی ہے، مگر ماں نہیں، دوسری طرف وہ عورت جو کسی طبّی مجبوری کی وجہ سے بچہ پیدا کر نے کی اہل نہ ہو مگر یہ سب محبت، قربانی اور مہربانی کر نے کی اہلیت رکھتی ہو، وہ بچہ نہ جننے کے باوجود ماں ہوتی ہے۔ ماں کے رتبے کا صرف بچہ پیدا کر دینے سے تعلق نہیں، کیونکہ ماں وہ عورت ہوتی ہے جو حالات کیسے بھی ہوں اپنے بچوں سے پیار کر نا نہیں چھوڑتی، اپنے بچوں کو نہیں چھوڑتی۔ وہ خوشیوں کو بچوں کی خاطر چھوڑ دیتی ہیں، اپنی خوشیوں کی خاطر بچے نہیں چھوڑ تی۔ تو آج کے مشینی دور میں عورت اور ماں کے فرق کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ کئی عورتیں بچوں کو، صرف جنم دے کے عمر بھر کے لیے جذباتی بلیک میلنگ کا ہتھیار بنا لیتی ہیں اور جو اصلی مائیں ہیں وہ سب کرنے کے بعد بھی بچوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہتی ہیں۔

    ماں کو زمانہ ستائے یا بچے، پھر بھی اس کا دل دنیا کی وہ واحد مسجد رہتی ہے جہاں سے انسان کے لیے صرف دعا نکلتی ہے۔ ورنہ تو دنیا نام ہے لین دین کا۔ اس رشتے کو رب نے اپنی شکل میں دنیا میں اتار دیا۔ اس نے کہا میں ہر جگہ ہو تا تو ہوں لیکن ہر کسی سے ایک جیسی محبت نہیں کر سکتا تو اس کا حل یہی تھا کہ ماں بنا دی جائے جو خدا کی بنائی مخلوق کو بے لوث اور بے غرض پیار سے نوازتی جائے۔

    مدرز ڈے… میں ان سب بچوں کی زبان بن کر ان ساری ماؤں کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں، جو عورت بعد میں اور ماں پہلے ہیں۔ جنہوں نے اپنا حسن، جوانی، ذہانت، خواہش، سب اپنے بچوں میں رکھ دیں، اور خود مٹ گئیں، مگر یہ مٹنا ایسا مٹنا ہوتا ہے، جو کبھی مٹتا نہیں، آپ کے بچوں میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ اور ایک ماں کی خوشی اور اطمینان اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ اس کے بچے دنیا کے حسین، صحت مند، لائق فائق، کامیاب بچے بن جائیں؟ ایسا نہ ہو تو ماں کو اپنا حسن، صحت، ذہانت، اور کامیابی، سب زہر لگنے لگ جاتی ہیں۔ ایک دفعہ پھر سے یاد کرا دوں میں ماؤں کی بات کر رہی ہوں، عورتوں کی نہیں۔ مائیں جو صرف بچوں کو جنم ہی نہیں دیتیں، ان کی پرورش، خوشی، صحت کے لیے، اپنا آپ زندگی کے آخری لمحے تک حاضر جناب رکھتی ہے۔ بچے لاکھ گستاخ ہو جائیں، قسمت ان ماؤں پر جتنی بھی نا مہربان ہو جائے، حالات کتنے بھی دشوار گزار ہو جائیں، وہ ساری دنیا سے کنارہ کش ہو جائیں، مگر ان کے ماتھے پر اپنے بچوں کے لیے available کا بورڈ لگا ہی رہتا ہے۔ صرف موت ہی ہے جو لے جائے تو ماں، بچے کے بلکنے رونے بلانے پر، واپس نہیں آتی، آ کر اپنی گود میں اس کا سر نہیں رکھتی، اس کو یہ نہیں کہتی بچے فکر نہ کر میں آگئی ہوں۔ بس تب ہی نہیں وہ ہوتی، ورنہ تو ماں ہر جگہ ہوتی ہے۔

    یہ تو ہو گئی سب ماؤں کی بات، مگر ایک بات ہے جو میری ماں کی ہے اور وہ یہ کہ وہ صرف میری ماں نہیں میری ہیرو بھی ہے، اور ہیرو بھی صرف ہیرو نہیں بلکہ سپر ہیرو۔ "ایوینجرز" میں جو کام سب ہیرو مل جل کر رہے ہیں، میں نے اپنی ماں کو اکیلے کرتے دیکھا ہے۔

    ہر ناممکن کو ممکن بناتے ہوئے، ہر قسم کے حالات میں ڈٹے ہوئے، زندگی میں بار بار گری ہوئی عمارت کو نئے سرے سے پہلی اینٹ کے ساتھ جوڑتے ہوئے، زندگی میں آنے والے مصیبتوں کے مانسٹرز سے بہادری سے ٹکراتے ہو ئے۔ بچوں کو مشکل سے بچانے کا وقت ہو تو، کبھی سپائڈر میں، تو کبھی آئرن مین، کبھی کپیٹن امریکہ، کبھی تھور تو کبھی ہلک۔ میں نے تو اپنی ماں کو ایسی ہی حالتوں میں دیکھا۔

    ماؤں کی کہانیاں بہت طویل ہوتی ہیں، پوری الف لیلوی داستان ہوتی ہیں، وہ اس میں سے اچھے اچھے حصے بچوں کو سنانا چاہتی ہیں، مگر چونکہ بچپن میں بچے ماؤں کو ہی چمٹے رہتے ہیں تو وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے ماؤں کو ان کے بچپن میں لے جاتے ہیں، ان کی متجسس آنکھوں میں ڈھیروں سوال ہوتے ہیں، جنہیں ہم ماں باپ کہہ رہے ہیں، وہ کون لوگ ہیں۔ جیسے ایک دن میری بیٹی مجھے کہنے لگی ماما کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ ہمیں اپنے ہی ماں باپ کی زندگیوں کے بہت سے رازوں کا نہیں پتہ۔ آج کے بچے کواظہار کا طریقہ آگیا ہے تو اس نے پو چھ لیا، ہمارے بچپن میں نہ اظہار کی طاقت تھی نہ سلیقہ۔ اپنے ہی طریقے سے ماؤں کے دکھوں اور سکھوں میں گھسنے کی کوشش کرتے تھے۔

    مجھے یاد ہے ایک تصویر دیکھ کر میری امی زارو قطار رویا کرتی تھیں، بس وہی لمحہ ہوتا تھا، جب ہم انہیں کمزور پاتے تھے، وہ تصویر اس کی تھی جو انہیں دنیا میں لانے کا باعث تو تھا، مگر وہاں رُکا نہیں،۔ اس تصویر کے آگے وہ پگھلتی جاتیں۔ اس وقت لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ہماری مضبوط والی امّی ہیں، اس وقت لگتا بس ایک چھوٹی سی بچی ہے جسے بس اپنا باپ چاہیے۔ اب وہ منظر یاد آتا ہے تو سوچتی ہوں کہ اس وقت امی اپنے آپ کو کتنا اکیلا کتنا بے بس محسوس کرتی ہوں گی۔

    ہم اپنی نانی کو دیکھتے تھے، امی ہی کی طرح کی حسین عورت، جس نے شاید امی کو سترہ سال کی عمر میں جنم دے دیا تھا، ان کی، شوہر کے انتقال کے بعد دوسری شادی کرا دی گئی تھی، اور جب ہم نے انہیں دیکھا تو دوسرے بچوں میں مصروف دیکھا۔ ذرا بڑے ہوئے تو پتہ چلا وہ ہماری نانی ہیں مگر امی کی امی ان کی نانی تھی، جنہوں نے اپنی بیوہ بیٹی کو بیاہ کر میری امی کو سینے سے لگا لیا تھا۔ اس وقت کے بزرگوں کی عقلمندی اور قربانی یاد تو آتی ہے مگر آج کے دور میں سمجھ نہیں آتی۔

    شاید، امی جب پالنے میں ہوں گی، اور ان کے ابو چل بسے ہوں گے، تب سے ہی، فطرت نے ان کے اندر ایک خاص صفت رکھ دی تھی، اور وہ صفت تھی جو انہیں عام عورت سے ماں اور ماں سے اٹھا کر سپر ہیرو بنا تی ہے۔ ہمت نہ ہا رنے کی، ابھرنے کی اور حالات کے مطابق ڈھل جانے کی۔

    جب 16 سال کی عمر میں ان کی شادی اپنے سے بیس سال بڑے انسان سے کروا دی گئی، جو کسی لحاظ سے بھی ان کا میچ نہ تھے تو نبھانے کی ٹھان لی۔ ایسی شادیوں میں بہت خطرناک موڑ آتے ہیں، انتہائی خوبصورت اور کم عمر ہونے کے باوجود، فرار کی بجائے، حالات کا مقابلہ کرتی رہیں۔ میری یاداشت میں وہ عورت ہے، جو بہت خوبصورت تھی، چھ بچے پیدا کر کے بھی دبلی پتلی، اتنے دکھ غم سہ کے بھی ہنسنے مسکرانے والی، میری یاداشت میں، وہ عورت ہے جو بچپن میں ہمارے ساتھ رسی کودا کر تی تھیں۔ چھوٹی سی تو تھیں، بڑی بہن بتاتی ہیں کہ سکول میں انہی بچیوں کو پڑھا کر پھر انہی کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، اور خود امی بتاتی ہیں، بڑی بہن جب پیدا ہوئی اسے دودھ پلا کر، پھر باہر آکر سکول کی ٹیچرز (میرے ابو کا فیصل آباد میں بہت بڑا سکول ہوا کرتا تھا، جہاں امی پڑھایا بھی کرتی تھیں، اور جو بعد میں بھٹو نے نیشنلائز کر دیا تھا) کے ساتھ کھیلنے لگ جاتی تھیں۔

    بچپن کی یادوں میں سے ایک یاد ہے، جو میری بڑی بہنوں سے ہی مجھ تک ایسے پہنچی ہے جیسے میں خود وہاں موجود تھی، امی کا کالا لمبا کوٹ، ہیل والے کوٹ شوز، دمکتی ہوئی سرخ و سفید پٹھانوں جیسی رنگت، جب سکول میں مینا بازار لگتا تھا، تو بچوں کی مائیں، صرف امی کو دیکھنے، ان سے ملنے، آیا کرتی تھیں۔ کہ آج مس بانو بہت پیاری لگ رہی ہوں گی۔


    بچپن میں یتیم اور ماں کی دوسری شادی کے بعد بے سہارا، رہ جانے والی بچی جسے اس کی نانی نے پالا ہو اور نانی وزیر آباد میں رہتی ہو، ایسی بچی کو ویسٹرن سٹائل کے پروفیشنل فیشن اور سٹائل کی کیسی سمجھ تھی، اس بچی کے اندر سرسید والا جذبہ کہاں سے آگیا؟ جب ان کی ہم عمر لڑکیاں بناؤ سنگھار، شاپنگ، امورِ خانہ داری میں الجھی ہوتی تھیں، وہ اوپر نیچے پیدا ہونے والی چار بیٹیوں کو، سجنے سنورنے یا مردوں سے ناز اٹھوانے کی بجائے طاقتور عورتیں بنانے میں مصروف تھیں۔

    مجھے نہیں یاد کہ ہم نے کبھی ضرورت سے زیادہ کپڑے،کھلونے یا جوتے خریدے ہوں۔ مجھے نہیں یاد کہ ہماری امی نے ہمیں صاف ستھرا، ہلکی سی کریم اور ہونٹوں پر ویسلن لگانے کے علاوہ کسی اور سنگھار کی ترغیب دی ہو۔ یا انہیں دیکھ کر ہمارے اندر خود بخود کوئی ایسی خواہش جاگی ہو۔ انہوں نے کسی ذہین انجئینر کی طرح ہماری بنیادوں کو ٹھوس بنانے کی طرف تو جہ رکھی۔ ان کی زندگی کا نصب العین دو باتیں تھیں۔ اپنے بچوں کی صحت اور تعلیم۔ حالات جیسے بھی ہوں، تنگی ہو اور ردّی بیچنی پڑے یا سکول میں بچوں کی تعداد بہت بڑھ جائے اور خوشخالی آجائے، دونوں صورتوں میں، ہمیں پھل، بکرے کا گوشت، گندم کی روٹی، دیسی گھی اور دودھ دہی کھانے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اور دوسری چیز تعلیم۔ پڑھنا ہے یا پڑھانا ہے۔ میں جب تک امی کے گھر رہی، میں نے یا پڑھا، یا پڑھایا، اس کے علاوہ امی نے مجھ سے کوئی کام نہیں لیا۔ نہ کبھی روایتی ماؤں کی طرح یہ کہا کہ، کھانا پکانا سیکھو، نہ کبھی یہ کہا کہ صفائی کرو۔ صرف ایک ہی بات پر ڈانٹ پڑی کہ وقت ضائع نہ کرو۔ کھانا ٹھیک سے کھاؤ، دودھ کیوں نہیں پیا۔ اس کے علاوہ میری یاداشت میں نہیں کہ امی نے اپنے آرام کی خاطر کبھی ہمیں تنگ کیا ہو، یہاں تک کے جب کبھی کام والی نہیں آتی تھی، توسکول اور ٹیوشن پڑھا کر، خود جھاڑو پکڑ لیتی تھیں، برتن دھوتیں، اور یہاں تک کے واشنگ مشین کے نہ ہوتے ہو ئے کپڑے بھی خود دھو لیتی تھیں۔ ان کی مامتا اور محنت کو یاد کروں تو آج کی مائیں، کاغذی سی لگتی ہیں۔

    جب بڑی بہن میڈیکل کالج میں پہنچی تو خاندان والوں نے کہا، لڑکیوں کو اتنا نہیں پڑھاتے، یا وہ لوگ پڑھاتے ہیں جن کے پاس وسائل ہوں۔ امی کہتیں، وسائل کے ساتھ تو سب پڑھا لیتے ہیں، میں ان کے لیے وسائل پیدا کر کے انہیں پڑھاؤں گی، میری امی کی ایک خالہ ہوا کرتی تھیں وہ امی کو کہا کرتی تھیں، یہ پڑھ بھی گئیں تو تمہیں کیا فائدہ؟ ان کی کمائیاں، ان کے شوہر اور ان کے خاندان کھائیں گے، امی نے کہا میری بیٹیاں مردوں کی طرح کمائیں گی اور دوسروں کو بھی کھلائیں گی، اس سے زیادہ میرے لیے کیا خوشی کی بات ہوگی۔ یہ مردوں کی محتاج نہیں ہوں گی۔

    اور تم؟ وہ تشویش سے پوچھتی تھیں بیٹوں کو پڑھاؤ، وہ تمہیں عیش کرائیں گے، یہ پیسہ بیٹوں پر لگانا۔
     
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:

    امی جواب دیتیں: مجھے اپنے لیے کیا چاہیے؟ نہ مجھے کپڑوں کا شوق ہے نہ باہر کھانے کا، نہ کسی اور عیاشی کا، میرے سارا شوق تو انہی بچوں کی ذات کی تکمیل ہے اور بیٹا یا بیٹی کیا ہوتا ہے؟ بیٹیاں، بیٹوں سے بڑھ کر خیال کرتی ہیں، جو کرنے والی ہوتی ہیں۔ مجھے امی اور ان کی خالہ کی یہ باتیں آج بھی یاد ہیں۔ جیسے وہ ابھی میرے سامنے بیٹھی دہرا رہی ہوں، اور میں ساتھ ہی انجان بنی بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی ہوں۔ اس دن مجھے امی کی خالہ، جسے ہم بھی خالہ ہی کہتے تھے، بڑی عجیب سی لگیں، اپنے گھر میں لڑکا لڑکی کا یہ فرق میں نے پہلی دفعہ سنا تھا، جو بعد میں وقت نے صحیح بھی ثابت کیا، مگر تب تک یہ پرانے زمانے کی وزڈم کی قدر نہیں تھی، یہی لگتا تھا، بس سب انسان ہی ہوتے ہیں۔ امی نے ہمیں شرمانا لجانا نہیں بلکہ اعتماد سکھایا تھا، میں بنک تک لڑکوں کو لڑکا نہیں بلکہ اپنی طرح کا ایک انسان سمجھ کے بڑی لاپرواہی اور اعتماد سے بات کیا کرتی تھی۔ یہ تو وقت نے بتایا کہ یہ دنیا ہے جہاں کے سکول کی پرنسپل تمھاری ماں نہیں، بلکہ تنگ نظر، منافق اور دقیانوسی لوگ ہیں۔ کاش اس دنیا کے ہر سکول کی پرنسپل میرے ماں جیسی عورت ہوتی اور ہر عورت میری امی جیسی ماں ہوتی۔ جن کی سوچ، مکمل پردہ کرنے کے باوجود، اتنی آزاد، اتنی متوازن تھی۔

    امی کا، عورت کی تعلیم پر زور دینے کا مقصد یہ تھا کہ اپنا دماغ استعمال کرو، اپنی ذہانت استعمال کرو، اور کبھی فرسودہ سوچیں، دقیانوسی اقدار، مردانہ استحصال اور لوگوں کی ناانصافیاں، زندگی کے ایسے موڑ پر لے آئیں تو، مقابلہ کرنا، نہ کہ دماغ کو پیچھے رکھ کے عام عورتوں کی طرح چہرے اور جسم کی خوبصورتی کو آگے لانے کا سوچنا۔ اپنی تعلیم پر اور اپنے کیرئیر پر زور دینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمیں گھر اور بچوں کی خاطر خود کو قربان کرنے کا درس بھی دیا۔ لفظوں سے نہیں اپنے اعمال سے۔ میرے بچپن کی عیدوں میں، جب ساری دنیا کی عورتیں سجی سنوری، پھر رہی ہوتی تھیں، دعوتیں لی دی جا رہی ہوتی تھیں، امی عام سے کپڑوں میں کچن میں کھڑی ہوتی تھیں۔ ہمیں سجا سنوار کر، نئے فراک پہنا کر ہاتھوں میں چھوٹے چھو ٹے پرس دے کر کہا کر تی تھیں، جاؤ، باہر سیر کر کے آؤ، آج میں سوچتی ہوں ہم میں سے کوئی بھی امی کو نہیں پو چھتا تھا کہ امی آپ عید کیسے کر یں گی؟ کچن میں کھانے پکا پکا کر؟ آج سوچتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ان کی زندگی کتنی بد رنگ تھی، شوہر سے انڈر سٹینڈنگ نہیں، باپ ہے نہیں، ماں اپنے دوسرے بچوں کے ساتھ مصروف، دن بھر سکول اور ٹیوشن میں مصروف رہنے کی وجہ سے، کوئی سہیلی نہیں، غربت کی وجہ سے رشتے دار دور دور۔ تو ہم ہی ہم تھے، اور ہمیں بھی اپنے گوڈے سے لگانے کے بجائے سجا سنوار کر تفریح کر نے باہر بھیج دیتی تھیں۔ اور کبھی حالات کا رونا نہیں روتی تھیں، بس ہر دم حالات سے لڑنے میں مصروف رہتی تھیں۔

    اب جب پرانی دوست حیران ہو کر پوچھتی ہیں، کہ کیا ابھی تک تم اپنی امی سے مشورے مانگتی ہو، تم تھکی نہیں؟ ابھی تک تمھاری امی کنٹرولنگ ہیں؟ تو میں جواب میں کہتی ہوں یہ سوال ہی غلط ہے، مجھ سے یہ پوچھو، ہماری امی ابھی تک ہمارا ساتھ دینے سے کیوں نہیں تھکیں؟ وہ آج تک ہمیں چھوڑ، ہمارے بچوں کی صحت، تعلیم کی فکر کر نے سے کیوں نہیں تھکیں؟ ہم ان کی بات سنیں یا نہ سنیں، زمانہ ان کے ساتھ جو مرضی کر جائے، دکھ تکلیف اور بیماری، کوئی بھی چیز انہیں ہمارے بارے میں سوچنے سے، ہماری فکر کرنے سے نہیں روک سکی۔ میری بیٹی کو کچھ ہو، تو وہ تڑپنے سے نہیں تھکیں، میرا بیٹا ٹھیک سے نہ پڑھے، تو اس کے لیے فکر مند ہو نے سے نہیں تھکیں، ہمیں دنیا کے دکھوں تکلیفوں سے بچانے سے نہیں تھکیں۔ ان کی جب کیمو ہو ئی تو میں نے سوچا، اب وہ صرف اپنی فکر کر یں گی، لیکن نہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کیمو کرواتے ہی، اٹھیں تو سب سے پہلے پوچھا ہادی (میرا بیٹا) ٹھیک سے پڑھنا شروع ہوا ہے؟ علینہ (میری بیٹی) اس کی بلڈ رپورٹ ٹھیک آئی ہے؟

    امی! خدا کے واسطے، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں، اپنا سوچیں۔ میں تڑپ کر بولی۔
    نہیں علینہ کو کہو اس نے ڈاکٹر ہی بننا ہے۔
    امی! بن جائے گی۔ آپ مت سوچیں۔ بس ہم تک آپ کا فرض تھا آگے ہمارا فرض ہے۔ اور آج کل کے بچے اپنا خود سوچتے ہیں۔
    ایسے ہی خود سوچتے؟ بس بچوں کو گائیڈ کر نا ہوتا ہے، اکیلے نہیں چھوڑنا ہوتا بچوں کو۔ بچوں کا کیا ہے؟ مجھے ڈانٹ کر بولیں۔

    اور اپنی دوستوں کو کنٹرولنگ کا کیا جواب دوں؟ دنیا میں کوئی ایسا مخلص ہے جو ایسا کنٹرول رکھے کہ آپ کے لیے سب اچھا اچھا لے آئے، آپ کی زندگیوں کے کانٹے چنتا جائے، آپ کی ذات میں اپنی ذات ضم کر دے، ہمیں ہمیشہ دے، بدلے میں کچھ نہ مانگے۔ ہم چاہے ڈاکٹر بن جائیں یا بہت بڑے سرمایہ دار، ماؤں کو ہم کیا دیتے ہیں؟ ایک بات سننے کا کہنے کا مان؟ وہ بھی کنٹرولنگ؟ کنٹرول تو وہ ہوتا ہے جو یہ دنیا ہمیں کرتی ہے۔ ہم سے بہت کچھ لے لیتی ہے اور بدلے میں دھوکہ، دکھ، اذیت، دیتی ہے۔ جب تک صحت، دولت ساتھ رہے، یہ دنیا آپ کا دم بھرے گی، آپ کو مشورے بھی دے گی، اور آپ سنیں گے بھی، لیکن مائیں وہ مخلوق ہیں جو صرف دینا جانتی ہیں۔ ہماری فکریں، ہماری خوشیاں، ہم، ہم اور ہم۔ نہ کوئی حساب کتاب، نہ کوئی پیسے کا لین دین۔ مانگنا بھی کیا ہوتا ان کا، ایک بچے کو جو معاشی طور پر ٹھیک ہو، اسے کہہ دینا، دوسرے بچے کی مدد کر دو، جو ذرا کمزور رہ جائے۔ یہی کچھ۔ بس مائیں یہی کچھ مانگتی ہیں۔ اور کیا مانگتی ہیں؟ کیا کنٹرول کرتی ہیں؟ آپ ہی کی بھلائی کے لیے آپ سے بھڑی رہتی ہیں۔ ؟

    آج بھی میری امی میرے بچوں سے بات کرتی ہیں تو ان کے مستقبل کی ہی بات کرتی ہیں۔ بننا کیا ہے؟ ان کو زندگی میں اچھی تعلیم ملے، اچھا ساتھی ملے۔ اچھے سے اچھا۔ آگے سے آگے۔ سرسید کی سوچ۔ ایک چھوٹی سی یتیم بچی کے دماغ میں نہ جانے کیسے آگئی تھی، جو آج تک نہیں نکل رہی۔ انہیں زندگی نے جتنا بھی آزمایا، جتنا بھی توڑنے کی کوشش کی، پھر سے ابھر آئیں، بلکہ کبھی ڈوبی ہی نہیں۔ برین ٹیومر سے بیٹی کی موت ہو ئی، میری بہن کی، وہ آخری دو سال بستر پر مفلوج پڑی رہی، میں نے سوچا، جس عورت کی زندگی میں صرف بچے ہی سب کچھ تھے، جو انہی کی خاطر دنیا کے ہر طوفان سے لڑ جا تی تھی، اب بیٹی کی جان لیوا بیماری سے ٹوٹ جا ئے گی۔ لیکن ٹوٹنے کی بجائے، وہ بیڈ پر لیٹی بیٹی کا سہارا بن گئیں، اسے چھوٹے سے بچے کی طرح سنبھالنے لگ گئیں، جیسے وہ پھر سے پیدا ہوئی ہو۔ کمرجھکا کر اس کے سر پر کھڑی رہتی تھیں، کیونکہ اس کی آواز بھی چلی گئی تھی تو وہ اشارے سے بات سمجھاتی تھی، اس کی بات سمجھنے کے لیے رات کے وقت بھی گھنٹوں اس سے باتیں کر تی رہتیں، اس وقت تک جب تک اس کی بات سمجھ نہ آجاتی۔ میں نے کہا امی آپکی اپنی کمر میں درد شروع ہو جائے گا۔ تو کہتیں! ! پتہ نہیں کیا کہنا چاہتی ہے جب تک اس کی طلب پوری نہ کر لوں کیسے سو سکتی ہوں۔ ؟

    اس نے امی کے ہاتھوں میں آخری سانس لی، تو لگا اب امی کا دم بھی نکل جائے گا۔ ان کی زندگی میں بچوں کے علاوہ تھا ہی کیا۔

    مگر بہن کی ڈاکٹر بیٹی (ابھی وہ تھرڈ ایئر میں تھی) کو بہت پہلے سے ہی، بہن کی بیماری سے بھی پہلے اپنی ہی بیٹی کہتی تھیں۔ اسے ڈاکٹر بنانے کے پیچھے بھی امی کا ہی خواب تھا، جو بہن نے اپنی بیٹی میں ٹرانسفر کیا تھا، تو اب بہن کی بیٹی امی کے سامنے بہن کی کامیاب اور صحت مند شکل کی صورت کھڑی تھی۔ یعنی امی نے بہن کو موت کے باوجود مرنے نہیں دیا۔

    کچھ دن پہلے میری اسی بھانجی کے گھر ننھی پری پیدا ہوئی تو امی اس کے ساتھ ہسپتال میں تھیں، اس کا سی سیکشن تھا، اسے ایک پل نہیں چھوڑا، نرسیں کہتی رہیں، آپ کی اپنی ٹانگ میں انفیکشن ہے، آپ بیٹھ جائیں، بھانجی کے سسرال والوں نے کہا سارہ! تمھاری امی خود اتنی تکلیف میں ہیں، انہیں کہو گھر جا کر سو جائیں۔ سارہ نے کہا وہ میری امی ہیں کبھی نہیں جائیں گی۔ سارہ بھی جانتی ہے کہ امی مشکل میں چھوڑ کر کبھی نہیں جاتیں۔

    تو دوستو! !ہم سے یہ نہ پو چھو کہ وہ ابھی تک ہمارے معاملات میں مداخلت کیوں کرتی ہیں، کوئی ہم سے پوچھے کہ وہ ہمارے کام آنے سے ابھی تک باز کیوں نہیں آتیں؟

    بڑی بہن جسے ڈاکٹر بنانے کے لیے اپنے سکول کی ساری فیسیں اکٹھی کر کے بھیج دیتی تھیں، وہ جب کینیڈا میں میڈیکل کے پیپرز دینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی، اور ہم میں سے ابھی تک کسی کی بھی کینیڈا کی امیگریشن نہیں ہوئی تھی تو دنیا میں کوئی اور نہیں، وہ امی ہی تھیں جو اپنا لاہور میں چلتا ہوا سکول بند کر کے، اس کے پاس آگئیں، اس کے تین چھوٹے بچوں کو، جن میں سے بیٹی صرف دو سال کی تھی، انہیں سنبھالتیں۔ اس وقت، ان کے گھٹنوں میں درد کا آغاز ہو چکا تھا، مگر شدید برف باری میں بھی، اس بچی کو لے کر باہر سنو مین بنواتی تھیں۔ پینگ پر جھولے دیتی تھیں، اور منہ میں اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے گرم گرم پراٹھے کے نوالے ڈالتی تھیں۔

    ہمیں کینیڈا امیگریشن کے لیے پنجاب یو نیورسٹی سے اپنی ڈگریاں چاہیے تھیں، جب فیصل آباد جاتے، کلرک ٹال مٹول کر کے بھیج دیتے، ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا تھا، چھوٹے چھوٹے بچے، اور دونوں ہی جاب کرتے تھے، ایسے میں امی اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر یونیورسٹی جا کر بیٹھ گئیں، اور کلرکوں سے کہا جتنی دیر لگانی ہے لگاؤ، میں اس وقت یہاں سے جاؤں گی جب ڈگری دو گے۔ کلرک نے پہلے سمجھایا کہ جعلی ڈگری جلدی مل جاتی ہے، اصلی نہیں ملتی۔ مگر بضد رہیں کہ اگر فیصل نے ماسٹرز کیا ہے تو اصلی ہی لے کر جاؤں گی۔ اور ہم آج بھی یاد کر کے ہنستے ہیں کہ امی نے تب تک وہاں ڈیرا ڈالے رکھا جب تک ایسے کرپٹ لوگوں سے بغیر رشوت کے ڈگری نکلوا نہیں لی۔ ہمارے بچپن سے لے کر، آج تک، اور ہمارے بچوں کے بچپن سے لے کر آج تک، ابھی تک، ہمارے ہی کام آرہی ہیں۔ ہماری گستاخیوں کے باوجود، ہماری نافرمانیوں کے باوجود، ہمارے چھوٹے پن کے باوجود، ہر طرح کی مصیبتوں کی ورائٹی جھیلنے کے باوجود۔ اپنی بیماریوں سے لڑنے کے باوجود بھی وہ ہمارے ہی کام آرہی ہیں۔ اور ہم ایسے پیراسائٹس ہیں جو ابھی تک انہی پر پل رہے ہیں۔

    امی! میری اور میرے بچوں کی زندگی میں ہونے کا شکریہ۔ میری جتنی اچھائیاں، خوبیاں اور زندگی میں کامیابیاں ہیں، سب آپ کی وجہ سے۔ میری زندگی کی سب خامیاں، ناکامیاں اور کوتاہیاں میری اپنی وجہ سے ہیں۔ آپ دنیا کی سب سے خوبصورت،سب سے کامیاب ماں ہیں۔ میں اس زندگی میں، مرنے کے بعد اور اگر اس کے بعد بھی کوئی زندگی ہے تو سب میں چاہوں گی کہ میری ماں آپ ہی ہوں۔ پتہ نہیں آپ کو دوبارہ یہی بے وقوف بچے چاہییں یا نہیں مگر مجھے ہر وقت ہر زندگی میں آپ ہی کا ساتھ چاہیے۔

    وہ ماں جو آج تک نئی ٹیکنالوجی سیکھنے کی لگن رکھتی ہے، وہ ماں، جس نے اب آکر ڈرائیونگ لائسنس لیا کہ میں اپنی بیٹیوں کے گھر آرام سے جا سکوں، وہ ماں جو آج تک یو ٹیوب اور فیس بک سے اچھے اچھے تعلیم و تربیت کے ٹیکسٹ نکال نکلا کر ہمیں اور ہمارے بچوں کو بھیجتی ہے کیونکہ وہ سمجھ گئی ہیں کہ آمنے سامنے بات کر نے کا وقت اور حوصلہ کسی کے پاس نہیں رہا تو انہوں نے زمانے سے اور وقت سے ہار ماننے کی بجائے ہماری فلاح کا، ہماری تعلیم کا نیا طریقہ بھی اپنا لیا ہے۔ فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے علاقے سے ہمیں پہلے لاہور اور پھر کینیڈا لانے والی ماں، ہمیں کبھی نہ اکیلا چھوڑنے والی ماں۔ آپ جیسا کوئی نہیں۔ آپ سے زیادہ ہمارا کوئی مخلص نہیں۔

    یو آر دی بیسٹ! میری زندگی تک میرے ساتھ رہیں۔ میں فوزیہ کی طرح خوش قسمت بننا چاہتی ہوں جس نے آپ کے ہاتھوں میں جان دی تھی۔ ورنہ میں مرنے کے بعد بھی اس سے جلتی رہوں گی۔ siblings jealousy ... تو ہے نا پھر۔ لو یو!

    روبینہ فیصل
    14 مئی 2018
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    مائیں تو سب کی سپر ہیرو ہوتی ہیں
     
    کنعان نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں