محمد میر عُرف میر تقّى میر اردوکے شاعر ہیں. اردو شاعرى میں انکا مقام بہت اونچا ہے ـ وہ اپنے زمانے كے ایسےـ منفرد شاعر تھے ـ جن كے متعلق مرزا غالب کو کہنا پڑا ـ ریختے كےتمہی استاد نہیں ہو غالب ـ کہتے ہیں اگلے زمانے ميں كوئى مير بھی تھاـمیر تقی میر تخلص ، آگر ہ میں 1722ءمیں پیدا ہوئے ۔ میر کا زمانہ شورشوں اور فتنہ و فساد کا زمانہ تھا۔ ہر طرف صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بالآخر میر گوشہ عافیت کی تلاش میں لکھنو روانہ ہو گئے۔ اور سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد لکھنو پہنچے ۔ وہاں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ نواب آصف الدولہ نے تین سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ اور میر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ لیکن تند مزاجی کی وجہ سے کسی بات پر ناراض ہو کر دربار سے الگ ہو گئے۔ آخری تین سالوں میں جوان بیٹی اور بیوی کے انتقال نے صدمات میں اور اضافہ کر دیا۔ آخر اقلیم سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ 1810ءمیں لکھنو کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ اس لڑی میں سب دوست انکی شاعری ارسال کر سکتے ہیں۔ کب تلک جی رکے خفا ہووے آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے کا اسِ دل کی کیجیے تدبیر جان میں کچھ بھی جو رہا ہووے چپ کا باعث ہے بے تمنائی کہیے کچھ بھی تو مدعا ہووے بے کلی مارے ڈالتی ہے نسیم دیکھیے اب کے سال کیا ہووے مر گئے ہم تو مر گئےتُو جیے دل گرفتہ تری بَلا ہووے عشق کیا ہے درست اے ناصح جانے وہ جس کا دل لگا ہووے نہ سنا رات ہم نے اک نالہ غالباً میر مر رہا ہووے (میر تقی میر)
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے خانہء دل سے زنہار نہ جا کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا شور ایک آسماں سے اٹھتا ہے لڑتی ہے چشمِ شوخ اس کی جہاں ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے سدھ لے گھر کی بھی شعلہء آواز دور کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے یوں اُٹھے آہ اس گلی سے ہم جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے عشق اک میر بھاری پتھر ہے کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
ہم خستہ دل ہیں تجھ سے بھی نازک مزاج تر تیوری چڑھائی تو نے کہ یاں جی نکل گیا گرمیِء عشق ،مانعِ نشوونما ہوئی میں وہ نہال تھا کہ اُگا اورجل گیا مستی میں چھوڑ دَیر کو کعبے چلا تھا میں لغزش بڑی ہوئی تھی و لیکن سنبھل گیا عریاں تنی کی شوخی سے دیوانگی میں میرؔ مجنوں کے دشتِ خار کا داماں بھی چل گیا
میرے مالک نے مرے حق میں یہ احسان کیا خاک ناچیز تھا میں سو مجھے انسان کیا اس سرے دل کی خرابی ہوئی اے عشق دریغ تو نے کس خانہء مطبوع کو ویران کیا ضبط تھا جب تئیں چاہت نہ ہوئی تھی ظاہر اشک نے بہہ کے مرے چہرے پہ طوفان کیا تنہا شوق کی دل کے جو صبا سے پوچھی اک کفِ خاک کوئی ان نے پریشان کیا مجھکو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے درد و غم کتنے کیے جمع، تو دیوان کیا میر تقی میر
ضبط تھا جب تئیں چاہت نہ ہوئی تھی ظاہر اشک نے بہہ کے مرے چہرے پہ طوفان کیا --------------------- ایک اور خوبصورت غزل میر صاحب کی ۔
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی ایک عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج اپنی سننے میں نہ آئی ہےکہانی اس کی خاطر بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں خاک مانند بگولے کے اڑانی اس کی کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ اے رشک بہار رقعہ داریں ہیں یہ اوراق خزانی اس کی سرگزشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا ہے سوگئے تم ، نہ سنی آہ ! کہانی اس کی مرثئے دل کے کئی کہہ کے دیے لوگوں کو شہر دلی میںہے سب پاس نشانی اس کی اب گئے اس کے جزافسوس نہیں کچھ حاصل حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی
ابتدائے عشق ھے روتا ھے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ھے کیا قافلے میںصبح کے اک شور ھے یعنی غافل ہم چلے سوتا ھے کیا سبز ہوتی ہی نہیں یہ سر زمیں تخمِ خواہش دل میں تو بوتا ھے کیا یہ نشانِ عشق ھیں جاتے نہیں داغ چھاتی کے عبث دھوتا ھے کیا غیرت ِ یوسف ھے یہ وقتِ عزیز میر اس کو رائگاں کھوتا ھے کیا
دیکھے گا جو تجھ رُو کو سو حیران رہے گا وابستہ ترے مُو کا پریشان رہے گا منعم نے بِنا ظلم کی رکھ گھر تو بنایا پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہے گا چھوٹوں کہیں ایذا سےلگا ایک ہی جلاد تا حشر مرے سر پہ یہ احسان رہے گا چمٹے رہیں گے دشتِ محبت میں سرو تیغ محشر تئیں خالی نہ یہ میدان رہے گا جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز تا حشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا دل دینے کی ایسی حَرَکت اُن نے نہیں کی جب تک جیے گا میر پشیمان رہے گا میر تقی میر
جواب: میرتقی میر کی شاعری جامہء مستیِ عشق اپنا مگر کم گھیر تھا دامنِ تر کا مرے، دریا ہی کا سا پھیر تھا دیر میں کعبے گیا میں میں خانقہ سے اب کے بار راہ سے مے خانے کی اس راہ میں کچھ پھیر تھا بلبلوں نے کیا گُل افشاں میر کا مرقد کیا دور سے آیا نظر پھولوں کا اک ڈھیر تھا میر تقی میر
جواب: میرتقی میر کی شاعری مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بے تاب کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کے نکلا دل کی آبادی کی اس حد ھے خرابی کہ نہ پوچھ جانا جاتا ھے کہ اس راہ سے لشکر نکلا اشک تر قطرہ خوں لخت جگر پارہ دل ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہتر نکلا ہم نے جانا تھا لکھے گا کوئی حرف اے میر پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا
جواب: میرتقی میر کی شاعری اشک تر قطرہ خوں لخت جگر پارہ دل ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہتر نکلا خوشی جی بہت ہی خوبصورت شاعری ارسال کی :222: زبردست :a165: نعیم بھائی آپ نے بھی اچھی شاعری ارسال کی ہے :101: