1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

میانمار : بودھ مت انتہا پسند تنظیم ”ماگھ“ کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏7 جون 2013۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:


    لاہور (نیوز ڈیسک) میانمار، بھارت منصوبے کے تحت 40 لاکھ مسلمانوں کو شہید کرنے کے ناپاک منصوبے پرعملدرآمد جاری ہے۔ بودھ مت بھگشوو¿ں نے میانمار (برما) کو مسلمانوں سے پاک کرنے کے مطالبے کے حق میں ریلی نکالی۔ انہوں نے اس عزم کو بار بار دہرایا کہ میانمار جب تک ایک بھی مسلمان ہے اس وقت تک ان کی دہشت گرد تنظیمیں آپریشن جاری رکھیں گے۔ تفصیل کے مطابق میانمار کے دارالحکومت رنگون کے مذہبی قصبے میں انتہا پسند بودھ بھگشوو¿ں نے مسلمانوں کے کاروباری مراکز جلا کر خاکستر کر دیئے۔ مسلم کش فسادات میں مارے جانے والے سینکڑوں مسلمانوں کی لاشیں قتل عام کا ثبوت مٹانے کے لئے جلا دی گئیں گہرے گڑھوں میں پھینک دیں۔ گزشتہ ماہ سے شروع ہونے والے مسلم کش فسادات کا سلسلہ علاقے میں کرفیو کے اعلان کے باوجود جاری ہے ۔ اس کے نتیجے میں کئی مساجد کے علاوہ سینکڑوں مکانات اور مسلم تجارتی مراکز جلا دیئے گئے ہیں۔ ساڑھے سات سو مسلمانوں کو بیدردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مسلمانوں کی سونے کی پوری مارکیٹ نذر آتش کر دی گئی۔ مصری ویب سائٹ ”الحیط“ کے مطابق میانمار کی شدت پسند بودھ تنظیم ”ماکھ“ نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے ہیں۔ حالیہ فسادات گزشتہ برس جون میں شروع ہونے والے فسادات کے مقابلے میں زیادہ خطرناک، تشویشناک اور تباہ کن ہیں۔ سونے کی مارکیٹ کو لوٹنے کے بعد مکمل طور پر نذر آتش کر دیا گیا۔ گزشتہ ہفتے تشدد کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک سنار کی دکان پر ہونے والی بحث طول پکڑ گئی اس کے بعد بودھ بھگشوو¿ں نے مسلمانوں کی ملکیتی عمارتوں اور سونے کی مارکیٹ کو آگ لگانی شروع کر دی۔ بودھ تنظیم ”ماگھ“ کے انتہا پسندوں نے پورے قصبے کو گھیرے میں لے لیا اور مسلمانوں کے مکانات اور دکانوںکوآگ لگا دی اور مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا۔ ثبوت مٹانے کے لئے لاشوں کو بھی جلا ڈالا۔ رپورٹ کے مطابق متاثرہ قصبہ میں روہنگیا مسلمانوں کے متمول اور کاروباری افراد رہائش پذیر تھے جو زیادہ تر سونے کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ حکومت نے حالات کنٹرول کرنے کے لئے قصبے میں پولیس تعینات کر دی مگر پولیس کی سرپرستی میں ہنگامے مزید بھڑک اٹھے۔ الحیط کے مطابق فسادات کے بعد جب عالمی میڈیا کے نمائندے علاقے میں داخل ہوئے تو میانمار کے صدر بھتان سین نے علاقے میں ہنگامی حالت کا اعلان کر کے فوج بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ صدر نے اقوام متحدہ کی جانب سے علاقے میں آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی مسترد کر دیا۔
    بشکریہ - نوائے وقت
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں