مکان اور مکیں مکان اور نہيں ہےبدل گيا ہے مکيں افق وہ ہي ہے مگر چاند دوسرا ہے کوئي فصيل جسم پہ تازہ لہو کے چھينٹے ہيں حدود وقت سے آگے نکل گيا ہے کوئي شکيب ديپ سے لہرا رہے ہيں پلکوں پر ديار چشم ميں کيا آج رت جگا ہے کوئي
گذارش! نعیم بھائی! اپنا داد دینے کا انداز تھوڑا سا بدل لیں۔ (شکریہ) آپ نے اور بھی کئی جگہوں پر بہت اچھے طریقے سے سب کو داد سے نوازہ ہے۔ لیکن ایک دو جگہوں پر۔۔۔۔۔۔
یہ غزل کیسی ہے ؟ وقت کے ٹھکرائے کو گردانتا کوئی نہیں جانتے ہیں سب مجھے، پہچانتا کوئی نہیں آج بھی ہر خواب کی تعبیر ممکن ہے مگر یہ سنہرا عزم دل میںٹھانتا کوئی نہیں جب سے میںنے گفتگو میں جھوٹ شامل کر لیا میری باتوں کا برا اب مانتا کوئی نہیں کچھ تو ہوگا حال سے ماضی میںہجرت کا سبب یونہی بس یادوں کی چادر تانتا کوئی نہیں میں جو کچھ بھی کہا سچ کے سوا کچھ نہ کہا پھر بھی آزر بات میری مانتا کوئی نہیں (ڈاکٹر فریاد آزر)