1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مُردہ احساس

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از ڈی این اے سحر, ‏5 جون 2006۔

  1. ڈی این اے سحر
    آف لائن

    ڈی این اے سحر ممبر

    شمولیت:
    ‏29 مئی 2006
    پیغامات:
    191
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جلتا ہوا بچہ
    از :- زبیر خان
    المیہ جو آنکھوں دیکھتے رونما ہو جائے اسکا دکھ خون کے آنسو رُلاتاہے ،،،!!!!!!!!!!!!
    ڈسٹرکٹ کونسل ہال ایبٹ آباد کے سرکاری کوارٹر میں لگنے والی آگ کے اندر ایک نو عمر معصوم بچہ زندگی کی بازی ہار رہا تھا ۔ سب جانتے تھے کہ وہ تڑپ رہا ہے ۔ مدد مدد چلاتے اسکی ماں کی ہچکی بند گئی ہے ۔
    والدین کی آنکھوں کے سامنے تنو مند پولیس اہلکاروں، عوام اور نوجوانوں کی موجودگی میں بھی اس بچے کو بچایا نہ جا سکا ۔ اس موقع پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔تنومند پولیس اہلکاروں کے آنکھوں میں سے آنسو جاری تھے۔مگر ان کی آگ میں گھرے کوارٹر کی جانب تین دفعہ پیش قدمی کو آگ نے ناکام بنا دیاتھا۔
    موقع پر موجود ایک نوجوان ‘‘ ماجد‘‘ اور بلدیہ کے ایک اہلکار ‘‘اورنگزیب‘‘ نے دو مرتبہ کوشش کی نتیجہ میں دھویں سے بیہوش ہو کر گر پڑے۔
    باپ اپنی دو بیٹیوں ‘‘ کائنات اور نوشین‘‘ کو شعلوں میں سے بچا لایا تھا۔مگر اس کوشش میں خود آگ میں جھلسنے کے سبب ،،، اُٹھنے کے قابل بھی نہیں رہا تھا ،،، ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بے بسی سے تڑپ رہا تھا ۔
    ‘‘ایک ماں‘‘ کے چار ماہ کے ‘‘ بچے‘‘ کو آگ نے اپنی آغوش میں چھپا لیا تھا ،،،،،،، اور وہ اب ،،،،،،،، اسرار ،،،،، اسرار ،،،،،،،، پکارے جا رہی تھی ۔ وہ نہ تو اس موقع پر جی رہی تھی اور نہ ہی مرنا اس کے بس میں تھا،،،،،،، بد نصیب ماں کی آہیں ،،،،،، ہچکیاں ،،،،، اور چیخ و پکار ،،،،،، آسمان کا دل دھلا رہی تھی ،،،،،،، مگر سب کا سب بے فائدہ ،،، لاحاصل رہا ۔
    منٹوں میں اسکے پھول جیسے بیٹے کی جلی ہوئی لاش اسکے سپرد کر دی گئی۔
    اس واقعہ کے بعد ایک پولیس آفیسر سے پوچھا گیا ،،،،، آپ اپنی آنکھوں کے سامنے جلتے ہوئے ایک بچے کی جان کیوں نہیں بچا سکے ؟
    ہو مڑا اور میری طرف دیکھ کے بے بسی سے بولا
    ‘‘ آگ اور پانی سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا‘‘
    ایک دم ہی بجلی کی طرح میرے سامنے اُن ممالک کے اندر رونما ہونے والے واقعات سامنے آنے لگے ،،، جن میں امدادی کارکنوں نے آگ کو شکست دیکر انسانی جانیں نچائی تھیں۔
    ہالینڈ کے‘‘ فائر فائٹرز ‘‘ ایک پانچ منزلہ عمارت میں آتشزدگی
    کے واقعہ میں درجنوں افراد کو آگ میں سے بچا کر محفوظ حالت میں باہر لے آنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
    دوسرے ایسے ہی ایک واقعے میں امریکہ کے ایک سکول میں ‘‘فائر فائٹرز‘‘ نے سو سے زائد بچوں کو آگ میں جل مرنے سے بچا لیا تھا ۔
    وجہ کیا تھی ؟ صرف منصوبہ بندی اور بروقت ذمہ داری کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا۔ان ممالک میں ایسے حادثات کیلئے
    ؛؛عملا‘‘؛؛ پیش بندی اور امدادی کارکنوں کیلئے ضروری سامان
    ،،، ماسک و فائر پروف جیکٹس ، سمیت ضروری تربیت کا انتظام انسانی جانوں کے بچاؤ کی اصل وجہ ہے۔
    مگر شہر ایبٹ آباد اور یقینی طور پر ملک کے کئی حصوں میں آج تک حکمرانوں کی توجہ اس جانب کیوں نہیں گئی ؟میرے علم میں محض ایبٹ آباد کا یہ المناک واقعہ ہے۔ مگر اس ملک میں آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں بچے بوڑھے جوان اور عورتیں آگ کے شعلوں کی نظر ہوتے رہتے ہیں۔
    مغرب کے شہرہ آفاق ‘‘ فائر فائٹرز‘‘ کے پاس ایسا کیا ہے جو ہمارے پاس نہیں ؟
    مگر ہمارے امدادی کارکن شلوار قمیض یا پولیس وردی میں بھڑکتی آگ سے بچاو کی کوشش کیلئے ‘‘ مختصر تنخواہ ‘‘
    کے عوض مجبور ہیں۔تبھی عملی طور پر یہ بیچارے بے بس ہیں۔ مغرب کے شہرہ آفاق امدادی کارکن محض اسلئےبے خطر آگ میں کود کر دنیا کے سامنے ‘‘ ہیرو ‘‘ بن گئے ہیں ،،، کہ انہیں انکے جسم کے ایک ایک حصہ کی حفاظت کی ضمانت کیلئے ضروری سامان مہیا کر دیا گیا ہے۔
    آج ایک ‘‘ اسرار‘‘ کے آگ میں جھلسنے سے ‘‘ ماں باپ کو ناقابلِ
    بیان دکھ ملا ،،، امدادی کارکن دل سے چاہنے اور جان توڑ کوششیں کر گزرنے کے باوجود ناکام رہے۔
    اس موقع پر موجود جوان ایک دوسرے سے نظریں ملانے سے گریزاں ہیں۔
    اگرچہ ‘‘اسرار‘‘ ختم ہو چکا ہے مگر اسکی موت سے ملنے والا سبق ہمارے اور انتظامیہ کیلئے بھلا دینے والا ہر گز نہیں۔
    خدارا ،،،، کسی اور ‘‘اسرار ‘‘ کے جل مرنے سے پہلے کچھ کر گزریں۔
    اگر ایوانِ صدر، چاروں صوبوں کے وزراءِ اعلیٰ و عظمیٰ ، گورنر ہاوسز وغیرہ کا محض ایک دن کا خرچ
    امدادی کارکنوں کو ضروری سامان سے لیس کرنے کیلئے صرف کر دیا جائے تو ،،،، کئی اسراروں کو آگ کے شعلوں سے بچانا کچھ مشکل نہیں رہےگا۔
    ‘‘اسرار ‘‘ کی تکلیف دہ موت ، اسکی ماں اور بہنوں کی آہ و زاری ، باپ کا دکھ چیخ چیخ کر کہ رہا ہے کہ
    اگر بُلٹ پرُوف گاڑیاں درآمد ہو سکتی ہیں ،،، تو امدادی کارکنوں کو آگ سے بچاؤ اور مقابلے کیلئے ضروری سامان سے بھی لیس کیا جا سکتا ہے۔

    کاش میں وہ وقت اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں جب کوئی پولیس آفیسر یا امدادی کارکن محدود ذرائع کی مجبوری کی بنا پر شرمندگی سے یہ نہ کہ سکے کہ
    ‘‘ آگ اور پانی سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا‘‘
     
  2. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    پورا معاشرہ بھی جل جائے، شاہ کو اپنی سیکیورٹی سے زیادہ کیا عزیز ہو سکتا ہے!!!
     
  3. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    ٹھیک کہا آپ نے
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کاش وہ وقت آئے کہ ہم سب اٹھ کھڑے ہوں اور ایسے مٹھی بھر خود غرض شاہوں کے گریبان پکڑ کر کروڑوں غریبوں کا حق انہیں واپس دلا سکیں۔
     
  5. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال خُود آپ اپنی حالت کے بدلنے کا​

    خُدا نے وعدہ کِیا ہے کہ میں ویسا ہی حکمران دوں گا جیسی رعایا ہو گی۔ آپ کے یا میرے سوچنے سے کچھ نہیں بدلنے والا۔ جب تک پوری قوم جہالت کے اندھیروں سے نِکل کر اِس فکر کو اپنے ذہنوں میں نہ اُتار لے، تب تک یہ ایک بحث سے زیادہ یا ایک دیوانے کے خواب سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

    ہمیں چاہیئے کہ اپنی حالت بدلیں، تا کہ اللہ ہمیں ایسا حکمران دے، جو حضور :saw: کی سُنت پر عمل پیرا ہو۔ تبھی غریبوں لاچاروں کو اُن کے حقوق مِل سکتے ہیں۔

    اللہ ہم پر رحم فرمائے۔ (آمین)
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    درست فرمایا عبد الجبار بھائی نے !

    لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت کونسی تحریک، جماعت یا قیادت عامۃ الناس کے علم و شعور کی بیداری و پختگی کے لیے ٹھوس بنیادوں پر عمل پیرا ہے؟
    سیاسی علماء کو اپنے سیاسی جوڑ توڑ سے فرصت نہیں۔ (الا ماشاءاللہ)
    مذہبی علماء کرام نکاح طلاق ، اور چھوٹی چھوٹی گروہ بندیوں میں الجھے نظر آتے ہیں ان کے اندر دور اندیشی، حکمت، جراءت جیسے قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔(الا ماشاءاللہ)
    مشائخِ عظام اپنی اپنی درگاہوں کی گدیوں پر مطمئن و مسرور بیٹھے ہیں۔ حالانکہ انکی گدیاں بھی رفتہ رفتہ اجڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ (الا ماشاءاللہ)
    دشمنانِ اسلام پوری قوت و ذرائع سے اسلامی امت کا شیرازہ منتشر کرنے کے درپے ہیں۔ لیکن مسلمان حکمران مصلحت کوشی و بزدلی کے راہ اپنائے کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرکے خود کو محفوظ سمجھ کر آزادی کے جشن منا رہے ہیں۔

    ایسے میں کون سی قیادت و تحریک مسلم امت کی بیداری کی اہلیت رکھتی ہے؟؟
     
  7. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    انشاءاللہ آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں